w-a-n-t-e-d-
Minister (2k+ posts)
ہم نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو شعر کہنا نہیں سکھایا
وَ مَا عَلَّمۡنٰہُ الشِّعۡرَ وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لَہٗ ؕ اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ وَّ قُرۡاٰنٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ۙ۶۹﴾
اور ہم نے نہیں سکھایا اسکو شعر کہنا اور یہ اس کے لائق نہیں یہ تو خالص نصیحت ہے اورقرآن ہے صاف ۔[۵۷]۔
نص قطعی سے یہ بات بلکل آشکارا ہو گیء کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو شعر کی تعلیم عطا ہی نہیں کی اور جب یہ اللہ تعالیٰ نے یہ تعلیم نہیں دی، تو اور کہاں سے یہ تعلیم عطاء ہوی یا ہوسکتی ہے اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی بلکل بے نقاب کر دیا ہے کہ شعر کی تعلیم آپ کی بلند اور رفیع شان کے لایق ہی نہیں ہے ، کیونکہ آپ حقیقت کے ترجمان تھے اور آپ کی بعثت کا مقصد دنیا کو اعلیٰ حقایق سے بدون ادنیٰ ترین کذب و غلو کے روشناس کرنا تھا ظاہر ہے کہ یہ کام ایک شاعر کا نہیں ہو سکتا ، کیونکہ شاعریت کا حسن و کمال کذب و مبالغہ، خیالی بلند پروازی اور فرضی نکتہ آفرینی کے سوا کچھ نہیں، اور آپ کو جو قرآن کریم دیا گیا وہ کوی شاعرانہ تخیلات نہیں، وہ تو نصیحتوں اور روشن تعلیمات سے معمور ہے، کوی شعر و شاعری کا دیوان نہیں دیا۔ جس میں نری طبع آزمای اور خیالی تک بندیاں ہوں بلکہ آپ کی طبع مبارک کو فطری طور پر فن شاعری سے اتنا بعید رکھا گیا کہ باوجود قریش کے اس اعلیٰ خاندان میں سے ہونے کے جس کی معمولی لونڈیاں بھی اس وقت شعر کہنے کا طبعی سلیقہ رکھتی تھیں آپ نے مدت العمر کوی شعر نہیں بنایا۔ یوں رجز وغیرہ کے طور پر مقضیٰ عبارت آپ کی زبان مبارک سے کہیں نکلی تو اور بات ہے ، اسے شعر و شاعری سے مطلقاً کوی تعلق ہی نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ دوسرے مقام پر ارشاد فرماتا ہے کہ :۔
وَٱلشُّعَرَآءُ يَتَّبِعُهُمُ ٱلۡغَاوُ ۥنَ (٢٢٤) أَلَمۡ تَرَ أَنَّهُمۡ فِى ڪُلِّ وَادٍ۬ يَهِيمُونَ (٢٢٥) وَأَنَّہُمۡ يَقُولُونَ مَا لَا يَفۡعَلُونَ (٢٢٦) إِلَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ وَذَكَرُواْ ٱللَّهَ كَثِيرً۬ا وَٱنتَصَرُواْ مِنۢ بَعۡدِ مَا ظُلِمُواْ*ۗ وَسَيَعۡلَمُ ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓاْ أَىَّ مُنقَلَبٍ۬ يَنقَلِبُونَ (٢٢٧)۔
اور شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کیا کرتے ہیں (۲۲۴) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر وادی میں سر مارتے پھرتے ہیں (۲۲۵) اور کہتے وہ ہیں جو کرتے نہیں (۲۲۶) مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کئے اور خدا کو بہت یاد کرتے رہے اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد انتقام لیا اور ظالم عنقریب جان لیں گے کہ کون سی جگہ لوٹ کر جاتے ہیں (۲۲۷)
مطلب یہ ہے کہ شاعری کی باتیں اکثر محض تخیلات ہوتی ہیں، تحقیق اور واقعیت سے انکا کوی لگاو نہیں ہوتا، اس لیے شعرا کی باتوں سے بجز گرمی محفل یا وقتی جوش اور واہ واہ کے کسی کو مستقل ہدایت حاصل نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی باتوں پر چلنے والے کجرو اور گمراہ قسم کے لوگ ہوتے ہیں، اور جناب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے حضرات صحابہ کرامؓ ان بلند اخلاق کے مالک ہیں جن کی نظیر ملنی دشوار ہے ، اور جن کی نیکی اور پرہیزگاری کی مثال چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل سکتی۔ پھر شاعر کسی کلام کو پکڑتے ہیں تو اس کو بڑھاتے چلے جاتے ہیں، کسی کی تعریف کرتے ہیں تو آسمان پر چڑھا دیتے ہیں اور جب مذمت اور ہجو کرتے ہیں تو ساری دنیا کے عیب اس میں جمع کر دیتے ہیں۔ موجود کو معدوم اور معدوم کو موجود ثاب کرنا ان کے باءیں ہاتھ کا کھیل ہے غرض جھوٹ ، مبالغہ اور تخیل کے جس جنگل میں نکل گےء پھر مڑ کر نہیں دیکھا اس لے شعر کی نسبت مشہور ہے
چوں اکذب اوست احسن او
جب ان کے شعر پڑھو تو معلوم ہوتا ہے کہ رستم سے زیادہ بہادر اور شیر سے زیادہ دلیر ہیں۔ جا کر ملو تو پرلے درجہ کے نامرد اور ڈرپوک۔ اخلاقی سبق پیش کرینگے تو حضرت جنید بغدادیؒ اور حضرت شبلیؒ بھی بھول جاءیں گے۔ جا کر دیکھو تو اعمال اور اخلاق کا آینہ بلکل خالی، اور بڑےبڑے مسلم شاعر بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ
گفتار کا غازی بن تو گیا
کردار کا غازی بن نہ سکا
ہاں مگر اللہ تعالیٰ کے وہ نیک بندے جو ایمان اور اعمال صالحہ کے لباس سے مزین ہوں، اور اس سے مستثنیٰ ہیں و قلیل ما ھم اور انہی حضرات کے اشعار کے متعلق ان من الشعر لحکمۃ اور حسنہ حسن کے ارشادات وارد ہوے ہیں جو شریعت کی حد بندی میں رہ کر محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے بالکل حقیقت اور نفس الامر کے مطابق حقایق کو نظم میں پیش کرتے ہیں اور اس کے جایز اور درست ہونے کا کوی انکار بھی نہیں کرتا ۔ مگر
چشم بینا تو پہلے پیدا کر
پھر یہ کہنا کہ کوہِ طور نہیں
شاعری پر چند احادیث:۔
1
آںحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی چند صحیح حدیثیں بھی شعر و شاعری سے متعلق سن لیں۔
حضرت ابوہریرۃؓ فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشار فرمایا کہ:
لان یمتلی جرف رجل یریہ خیر من ان یمتلی شعراً
البتہ یہ کہ کسی شخص کا پیٹ پیپ سے بھر جاے۔ جو اس کو بالکل فاسد اور برباد کر دے تو اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنے پیٹ اور سینہ کو شعر سے پر کرے۔
(بخاری جلد 2 صفحہ 909 و مسلم جلد 2 صفحہ 240 و ادب المفرد صفحہ 126 و سنن الکبریٰ جلد 10 صفحہ 44 و مسند احمد جلد 2 صفحہ 391 وغیرہ)
۔1۔
حضرت ابو سیعد الخدریؓ (المتوفی 74ھ) فرماتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے جب مقام عرج پر پہنچے تو ایک شاعر نے کچھ اشعار پڑھے۔
فقال رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم خذوالشیطان لان یمتلی جوف رجل قیحا خیرلہ من ان یمتلی شعراً
تو آںحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشار فرمایا کہ اس شیطان کو پکڑو یہ کہ تم میں سے کسی کا سینہ پیپ سے بھر جاے ، بہتر ہے اس سے کہ وہ شعر سے پُرہو۔
(مسلم جلد 2 صفحہ240، مشکوٰۃ جلد 2 صفحہ 411، وسنن الکبریٰ جلد 10 صفحہ 244 وغیرہ)۔
-2
حضرت عبداللہ بن عمرؓ (المتوفی 73 ھ) روایت کرتے ہیں کہ آںحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:۔
لان یمتلی جوف احد کم قیحا خیر لہ من ان یمتلی شعراً قال اللہ عزوجل الشعرا یتبعھم الغاون ۔
تم میں سے کسی کا سینہ پیپ سے بھر جاے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ شعر سے پر ہو، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شاعروں کی اتباع وہی لوگ کرتے ہیں جو کج روا اور اور گمراہ ہوتے ہیں۔
(بخاری جلد2 صفحہ909، ادب المفرد صفحہ 127، و مسند احمد جلد 2 صفحہ39)-3
اسی مضمون کی انہی الفاظ سے روایت حضرت سعدؓ (المتوفی 55 ھ) سے بھی مرفوعاً مروی ہے (مسلم جلد 2 صفحہ 240)۔
-4
حضرت عبداللہ بن عمروؓ بن العاص (المتوفی 73ھ) فرماتے ہیں کہ میں نے جناب نبی کریم صؒیٰ اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے ارشاد فرمایا:۔
ما ابالی ما ایت ان انا شریت تریاقاً او تعلقت تمیۃً او قلت الشعر من قبل نفسی
(ابو داود جلد 2 صفحہ 174 و مشکوٰۃ جلد 2 صفحہ 389)۔
یعنی میرے نزدیک اس میں کوی فرق نہیں کہ میں تریاق استعمال کروں یا شرکیہ تعویذ گلے میں لٹکاوں یا اپنی طرف سے شعر بنا کر کہوں(ان سب کا گناہ ایک ہی ہے)۔
اگر جایز ادویہ سے تریاق تیار ہو تو اس کے استعمال میں کوی حرج نہیں ہے۔ یہ حرمت اس صورت میں ہے جب کہ:۔
لا جل ما یقع فیہ من لحوم الا فااعی والخمر وغیرھما من المحرمات (ھامش مشکوٰۃ جلد 2 صفحہ 389 و تعلیق المحمود جلد 2 صفحہ 184)۔
اس میں سانپ کا گوشت، شراب اور اسی قسم کا دوسری حرام اشیاء ڈالی گیء ہوں۔
اسی طرح جایز قمس کے تعویزات لکھنے اور گلے میں لٹکانے درست ہیں۔ ہاں البتہ شرکیہ قسم کے تعویذات ہرگز جایز نہیں ہیں اور تعویزات پر اجرت بھی لی جا سکتی ہے جیسا کہ راقم الحروف نے المنھاج الواضح (راہِ سنت) میں باحوالہ تصریح کی ہے۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ جس طرح حرام قسم کا تریاق اور شرکیہ تعویزات جایز نہیں اسی طرح جناب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لیے اشعار بنانا بھی حرام ہے۔ اسی حدیٰث کی شرح حضرت ملا علی قاریؒ نے اس کے حرام ہونے کی صاف تصریح کی ہے۔
-5
حضرت ابو نوفل فرماتے ہیں کہ:۔
سالت عایشہؓ ھل کان رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم بایغ عندہ الشعر؟ فقالت کان البغض الحدیث الیہ
(رواہ احمد ابن کثیر جلد2 صفحہ 580، وسنن الکبریٰ جلد 10 صفحہ 248، وطیالسی صفحہ 209)۔
میں نے حضرت عایشہؓ سے سوال کیا کہ کیا آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو شعر سے لگاو تھا؟ تو وہ فرمانے لگیں کہ شعر آپ کو سب باتوں سے زیادہ ناپسند تھا۔
اور حضرت عایشہؓ ہی سے روایت ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی طرفہ کا شعرویاتیک بالاخبار من لم تزود پڑھا کرتے تھے۔ لیکن
فیجعل اولہ اخرہ واخرہ اولہ فقال ابوبکرؓ لیس ھذا ھکذا یارسول اللہ فقال رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم انی واللہ ما انا بشا عروما ینبغی لی (رواہ ابن ابی حاتم و ابن جریر ہذا نقطہ ابن کثیر جلد 3 صفحہ 579)۔
آپ الٹ پلٹ کر کے مقدم کو موخر اور موخر کو مقدم کر کے پڑھتے تھے ۔ حضرت ابو بکرؓ نے عرض کیا۔ یارسول اللہ یہ شعر یوں نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا خدا کی قسم میں شاعر نہیں ہوں اور نہ یہ میری شان کے لایق ہے۔
حضرت عبدالرحمن بن ابی الزنادؒ(المتوفی 174ھ) سے روایت ہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت عباسؓ بن مرواس کا ایک شعر الٹ پلٹ پڑھا تو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا:۔
بابی انت وامی یا رسول اللہ ما انت بشاعروہ روایہ ولا ینبغی لک (درمنثور جلد 5 صفحہ 268)۔
اے اللہ تعالیٰ کے رسول آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں نہ تو آپ شاعر ہیں نہ شعر کے راوی ہیں اور نہ آپ کے لیے یہ سزاوار ہے ۔
اور حضرت حسن بصریؒ (المتوفی 11ھ) کی روایت میں ہے کہ جب آنحضرت صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک شعر الٹ پلٹ پڑھا تو حضرت صدیق اکبرؓ یا حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ:۔
شھد انک رسول اللہ یقول تعالیٰ ما علمناہ لشعروما ینبغی لہ (ابن کثیر جلد 3صفحہ 578 و معالم التنزیل جلد 3 صفحہ 206)۔
یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو شعر کا علم نہیں دیا اور نہ یہ آپ کی شان کے لایق ہے ۔
ریس المحدثین والمفسرین فی عصرہ حافظ عماد الدین بن کثیرؒ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:۔
یقول اللہ عزوجل مخبرا عن نبیہ محمد صلیٰ اللہ علیہ انہ ما علمہ الشعر وما ینبغی لہ ای ما ھو فی طبعہ فلا یحسنہ ولا یحبہ ولا تقتضیہ جبلتہ ولھزا ورد انہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کان لا یحفظ بیتاً علیٰ وزن منتظم بل ان انشدہ زحفہ اولم یتمہ
اللہ تعالی اپنے پیغمبر حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خبر دیتے ہوے فرماتا ہے کہ ہم نے شعر کا علم نہیں دیا اور نہ وہ ان کے لیے مناسب ہے یعنی وہ آپ کی طبیعت کے موافق ہی نہیں اس لیے نہ تو آپ کو پسند ہے اور نہ آپ کی فطرت اس کی مقتضی ہے اور اسی ہی لیے وارد ہوا ہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علی ہوسلم کو ٹھیک وزن پر ایک شعر بھی محفوظ نہ تھا بلکہ اگر آپ پڑھتے تو یا اس کا کچھ گرا دیتے یا ناتمام پڑھتے تھے ۔
(تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 578)۔
علامہ دلیؒ بن محمد الخازنؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ :۔
ای ما یسھل لہ ذالک وما یصلح منہ بحیث لواراد نظم شعر لم یتات لہ ذالک کما جعلناہ امیالا یکتب ولا یحسب لتکون الحجۃ اثبت و الشبھۃ ادحض قال العماء ما کان یتزن لہ بیت شعروان تمثل ببیت شعر جزی علیٰ لسانہ منکسراً
یعنی نہ تو آپ کے شعر سہل ہے اور نہ آپ سے بنتا ہے باءیں طور کہ اگر آپ ایک شعر نظم کرنا چاہیں تو آپ سے یہ نہیں ہو سکتا ، ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ ہم نے آپ کو امی بنایا ہے نہ تو آُ لکھ سکتے ہیں اور نہ حساب کر سکتے ہیں اور یہ اس لیے کہ حجت پوری مضبوطی کے ساتھ قایم ہو جاے اور شک و شبہ کے لیے گنجایش نہ رہے ۔ علماء کرام نے کہا ہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے کوی شعر موزوں نہ ہوتا تھا اور اگر کسی کا کوی شعر کبھی پڑھا تو بے وزن ہو کر آپ کی زبان سے جاری ہوا۔
(خازن جلد 6 صفحہ 15)۔
اور علامہ ابو محمد حسین بن محمودؒ البغوی(المتوفی 516ھ) نے بھی اس موقع پر یہی مضمون کچھ اختصار کے ساتھ ساتھ بیان فرمایا ہے ۔ (دیکھیے معالم التنزیل جلد 3 صفحہ 206)۔
اور علامہ نسفی الحنفیؒ لکھتے ہیں کہ :۔
وما علمناہ اشعر۔ ای وما علمنا النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم قول اشعراء او وما علمنا بتعلیم القران اشعر علی معنی ان القران لیس بشعر
اور ہم نے نہیں سکھایا ان کو شعر یعنی ہم نے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو شعراء کے قول کا علم نہیں عطا کیا ، یا یہ کہ ہم نے قرآن کی تعلیم سے شعر کی تعلیم نہیں دی اس معنی کر کے کہ قرآن شعر نہیں ہے ۔
(مدارک جلد 4 صفحہ 11)۔
قرآن کریم کی مذکورہ آیات اور یہ تمام احادیث اور روایات اور تفاسیر اس بات کی واضح تریم دلیل ہیں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو شعر و شاعری سے کوی لگاو اور تعلق نہ تھا اور نہ یہ آپ کی شانِ رفیع کے لایق اور مناسب ہے ۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو شعر و شاعری کی تعلیم ہی نہیں دی اور نہ اس کا علم عطا کیا ہے اور یہی کچھ ہم کہنا چاہتے ہیں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو شعر کا علم عطای طور پر بھی نہیں دیا گیا تھا ۔
حضرت عمرؓ کا اپنے دورِ خلافت میں ایک صحابی کو شاعری کی وجہ سے معزول کرنا:۔
حضرت عمرؓ بن الخطاب (المتوفی 23ھ) نے اپنے دورِ خلافت میں حضرت نعمان بن عدی بن نضلہ کو صوبہ بصرہ کے ضلع میسان کا عامل مقرر کیا ۔ انہوں نے وہاں شاعرانہ تخیلات کی بنا پر بے ساختہ کچھ اشعار کہہ دیے جن میں سے ایک یہ بھی تھا
الا ھل اتی الحسنا ان خلیلھا
بمیسان یسقی فی زجاج وحنتم
"کیا خوبرو عورت کو یہ خبر پہنچی ہے کہ اس کا رفیق حیات میسان میں شیشے کے گلاسوں اور سبز رنگ کی صراحیوں میں شراب پلایا جا رہا ہے ۔"۔
حضرت عمرؓ کو جب اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے فوری طور پر ان کو معزول کر دیا۔ جب نعمانؓ مدینہ طیبہ آے تو حضرت عمرؓ سے کہا ۔ حضرت بخدا میں نے کبھی شراب نہیں پی۔ بات یہ ہے کہ بے ساختہ میری زبان سے یہ شعر نگل گےء ہیں ۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا:۔
اظن ذالک ولکن واللہ لا تعمل لی عملاً ابداً وقد قلت ما قلت
میرا بھی یہی گمان ہے لیکن واللہ تجھے اس قول کے بعد کبھی بھی عامل اور افسر نہیں بنایا جاے گا ۔
(تفسیر ابن کثٰر جلد 3 صفحہ 354)۔
ان اشعار کی وجہ سے ان کی معزولی کا ذکر علامہ ذھبیؒ نے بھی کیا ہے (ملاحظہ ہو تجرید اسماء الصحابہؓ جلد 2 صفحہ 117 و استیعاب جلد 3 صفحہ 515 و اصابہ جلد 3 صفحہ 533)۔
سبحان اللہ تعالیٰ ! ایک وہ مبارک وقت تھا کہ زبانی طور پر شراب نوشی کا ادعا کرنے والے افسر بھی فوراً معزول کر دیے جاتے تھے مگر آج ہر وقت شراب میں مخمور رہنے والوں کو بھی کوی نہیں پوچھتا۔
-6
وَ مَا عَلَّمۡنٰہُ الشِّعۡرَ وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لَہٗ ؕ اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ وَّ قُرۡاٰنٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ۙ۶۹﴾
اور ہم نے نہیں سکھایا اسکو شعر کہنا اور یہ اس کے لائق نہیں یہ تو خالص نصیحت ہے اورقرآن ہے صاف ۔[۵۷]۔
نص قطعی سے یہ بات بلکل آشکارا ہو گیء کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو شعر کی تعلیم عطا ہی نہیں کی اور جب یہ اللہ تعالیٰ نے یہ تعلیم نہیں دی، تو اور کہاں سے یہ تعلیم عطاء ہوی یا ہوسکتی ہے اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی بلکل بے نقاب کر دیا ہے کہ شعر کی تعلیم آپ کی بلند اور رفیع شان کے لایق ہی نہیں ہے ، کیونکہ آپ حقیقت کے ترجمان تھے اور آپ کی بعثت کا مقصد دنیا کو اعلیٰ حقایق سے بدون ادنیٰ ترین کذب و غلو کے روشناس کرنا تھا ظاہر ہے کہ یہ کام ایک شاعر کا نہیں ہو سکتا ، کیونکہ شاعریت کا حسن و کمال کذب و مبالغہ، خیالی بلند پروازی اور فرضی نکتہ آفرینی کے سوا کچھ نہیں، اور آپ کو جو قرآن کریم دیا گیا وہ کوی شاعرانہ تخیلات نہیں، وہ تو نصیحتوں اور روشن تعلیمات سے معمور ہے، کوی شعر و شاعری کا دیوان نہیں دیا۔ جس میں نری طبع آزمای اور خیالی تک بندیاں ہوں بلکہ آپ کی طبع مبارک کو فطری طور پر فن شاعری سے اتنا بعید رکھا گیا کہ باوجود قریش کے اس اعلیٰ خاندان میں سے ہونے کے جس کی معمولی لونڈیاں بھی اس وقت شعر کہنے کا طبعی سلیقہ رکھتی تھیں آپ نے مدت العمر کوی شعر نہیں بنایا۔ یوں رجز وغیرہ کے طور پر مقضیٰ عبارت آپ کی زبان مبارک سے کہیں نکلی تو اور بات ہے ، اسے شعر و شاعری سے مطلقاً کوی تعلق ہی نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ دوسرے مقام پر ارشاد فرماتا ہے کہ :۔
وَٱلشُّعَرَآءُ يَتَّبِعُهُمُ ٱلۡغَاوُ ۥنَ (٢٢٤) أَلَمۡ تَرَ أَنَّهُمۡ فِى ڪُلِّ وَادٍ۬ يَهِيمُونَ (٢٢٥) وَأَنَّہُمۡ يَقُولُونَ مَا لَا يَفۡعَلُونَ (٢٢٦) إِلَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ وَذَكَرُواْ ٱللَّهَ كَثِيرً۬ا وَٱنتَصَرُواْ مِنۢ بَعۡدِ مَا ظُلِمُواْ*ۗ وَسَيَعۡلَمُ ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓاْ أَىَّ مُنقَلَبٍ۬ يَنقَلِبُونَ (٢٢٧)۔
اور شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کیا کرتے ہیں (۲۲۴) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر وادی میں سر مارتے پھرتے ہیں (۲۲۵) اور کہتے وہ ہیں جو کرتے نہیں (۲۲۶) مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کئے اور خدا کو بہت یاد کرتے رہے اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد انتقام لیا اور ظالم عنقریب جان لیں گے کہ کون سی جگہ لوٹ کر جاتے ہیں (۲۲۷)
مطلب یہ ہے کہ شاعری کی باتیں اکثر محض تخیلات ہوتی ہیں، تحقیق اور واقعیت سے انکا کوی لگاو نہیں ہوتا، اس لیے شعرا کی باتوں سے بجز گرمی محفل یا وقتی جوش اور واہ واہ کے کسی کو مستقل ہدایت حاصل نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی باتوں پر چلنے والے کجرو اور گمراہ قسم کے لوگ ہوتے ہیں، اور جناب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے حضرات صحابہ کرامؓ ان بلند اخلاق کے مالک ہیں جن کی نظیر ملنی دشوار ہے ، اور جن کی نیکی اور پرہیزگاری کی مثال چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل سکتی۔ پھر شاعر کسی کلام کو پکڑتے ہیں تو اس کو بڑھاتے چلے جاتے ہیں، کسی کی تعریف کرتے ہیں تو آسمان پر چڑھا دیتے ہیں اور جب مذمت اور ہجو کرتے ہیں تو ساری دنیا کے عیب اس میں جمع کر دیتے ہیں۔ موجود کو معدوم اور معدوم کو موجود ثاب کرنا ان کے باءیں ہاتھ کا کھیل ہے غرض جھوٹ ، مبالغہ اور تخیل کے جس جنگل میں نکل گےء پھر مڑ کر نہیں دیکھا اس لے شعر کی نسبت مشہور ہے
چوں اکذب اوست احسن او
جب ان کے شعر پڑھو تو معلوم ہوتا ہے کہ رستم سے زیادہ بہادر اور شیر سے زیادہ دلیر ہیں۔ جا کر ملو تو پرلے درجہ کے نامرد اور ڈرپوک۔ اخلاقی سبق پیش کرینگے تو حضرت جنید بغدادیؒ اور حضرت شبلیؒ بھی بھول جاءیں گے۔ جا کر دیکھو تو اعمال اور اخلاق کا آینہ بلکل خالی، اور بڑےبڑے مسلم شاعر بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ
گفتار کا غازی بن تو گیا
کردار کا غازی بن نہ سکا
ہاں مگر اللہ تعالیٰ کے وہ نیک بندے جو ایمان اور اعمال صالحہ کے لباس سے مزین ہوں، اور اس سے مستثنیٰ ہیں و قلیل ما ھم اور انہی حضرات کے اشعار کے متعلق ان من الشعر لحکمۃ اور حسنہ حسن کے ارشادات وارد ہوے ہیں جو شریعت کی حد بندی میں رہ کر محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے بالکل حقیقت اور نفس الامر کے مطابق حقایق کو نظم میں پیش کرتے ہیں اور اس کے جایز اور درست ہونے کا کوی انکار بھی نہیں کرتا ۔ مگر
چشم بینا تو پہلے پیدا کر
پھر یہ کہنا کہ کوہِ طور نہیں
شاعری پر چند احادیث:۔
1
آںحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی چند صحیح حدیثیں بھی شعر و شاعری سے متعلق سن لیں۔
حضرت ابوہریرۃؓ فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشار فرمایا کہ:
لان یمتلی جرف رجل یریہ خیر من ان یمتلی شعراً
البتہ یہ کہ کسی شخص کا پیٹ پیپ سے بھر جاے۔ جو اس کو بالکل فاسد اور برباد کر دے تو اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنے پیٹ اور سینہ کو شعر سے پر کرے۔
(بخاری جلد 2 صفحہ 909 و مسلم جلد 2 صفحہ 240 و ادب المفرد صفحہ 126 و سنن الکبریٰ جلد 10 صفحہ 44 و مسند احمد جلد 2 صفحہ 391 وغیرہ)
۔1۔
حضرت ابو سیعد الخدریؓ (المتوفی 74ھ) فرماتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے جب مقام عرج پر پہنچے تو ایک شاعر نے کچھ اشعار پڑھے۔
فقال رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم خذوالشیطان لان یمتلی جوف رجل قیحا خیرلہ من ان یمتلی شعراً
تو آںحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشار فرمایا کہ اس شیطان کو پکڑو یہ کہ تم میں سے کسی کا سینہ پیپ سے بھر جاے ، بہتر ہے اس سے کہ وہ شعر سے پُرہو۔
(مسلم جلد 2 صفحہ240، مشکوٰۃ جلد 2 صفحہ 411، وسنن الکبریٰ جلد 10 صفحہ 244 وغیرہ)۔
-2
حضرت عبداللہ بن عمرؓ (المتوفی 73 ھ) روایت کرتے ہیں کہ آںحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:۔
لان یمتلی جوف احد کم قیحا خیر لہ من ان یمتلی شعراً قال اللہ عزوجل الشعرا یتبعھم الغاون ۔
تم میں سے کسی کا سینہ پیپ سے بھر جاے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ شعر سے پر ہو، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شاعروں کی اتباع وہی لوگ کرتے ہیں جو کج روا اور اور گمراہ ہوتے ہیں۔
(بخاری جلد2 صفحہ909، ادب المفرد صفحہ 127، و مسند احمد جلد 2 صفحہ39)-3
اسی مضمون کی انہی الفاظ سے روایت حضرت سعدؓ (المتوفی 55 ھ) سے بھی مرفوعاً مروی ہے (مسلم جلد 2 صفحہ 240)۔
-4
حضرت عبداللہ بن عمروؓ بن العاص (المتوفی 73ھ) فرماتے ہیں کہ میں نے جناب نبی کریم صؒیٰ اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے ارشاد فرمایا:۔
ما ابالی ما ایت ان انا شریت تریاقاً او تعلقت تمیۃً او قلت الشعر من قبل نفسی
(ابو داود جلد 2 صفحہ 174 و مشکوٰۃ جلد 2 صفحہ 389)۔
یعنی میرے نزدیک اس میں کوی فرق نہیں کہ میں تریاق استعمال کروں یا شرکیہ تعویذ گلے میں لٹکاوں یا اپنی طرف سے شعر بنا کر کہوں(ان سب کا گناہ ایک ہی ہے)۔
اگر جایز ادویہ سے تریاق تیار ہو تو اس کے استعمال میں کوی حرج نہیں ہے۔ یہ حرمت اس صورت میں ہے جب کہ:۔
لا جل ما یقع فیہ من لحوم الا فااعی والخمر وغیرھما من المحرمات (ھامش مشکوٰۃ جلد 2 صفحہ 389 و تعلیق المحمود جلد 2 صفحہ 184)۔
اس میں سانپ کا گوشت، شراب اور اسی قسم کا دوسری حرام اشیاء ڈالی گیء ہوں۔
اسی طرح جایز قمس کے تعویزات لکھنے اور گلے میں لٹکانے درست ہیں۔ ہاں البتہ شرکیہ قسم کے تعویذات ہرگز جایز نہیں ہیں اور تعویزات پر اجرت بھی لی جا سکتی ہے جیسا کہ راقم الحروف نے المنھاج الواضح (راہِ سنت) میں باحوالہ تصریح کی ہے۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ جس طرح حرام قسم کا تریاق اور شرکیہ تعویزات جایز نہیں اسی طرح جناب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لیے اشعار بنانا بھی حرام ہے۔ اسی حدیٰث کی شرح حضرت ملا علی قاریؒ نے اس کے حرام ہونے کی صاف تصریح کی ہے۔
-5
حضرت ابو نوفل فرماتے ہیں کہ:۔
سالت عایشہؓ ھل کان رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم بایغ عندہ الشعر؟ فقالت کان البغض الحدیث الیہ
(رواہ احمد ابن کثیر جلد2 صفحہ 580، وسنن الکبریٰ جلد 10 صفحہ 248، وطیالسی صفحہ 209)۔
میں نے حضرت عایشہؓ سے سوال کیا کہ کیا آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو شعر سے لگاو تھا؟ تو وہ فرمانے لگیں کہ شعر آپ کو سب باتوں سے زیادہ ناپسند تھا۔
اور حضرت عایشہؓ ہی سے روایت ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی طرفہ کا شعرویاتیک بالاخبار من لم تزود پڑھا کرتے تھے۔ لیکن
فیجعل اولہ اخرہ واخرہ اولہ فقال ابوبکرؓ لیس ھذا ھکذا یارسول اللہ فقال رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم انی واللہ ما انا بشا عروما ینبغی لی (رواہ ابن ابی حاتم و ابن جریر ہذا نقطہ ابن کثیر جلد 3 صفحہ 579)۔
آپ الٹ پلٹ کر کے مقدم کو موخر اور موخر کو مقدم کر کے پڑھتے تھے ۔ حضرت ابو بکرؓ نے عرض کیا۔ یارسول اللہ یہ شعر یوں نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا خدا کی قسم میں شاعر نہیں ہوں اور نہ یہ میری شان کے لایق ہے۔
حضرت عبدالرحمن بن ابی الزنادؒ(المتوفی 174ھ) سے روایت ہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت عباسؓ بن مرواس کا ایک شعر الٹ پلٹ پڑھا تو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا:۔
بابی انت وامی یا رسول اللہ ما انت بشاعروہ روایہ ولا ینبغی لک (درمنثور جلد 5 صفحہ 268)۔
اے اللہ تعالیٰ کے رسول آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں نہ تو آپ شاعر ہیں نہ شعر کے راوی ہیں اور نہ آپ کے لیے یہ سزاوار ہے ۔
اور حضرت حسن بصریؒ (المتوفی 11ھ) کی روایت میں ہے کہ جب آنحضرت صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک شعر الٹ پلٹ پڑھا تو حضرت صدیق اکبرؓ یا حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ:۔
شھد انک رسول اللہ یقول تعالیٰ ما علمناہ لشعروما ینبغی لہ (ابن کثیر جلد 3صفحہ 578 و معالم التنزیل جلد 3 صفحہ 206)۔
یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو شعر کا علم نہیں دیا اور نہ یہ آپ کی شان کے لایق ہے ۔
ریس المحدثین والمفسرین فی عصرہ حافظ عماد الدین بن کثیرؒ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:۔
یقول اللہ عزوجل مخبرا عن نبیہ محمد صلیٰ اللہ علیہ انہ ما علمہ الشعر وما ینبغی لہ ای ما ھو فی طبعہ فلا یحسنہ ولا یحبہ ولا تقتضیہ جبلتہ ولھزا ورد انہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کان لا یحفظ بیتاً علیٰ وزن منتظم بل ان انشدہ زحفہ اولم یتمہ
اللہ تعالی اپنے پیغمبر حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خبر دیتے ہوے فرماتا ہے کہ ہم نے شعر کا علم نہیں دیا اور نہ وہ ان کے لیے مناسب ہے یعنی وہ آپ کی طبیعت کے موافق ہی نہیں اس لیے نہ تو آپ کو پسند ہے اور نہ آپ کی فطرت اس کی مقتضی ہے اور اسی ہی لیے وارد ہوا ہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علی ہوسلم کو ٹھیک وزن پر ایک شعر بھی محفوظ نہ تھا بلکہ اگر آپ پڑھتے تو یا اس کا کچھ گرا دیتے یا ناتمام پڑھتے تھے ۔
(تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 578)۔
علامہ دلیؒ بن محمد الخازنؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ :۔
ای ما یسھل لہ ذالک وما یصلح منہ بحیث لواراد نظم شعر لم یتات لہ ذالک کما جعلناہ امیالا یکتب ولا یحسب لتکون الحجۃ اثبت و الشبھۃ ادحض قال العماء ما کان یتزن لہ بیت شعروان تمثل ببیت شعر جزی علیٰ لسانہ منکسراً
یعنی نہ تو آپ کے شعر سہل ہے اور نہ آپ سے بنتا ہے باءیں طور کہ اگر آپ ایک شعر نظم کرنا چاہیں تو آپ سے یہ نہیں ہو سکتا ، ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ ہم نے آپ کو امی بنایا ہے نہ تو آُ لکھ سکتے ہیں اور نہ حساب کر سکتے ہیں اور یہ اس لیے کہ حجت پوری مضبوطی کے ساتھ قایم ہو جاے اور شک و شبہ کے لیے گنجایش نہ رہے ۔ علماء کرام نے کہا ہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے کوی شعر موزوں نہ ہوتا تھا اور اگر کسی کا کوی شعر کبھی پڑھا تو بے وزن ہو کر آپ کی زبان سے جاری ہوا۔
(خازن جلد 6 صفحہ 15)۔
اور علامہ ابو محمد حسین بن محمودؒ البغوی(المتوفی 516ھ) نے بھی اس موقع پر یہی مضمون کچھ اختصار کے ساتھ ساتھ بیان فرمایا ہے ۔ (دیکھیے معالم التنزیل جلد 3 صفحہ 206)۔
اور علامہ نسفی الحنفیؒ لکھتے ہیں کہ :۔
وما علمناہ اشعر۔ ای وما علمنا النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم قول اشعراء او وما علمنا بتعلیم القران اشعر علی معنی ان القران لیس بشعر
اور ہم نے نہیں سکھایا ان کو شعر یعنی ہم نے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو شعراء کے قول کا علم نہیں عطا کیا ، یا یہ کہ ہم نے قرآن کی تعلیم سے شعر کی تعلیم نہیں دی اس معنی کر کے کہ قرآن شعر نہیں ہے ۔
(مدارک جلد 4 صفحہ 11)۔
قرآن کریم کی مذکورہ آیات اور یہ تمام احادیث اور روایات اور تفاسیر اس بات کی واضح تریم دلیل ہیں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو شعر و شاعری سے کوی لگاو اور تعلق نہ تھا اور نہ یہ آپ کی شانِ رفیع کے لایق اور مناسب ہے ۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو شعر و شاعری کی تعلیم ہی نہیں دی اور نہ اس کا علم عطا کیا ہے اور یہی کچھ ہم کہنا چاہتے ہیں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو شعر کا علم عطای طور پر بھی نہیں دیا گیا تھا ۔
حضرت عمرؓ کا اپنے دورِ خلافت میں ایک صحابی کو شاعری کی وجہ سے معزول کرنا:۔
حضرت عمرؓ بن الخطاب (المتوفی 23ھ) نے اپنے دورِ خلافت میں حضرت نعمان بن عدی بن نضلہ کو صوبہ بصرہ کے ضلع میسان کا عامل مقرر کیا ۔ انہوں نے وہاں شاعرانہ تخیلات کی بنا پر بے ساختہ کچھ اشعار کہہ دیے جن میں سے ایک یہ بھی تھا
الا ھل اتی الحسنا ان خلیلھا
بمیسان یسقی فی زجاج وحنتم
"کیا خوبرو عورت کو یہ خبر پہنچی ہے کہ اس کا رفیق حیات میسان میں شیشے کے گلاسوں اور سبز رنگ کی صراحیوں میں شراب پلایا جا رہا ہے ۔"۔
حضرت عمرؓ کو جب اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے فوری طور پر ان کو معزول کر دیا۔ جب نعمانؓ مدینہ طیبہ آے تو حضرت عمرؓ سے کہا ۔ حضرت بخدا میں نے کبھی شراب نہیں پی۔ بات یہ ہے کہ بے ساختہ میری زبان سے یہ شعر نگل گےء ہیں ۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا:۔
اظن ذالک ولکن واللہ لا تعمل لی عملاً ابداً وقد قلت ما قلت
میرا بھی یہی گمان ہے لیکن واللہ تجھے اس قول کے بعد کبھی بھی عامل اور افسر نہیں بنایا جاے گا ۔
(تفسیر ابن کثٰر جلد 3 صفحہ 354)۔
ان اشعار کی وجہ سے ان کی معزولی کا ذکر علامہ ذھبیؒ نے بھی کیا ہے (ملاحظہ ہو تجرید اسماء الصحابہؓ جلد 2 صفحہ 117 و استیعاب جلد 3 صفحہ 515 و اصابہ جلد 3 صفحہ 533)۔
سبحان اللہ تعالیٰ ! ایک وہ مبارک وقت تھا کہ زبانی طور پر شراب نوشی کا ادعا کرنے والے افسر بھی فوراً معزول کر دیے جاتے تھے مگر آج ہر وقت شراب میں مخمور رہنے والوں کو بھی کوی نہیں پوچھتا۔
-6