گاندھی کے بندر اور معجزے

atif348

Voter (50+ posts)

آج تک کی تاریخ میں معجزے صرف اور صرف پیغمبروں کو نصیب ہوے ہیں۔ آخری نبیﷺ چودہ سو سال پہلے آئے اور انسانی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب برپا کر کے اور اسلام اور قرآن کا معجزہ ہمیں دے گئے۔ ہم ایک اِسلامی ملک ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اِسلامی اِقدار اور اِسلامی روایات اِس ملک میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتیں۔

ہم بحیثیتِ قوم تو اِسقدر پستی کا شکار ہو چُکے ہیں کہ گاندھی کے بندروں کی طرح نہ کُچھ بُرا دیکھتے ہیں، نہ بُرا سُنتے ہیں اور نہ بُرا بولتے ہیں۔ بُرے کی بُرائی کو دیکھا نہ جائے، سُنا نہ جائے اور اُس پر بولا نہ جائے تو معاشرہ کِس اِنحطاط کا شکار ہوتا ہے اُس کی مثال پاکستانی معاشرہ ہے۔

اگرچہ ہم اُس عظیم نبیﷺ کی اُمت ہیں جس نے حق کا پیغام پھیلاتے ہوے کسی تکلیف اور اذیت کی پرواہ نہیں کی، نہ صرف یہ کہ ہم اِس عظیم قدر سے محروم ہیں بلکہ ھم توآج سچی بات کو سن کر بھی نہیں پہچان پاتے۔ لوگوں کے کردار اور ان کی نیتوں تک سے واقف ہونے کے باوجود ہم لوگ اچھے اور برے کی تمیز سے ناواقف ہیں۔

ذرا دو منٹ کے لیئے آج اپنے رہنماؤں پر نظر ڈالیئےاور بتائیےکہ کیا آپ اِن سب کے کرداراور نیت سے واقف نہیں، کون کہے کہ وہ نہیں جانتا کہ آصف علی زرداری اور سید یوسف رضا گیلانی کا مقصد اور منشأ صرف اور صرف ذاتی فائدہ اور عہدہ ہے بلکہ شاید یہاں تک کہنا بجا ہو گا کہ اِن کی حرکتوں اور اِرادوں سے ملک دُشمنی کی بو آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ اِنتقام لے رہے ہیں، لیکن کِس سے؟ میرے خیال میں اِس ملک سے، ملک کے عوام سے جمہوریت کے نام پر۔ نہیں تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جس کو بھی عدالت سزاوار ٹھہرائے وہ اِن کا منظورِ نظر ٹھہرے، جو عدالت کو معطون کرے وہ اعلیٰ عہدہ پائے اور جو بھی اِنصاف کا ساتھ دینے کی کوشش کرے وہ حکومتی عتاب کا نشانہ بنے۔ اب تو مجھے پیپلز پارٹی کے کسی بھی رہنما، عہدےدار اور ورکر سے یہ اُمید بھی نہیں رہی کہ وہ سچائی اور عدل کی طرف مائل ہو سکتا ہے کیونکہ یہاں اُن لوگوں کی جے جے کار ہے جو جھوٹ اِتنی شدت اور تواتر سے بولنے میں مہارت رکھتے ہوں کہ وہ سچ لگنے لگے۔ پیپلز پارٹی والوں سے تو لگتا ہے کہ اِن کے پُرانے نمک خوار قلم کار بھی اب نالاں ہیں کیونکہ اِن کے نئے سپہ سالاروں نے اب وہ قلم کے سپاہی ڈھونڈھ لیئے ہیں جو ذیادہ شدت اور سُرعت سے ملک کے لوگوں کو گمراہ کر سکتے ہیں یا کوشش کر سکتے ہیں۔

بات اِنھیں پر ختم نہیں ہوتی ابھی اور بھی نامور لوگ ہیں جو اِس قوم کو ذلیل و رُسوا کرنے میں کسی طور پیچھے نہیں رہے اور اُن کا ذکر اِس لیئے ضروری ہے کیونکہ کردار اور نیت اُن کی بھی واضح ہے مگر لوگ اُنہیں پہچاننے سے خاص طور پر اِنکاری ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو وطن کی محبت کا راگ ایسے سوز کے ساتھ الاپتے ہیں کہ یقین ہونے لگتا ہے کہ وطن سے ذرا سی دوری اِن کی جان لے لے گی ہاں البتہ یہ الگ بات ہے کہ جیل میں مچھر بھی کاٹ جائے تو یہ ملک چھوڑ کر بھاگنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اِن کے حواری اور پیروکار کتوں کی طرح عہدوں کی ہڈی کے پیچھے کسی کے بھی ساتھ ہو لیتے ہیں۔ پچیس ستائیس سال سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پر یہ حکومت کرتے آئے ہیں لیکن آج بھی جا کر دیکھ لیجیئے اگر اِس صوبے کے غریب عوام کے دس فیصد لوگوں کی حالت بھی تبدل ہوئی ہو۔ نا اہلی کا عالم یہ ہے کہ فیصل آباد میں لاکھوں لوگ بجلی کی کمی کے باعث بے روزگار ہو رہے ہوں اور یہ بجائے اِس کے کوئی منصوبہ بندی کریں ( جیسے کوئلے سے بجلی بنانے والے جنریٹرز آسان قسطوں میں چھوٹے بڑے صنعت کاروں کو فراہم کیئے جا سکتے تھے جو حکومتی بجلی سے سستی بجلی فراہم کرتے چاہے کوئلہ درامد کیا جاتا ) یہ لوگ کالی پیلی ٹیکسیاں اور لیپ ٹاپ بانٹنے میں لگے ہیں۔ جانے لوگ اِس میں نیک نیتی کیسے دیکھ لیتے ہیں اور کیوں نہیں پوچھتے کہ جناب گیس تو موجود نہیں اور پٹرول پر چلنے والی ٹیکسی کا کرایہ دینا عام آدمی کے بس کی بات نہیں پھر یہ سکیم کیسے فائدہ مند ہے اور بجائے اِس کے کہ آپ ایک ایک بندے کو لیپ ٹاپ دیں کیوں نہ ہر گاؤں، قصبے اور شہر میں کمپیوٹر لیبز قائم کریں تاکہ ہر کوئی فائدہ اُٹھا سکے چاہے وہ بہت اچھا طالبِ علم ہو یا کوئی ایسا طالبِ علم جو اِس سہولت سے فائدہ اُٹھا کر اچھا طالبِعلم بن جائے۔ خیر اِن بدنیت لوگوں سے کیا اچھی اُمید لگانا اور کچھ نہیں تو اگر اِن لوگوں کی کوئی اچھی نیت ہوتی تو شاید پولیس کا نظام ٹھیک کرنے، پٹواری نظام کے خاتمے، یکساں نظامِ تعلیم کے نفاذ اور نظامِ صحت کے معاملات بہتر بنانے کی طرف کوئی تو پیشرفت ہوتی مگر اِن سب معاملات کی بہتری کے بعد کون اخباروں اور ٹی وی پر خادمِ اعلیٰ سے مودبانہ اور دردمندانہ اپیل کرنے کی ضرورت محسوس کرتا اور کیسے خادمِ اعلیٰ خود کو بندہِ اعلیٰ منوا سکتا، یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کو اُن کا جائز حق بھی دینے میں مخلص نہیں ہیں ورنہ کون سا خادم ۲۲۰۰ محافظوں کے جھرمٹ میں چلتا ہے اور جب کہیں سے گزرتا ہے تو رعایا کو احساس دِلاتا ہے کہ خبردار ہوشیار بادشاہ سلامت کی سواری آ رہی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کا طریقہِ واردات ذرا وکھرا ہے یہ منصفوں سے لے کر دانشوروں اور قلم کاروں تک سب کو لفافے، نوکریاں اور دکھاوے کی عزت دے کر اپنا اسیر کرتے ہیں اور پھر تانگے کے گھوڑے کی طرح اُن کی آنکھوں پر اِسطرح پٹی باندھتے ہیں کہ اُنھیں صرف وہ رستہ دِکھائی دیتا ہے جو یہ اُنھیں دکھاتے ہیں۔ یہ لوگ آمریت کی پیداوارہیں اورشخصی اور خاندانی آمریت کے ماننے اور چاہنے والے ہیں، اِن کا مطمع نظر صرف اور صرف اپنی بادشاھت ہے جس میں اگر کچھ عہدے بوجہء مجبوری کسی کو دینے بھی پڑیں تو اپنے رشتے داروں کو ہی نوازا جائے۔

خیر ہم تو ٹھرے گاندھی کے بندر سو ہم کیوں یہ سب دیکھیں، سنیں اور بولیں۔ ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم اگر کسی سچے اور کھرے آدمی کو اپنے درمیان ڈھونڈھ بھی لیں تو اُسے اپنا رہنما کر لیں اور جیسے ہمارے آباؤاجداد نے برِصغیر میں مسلمانوں کی علیحدہ مملکت کے خواب کو ایسے ہی آدمی کی رہنمائی میں سچ کیا تھا ھم بھی ایک اِسلامی فلاحی ریاست کے خواب کو شرمندہءتعبیر کرنے کے لیئے اُس آدمی کا ہاتھ بٹائیں۔ یہ بھی ہمارا کام نہیں ہم سیدھی سادھی جدوجہد سے اپنی منزل تک پہنچنے کی کوشش کریں، ہمارا کام فقط اِتنا ہے کہ ہم معجزے کا انتظار کریں جو شاید ہمیں بندر سے اِنسان بنا دے۔

 

Back
Top