علامہ اقبال فرما گئے ہیں بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن وہ تم ہو
ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے میڈیا سیل کو ہی دیکھ لیں۔
ان سیل میں کام کرنے والے لوگوں کے لئے کوئی حدود کوئی قیود کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ان جیسے کے لئے اگر کہا جائے کہ یہ اپنے لفافے کے لئے اپنی بہنوں کو بھی نیلام کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے تو بہت چھوٹی سی بات ہوگی۔
کیوں کہ بازار میں کھڑا ہونے والا دلال بھی اپنی گھر کی عورتوں کا سودا کرتا ہے مگر مگر کبھی کسی نے سنا ہے کہ کسی دلال نے اپنی ہی ماں کا سودا کیا ؟؟ برائی کی بھی ایک حد ہوتی ہے انسان کتنا ہی برا کیوں نہ ہو پر ایک مقام پر آکر اس کا اپنا ضمیر اسے اس حد پار کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ایک طوائف دنیا جہان کو اپنا جسم بیچ دیتی ہے پر اپنے ہی بیٹے سے کبھی بھی جنسی تعلقات قائم نہیں کرتی
اس تہمید کی غرض یہ ہے کہ معاشرے کا برا ترین طبقہ جس کے لئے ہر کسی کے دل میں نفرت پائی جاتی ہے وہ بھی چند اخلاقی حدود کو توڑنے سے گریزاں رہتا ہے۔
پر پر پر یہ کیسے لوگ ہیں اور کون لوگ ہیں اور کہاں سے آئے ہیں جو اپنے چھوٹے سے مفاد کے لئے چند روپوں کی خاطر پورے ملک کو داؤ پر لگانے پر تلے ہوئے ہیں یہ ملک محض زمین ، دریا، پہاڑ اورکھیتوں کھلیانوں کا نام نہیں ہے۔ اس ملک میں انسان بستے ہیں۔
کون ہیں یہ لوگ جو چند ہزار کی خاطر کڑوڑوں کا مستقبل تاریک کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کبھی کسی نے محسوس کیا ہے کہ کیسے مخصوص وقت پر ہی اس فورم میں (ایس اے راشد) جیسے کردار واپس آجاتے ہیں اور زہر اگلنا شروع کر دیتے ہیں۔ دلیلوں ، تاویلوں اور تاریخ کو مسخ کر کے یہ لوگوں کے دلوں میں شک کے بیج بوتے ہیں۔ گھر کے مکینوں کو گھر کے محافظوں کے خلاف ورغلانے کی کوشش کرتے ہیں اس امید پر کہ اس گھر کو آگ لگ جائے گھر کے چراغ سے۔
ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے میڈیا سیل کو ہی دیکھ لیں۔
ان سیل میں کام کرنے والے لوگوں کے لئے کوئی حدود کوئی قیود کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ان جیسے کے لئے اگر کہا جائے کہ یہ اپنے لفافے کے لئے اپنی بہنوں کو بھی نیلام کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے تو بہت چھوٹی سی بات ہوگی۔
کیوں کہ بازار میں کھڑا ہونے والا دلال بھی اپنی گھر کی عورتوں کا سودا کرتا ہے مگر مگر کبھی کسی نے سنا ہے کہ کسی دلال نے اپنی ہی ماں کا سودا کیا ؟؟ برائی کی بھی ایک حد ہوتی ہے انسان کتنا ہی برا کیوں نہ ہو پر ایک مقام پر آکر اس کا اپنا ضمیر اسے اس حد پار کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ایک طوائف دنیا جہان کو اپنا جسم بیچ دیتی ہے پر اپنے ہی بیٹے سے کبھی بھی جنسی تعلقات قائم نہیں کرتی
اس تہمید کی غرض یہ ہے کہ معاشرے کا برا ترین طبقہ جس کے لئے ہر کسی کے دل میں نفرت پائی جاتی ہے وہ بھی چند اخلاقی حدود کو توڑنے سے گریزاں رہتا ہے۔
پر پر پر یہ کیسے لوگ ہیں اور کون لوگ ہیں اور کہاں سے آئے ہیں جو اپنے چھوٹے سے مفاد کے لئے چند روپوں کی خاطر پورے ملک کو داؤ پر لگانے پر تلے ہوئے ہیں یہ ملک محض زمین ، دریا، پہاڑ اورکھیتوں کھلیانوں کا نام نہیں ہے۔ اس ملک میں انسان بستے ہیں۔
کون ہیں یہ لوگ جو چند ہزار کی خاطر کڑوڑوں کا مستقبل تاریک کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کبھی کسی نے محسوس کیا ہے کہ کیسے مخصوص وقت پر ہی اس فورم میں (ایس اے راشد) جیسے کردار واپس آجاتے ہیں اور زہر اگلنا شروع کر دیتے ہیں۔ دلیلوں ، تاویلوں اور تاریخ کو مسخ کر کے یہ لوگوں کے دلوں میں شک کے بیج بوتے ہیں۔ گھر کے مکینوں کو گھر کے محافظوں کے خلاف ورغلانے کی کوشش کرتے ہیں اس امید پر کہ اس گھر کو آگ لگ جائے گھر کے چراغ سے۔