Being Pakistani
MPA (400+ posts)
میڈیا سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے ایک سینئر اور نیک نام رہنما جسٹس (ریٹائرڈ ) وجیہ الدین احمد کو مبینہ طور پہ پی ٹی آئی کے ایک گروپ کی جانب سے ایک دھمکی آمیز خط موصول ہوا ہے، جس میں انہیں پارٹی چیئرمین عمران خان کی مخالفت سے باز رہنے کو کہا گیا ہے بصورت دیگر انہیں نشان عبرت بناڈالنے کی دھمکی دی گئی ہے ، اب یہ خط اصل میں کسی پی ٹی آئی والے ہی نے لکھا ہے یا نہیں یا کسی تیسری جانب سے یہ جسٹس صاحب اور عمران خان کے درمیان فاصلے بڑھانے کی مفسدانہ سازش کی گئی ہے ۔ اس بارے میں ابھی تو کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن خود جسٹس صاحب نے بھی کہا ہے کہ انکی دانست میں ایسی حرکت کرنے والے یہ سب کچھ اپنے طور پہ ہی کررہے ہیں اور اسکا پارٹی چیئرمین سے کوئی تعلق نہیں ہے، چونکہ اسکے برعکس کوئی دوسرا ثبوت موجود نہیں لہٰذا بظاہر جسٹس صاحب ہی کی بات درست معلوم ہوتی ہے ویسے بھی ہر مسلمان کو خوش گمان ہی ہونا چاہئے، لیکن اسکے باوجود یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ اس سلسلے میں جس طرح چیئرمین عمران خان کو ایکشن لینا چاہئے تھا وہ انہوں نے نہیں لیا ، کیونکہ گو معطل ہی سہی لیکن جسٹس وجیہ اب بھی پارٹی کے ایک سینئر رہنما ہیں۔ عمران خان کو اس سارے معاملے کی نہ صرف چھان بین کا فول پروف انتظام کرنا چاہئے تھا بلکہ پارٹی سے متعلق ہر فرد کیلئے یہ وارننگ جاری کردینی چاہئے تھی کہ ایسی کسی بھی حرکت کرنے والے کو نہ صرف پارٹی سے نکال کر پھینک دیا جائے گا بلکہ اگر قانونی تادیب کی گنجائش ہوئی تو اس کو حوالہ پولیس کردیا جائے گا۔
جسٹس صاحب کو بھیجا جانے والا یہ دھمکی آمیز خط اس ذہنیت کا بھرپور غماز ہے کہ سارے جمہوری غلغلے کے باوجود ابھی تک بہتیرے لوگ جمہوری اسباق سے ناآشنا ہیں اور گوان میں سے متعدد ہر وقت مالا تو جمہوریت کی جپتے دکھائی دیتے ہیں لیکن عملاً انکی سوچ اور انکا طرز عمل جمہوری آداب سے کوسوں دور ہے۔ لیکن پاکستاں جیسے ملک میں کہ جہاں جمہوریت ابھی تک گھٹنے چلتی رہی ہے اور جیسے تیسے پکڑ پکڑ کر چلنا سیکھ رہی ہے تو یہاں اس قسم کے رویے بہت زیادہ حیران کن نہیں ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اب اپنے درمیان ہر سطح پہ جمہوری مزاج اپنانے اورسیاسی چلن کی تربیت کا اہتمام کریں اور اس امر پہ خاص توجہ دیں کہ محض جمہوریت جمہوریت کی گردان کرتے رہنے سے آمریت کا قلع قمع نہیں ہوتا بلکہ برداشت اور تحمل کا کلچر قائم کرنے سے ہی جمہوریت کو فروغ ملتا ہے اور من مانے روئیوں کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے، بدقسمتی سے اس معاملے میں ویسے تو تقریباً زیادہ تر سیاسی جماعتوں کا طرز عمل تسلی بخش نہیں ہے لیکن پی ٹی آئی کے کارکنوں کے حوالے سے یہ شکایات روز افزوں ہیں اور انٹر نیٹ کا کوئی بھی صارف فیس بک اور سوشل میڈیا پہ تفصیلی جانچ کرکے بخوبی یہ افسوسناک حقیقت جان سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے نام پہ بنائے گئے بہت سے پیجز پر دستیاب مواد میں مخالفین کیلئے کس قدر شرمناک لب و لہجہ اختیار کیا جاتا ہے حتیٰ کہ پارٹی کا کوئی رہنماء تک اگر کسی معاملے میں پارٹی چیئرمین عمران خان سے ذرا سا اختلاف بھی ظاہر کرے تو اسکو کس بری طرح طنز و تمسخر بلکہ تذلیل کا ہدف بنایا جاتا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت اس افسوسناک صورتحال کا سخت نوٹس لے کہ جسکا مطالبہ کئی ثقہ حلقوں کی جانب سے متعدد بار کیا جاتا رہا ہے اور عدم بردشت کے کسی ادنیٰ سے مظہر کو بھی گوارا نہ کیا جائے مگر اسکے لیئے خود عمران خان و پی ٹی آئی کی دیگر اعلیٰ قیادت کو اپنے روئیوں میں قرار واقعی تبدیلی لانی ہوگی اور اسی طرح وطن عزیز کی سبھی سیاسی جماعتوں کو بھی یہ جمہوری اصول اپنانا ہوگا کہ اختلاف رائے کا بھرپور احترام کیا جائے کیونکہ ہرمخالفت غلط نہیں ہوتی اور یہ تو دراصل ایک تیسری آنکھ کی مانند ہوتی ہے جو آپکو اکثر وہ پوشیدہ گوشے بھی دکھا پاتی ہے کہ جنہیں اپنی 2 آنکھوں کی مدد سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ بجا طور پہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اختلاف تو کسی معاشرے کا وہ حسن ہوتا ہے کہ جسکی موجودگی میں بہتر سے بہتر رائے تک پہنچا جاسکتا ہے ورنہ پھر آمریت اور کسے کہتے ہیں؟؟