ایک سے زیادہ مرتبہ کی ہے اور ابھی حال ہی میں آرمی پبلک سکول کےسانحے پر بھی پرزور مذمت کی ہے۔
اصل میں ٹی ٹی پی کا بطور ایک تنظیم یا گروپ کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ بُہت سے گروپوں کا مجموعہ ہے اور ہر گروپ اپنی کاروائیوں میں آزاد ہے۔
انمیں کچھ گروپس کا افغانی طالبان سے تعلق ہیں اور وہ گروپ پاکستان میں کاروئیوں میں بھی ملوث نہیں۔ لیکن چونکہ زیادہ تر گروپس انڈین اور دوسرے دُشمن ممالک کے زیرِ سرپرستی چلتے ہیں اور وہ پاکستان میں کاروئیاں بھی کرتے ہیں اسلیے ایسا لگتا ہے کہ ساری ٹی ٹی پی پاکستان کے خلاف تھی۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ زیادہ تر قبائل مذاکرات کی بدولت ٹی ٹی پی سے جُدا ہوگئے اسلیے فضل اللہ افغانستان بھاگ گیا کیونکہ قبائل میں اسکے اور اسکے ساتھیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ اب ٹی ٹی پی میں وہ گروپس رہ گئے جو پاکستان دُشمن ہیں اسلیے افغانی طالبان بھی انکے خلاف کُھل کےآگئے۔
باقی یہ بحث اتنی آسان نہیں جسکو صرف دو لائنوں میں بیان کر دیا جائے۔ بُہت پیچیدگی ہے اسمیں۔ اسلیے تھوڑے کو بُہت سمجھوں۔
آپ لوگوں کی باتوں میں وزن ہے .... اور آپ لوگوں کا تعلق بھی وہاں سے ہے تو کوئی چیلنج بھی نہیں کر سکتا.... مگر سوال جو تاری صاحب نے اٹھایا ہے بہت معقول ہے کہ ...... افغان طالبان نے کبھی ٹی ٹی پی کی کاروایوں کی مذمت نہ کی.... کبھی ان سے لاتعلقی کا اظہار نہیں کیا .... کبھی ملا ریڈیو کو آرمی پبلک اسکول کے بچوں کو قتل کرنے پر یا طالبان کا نام بدنام کرنے پر پکڑ نہیں کی .... خاموشی اور صرف خاموشی ...... اب خاموشی بھی تو نیم رضامندی ہوتی ہے
ملا عمر نے کبھی کوئی براہ راست بیان نہیں دیا ٹی ٹی پی کی مذمت میں اور ملا فضل اللہ کا بھاگ کے افغانستان جانا کیا یہ ثابت نہیں کرتا کہ وہاں اسے طالبان کی حمایت حاصل ہے؟ اگر ملا عمر کبھی ملا فضل اللہ کے خلاف ہوتے تو وہ افغانستان جانے کی جرت کیسے کرتا ؟