ایک دفعہ ایک بازار سے ایک فقیر یہ کہتے ہوئے گزر رہا تھا اور دہراتا جارہا تھا کہ اللہ جو چاہے سو ہو ، اللہ جو چاہے سو ہو۔ ایک شرارتی شخص نے جب یہ سنا تو اس نے اس فقیر کو پتھر مارا جو اس کو لگا اور فقیر کراہ اٹھا۔ پھر اس نے مڑ کر اس شخص کو قدرے گھور کر دیکھا۔ اس شخص نے مزاحقہ خیز انداز میں ہنستے ہوئے کہا کہ یہ تو جو ہوا اللہ کی طرف سے ہوا مجھے کیوں گھور رہے ہو۔ تو اس فقیر ہنسا اور کہنے لگا تم ٹھیک کہتے ہو کہ پتھر تو اللہ کی مرضی دے ہی لگا لیکن میں اس شخص کو دیکھنا چاہتا تھا جس نے میرے اللہ کے چاہنے اور مجھے پتھر لگنے کے بیچ میں اپنا منہ کالا کروا لیا۔
عمران خان کی حکومت کا ختم ہونا بھی ایسا ہی واقع ہے جو اللہ کی مرضی سے ہی ہوا۔لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس سارے واقعے میں کس کس نے اپنا منہ کالا کروا لیا اور ہر روز اپنے منہ پر کالک ملت کا رہے ہیں۔ اب ذلت کی کس پستی کو انہوں نے چھونا ہے کچھ پتہ نہیں ۔
ابھی ابھی سنا کہ شیخ رشید کے بھتیجے کو جسمانی ریمانڈ دے دیا عدالت نے۔ عمران خان اور انکے کئی ساتھیوں پہ توہین رسالت کی باقاعدہ ایف آئی آر کاٹ دی گئی ہے۔ حمزہ کی حکومت کو عدالت نے انتھک محنت کرکے رات نو بجے تک بیٹھ کر بحال کروایا۔ لیکن لوٹوں کوڈی سیٹ کرنے کے لیے کیا اقدام ہوئے؟؟؟
ہمارے وزیراعظم صاحب مکہ مدینہ سے ڈالر لینے گئے تھے یا اللہ کی ذات سے مغفرت لیکن بادیئالنظر میں دونوں ملتی نظر نہیں آئیں اور لیکن ایک چیز خوب کمائی اور وہ تھی ذلت۔ اب اگر یہ ذلت ڈالروں میں کنورٹ ہو جائے تو ہمارا قرضہ تواتر جائے گا۔ لیکن ذلت کی معاشی دنیا میں بدقسمتی سے قدر منفی ہی ہے سو کوئی امید نہیں۔
سننے میں آیا ہے کہ عمران خان کے کچھ ہرانے دوست انکو ہٹانے کے بعد پھر رابطہ کر رہے ہیں کہ چیزوں کو پہلے جیسا کر دیں گے تھوڑا انتظار کر لیں اور خان نے انکو ٹکا سا جواب دے دیا ہے۔ لیکن میرے خیال میں خان صاحب کو انکے ساتھ بیٹھنا چاہیے تھا اور پوچھنا چاہیے تھا کہ پاکستان کی جان چھوڑنے کے بدلے میں کیا لیں گے اور کب پاکستانی لوگوں کو انکا مکمل حق دیں گے ، کب ملک کی ٹھیکیداری چھوڑیں گے۔
اب جو بھی ہے خان کو حکومت سے تو ہٹا دیا اور ہوا بھی اللہ کی مرضی سے لیکن اس میں ان لوگوں کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ انہوں نے اس می منہ کالا کروا کہ کیا پایا۔