[h=1]کیا اختر مینگل کے چھ نکات مان کر بلوچستان کا مسئلہ حل کیا جاسکتاہے؟[/h]


ایک چھ نکات تو وہ تھے جو ایوب خان کے دورِ حکومت میں لاہور کی آل پارٹیز کانفرنس میں شیخ مجیب الرحمن کی طرف سے پیش کئے گئے تھے، کہا جاتا ہے کہ اِن چھ نکات کا تصور ایک بیورو کریٹ نے پیش کیا تھا اور مقصد اپوزیشن جماعتوں کی اس کانفرنس کو ناکام بنانا تھا۔ یہ کانفرنس ناکام ہوئی یا نہیں، لیکن اِن چھ نکات کا اتنا پروپیگنڈہ ہوا کہ بالآخر شیخ مجیب الرحمن نے 70ءکے الیکشن جیت کر مطالبہ کردیا کہ نیا آئین اُن کے چھ نکات کی بنیاد پر بنایا جائے، وہ دفاع اور خارجہ امور کے سوا سارے محکمے صوبوں کو دینے کا مطالبہ کررہے تھے۔ الیکشن جیتنے کے بعد وہ اسمبلی کا اجلاس جلد بلانے کا مطالبہ کررہے تھے، لیکن یہ اجلاس سرے سے ہی نہ ہوسکا۔ الیکشن دسمبر 70ءمیں ہوئے تھے، بالآخر صدر یحییٰ خان نے اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں بلایا تو مغربی پاکستان کے دو صوبوں (پنجاب + سندھ) سے اکثریت حاصل کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کردیا اور مینار پاکستان کے جلسے میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں جو شخص شرکت کے لئے جائیگا، وہ یک طرفہ ٹکٹ لے کر جائے اور جانے والوں کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ اُن کے مطالبے پر جنرل یحییٰ خان نے اجلاس ملتوی کردیا تو مشرقی پاکستان میں پُرتشدد ہنگامے شروع ہوگئے۔ ان ہنگاموں کے بعد بعدازخرابیءبسیار اجلاس پھر بلایا گیا، لیکن انعقاد پذیر نہ ہوسکا۔ 25 مارچ کو مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی شروع کردی گئی اور شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کرکے مغربی پاکستان لے آیا گیا۔ اس کے بعد جو حالات پیدا ہوئے، اُن میں اجلاس کا سوال ہی غیر تعلق ہوگیا۔ شیخ مجیب کی عوامی لیگ کے منتخب ارکان بھارت چلے گئے، اُن کی جگہ نئے ضمنی الیکشن ہوئے جن میں نئے لوگ منتخب ہوگئے، جن میں پیپلز پارٹی کے بھی چھ ارکان شامل تھے جس نے عام انتخابات میں وہاں ایک بھی امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ان انتخابات کو بسکٹوں کی تقسیم کے مترادف قرار دیا۔ تاہم چھ بسکٹ اُن کے بھی حصے میںآگئے۔ اِس کے بعد کی کہانی بہت ہی دل خراش اور خون آشام ہے۔ بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کرکے مشرقی پاکستان کوبنگلہ دیش بنا دیا۔