کربلا کے وہ واقعات جو کوئی نہیں سناتا

Status
Not open for further replies.

Omrkhan

Minister (2k+ posts)
there are many manipulations in the history. most of the history books use Tareekh Tibri as a source and Ibn Jareer Tibri himself was a shia.

what i concluded after my own study long time ago was that koofa people gave Sayyadina Hussain RA the feelings that the government is not fair with them and hence they wanted to start a struggle agianst the government. these people from kufa then betrayed him and later killed him as he had those letters from these kufa leaders which could have been used as a witness against them had Sayyadina Hussain been arrasted.
Wallahu Aalam bissawab.

Khuda ka khauf Kare. Ibn Jarir RA was a Sunni. His Tafsir has been used as bench mark for most of the popular Tafseers.
 

khan_sultan

Banned
. شہید نینوا کی کہانی کیونکہ صرف حضرت امام حسین کی ذاتی شہادت سے متعلق تھی اور اس میں عورتوں اور بچوں کا ذکر نہیں تھا تو اس لئے وہ عوامی پذیرائی اور جذباتیت کا وہ سیلاب پیدا کرنے میں ناکام رہی جس مقصد کے لئے اس کہانی کو گھڑا گیا تھا اسی لئے ابو مخنف نے جذباتیت اور فتنہ گری کے لئے کہانی میں عورتوں اور بچوں کے کردار بڑھائے

یزید کے حمایتی یزید کی محبت میں کیا کیا کہ رہے ہیں پہلے اس مصنف ناصبی محمود عباسی کا عقیدہ دیکھیں لوگ
sAYJ6yf.png


DY6RxZX.png

اس مصنف جو کے ناصبی ہے اس کی تحریر دیکھیں اور ادھر کے نواصب کی مدح سراہی ثابت کرتی ہے کے یزید اب بھی ہے کیوں کے اس کے کچھ رشتے دار باقی ہیں
 

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
واقعہ کربلا بیشک مسلم دنیا کا ایک سب سے اندوہناک واقعہ گردانہ جا سکتا ہے. ہر سال اس کو منا کر ہم اس بات کی تجدید کرتے ہیں کے کیسے ایک ظالم اور جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہ کر حضرت امام حسین نے ہمیشہ کے لئے اپنا نام روشن کر لیا. اس واقعہ کی حقیقت ہمیشہ سے میرے ذہن میں کسی شک و شبہ سے بالا تھیں. ان کو مارنے والوں کو ہمیشہ میں نے برا ہی سمجھا. اور ان کو اچھا سمجھ بھی کون سکتا ہے

٢٠٠٣ میں کولن پاول نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں تقریر کرتے ہوۓ عراق پر الزام لگایا کے عراقی حکومت وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں کو چھپائے ہوۓ ہے اور عراق کو ان وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لئے اس پر حملہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے. اس تقریر کی بنا پر جو کے دنیا کے ایک بہت معتبر ادارے میں ایک بہت ہی ذمہ دار امریکی حکومتی رکن نے کی تھی کی بنا پر عراق پر حملہ کیا گیا. اور پھر ٢٠٠٩ میں امریکا نے اعلان کیا کے عراق میں کوئی وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیار نہیں ہیں اور وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں کا سراغ لگانے کی مہم کو بھی ختم کر رہا ہے. ایک پورا ملک تباہ کر دیا گیا ایک جھوٹے پروپیگنڈا پر

کچھ عرصہ بعد ایک بحث میں مجھے معلوم ہوا کے امام ابو حنیفہ نے واقعہ کربلا پر کچھ ارشاد نہیں فرمایا. جو کے میرے لئے بہت حیرت کی بات تھی کے اتنے بڑے واقعہ پر کیا کسی نے کچھ پوچھا نہیں یا کوئی سیاسی مصلحت کے تحت اس پر بولنے سے اجتناب کیا گیا کیونکہ اس واقعہ میں بہت سے فقہی پہلو بھی ہیں مثلا نماز خوف یا جابر حکمران کے خلاف کب جہاد فرض ہو جاتا ہے اور بہت سے چھوٹے بڑے مسائل ہیں. لیکن اس کا جواب ملا نہیں

اسی طرح مقدمہ ابن خلدون میں ٣ صفحات غائب ہیں جو واقعہ کربلا سے مطلق ہیں. تاریخ ابن خلدون میں تو جو اسلامی تاریخ کے واقعات ہیں ان کی جو جو تفصیل ائی ہیں وہ بیان کر دی گئی ہیں لیکن مقدمہ ابن خلدون میں ابن خلدون نے ان واقعات پر بحث کی ہے اور اپنی ایک رائے دی ہے

پھر الله کا کرنا ہوا کے واقعہ کربلا پر سب سے پرانی تحریر ابو مخنف (لوط بن یحییٰ) کی جو کہ شیعہ مصنف کی ہی تھی کو پڑھنے کا موقع ملا. اسکا انگریزی ترجمہ جو ایک ایرانی پبلشرز نے کیا جس کے پیش لفظ میں مترجم حامد موانی نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کے اس کتاب میں کئی سقم موجود ہیں اور ترجمہ میں حاشیوں میں ان سقم کی نشاندہی کی گئی ہے جس پر مجھے حیرت ہوئی کے ایک پرانی کتاب جو کے زیادہ صحیح ہونی چاہیے اس میں تصیح کی ضرورت کیوں پیش ائی. پھر محمود عباسی صاحب کی کتاب مقتل حسین پڑھی تو معلوم ہوا کے ابو مخنف کی کتاب کے تو ہر صفحے پر تاریخی اور واقعاتی غلطیاں نہیں فاش غلطیاں ہیں. ابو مخنف کی کتاب (170)١٧٠ ہجری کی ہے یعنی ممکنہ واقعہ کربلا کے تقریباً ١١٠ سال بعد کی اور اس کتاب کو حامد موانی نے بھی واقعہ کربلا پر سب سے پہلی کتاب مانا ہے. لوط بن یحییٰ کے اس افسانے کو شہرت اس وقت ملی جب مورخ طبری نے دی اس افسانے کو اپنی تاریخ طبری کا حصہ بنا دیا. مزید یہ کہ واقعہ کربلا سے مطلق بیشتر روایات ام سلمہ سے اتی ہیں جو خود ٥٩ ہجری سے پہلے فوت ہو گئی تھیں یعنی واقعہ کربلا ہونے سے ٢ سال پہلے

ان تمام باتوں نے مجھے واقعہ کربلا پر مزید ڈھونڈنے پر مجبور کیا کہ معلوم کروں کہ اخر واقعہ کربلا کی حقیقت کیا ہے.اس پر میں حدیث کی ایک اولین کتابوں میں سے ایک کتاب موطا امام مالک کو کھنگالا لیکن اس میں بھی واقعہ کربلا سے مطلق کوئی روایت نہیں ہے. پھر میں نے سوچا کے سنی کے علاوہ شیعہ کی کتابوں میں دیکھنا چاہیے کے آیا ابو مخنف کی کتاب "مقتل حسین" سے پہلے بھی واقعہ کربلا پر کوئی روایت موجود ہے واقعہ کربلا پر، تو مجھے مسند امام زید ابن علی جو کے حضرت امام حسین کے پوتے ہیں ان کی کتاب مل گئی اور اس میں بھی اس واقعہ کربلا سے مطلق کوئی روایت یا کوئی فقہی بحث نہیں. جب کہ اس کتاب میں جنگ نهروان (جو کہ حضرت علی اور خوارج کے درمیان ہوئی) کا ذکر اور نماز خوف میں اس پر بحث کی گئی ہے. اور سب سے اہم کے حضرت زین العابدین جو کہ ابو مخنف کے مطابق کربلا کے عینی شاہد میں سے ہیں ان سے منسوب متعدد کتب ہیں اور ان میں سے کسی بھی کتاب میں کربلا کے متعلق کوئی واقعہ یا قصہ درج نہیں۔

٦٩ (69) ہجری میں اسلام کو کمزور کرنے کے لئے مختار سقفی نے توابون کے نام سے جو تحریک شروع کی وہ بھی حضرت حسین کی مبینہ شہادت کو لے کر شروع کی تاہم اس کہانی کو موصل کے قریب نینوا کے ارد گرد بنایا گیا اور حضرت امام حسین کو شہید نینوا کے طور پر مشہور کیا گیا. شہید نینوا کی کہانی کیونکہ صرف حضرت امام حسین کی ذاتی شہادت سے متعلق تھی اور اس میں عورتوں اور بچوں کا ذکر نہیں تھا تو اس لئے وہ عوامی پذیرائی اور جذباتیت کا وہ سیلاب پیدا کرنے میں ناکام رہی جس مقصد کے لئے اس کہانی کو گھڑا گیا تھا اسی لئے ابو مخنف نے جذباتیت اور فتنہ گری کے لئے کہانی میں عورتوں اور بچوں کے کردار بڑھائے اور کہانی کا مرکز نینوا سے کربلا (جس کا اصل نام کربغا تھا) منتقل کیا تاہم شہید نینوا سے وہ بھی جان نہیں چھڑا سکا اور نینوا کو کربلا(کربغا) کا ہی دوسرا نام بتا دیا. جبکہ درحقیقت نینوا اور کربلا(کربغا) میں ٦٠٠ کلومیٹر سے بھی زیادہ کا فاصلہ ہے. ابو مخنف کے افسانے کے مطابق حضرت حسین کے اس مبینہ سفر کا آغاز مکہ مکرّمہ سے کوفہ کی جانب ہوا تھا اور کربلا مکہ سے کوفہ کے راستے میں نہیں اتا بلکہ کوفہ سے دمشق کے راستے میں اتا ہے. اس کی تصدیق گوگل میپ سے کی جا سکتی ہے۔

واقعہ کربلا ایک حقیقت ہے یا اسلام کو منقسم کرنے کے لئے افسانہ گھڑا گیا؟ نبی اکرم متواتر کی حدیث ہے کے اسلام کو تنزلی نہیں ہو گی جب تک ١٢(12) خلفاء تم میں سے نہ گزر جائیں. اور اسلام کے پہلے ١٢(12) خلفاء میں یزید بھی شامل ہے. یہ بھی سب ہی مانتے ہیں کے حضرت امام حسین یزید کی کمان میں قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے لشکر میں شامل تھے. یہ بھی حقیقت ہے کے حضرت حسن اور حضرت حسین ہر سال دمشق میں حضرت امیر معاویہ کے دربار میں جایا کرتے تھے اور حضرت حسین اپنے بھائی کی وفات کے بعد بھی اس پر کاربند رہے، اگر حضرت معاویہ کسی بدکردار کو خلافت سونپنے کا سوچ رہے ہوتے تو کیا حضرت حسین ان کو متنبہ نہ کرتے یا کم از کم ان کے دربار میں جانے سے رک نہ جاتے؟ حضرت امام حسین نہ صرف دربار میں جاتے بلکہ حضرت امیر معاویہ ان کی عزت اور تکریم کرتے. اسلام کو تقسیم کرنے والوں نے پہلے ایک پروپیگنڈا کیا کہ خلافت پر حضرت علی کا حق سب سے پہلے تھا اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان نے ان سے یہ حق چھینا. اگرچہ مسلمانوں نے من حیث القوم اس پروپیگنڈا کو رد کر دیا مگر حضرت حسین کا خلافت پر حق کو تسلیم کر لیا جب کہ نہ انھوں نے یہ حق مانگا بلکہ حضرت امیر معاویہ کے ساتھ ایک دوستانہ تعلقات اور مراسم بھی رکھے. اور ایک روایت کے مطابق حضرت امیر معاویہ نے حضرت حسین کو عراق کی گورنری بھی عطا کی تھی.۔

الله نے قرآن میں فرمایا کے مسلمانوں تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آیا کرے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو اور تحقیق ہی وہ چیز ہے جو ہم نے اسلام میں کی بھی نہیں اور کرنے والے کو منع ہی نہیں برا بھلا بھی کہا. اور تحقیق کبھی ختم نہیں ہوتی. میری ابھی تک کی تحقیق تو یہ بتاتی ہے کے واقعہ کربلا ١٧٠ ہجری میں گھڑا گیا اسی لئے ١٧٠ ہجری سے پرانی کتابوں چاہے وہ شیعہ لوگوں کے اپنے اماموں کی ہی کیوں نہ ہو اور حضرت امام ابو حنیفہ اور امام مالک جیسے لوگ جو ١٧٠ ہجری سے پہلے گزر گئے انکی اس پر کوئی رائے نہیں ہے کیونکہ اس وقت تک واقعہ کربلا لکھا ہی نہیں گیا تھا اور جس نے لکھا ہے اس نے خود اتنی غلطیاں کی ہیں کے یہ سچا واقعہ ہو ہی نہیں سکتا. آپ کی رائے کا انتظار رہے گا


پاکی پیٹریاٹ نے جس کا بھی مقالہ نقل کیا ہے۔ اُسکے بیان کے مطابق پہلے وہ واقعہ کربلا پر یقین رکھتا تھا لیکن کُچھ باتوں کی وجہ سے (جس کا ذکر اُوپر مقالے میں موجود ہے) وہ واقعہ کربلا کو اُسی طرح جھوٹ سمجھنا شروع ہو گیا جس طرح امریکہ نے عراق پر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا الزام لگا کر حملہ کیا لیکن بعد میں یہ الزام محض جھوٹ ثابت ہوا۔ اور اُسے ایک گھڑا ہوا افسانہ قرار دیا جسے 170 ہجری کے بعد گھڑا گیا۔


یہ بات یاد رہے کہ ابھی تک داعش اپنے اعلان کے مطابق کربلا اور نجف پر حملہ کرکے وہاں کے قدیم تاریخی آثار کو مٹانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ جو اس طرح کے مقالے پر کوئی حقیقت پسند آدمی ذرا سی بھی توجہ کرسکے۔ ہاں اگر خدا نخواستہ ناصبیوں کو اپنے دیرینہ مقصد میں کامیابی نصیب ہو جائے اور اس پر کُچھ عرصہ بھی گزر جائے تو اس طرح کے جاہلانا اور حقیقت کا منہ چڑانے والے مقالے پھر لکھے جاسکتے ہیں اور پراپیگنڈہ کیا جاسکتا ہے۔


کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام اور دوسرے شہداء کے روضے اور قبریں آج بھی موجود ہیں جو ماضی میں ہونے والے افسوسناک واقعے کا قدیم تاریخی ریکارڈ ہے۔ جسطرح قدیم تاریخوں میں شہادت کے واقعات ملتے ہیں اُسی طرح شہیدوں کی قبریں موجود ہیں اسلیے واقعہ کربلا کو افسانہ بنانے کی خواہش رکھنے والوں کو آل سعود اور داعش کی خدمات حاصل کرنی چاہیے تاکہ زمین پر اس واقعہ کے تمام آثار مٹانے کے بعد اھلبیت سے محبت کرنے والوں کا منہ چڑا کر کہہ سکیں کہ ہم تو محقق ہیں اور ہماری تحقیق کے مطابق واقعہ کربلا ایک افسانہ ہے۔ لیکن کیا جائے قرآن پاک میں بھی اللہ کا وعدہ ہے


فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِ (سورۃ بقرۃ 2، آیت نمبر 152

سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو


کربلا والوں نے اللہ کو یاد رکھا۔ اللہ کے دین کی خاطر بے مثال قربانی دی پس اللہ نے بھی انھیں یاد رکھا۔ اور اُن کے ذکر کو ایمان والوں کے دل کی حرارت بنا دیا۔ ہرسال اتنے مسلمان حج کرنے نہیں جاتے جتنے محبتِ حسین علیہ السلام میں کربلا میں قبر حسین علیہ السلام اور دوسرے شہداء کی زیارت کو جاتے ہیں۔ پس محمود عباسی جیسے کئی آئے اور کئی گئے اور خوب ناصبیت کا حق بھی ادا کیا۔ لیکن حقائق کو اسطرح جھٹلایا نہیں جاسکتا اور جھوٹ کے کوئی پاؤں نہیں ہوتے۔ آنکھیں بند کرنے سے یا کمرے میں گُھس جانے سے سورج غائب نہیں ہوجایا کرتا۔ دلائل کا معیار دیکھیں


مجھے کربلا پر امام ابوحنیفہ کا کوئی قول نہیں ملا پس یہ واقعہ کربلا افسانہ ہے۔

تارخ ابن خلدون سے واقعہ کربلا کے تذکرے والے 3 صفحے غائب ہیں۔ پس واقعہ کربلا افسانہ ہے۔
مجھے حدیث کی کتابوں بالخصوص موطا امام مالک میں کربلا کا کوئی تذکرہ نہیں ملا پس یہ واقعہ ایک افسانہ ہے


اوہ ناصبیت کے محقق کیا امام حسین علیہ السلام بھی کوئی ہستی تھے یا تمھاری تحقیق کے مطابق وہ بھی ایک افسانہ ہیں۔ اگر وہ تھے تو بتا آج اُن کی قبر مبارک کہاں ہے۔؟؟؟ جا شرق و غرب میں تلاش کرلے کربلا کے علاوہ کہیں نہیں ملے گی۔۔۔۔۔


خیر میں اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے اس ناصبی محقق کی بات کو جڑ سے ہی کاٹ دیتا ہوں ذیل میں واقعہ کربلا سے متعلق صحیح احادیث جو کہ احادیث کے قدیم ترین منابعوں میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہیں، اُن صحیح احادیث کو درج کرکے اس ناصبی کو منکر حدیث ثابت کرتا ہوں کیونکہ یہ بہت مشکل ہے کہ یہ ناصبیت کو چھوڑ سکے۔ یہ بھی نوٹ کریں کہ یہ احادیث حضرت ام سلمہؓ کے علاوہ کن کن صحابہؓ اور صحابیات ؓسے مروی ہیں اور یہ بھی نوٹ کریں کہ حضرت ام سلمہؓ سے کس کس طریقے سے مروی ہیں اگر بالفرض محمود عباسی اپنی بات پر ہی ضد میں اڑ جائے کہ نہیں حضرت ام سلمہؓ کی وفات 59 ہجری کو ہوئی ہے تو وہ ام سلمہؓ کی کون کون سی احادیث رد کرسکتا ہے۔ جس بات کو رد کرنے کیلیے اُس نے یہ جھوٹا جواز گڑھا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ تواتر کے ساتھ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے بھی مروی ہے۔


یوم عاشور، شہادت امام حُسیؑن اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آثار صحابہ رضی اللہ عنھم


اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے واقعہ کربلا کی خبر دی اور اس واقع کی خبر پر رنجیدہ ہوئے۔

امام حسینؑ کی ولادت کے وقت اور مختلف اوقات میں فرشتے امام حسینؑ کی شہادت کی خبر لاتے تھے اور خاک کربلا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے تھے جیسا کہ مندرجہ ذیل صحیح روایات سے ثابت ہے

حدیث نمبر: ا ام المومنین عائشہؓ یا ام المومنین ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ آج ہمارے گھر میں فرشتہ آیا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں آیا .فرشتے نے مجھے بتایا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کا یہ بیٹا حسینؑ قتل کیا جائے گا ،اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چاہے تو میں اس زمین کی کچھ مٹی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دے سکتا ہوں جہاں پر حسینؑ قتل ہونگے.پھر رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : فرشت
[FONT=&amp]ہ میرے لئے مٹی لایا جو کہ لال رنگ کی تھی
[/FONT] [FONT=&amp]محقق کتاب فضائل صحابہ ، کہتا ہے کہ اس روایت کی سند صحیح ہے
[/FONT]
[FONT=&amp]محقق کتاب فضائل صحابہ ڈاکڑ وصی اللہ بن محمد عباس کی تحقیق مزید
[/FONT]
مندرجہ بالا روایت کے حاشیہ میں محقق کہتا ہے کہ اس روایت کی تخریج مسند احمد میں بھی ہے ، ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اس کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ احمد نے اس کو روایت کیا ہے اور اس کے رجال ، الصحیح کے رجال ہیں . طبرانی نے بھی اسے عائشہؓ سے اسناد صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے .احمد نے بھی مسند میں نجی کے ساتھ اس کی اسناد صحیح کے ساتھ تخریج کی ہے اور صاحب مجمع الزوائد نے کہا ہے کہ اس کو احمد ،ابو یعلیٰٰ اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقات ہیں
[FONT=&amp]فضائل صحابہ //احمد بن حنبل //تحقیق:ڈاکٹر وصی اللہ بن محمد عباس //ج : 2 // طبع الاولیٰٰ 1403ھ ،جز2،جامعہ ام القری مکہ سعودیہ//ص 770//حدیث:1357[/FONT] [FONT=&amp]

مندرجہ بالا حدیث مسند احمد بن حنبل میں بھی ہے، ہم یہاں اس حدیث کی تحقیق پیش کر رہے ہیں جو کہ محقق مسند نے انجام دی ہے[/FONT] محقق کتاب کہتا ہے کہ یہ حدیث اپنے طریق کے ساتھ حسن کے درجہ کی ہے .اس کے بعد محقق کتاب نے اس حدیث کے شواھد ذکر کئے ہیں احمد نے فضائل صحابہ میں، طبرانی نے معجم کبیر میں، ھیثمی نے مجمع الزوائد میں اور کہا ہے کہ اس کے رجال الصحیح کے رجال ہیں ،ابن طھمان نے مشیختہ میں، عاصم نے 2 مختلف طریق سے احاد و المثانی میں ، طبرانی نے معجم میں 5 مختلف طریق سے، حاکم نے مستدرک میں، بیھقی نے 2 مختلف طریق سےدلائل میں، ابن شیبہ نے مصنف میں، اور دارقطنی نے العل میں 2 مختلف طریق سے خبر شہادت امام حسینؑ کو نقل کیا ہے
[FONT=&amp]مسند احمد // احمد بن حنبل // تحقیق: شعیب الارنوط و دیگرمحقیقین// ج : 44// طبع بیروت موسستہ رسالہ،جز 50 // ص 143//حدیث:26524[/FONT] [FONT=&amp]

علامہ ذہبی نے اپنی کتاب تاریخ اسلام میں شہادت امام حسین[/FONT]ؑ سے متعلق تمام اخبار کو نقل کیا ہے اور جناب ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا والی مندرجہ بالا روایت کے متعلق کہا ہے کہ اس کی اسناد صحیح ہیں . اس کو احمد اودیگر کئی لوگوں نے روایت کیا ہے
[FONT=&amp]تاریخ اسلام // محمد ذہبی // تحقیق: ڈاکٹر عمر عبدالسلام // ج: 5 حوادث : 61 ھجری // طبع اولیٰٰ 1410 ھ ،جز53، دارُُ الکتاب العربی // ص[/FONT]
[FONT=&amp][FONT=&amp]104[/FONT] [/FONT] [FONT=&amp]

حدیث نمبر: 2[/FONT]
انس بن مالک
ؓ صحابی سے روایت ہے کہ بارش کے فرشتے نے اللہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کی اجازت مانگی ،اللہ نے اجازت دے دی، اور اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب ام ُُسلمہؓ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف فرما تھے، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ام سلمہؓ کو کہا ہے کہ تم دروازے پر بیٹھ جائو اورکسی کو اندر آنے کی اجازت نہ دینا، انس بن مالکؓ کہتا ہے کہ ام سلمہٰؓ دروازے کے پاس بیٹھی تھی کہ اچانک حسینؑ ابن علیؑ حجرے میں آگئے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام حسینؑ کو گلے لگایا اور ان کو بوسا لیا. تب فرشتے نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان سے محبت کرتے ہیں ? آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا: ہاں، فرشتہ بولا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت ان کو قتل کرے گی، اس نے مزید کہا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چاہیں تو میں وہ زمین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا سکتا ہوں جہاں ان کو قتل کیا جا ئے گا. رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا کہ ہاں دیکھاو ، چنانچہ فرشتے نے ہاتھ جھٹکا اورمٹی سے بھرا ہوا ہاتھ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھایا. وہ مٹی سرخ رنگ کی تھی، جو بعد میں ام سلمہؓ نے اپنے کپڑے میں سنبھال لی ثابت کہتا ہے کہ ہم یہ کہتے تھے کہ یہ کربلا کی مٹی ہے
محقق کتاب ،حاشیہ میں اس روایت کی سند کے بارے میں کہتا ہے : اسناد حسن
[FONT=&amp]
مسند ابو یعلی ٰٰ الموصلی// احمد بن علی التمیمی//تحقیق:حسین سلیم اسد // ج : 6// طبع الاولیٰٰ ،1412 ھ ،جز 14، دار المامون التراث بیروت // ص 129 // حدیث:3402[/FONT]
[FONT=&amp]
حدیث نمبر : 3
[/FONT]
انس بن مالک
ؓ صحابی سے روایت ہے کہ بارش کے فرشتے نے اللہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کی اجازت مانگی، اللہ نے اجازت دے دی، اور اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب ام ُُسلمہؓ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف فرما تھے، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ام سلمہؓ کو کہا ہے کہ تم دروازے پر بیٹھ جاو اور کسی کو اندر آنے کی اجازت نہ دینا، انس بن مالکؓ کہتا ہے کہ ام سلمہٰؓ دروازے کے پاس بیٹھی تھی کہ اچانک حسین ابن علی کرم اللہ وجہھ حجرے میں آگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پشت پر سوار ہوگئے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام حسینؑ کو گلے لگایا اور ان کو بوسا لیا .تب فرشتے نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان سے محبت کرتے ہیں ? آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا: ہاں، فرشتہ بولا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت ان کو قتل کرے گی ، اس نے مزید کہا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چاہیں تو میں وہ زمین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا سکتا ہوں جہاں ان کو قتل کیا جا ئے گا. رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا کہ ہاں دیکھاو، چنانچہ فرشتے نے ہاتھ جھٹکا اورمٹی سے بھرا ہوا ہاتھ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھایا. وہ مٹی سرخ رنگ کی تھی، جو بعد میں ام سلمہؓ نے اپنے کپڑے میں سنبھال لی ثابت کہتا ہے کہ ہم یہ کہتے تھے کہ یہ کربلا کی مٹی ہے

محقق کتاب کہتا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے.اور اس نے دیگر کتب حدیث سے اس کی تخریج کی ہے

[FONT=&amp]الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان// ابن حبان //محقق: شعیب الارنوط// ج 15// طبع الاولیٰٰ 1408ھ ، جز 18، موسستہ الرسالہ // ص 142// حدیث:6742[/FONT] [FONT=&amp]البانی نے صحیح ابن حبان کی تعلیقات میں مندرجہ بالا حدیث کو صحیح لغیرہ کہا ہے[/FONT] [FONT=&amp]التعلیقات الحسان علیٰ صحیح ابن حبان // ناصرالدین البانی // ج 9 //طبع دار با وزیر ، جز 12، ص 406//حدیث:6707[/FONT] [FONT=&amp]

حدیث نمبر: 4
[/FONT]
عبد اللہ بن نجی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضرت علی کرم اللہ وجہھ کے ساتھ جا رہے تھے، ہم نینوٰی سے گزرے، جبکہ ہم جنگ صفین کی لڑائی کے لئے جا رہے تھے، تب حضرت علی کرم اللہ وجہھ نے ندا بلند کی اے ابا عبد اللہ صبر کرنا، اے ابا عبد اللہ فرات کے کنارے پر صبر کرنا، میں (راوی) نے کہا (یاعلی) ! ابا عبداللہ سے آپ کی کون مراد ہے ? حضرت علی کرم اللہ وجہھ نے کہا کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا کسی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو غضبناک کیا ہے، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں، تب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا نہیں، ابھی جبریل میرے پاس سے گئے ہیں اور جبرئل بے مجھے بتایا ہے کہ حسینؑ دریائے فرا ت کے کنارے شہید ہونگے. تب جبرئل نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا آپ اس زمین کی مٹی کو سونگھنا پسند کریں گے جہاں پر حسینؑ شہید ہونگے? میں (رسول) نے کہا کہ ہاں ! چنانچہ جبرئل نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور مٹی سے اپنے ہاتھ کو بھر لیا اور مجھے دے دی اور پھر میں اپنی آنکھوں پر قابو نہ پاسکا اور مسلسل گریہ کرنے لگا
محقق کتاب، حاشیہ میں اس روایت کی سند کے بارے میں کہتا ہے : اسناد حسن ، اور صاحب مجمع الزوائد نے کہا ہے کہ اس کو احمد ،ابو یعلیٰٰ اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقات ہیں محقق کتاب کہتا ہے نینوٰی، نبی یونس
ؑ کا گائوں تھا، موصل عراق میں اور یہ نینوٰی وہی کربلا کی زمین ہے جہاں پر امام حسینؑ شہید ہوئے تھے [FONT=&amp]
مسند ابو یعلی ٰٰ الموصلی// احمد بن علی التمیمی//تحقیق:حسین سلیم اسد // ج : 1// طبع الاولیٰٰ ،1412 ھ ،جز 14 دار المامون التراث بیروت // ص 298 // حدیث:363[/FONT]

نوٹ : انشاء اللہ ، اب ہم سلفی علماء کی معتبر کتب سے احادیث کی تخریج کریں گے جس کو انھوں نے صحیح قرار دیا ہے

علامہ ناصر الدین البانی اور اخبار شہادت امام حسینؑ

علامہ البانی نے اپنی کتب میں احادیث خبر شہادت امام حسینؑ کو صحیح کہا ہے . چنانچہ اپنی کتاب صحیح جامع صغیر میں لکھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئل میرے پاس آئے اور مجھے خبر دی کہ میرے امت میرے بیٹے یعنی حسینؑ کو قتل کرے گی اور میرے لیئےحسینؑ کی مقتل گاہ سے سرخ نگ کی مٹی لے کر آئے تھے علامہ
البانی اس روایت کو درج کرنے کے بعد کہتا ہے کہ یہ صحیح ہے
[FONT=&amp]صحیح جامع الصغیر // ناصر الدین البانی // ج: 1 // طبع مکتب اسلامی سعودیہ عرب،جز 2 // ص : 73// حدیث : 61[/FONT]
مندرجہ بالا روایت البانی اپنی کتاب سلسلتہ الصحیحہ میں بھی لکھتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئل میرے پاس آئے اور مجھے خبر دی کہ میرے امت میرے بیٹے یعنی حسینؑ کو قتل کرے گی اور میرے لیئےحسینؑ کی مقتل گاہ سے سرخ نگ کی مٹی لے کر آئے تھے اس کو حاکم نے بھی لکھا ہے اور بیھقی اپنی دلائل میں بھی اس روایت کو اس طرح لے کر
آئے ہیں

ام الفضل بنت الحارث نے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس داخل ہوئیں اور عرض کرنے لگی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! میں نے آج بُُرا خواب دیکھا ہے .آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا کہ کیا دیکھا ہے ? کہنے لگی کہ وہ بہت برا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا کہ وہ کیا ہے ? کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں رکھ دیا گیا ہے. تم نے اچھا خواب دیکھا ہے. حضرت فاطمہ علیہا السلام بچے کو جنم دے گی
ں، انشاء اللہ لڑکا ہوگا اور وہ تیری گود میں ہوگا .چنانچہ فاطمہ علیہا السلام نے امام حسینؑ کو جنم دیا. لہذٰٰا وہ میری گود میں آیے جیسے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا .میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس گئی اور میں نے بچے کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گود میں رکھ دیا .اس کے بعد میری توجہ ذرا سی مبذول ہوگئی. پھر جو دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھیں آنسو ٹپکا رہی تھیں. کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں آپ کو کیا ہوا ? فرمایا کہ میرے پاس حضرت جبرائیل آئے انہوں نے مجھے خبر دی کہ میری امت عنقریب میرے اس بیٹے کو قتل کر گی، اور میرے لیئےحسینؑ کی مقتل گاہ سے سرخ نگ کی مٹی لے کر آئے تھے

حاکم نے اس روایت کو درج کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ بخاری ومسلم ک شرط کے مطابق حدیث ہے مگر ذہبی نے کہا ہے کہ یہ روایت منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے مگر البانی یہاں ذہبی کا رد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں (البانی) یہ کہتا ہوں کہ ہمارے پاس بہت سے شواھد موجود ہیں جواس کوصحیح قرار دیتے ہیں جن میں سے احمد بن حنبل نے بھی درج کئے ہیں اور ان میں سے ایک شواھد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ آج ہمارے گھر میں فرشتہ آیا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں آیا .فرشتے نے مجھے بتایا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کا یہ بیٹا حسینؑ قتل کیا جائے گا ،اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چاہے تو میں اس زمین کی کچھ مٹی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دے سکتا ہوں جہاں پر حسینؑ قتل ہونگے.پھر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : فرشت
ہ میرے لئے مٹی لایا جو کہ لال رنگ کی تھی
[FONT=&amp]سلسلتہ الاحادیث الصحیحتہ // ناصر الدین البانی // ج 2 // طبع مکتب اسلامی سعودیہ// ص 464تا465//حدیث:821،822[/FONT] [FONT=&amp]

ایک اور مقام پر البانی اخبار شہادت حسین کی تخریج اس طرح کرتا ہے[/FONT]
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل ابھی میرے پاس سے گئے ہیں اور مجھے خبر دی ہے کہ حسینؑ کو دریائے فرات کے کنارے شہید کیا جائے گا احمد بن حنبل نے مسند میں روایت نقل کی ہے کہ عبد اللہ بن نجی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضرت علی کرم اللہ وجہھ کے ساتھ جا رہے تھے، ہم نینوٰی سے گزرے، جبکہ ہم جنگ صفین کی لڑائی کے لئے جا رہے تھے، تب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ندا بلند کی اے ابا عبد اللہ صبر کرنا، اے ابا عبد اللہ فرات کے کنارے پر صبر کرنا، میں (راوی) نے کہا (یاعلی) ! ابا عبداللہ سے آپ کی کون مراد ہے ? حضرت علی کرم اللہ وجہھ نے کہا کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا کسی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو غضبناک کیا ہے، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں ، تب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا نہیں، ابھی جبرئیل میرے پاس سے گئے ہیں اور جبرئل بے مجھے بتایا ہے کہ حسینؑ دریائے فرا ت کے کنارے شہید ہونگے. تب جبرئیل نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا آپ اس زمین کی مٹی کو سونگھنا پسند کریں گے جہاں پر حسینؑ شہید ہونگے?میں (رسول) نے کہا کہ ہاں ! چنانچہ جبرئیل نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور مٹی سے اپنے ہاتھ کو بھر لیا اور مجھے دے دی اور پھر میں اپنی آنکھوں پر قابو نہ پاسکا اور مسلسل گریہ کرنے لگا
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد علامہ البانی کہتا ہے کہ اس روایت کی اسناد ضعیف ہے. نجی جو کہ عبد اللہ کا باپ ہے.اس کو کوئی نہیں جانتا کہ یہ کون ہے جیسا کہ ذہبی نے کہا ہے .ابن حبان کے سوا کسی نے اس کو ثقہ نہیں کہا ہے .اس کا بیٹا اس سے زیادہ مشہور ہے مگر البانی کہتا ہے کہ ہیثمی نے لکھا ہے کہ اس کو احمد نے روایت کیا ہے، اس طرح ابو یعلیٰٰ ، بزا اور طبرانی نے اور اس کے تمام رجال ثقات میں سے ہیں.اوراس روایت کو صرف نجی نے نقل نہیں کیا بلکہ اور بھی رواۃ سے یہ مروی ہے البانی مزید کہتا ہے اس حدیث کے شواہد نے اس کو قوی بنادیا ہے اور یہ حدیث حقیقت میں صحیح کے درجے کو پہنچ جاتی ہے. نوٹ:اھل حدیث کے عالم حافظ زبیر علی زئی نے مسند احمد والی حدیث جو کہ نجی سے مروی ہے اس کی سند کو حسن کہا ہے اور کہا ہے کہ عبد اللہ بن نجی اور اس کا باپ جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں اور ان کی حدیث حسن کے درجے سے کم نہیں ہوتی ملاحظہ کریں : نیل المقصود فی تحقیق سنن ابن داود:227

اس کے بعد البانی نے شہادت امام حسینؑ سے متعلق 6 طریق نقل کئے ہیں بطور شواھد جو کہ ا س حدیث کو قوی بنا دیتے ہیں مختلف شواھد نقل کرنے کے بعد البانی کہتا ہے کہ میں (البانی) ایک جملہ میں یہ بات کہتا ہوں کہ یہ حدیث اپنے مختلف معانی اور تفسیر کے ساتھ، مختلف صحیح طریق نے اس کو صحیح بنا دیا ہے. اگر چہ کچھ رواۃ میں کمزوری ہے مگر بطور بجموعہ یہ احادیث صحیح اور حسن کے درجے کی ہیں

[FONT=&amp]سلسلتہ الاحادیث الصحیحتہ // ناصر الدین البانی // ج 3 // طبع مکتب اسلامی سعودیہ// ص 159تا162//حدیث:[/FONT][FONT=&amp] 1171[/FONT]

اخبار شہادت امام حسین ؑ
[FONT=&amp]اور حافظ ابن کثیر

[/FONT]
حافظ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں مقتل حسینؑ کے متعلق احادیث کو لکھا ہے. ابن کثیر اس طرح سُُرخی دیتا ہے امام حسینؑ کے قتل کے متعلق اخبار ابن کثیر لکھتا ہے کہ حدیث میں امام حسینؑ کے قتل کے متعلق بیان ہوا ہے

ابن کثیر پہلی روایت بارش کے فرشتے والی لے کر آیا ہے جو کہ انس بن مالک سے مروی ہے، اس روایت کے مطابق ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا نے خاک کربلا کو لے اپنے کپڑے کے پلو سے باندھ لیا

نوٹ : واضح رہے کہ بارش کے فرشتے والی روایت سند کے لحاظ سے حسن کے درجہ کی ہے

اس کے بعد ایک روایت ابن کثیر نقل کرتا ہے کہ حضرت ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک روز پہلو کے بل لیٹے تھے،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بیدار ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حیران تھے، پھر لیٹے تو سو گئے، پھر بیدار ہوئے تو پہلی بار کے مقابلہ میں کم حیران تھے، پھر لیٹے اور بیدار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھ میں سرخ مٹی تھی، جسے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم الٹ پلٹ رہے تھے، میں نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ مٹی کیسی ہے? فرمایا جبرئیل نے مجھے بتایا ہے کہ یہ سر زمین عراق میں حسینؑ کے قتل ہونے کی جگہ ہے، میں نے کہا اے جبرئیل ! مجھے اس زمین کی مٹی دکھائیے جہاں حسینؑ قتل ہونگے پس یہ اس زمین کی مٹی ہے اس کے بعد ابن کثیر نے ام الفضل بنت حارث والی روایت نقل کی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شہادت حسینؑ کی خبر پر گریہ فرمایا
نوٹ: ہم مندرجہ بالا سطور میں ام الفضل اور بارش کے فرشتے والی روایت نقل کر آئیں ہیں اس لئے ان کی تکرار نہیں کی

[FONT=&amp]البدایہ والنھایہ//ابن کثیر//محقق:عبدالمحسن ترکی//ج:9//ص 234//طبع الاولیٰٰ 1418 ھ ،جز:21 الھجر بیروت //باب:اخبار مقتل حسین[/FONT]

[FONT=&amp]اخبار شہادت امام حسین[/FONT][FONT=&amp]ؑ[/FONT][FONT=&amp] اور حافظ ابو نعیم اصفہانی[/FONT]

ابو نعیم اصفہانی نے بھی دلائل النبوہ میں امام حسینؑ کی شہادت کی احادیث کو جمع کیا ہے ابو نعیم اصفہانی سرخی اس طرح قائم کرتے ہیں امام حسینؑ کی شہادت کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو ارشادات فرمائے

پہلی روایت انس بن مالک سے لے کر آئ
ے ہیں، جو خبر بارش کے فرشتے والی جو کہ ہم مندرجہ بالا سطور میں مکمل نقل کر آے ہیں اس روایت کے متعلق محقق کتاب ڈاکٹر محمد رواس قلعہ جی اس طرح لکھتے ہیں اس روایت کو بیہقی نے ، احمد نے مسند میں روایت کیا ہے اور ابو یعلی ٰٰ ، بزار اور طبرانی نے عمارۃ بن زاذان کی سند سے روایت کیا ہے اور عمارۃ بن زاذان کو ایک جماعت نے ثقہ کہا ہے اور بعض نے ضعیف کہاہے. اور بقیہ رجال ابو یعلی ٰ رجال الصحیح ہیں، مجمع الزوائد میں یہ بات ہیثمی نے کہی ہے ابو نعیم ایک اور روایت لاتے ہیں جو کہ اس طرح ہے سلیمان بن احمد کی روایت میں ہے کہ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سونگھا یعنی خاک کو، تو فرمایا کرب اور بلا کی بو ہے اس میں، تو کہتے ہیں ہم سنا کرتے تھے کہ حسین بن علی کرم اللہ وجہھ کربلا میں شہید ہوں گے اسی طرح ایک اور روایت بھی نقل ہوئی ہے انس بن حارث سے روایت ہے کہ میں نےسنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرما رہے تھے میرا بیٹا سرزمین عراق میں شہید ہوگا، تو جو شخص وہ دور پائے اس کی مدد کرے ،، کہتے ہیں چنانچہ یہ انس امام حسینؑ کے ساتھ شہید ہوئے
[FONT=&amp]دلائل النبوہ //ابونعیم اصفہانی //ج 2//ص 553//طبع الثانیہ 1406ھ ،جز 2 دارالنفائس بیروت//محقق: ڈاکٹر محمد رواس قلعہ جی//حدیث:[/FONT][FONT=&amp] 492،493[/FONT]

[FONT=&amp] اخبار شہادت امام حسین[/FONT][FONT=&amp]ؑ[/FONT][FONT=&amp] اور حافظ جلال الدین سیوطی

[/FONT]
حافظ جلال الدین سیوطی نے بھی اپنی کتاب "الخصائص الکبریٰٰ " میں شہادت امام حسینؑ کے حوالے سے اخبار رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تخریج کی ہے باب اس طرح قائم کرتے ہیں: حضرت امام حسینؑ کی شہادت سے آگاہ فرمانا

حدیث نمبر1: پہلی حدیث حاکم اور بیہقی سے حضرت ام الفضل بنت حارث والی نقل کی ہے (جس کوہم اوپر علام البانی کی تخریج میں نقل کر آئیں ہیں )،اس لئے تکرار نہیں کر رہے

حدیث نمبر 2: یہ حدیث ابن راہویہ ، بیہقی اور ابو نعیم سے نقل کی ہے ،جناب ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا سے ، اس حدیث کو ہم ابن کثیر کی تخریج میں نقل کر آئیں ہیں ،ملاحظہ کریں وہاں

حدیث نمبر 3: یہ بیہقی اور ابو نعیم سے انس بن مالک والی روایت بارش کے فرشتہ والی ہے جس میں فرشتہ خبر شہادت امام حسینؑ لے کر آتا ہے،مندرجہ بالا سطور میں مراجع کریں

حدیث نمبر 4: ابو نعیم حضرت ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ امام حسن
ؑ و حسینؑ میرے گھر میں کھیل رہے تھے. جبرئیل اترے اور امام حسینؑ کی طرف اشارہ کر کے کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت آپ کے بعد آپ کے فرزند کو شہید کر دے گی. جبرئیل مقتل کی مٹی بھی لائے جسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سونگھا تو فرمایا اس سے کرب و بلا ء کی بُُو آرہی ہے ، پھر فرمایا: اے ام سلمہؓ ! جب وہ مٹی خون بن جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا شہید کر دیا گیا ہے،چنانچہ میں وہ مٹی ایک شیشی میں محفوظ کر لی

حدیث نمبر 5: ابن عساکر محمد بن عمرو بن حسن سے روایت کرتے ہیں کہ نہر کربلاء کے پاس ہم امام حسینؑ کے ساتھ تھے .آپ
ؑ نے شمر ذی الجوشن کی طرف دیکھا تو فرمایا اللہ اور رسول نے سچ فرمایا.رسول
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا : گویا میں ایک چتکبرے کتے کو دیکھ رہا ہوں جو میرے اھل بیت علیہم السلام کا خون پی رہا ہے اور شمر برص کے مرض میں مبتلا تھا

حدیث نمبر 6: انس بن حارث والی روایت ،جس میں نصرت حسینؑ کا کہا گیا ہے اوپر ابو نعیم کی تخریج میں ملاحظہ کریں

حدیث نمبر 7: بیہقی سے روایت نقل کی ہے جس میں جبرئیل خاک کربلا رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھاتے ہیں ،ملاحظہ کریں مندرجہ بالا سطور میں

حدیث نمبر 8: جنگ صفین جاتے وقت گریہ علی کرم اللہ وجہھ مقام کربلا پر اور خبر شہادت دینا امام حسینؑ کی، ملاحظہ کریں مندرجہ بالا سطور میں

حدیث نمبر 9: ابو نعیم حضرت اصبغ بن نباتہ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم امام حسینؑ
[FONT=&amp] کی قبر کے مقام پر پہنچے تو حضرت علی کرم اللہ وجہھ نے فرمایا: یہاں ان کی سواریاں بیٹھیں گی.یہاں ان کے کجاوے رکھے جائیں گے اور یہاں ان کا خون بہے گا.آل محمد علیہم السلام کے نوجوانوں کو اس میدان میں شہید کیا جائے گا اور آسمان وزمین ان کے غم میں گریہ کناں ہوں گے[/FONT]

[FONT=&amp] الخصائص الکبریٰٰ //جلال الدین سیوطی //ج 2//ص 362//اردو ترجمہ:مقبول احمد//طبع جون 2007، جز:2 ضیاءاالقرآن باکستان//باب:اخبار شہادت امام حسین[/FONT]
[FONT=&amp][FONT=&amp][FONT=&amp]ؑ
[/FONT] [/FONT][/FONT]
[FONT=&amp]
اخبار شہادت امام حسین[/FONT]
ؑ اور حافظ بیہقی


اب ہم حافظ بیہقی کی کتاب "دلائل النبوہ " سے اخبار شہادت امام حسینؑ کو نقل کریں گے . دلائل النبوہ کتاب کے متعلق علامہ ذہبی کہتے ہیں "اس کتاب کو حرز جان بنانا چاہیئے یہ سراسر نور ھدایت ہے " (المستطرفہ ،ص 165) حافظ بیہقی باب اس طرح قائم کرتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خبر دینا اپنے نواسے ابوعبداللہ حسین بن علی بن ابی طالب
علیہم السلام کے شہید ہونے کی پھر ایسے ہی ہوا جیسے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خبر دی تھی اور اس موقع پر جو کرامات ظاھر ہوئیں جو دلالت کرتی تھیں ان کے نانا کی نبوت کی صحت پر

حدیث نمبر:1 پہلی حدیث جناب ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا سے نقل کی گئی ہے جس کے مطابق جبرئیل نے شہادت امام حسینؑ دی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اور خاک کربلا دی ، مکمل حدیث مندرجہ بالا سطور میں حافظ ابن کثیر کی تخریج میں ملاحظہ کریں حافظ بیہقی اس حدیث کا متابع بھی لائے ہیں

حدیث نمبر:2 یہ حدیث ام الفضل بنت حارث والی ہے جس کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ولادت و شہادت امام حسینؑ کی خبر دی، یہ حدیث بھی ہم اوپر نقل کر آئیں ہیں

حدیث نمبر: 3 یہ حدیث بارش کے فرشتے والی ہے جس میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شہادت امام حسینؑ کی خبر دیتا ہے اور خاک کربلا کی زیارت کراتا ہے محقق دلائل النبوہ ڈاکٹر عبدالمعطی قلعی حاشیہ میں لکھتا ہے اس روایت (بارش کے فرشتے والی) کو مسند احمد بھی نقل کیا ہے اور صاحب مجمع الزوائد کہتا ہے : اس کو طبرانی نے بھی روایت کیا ہے اور اسناد حسن ہے

حدیث نمبر: 4 ابوسلمہؓ بن عبدالرحمان کہتے ہیں کہ عائشہؓ کا ایک بالا خانہ تھا .حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب جبرئیل سے ملنے کا ارادہ کرتے تھے تو اس میں ملتے تھے .ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس پر چڑھ گئے اور عائشہؓ سے کہا کہ ان کی طرف نہ جھانک
یں، کہتے ہیں کہ اوپڑ کی سیڑھی عائشہؓ کے حجرے میں سے تھی.امام حسینؑ داخل ہوئے اور اوپر چڑھ گئے ، ان کو معلوم نہ ہو سکا حتیٰٰ کہ وہ بالا خانے میں پہنچ گئے . جبرئیل نے پوچھا یہ کون ہیں ?فرمایا یہ میرا بیٹا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام حسین
ؑ[FONT=&amp] کو پکڑ کر اپنی ران پر بٹھا لیا.جبرئیل نے کہاعنقریب اس کوآپ کی امت قتل کرے گی .رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا کہ میری امت ? انہوں نے کہا جی ہاں ! اگر آپ چاہیں تو میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس سر زمین کی خبر دوں جس میں وہ قتل کئے جائیں گے.جبرئیل نے مقام الطف عراق کی طرف اشارہ کیا اور انہوں نے سُُرخ مٹی وہاں سے لے لی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو وہ مٹی دکھا دی
[/FONT] [FONT=&amp]دلائل النبوہ //حافظ بیہقی // سفر سادس // ص 468// تحقیق:ڈاکٹر عبدالمعطی قلعی // طبع الاولی 1408 ھ ، جز 7،دارالکتب العلمیہ بیروت

[/FONT] اخبار شہادت امام حسینؑ اور ابن حجر مکی

[FONT=&amp] اب ہم ابن حجر مکی کی مشہور زمانہ کتاب صواعق المحرقہ سے شہادت امام حسین[/FONT][FONT=&amp]ؑ[/FONT][FONT=&amp] کے متعلق اخبار کی تخریج کریں گے

[/FONT] حدیث نمبر : 1 پہلی حدیث ابن سعد اور طبرانی سے عائشہؓ سے لے کر آئے ہیں جس کے مطابق جبرائیل امام حسینؑ کی شہادت کے متعلق خبر لاتے ہیں اور مقتل کی مٹی بھی دیکھاتے ہیں

حدیث نمبر:2 ابودائود اور حاکم سے ام الفضل والی روایت نقل کی گئی ہے

حدیث نمبر:3 بغوی سے انس بن مالک سے بارش کے فرشتے والی حدیث لے کر آئیں ہیں جس میں شہادت امام حسینؑ کی خبر کا ذکر ہے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد ابن حجر مکی کہتا ہے ابوحاتم نے اسے اپنی صحیح میں نقل کیا اور احمد نے بھی ایسی روایت بیان کی ہے اور عبد بن حمید اور ابن احمد نے بھی ایسی ہی ایک روایت بیان کی ہے لیکن اس میں یہ بیان ہوا کہ وہ فرشتہ جبرائیل تھا.اگر یہ صحیح ہے تو یہ دو واقعے ہیں اور دوسری میں اضافہ بھی ہوا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس مٹی کو سونگھا اور فرمایا کہ کرب و بلا کی خوشبو آتی ہے

حدیث نمبر:4 الملا کی روایت اور احمد کی زیادۃ المسند میں ہے کہ حضرت ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہ مٹی مجھے دے دی اور فرمایاا کہ یہ زمین کی مٹی ہے جہاں اسے قتل کیا جائے گا.جب یہ مٹی لہو ہو جائے تو سمجھ لینا کہ اسے قتل کر دیا گیا ہے .ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ میں نے اس مٹی کو ایک بوتل میں رکھ دیا اور میں کہا کرتی تھی کہ ایک دن یہ خون میں تبدیل ہوجائے گی .وہ بہت بڑا دن ہوگا اور ام سلمہؓ ہی روایت میں ہے کہ قتل حسینؑ کے روز میں نے اسے پکڑا تو وہ خون ہوگئی تھی

حدیث نمبر:5 ایک اور روایت میں ہے کہ پھر جبرائیل
ؑ نے کہا کیا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان کے قتل گاہ کی مٹی دکھائوں ،وہ چند مٹھیاں لے کر آئے جسے میں نے ایک بوتل میں رکھ دیا. ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ جب قتل حسینؑ کی رات آئی تومیں نے ایک کہنے والے کو کہتے سنا اے حسینؑ کو جہالت سے قتل کرنے والو! تمہیں عذاب و ذلت کی خوشخبری ہو تم پر ابن دائود، موسیٰٰ اور عیسی ٰٰ علیہم السلام کی زبان س لعنت پڑچکی ہے ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ میں رو پڑی اور میں نے بوتل کو کھولا تو مٹی خون ہو کر بہہ پڑی

حدیث نمبر: 6 ابن سعد نے شعبی سے بیان کیا ہے کہ صفین کی طرف جاتے ہوئے حضرت علی کرم اللہ وجہھ کربلا سے گزرے. یہ فرات کے کنارے نینوی ٰٰ بستی کے بالمقابل ہے آپ نے وہاں کھڑے ہو کر اس زمین کا نام پوچھا. آپ کو بتایا گیا کہ اسے کربلا کہتے ہیں تو آپ رو پڑے یہاں تک کہ آپ
ؑ کے آنسوئوں سے زمین سے تر ہوگئی، پھر فرمایا،میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رو رہے تھے.میں نے عرض کیا آپ کس وجہ سے گریہ کناں ہیں ? فرمایا: ابھی جبرائیل نے آکر مجھے خبر دی ہے کہ میرا بیٹا حسینؑ فرات کے کنارے ایک جگہ قتل ہوگا جسے کربلا کہا جاتا ہے پھر جبرائیل نے ایک مٹھی پکڑ کر مجھے سنگھائی تو میں اپنے آنسوئوں کو روک نہ سکا مسند احمد نے بھی اس کو نقل کیا مختلف الفاظ کے ساتھ، مندرجہ بالا سطور ملاحظہ کریں

حدیث نمبر: 7 اس میں وہ روایت بیان کی ہے جس میں حضرت علی کرم اللہ وجہھ قبرحسینؑ کی جگہ کے کے پاس سے گزرتے ہیں اور آل محمد
علیہم السلام کے خون بہنے کی جگہ کی نشاندہی کرتے ہیں، مکمل حدیث مندرجہ بلا سطور میں ملاحظہ کریں

حدیث نمبر : 8 ابن سعد سے روایت بیان کی ہے ، عائشہؓ کے بالا خانہ والی ، جس میں جبرائیل شہادت حسینؑ کی خبر لاتے ہیں
[FONT=&amp]

الصواعق المحرقہ // ابن حجر مکی // تحقیق:عبدالوھاب عبد الطیف//ص 192// فصل: ثالث//طبع سوم 1410 ھ ، کتب خانہ مجیدیہ ملتان پاکستان
[/FONT] نوٹ: ہم نے جو احادیث مکمل نقل نہیں کی ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مندرجہ بالا موضوعات میں ان کو مکمل نقل کر آئ
[FONT=&amp]ے ہیں ، صرف وہ روایات لکھیں جو پہلے نہیں لکھ چکے تھے

[/FONT] نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا صحابہ
ؓ کو حکم دینا کہ وہ امام حسینؑ کی نصرت کریں

حضرت انس بن حارث
ؓ ان کا شمار اہل کوفہ میں ہوتا ہے .انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ یہ میرا بیٹا(یعنی امام حسین
ؑ ) سرزمین عراق میں شہید ہوگا پس جو شخص ان کو پائے وہ ان کی مدد کرے چنانچہ یہ انس بن حارث بھی امام حسینؑ کے ساتھ شہید ہوئے متاخرین یعنی ابن مندہ نے انس بن حارث کو صحابہ میں شمار کیا ہے ،ابن مندہ کی ابوعمر نے اور ابواحمد عسکری بے بھی موافقت کی ہے، ان دونوں نے بھی کہا ہے کہ ان کا صحابی ہونا ثابت ہے اس طرح یہ روایت صاحب اسدالغابہ "حارث بن نبیہ" کے ترجمہ میں بھی لائے ہیں اور اس میں اس چیز کا اضافہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ بیان کر رہے تھے اس وقت امام حسینؑ[FONT=&amp] ان کی گود میں تھے

[/FONT]
[FONT=&amp]اُسد الغابہ // ابن اثیر// ج 1 // ص 203//اردو ترجمہ: عبدالشکور لکھنوی // طبع پاکستان//ترجہ : انس بن حارث و حارث بن نبیہ[/FONT] [FONT=&amp]الاصابہ //ابن حجر عسقلانی //ج 1// ص 69//طبع مصر //ترجمہ: انس بن حارث

[/FONT]

عاشورہ کے روز، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حالت
[FONT=&amp]عاشورہ کے روز شہادت امام حسینؑ والے دن سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور سُنت ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا
کربلا جانا، [/FONT]
[FONT=&amp][FONT=&amp]شُھدا [/FONT][/FONT][FONT=&amp][FONT=&amp][FONT=&amp]کربلا[/FONT] کی زیارت کرنا[/FONT][/FONT][FONT=&amp][FONT=&amp]،[/FONT] سارا دن شُھدا کربلا کا ذکر کرنا اور اُنکی یاد منانا، غم زدہ ہونا، گری[/FONT][FONT=&amp][FONT=&amp]ہ[/FONT] کرنا رونا، غم زدہ حالت بنانا، سر کے بالوں کو نہ سنوارنا اور سر میں خاک ڈالنا، غم حسینؑ میں چہرے اور داڑھی کو خاک آلود کرنا، خاک کربلا کی زیارت کرنا، تعزیہ داری[/FONT][FONT=&amp][FONT=&amp]، [/FONT] حضرت امام حُسین کے قاتلوں پر لعنت کرنا اور اُن سے سخت بیزار رہنا، شُھدا کربلا پر درود و سلام بھیجنا، اپنے آپ کو عزاداری حُسین میں تھکا دینا

[/FONT]

[FONT=&amp] مبارک[/FONT] [FONT=&amp]حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا عبد الرحمن ثنا حماد بن سلمة عن عمار بن أبي عمار عن ابن عباس قال رأيت النبي صلى الله عليه وسلم في المنام بنصف النهار أشعث أغبر معه قارورة فيها دم يلتقطه أو يتتبع فيها شيئا قال قلت يا رسول الله ما هذا قال دم الحسين وأصحابه لم أزل أتتبعه منذ اليوم[/FONT] [FONT=&amp]قال عمار فحفظنا ذلك اليوم فوجدنا قتل ذلك اليوم

[/FONT]
[FONT=&amp]ترجمہ
[/FONT]
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ میں نے ایک دن دوپہر (عاشور کے روز) کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خواب میں دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود تھے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھ میں خون کی ایک بوتل تھی. میں نے پوچھا: میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قربان ہوں، یہ کیا ہے ? آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: یہ حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے ، میں اسے صبح سے اکٹھا کر رہا ہوں
راوی کہتا ہے کہ حساب لگایا گیا تو حسینؑ[FONT=&amp] اسی دن شہید ہوگئے تھے

[/FONT]
یہ حدیث مبارک ، مندرجہ ذیل علماء اھل سنت نے اپنی اپنی کتب میں نقل کی ہیں [FONT=&amp]
مسند احمد بن حنبل // احمد بن حنبل//تحقیق:شعيب الأرنؤوط//ج 4،ص 59تا60//حدیث: 2165//موسستہ الرسالتہ بیروت جز:50[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کی سند کے بارے میں محقق کتاب کہتا ہے:قال شعيب الأرنؤوط : اسناده قوي على شرط مسلم[/FONT] [FONT=&amp]مسند احمد بن حنبل // احمد بن حنبل//تحقیق: أحمد شاكر//ج 4،ص26//حدیث: 2165/دارالمعارف مصر، جز:16[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کی سند کے بارے میں محقق کتاب کہتا ہے:قال أحمد شاكر : إسناده صحيح[/FONT] [FONT=&amp]مستدرک//امام حاکم //تلخیص:علامہ ذہبی//ج 4//ص 312//ح:8368//قدیمی کتب خانہ پاکستان،جز:4[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد امام حاکم کہتے ہیں :قال الحاكم : هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه[/FONT] [FONT=&amp]اور علامہ ذہبی کہتا ہے:قال الذهبي : على شرط مسلم[/FONT] [FONT=&amp]فضائل صحابہ //احمد بن حنبل //تحقیق:ڈاکٹر وصی اللہ بن محمد عباس //ج : 2 // طبع الاولیٰٰ 1403ھ ،جز2،جامعہ ام القری مکہ سعودیہ//ص778//حدیث:1380[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کی سند کے بارے میں محقق کتاب کہتا ہے:قال وصي الله بن محمد عباس : اسناده صحيح[/FONT] [FONT=&amp]اتحاف الخيرة المهرة //شہاب الدین بوصیری // ج7// ص238//ح:6754//طبع دار الوطن بیروت[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کی سند کے بار ے میں بوصیری کہتا ہے:وقال البوصيري : رواه ابو بكر بن ابي شيبة واحمد بن حنبل واحمد بن منيع وعبد بن حميد بسند صحيح[/FONT] [FONT=&amp]مجمع الزوائد // ہیثمی // محقق:عبداللہ محمد//ج 9//ص 310// ح:15141//طبع:دارالفکر بیروت،جز:10[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد ہیثمی کہتا ہے:وقال الهيثمي : رواه أحمد والطبراني ورجال احمد رجال الصحيح[/FONT] [FONT=&amp]مشکاۃ المصابیح // الخطیب تبریزی//تحقیق:ناصر الدین البانی// ج 3 //ص 1741//ح : 6172//طبع دار الکتب اسلامی[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کی سند کے بارے میں محقق کتاب کہتا ہے:قال ناصرالدین البانی : اسناده صحيح[/FONT] [FONT=&amp]تذکرۃ//قرطبی//محقق:صادق بن محمد ابراہیم //ص1120//طبع:مکتبہ دار المنھاج سعودیہ عرب[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد علامہ قرطبی کہتا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے اور سند میں کوئی طعن نہیں ہے[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کی سند کے بارے میں محقق کتاب کہتا ہے: اسناده قوي على شرط مسلم[/FONT] [FONT=&amp]البدایہ والنھایہ//ابن کثیر//محقق:عبدالمحسن ترکی//ج:11//ص 573//طبع الاولیٰٰ 1418 ھ ،جز:21 الھجر بیروت[/FONT] [FONT=&amp]ابن کثیر اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے : اسناد قوی[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کی سند کے بارے میں محقق کتاب کہتا ہے:عبدالمحسن ترکی : اسناده صحيح[/FONT] [FONT=&amp]اُسد الغابہ // ابن اثیر// ج 1 // ص 572//اردو ترجمہ: عبدالشکور لکھنوی // طبع پاکستان//ترجہ : امام حسین ع[/FONT] [FONT=&amp]الاصابہ //ابن حجر عسقلانی //ج 2// ص 17//طبع مصر //ترجمہ: امام حسین ع[/FONT] [FONT=&amp]استیعاب//ابن عبدالبر//ج 1//ص 395//طبع:بیروت//ترجمہ : امام حسین[/FONT]
[FONT=&amp][FONT=&amp][FONT=&amp]ؑ[/FONT]

[/FONT][/FONT]

حدثنا عفَّان، حدثنا حمَّاد - هو ابن سَلَمة -، أخبرنا عمَّارعن ابن عباس، قال: رأَيتُ النبيَّ صلى الله عليه وسلم فيما يَرى النائِمُ بِنصفِ النهار، وهو قائمٌ، أَشْعَثَ أغبرَ، بيدِه قارورةٌ فيها دَمٌ، فقلت: بأَبي أَنتَ وأُمي يا رسولَ الله، ما هذا؟ قال: "هذا دَمُ الحُسَينِ وأَصحابِه، لم أَزَلْ أَلْتَقِطُه منذُ اليومِ" فَأَحْصَيْنا ذلك اليومَ، فوجَدُوه قُتِل في ذلك اليومِ.

قال شعيب الأرنؤوط: إسناده قوي على شرط مسلم

أخرج أحمد في مسنده ج4 ص336-337 ح2553 طبعة مؤسسة الرسالة
وتجده أيضاً في مسند أحمد
(ج2 ص551 ح2165) و (ج3 ص155-156 ح2553) طبعة دار الحديث، القاهرة


وقال أحمد محمد شاكر في كلا الموضعين : إسناده صحيح

۔۔۔۔۔۔۔۔ ابن عباس
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ دن کا وقت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور چہرے پر تھکاوٹ ہے اور وہ گرد آلود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس ایک چھوٹی شیشی ہے جس میں خون بھرا ہے میں نے کہا میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قربان یہ کیا ہے؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: یہ خون ہے حسینؑ کا اور اصحاب حسینؑ کا جسے میں سارا دن اکٹھا کرتا رہا ہوں راوی کہتا ہے کہ حساب لگایا گیا تو حسینؑ اسی دن شہید ہوگئے تھے

اور ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بے شمار طریقوں سے یہ روایت نقل ہوئی ہے

۔1-أخرج أحمد في مسنده (ج4 ص59-60 ح2165 طبعة مؤسسة الرسالة)۔

حدثنا عبدُ الرحمن، حدثنا حماد بن سلمة، عن عمار بن أَبي عمارعن ابن عباس، قال: رأَيتُ النبيَّ صلى الله عليه وسلم في المنام بنِصْفِ النهار، أَشعثَ أَغبرَ، معه قارورةٌ فيها دمٌ يَلتَقِطُه أَو يَتَّبَّعُ فيها شيئاً، قال: قلتُ: يا رسولَ الله، ما هذا؟ قال: "دَمُ الحُسينِ وأَصحابِه، لم أَزَلْ أَتتبَّعُهُ منذُ اليومِ". قال عمار: فحَفِظْنا ذلك اليومَ، فوجدناه قُتِلَ ذلك اليومَ.قال شعيب الأرنؤوط: إسناده قوي على شرط مسلم.


وأخرج في مسنده (ج4 ص336-337 ح2553)۔۔

حدثنا عفَّان، حدثنا حمَّاد - هو ابن سَلَمة -، أخبرنا عمَّارعن ابن عباس، قال: رأَيتُ النبيَّ صلى الله عليه وسلم فيما يَرى النائِمُ بِنصفِ النهار، وهو قائمٌ، أَشْعَثَ أغبرَ، بيدِه قارورةٌ فيها دَمٌ، فقلت: بأَبي أَنتَ وأُمي يا رسولَ الله، ما هذا؟ قال: "هذا دَمُ الحُسَينِ وأَصحابِه، لم أَزَلْ أَلْتَقِطُه منذُ اليومِ" فَأَحْصَيْنا ذلك اليومَ، فوجَدُوه قُتِل في ذلك اليومِ.قال شعيب الأرنؤوط: إسناده قوي على شرط مسلم.

وتجده أيضاً في مسند أحمد (ج2 ص551 ح2165) و (ج3 ص155-156 ح2553) طبعة دار الحديث، القاهرة.
وقال أحمد محمد شاكر في كلا الموضعين : إسناده صحيح.


وأخرج في (فضائل الصحابة ج2 ص977 ح1380 طبعة دار ابن الجوزي)۔ :

حدثنا عبد الله، قال: حدثني أبي، نا عبد الرحمن، نا حماد بن سَلَمة، عن عمار هو ابن أبي عمار، عن ابن عباس، قال: "رأيتُ النبي صلى الله عليه وسلم في المنام بنصف النهار أشعث أغبر، معه قارورة فيها دم يلتقطه، أو يتتبع فيها شيئاً قلت: يا رسول الله ما هذا؟ قال: دم الحسين وأصحابه لم أزل أتتبعه منذ اليوم، قال عمار: فحفظنا ذلك اليوم فوجدناه قتل ذلك اليوم عليه السلام".قال وصي الله بن محمد عباس: إسناده صحيح.

وأخرج في (فضائل الصحابة ج2 ص978 ح1381)۔

حدثنا عبد الله، قال: حدثني أبي، قثنا عفان، نا حماد، قال: أنا عمار بن أبي عمار، عن ابن عباس، قال: "رأيت النبي صلى الله عليه وسلم فيما يرى النائم بنصف النهار قائل أشعث أغبر بيده قارورة فيها دم، فقال: بأبي أنت وأمي يا رسول الله ما هذا؟ قال: دمُ الحسين وأصحابه فلم أزل ألتقطه منذ اليوم، فأحصَيْنا ذلك اليوم فوجدوه قُتِل في ذلك اليوم عليه السلام".قال وصي الله بن محمد عباس: إسناده صحيح.


وأخرج في (فضائل الصحابة ج2 ص981 ح1389)۔

حدثنا إبراهيم بن عبد الله البصري، نا حجّاج، نا حماد، قثنا عمّار بن أبي عمار، عن ابن عباس، قال: "رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما يرى النائم بنصف النهار أغْبر أشعث بيده قارورة فيها دم، فقلت: بأبي وأمي يا رسول الله، ما هذا؟ قال: هذا دم الحسين وأصحابه لم أزل منذ اليوم ألتقطه فأُحْصِيَ ذلك اليوم فوجدوه قتل يومئذ".قال وصي الله بن محمد عباس: إسناده صحيح.


وأخرج في (فضائل الصحابة ج2 ص985 ح1396)۔

حدثنا إبراهيم، نا سُلَيمان بن حَرْب، عن حماد، عن عمّار بن أبي عمّار "أن ابن عباس رأى النبي صلى الله عليه وسلم في مَنامِه يوماً بنصف النهار وهو أشعث أغبر في يده قارورة فيها دم فقلت: يا رسول الله ما هذا الدم؟ قال: دم الحسين لم أزل ألتقطه منذ اليوم فأحْصِيَ ذلك اليوم فوجدوه قتل في ذلك اليوم
قال وصي الله بن محمد عباس: إسناده صحيح.
http://goo.gl/4eFjs


۔2- أخرج عَبْدُ بن حُمَيْد (المنتخب من مسند عبد بن حميد ج1 ص527 طبعة دار بلنسية، الرياض، المملكة العربية السعودية، الطبعة الثانية، 1423هـ - 2002م)۔

حدثنا الحسن بن موسى، ثنا حماد بن سلمة، عن عمار بن أبي عمار، عن ابن عباس قال: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم فيما يرى النائم نصف النهار أشعث أغبر معه قارورة فيها دم، فقلت: يا نبي الله، ما هذا؟! قال: "هذا دم الحسين وأصحابه، لم أزل ألتقطُهم منذ اليوم". قال: وأحصى ذلك اليوم فوجدوه قتل ذلك اليوم.قال مصطفى بن العدوي: سند حسن.



۔3- أخرج الطبراني في (المعجم الكبير ج3 ص110 ح2822 تحقيق حمدي عبد المجيد السلفي)۔

حدثنا علي بن عبد العزيز وأبو مسلم الكشي ثنا حجاج بن المنهال (ح).وحدثنا أبو مسلم الكشي ثنا سليمان بن حرب قالا ثنا حماد بن سلمة عن عمار بن أبي عمار عن ابن عباس قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما يرى النائم بنصف النهار أشعث أغبر بيده قارورة فيها دم، فقلت: بأبي أنت وأمي يا رسول الله ما هذا؟ فقال: "دَمُ الحُسَيْنِ وَأَصْحَابِهِ لَمْ أزَلْ ألْتَقِطُهُ مُنْذ اليَوْمِ" فأحصي ذلك اليوم، فوجد قد قتل يومئذ.
(7.3 M)PDF


وأخرج في (المعجم الكبير ج12 ص143-144 ح12837)۔

حدثنا علي بن عبد العزيز وأبو مسلم قالا ثنا حجاج بن المنهال (ح).وحدثنا يوسف القاضي ثنا سليمان بن حرب قالا ثنا حماد بن سلمة عن عمار بن أبي عمار عن ابن عباس قال: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم فيها يرى النائم ذات يوم نصف النهار أشعث أغبر بيده قارورة فيها دم، فقلت: بأبي أنت وأمي يا رسول الله ما هذه؟ قال: "هَذَا دَمُ الحُسَينِ وَأصْحَابِهِ لَمْ أزَلْ ألْتَقِطُهُ مُنْذُ اليَومِ" فأحصي ذلك اليوم فوجد قتل ذلك اليوم.
(8.8 M)
PDF



۔4- أخرج الحاكم في (المستدرك على الصحيحين ج4 ص397-398)۔

حدثني أبو بكر محمد بن أحمد بن بالويه ثنا بشر بن موسى الأسدي ثنا الحسن بن موسى الأشيب ثنا حماد بن سلمة عن عمار بن أبي عمار عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: رأيت النبي صلى الله عليه وآله وسلم فيما يرى النائم نصف النهار أشعث أغبر معه قارورة فيها دم فقلت: يا نبي الله ما هذا؟ قال: "هذا دم الحسين وأصحابه لم أزل ألتقطه منذ اليوم". قال: فأحصي ذلك اليوم فوجدوه قتل قبل ذلك بيوم.
قال الحاكم: هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه. ووافقه الذهبي.

۔5- قال الخطيب التبريزي في (مشكاة المصابيح ج3 ص1741-1742 ح6172 تحقيق محمد ناصر الدين الألباني)۔

"وعن ابن عبَّاس، قال: رأيتُ النبيَّ صلى الله عليه وسلم فيما يرى النائم ذاتَ يوم بنصف النهار، أشعثَ أغبرَ، بيده قارورة فيها دم، فقلت: بأبي أنتَ وأمي، ما هذا؟ قال: "هذا دم الحسين وأصحابه ، ولم أزل ألتقطه منذ اليوم" فأحصي ذلك الوقت فأجد قُتِل ذلك الوقت. رواهما البيهقي في "دلائل النبوة" وأحمد الأخير".قال الألباني: وسنده صحيح.



۔6 - أورد الذهبي في (سير أعلام النبلاء ج3 ص315)۔

"حمَّاد بن سلمة ، عن عمَّارِ بنِ أبي عمَّار ، عن ابنِ عباس : رأيتُ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم في النوم نصفَ النهار، أشعثَ أغبر ، وبيده قارورةٌ فيها دم . قلتُ : يا رسولَ الله ما هذا ؟ قال : هذا دمُ الحسين وأصحابِه ، لم أزل منذُ اليوم ألتقطُه . فأُحصي ذلك اليوم ، فوجدوه قُتِلَ يومئذ".قال المحقق: وسنده قوي كما قال الحافظ ابن كثير في "البداية" 8/200 . وهو في "تهذيب ابن عساكر" 4/343.

۔7- قال ابن كثير في (البداية والنهاية ج11 ص573)۔

"وقال الإمامُ أحمدُ: حَدَّثنا عبدُ الرحمنِ وعَفّان ، ثنا حَمَّادُ بنُ سَلَمةَ ، عن عَمَّارِ بنِ أبي عَمَّارٍ، عن ابنِ عباسٍ قال : رأيْتُ النبيَّ صلى الله عليه وسلم في المَنامِ بنِصفِ النَّهارِ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، معه قارُورةٌ فيها دمٌ، فقلتُ : بأبي أنتَ وأمي يا رسولَ اللهِ، ما هذا ؟! قال : "هذا دَمُ الحسينِ وأصحابِه ، لم أَزَلْ أَلْتَقِطُه منذ اليومِ". قال عَمَّارٌ: فأَحْصَيْنا ذلك اليومَ فوَجَدْناه قد قُتِل في ذلك اليوم. تفَرَّد به أحمدُ ، وإسنادُه قويٌّ".قال الدكتور عبد الله بن عبد المحسن التركي: إسناده صحيح
(11.4 M)PDF


۔8- قال الهيثمي في (مجمع الزوائد ج9 ص193-194، كتاب المناقب، باب مناقب الحسين بن علي)۔

"وعن ابن عباس قال: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم في المنام بنصف النهار أشعث أغبر معه قارورة فيها دم يتلقطه أويبيع فيها شيئاً فقلت: ما هذا؟ قال: دم الحسين وأصحابه فلم أزل أتتبعه منذ اليوم . رواه أحمد والطبراني ورجال أحمد رجال الصحيح".

۔9- قال البوصيري في (إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة ج7 ص238 ح6754 طبعة دار الوطن، الرياض)۔

"وعن عمار بن أبي عمار عن ابن عباس - رضي الله عنهما - قال : "رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما يرى النائم بنصف النهار وهو قائم أشعث أغبر بيده قارورة فيها دم، فقلت : بأبي أنت وأمي يا رسول الله ما هذا ؟ قال : هذا دم الحسين وأصحابه لم أزل ألتقطه منذ اليوم. قال : [فأحصينا ذلك اليوم فوجدوه قتل في ذلك اليوم]".رواه أبو بكر بن أبي شيبة وأحمد بن حنبل وأحمد بن منيع وعبد بن حميد بسند صحيح".
وفي طبعة مكتبة الرشد (ج9 ص318 ح9054)۔


۔10- قال مقبل بن هادي الوادعي في (الجامع الصحيح مما ليس في الصحيحين ج4 ص66 ح2475 طبعة دار الآثار، صنعاء، اليمن)۔

"قال الإمام أحمد رحمه الله في "فضائل الصحابة" (ج2 ص778): حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَمَّارٍ، هُوَ ابْنُ أَبي عَمَّارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم في المَنَامِ بِنِصْفِ النَّهَارِ، أَشْعَثَ أَغْبَرَ مَعَهُ قَارُورَةٌ فِيهَا دَمٌ يَلْتَقِطُهُ، أَوْ يَتَتَبَّعُ فِيهَا شَيْئاً، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا هَذَا؟ قَالَ: "دَمُ الحُسَيْنِ وَأَصْحَابِهِ، لَمْ أَزَلْ أَتَتَبَّعُهُ مُنْذُ اليَوْمِ". قَالَ عَمَّارٌ: فَحَفِظْنَا ذَلِكَ اليَوْمَ، فَوَجَدْنَاهُ قَتِلَ ذَلِكَ اليَوْمَ عليه السلام.حَدَّثَنَا عَفَّانُ بنُ مُسلِمٍ، نَا حَمَّادٌ قَالَ: أَنَا عَمَّارُ بْنُ أَبي عَمَّارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم فِيمَا يَرَى النَّائِمُ بِنِصْفِ النَّهَارِ - قَائِلٌ -، أَشْعَثَ أَغْبَرَ، بِيَدِهِ قارُورَةٌ فِيهَا دَمٌ، فَقَالَ: بِأَبي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللهِ، مَا هَذَا؟ قَالَ: "دَمُ الحُسَيْنِ وَأَصْحَابِهِ، فَلَمْ أَزَلْ أَلْتَقِطُهُ مُنْذُ اليَوْمِ" فَأَحْصَيْنَا ذَلِكَ اليَوْمَ، فَوَجَدُوهُ قُتِلَ في ذَلِكَ اليَوْمِ عليه السلام.هذا حديث صحيحٌ على شرط مسلم".


۔11- أوردَته أم شعيب الوادعية في (الصحيح المسند من فضائل أهل بيت النبوة ص80 ح106)۔

تبصرہ
ا
ن صحیح روای
ات سے واقعہ کربلا کی حقیقت معلوم ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام تنہا اس واقعہ میں شہید نہیں ہوئے بلکہ اپنے ساتھیوں سمیت شہید ہویے ہیں اور واقعہ کربلا سے بہت پہلے فرشتوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس امت کو خبر دی۔ پھر یہ بھی معلوم ہوا کہ اس واقع کی وجہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کس قدر دُکھ اور رنج پہنچا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی قبر کو چھوڑ کر کربلا چلے گئے۔ [FONT=&amp]

[/FONT] ام سلمہؓ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو عاشوراء کے روز خواب میں دیکھنا

ام سلمہ ٰؓ سے روایت ہے کہ میں نے ام المومنین ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا سے رونے کا سبب پوچھا اور کہا : کس شے نے آپ کو گریہ وزاری میں مبتلا کر دیا ہے ? آپ نے کہا : میں نے خواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کی ہے .آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سر انور اور ریش مبارک گرد آلود تھی. میں نے عرض کی، یارسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کیسی حالت بنی ہوئی ہے ? ارشاد فرمایا: میں نے ابھی ابھی حسینؑ کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے

[FONT=&amp]مندرجہ بالا روایت مندرجہ ذیل کتب اھل سنت میں موجود ہیں
[/FONT] [FONT=&amp]جامع ترمذی // ابوعیسی ٰ ترمذی //ص 1028//حدیث:3771//باب:مناقب حسن و حسین[/FONT][FONT=&amp]ؑ[/FONT][FONT=&amp] //طبع الاولیٰٰ 1426ھ ، دار الکتب العربی بیروت[/FONT] [FONT=&amp]مستدرک//امام حاکم //تلخیص:علامہ ذہبی//ج 4//ص 387//ح:6895//باب ذکر ام المومنین ام سلمہ[/FONT][FONT=&amp]ؓ[/FONT][FONT=&amp] //طبع قدیمی کتب خانہ پاکستان،جز:5[/FONT] [FONT=&amp]تہذیب التہذیب // ابن حجر عسقلانی // ج 2//ص 356//ترجمہ: امام حسین[/FONT][FONT=&amp]ؑ[/FONT][FONT=&amp] // طبع الاولی ھند[/FONT] [FONT=&amp]البدایہ والنھایہ//ابن کثیر//محقق:عبدالمحسن ترکی//ج:11//ص 574//طبع الاولیٰٰ 1418 ھ ،جز:21 الھجر بیروت

[/FONT]
ام المومنین ام ُُسلمہؓ کی کیفیت شہادت حسینؑ کو سننے کے بعد شہر بن حوشب بیان کرتے ہیں کہ میں ام المومنین ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا کہ ہم نے داد خواہ کی آواز سنی وہ ام سلمہؓ کے پاس آکر کہنے لگا، حسینؑ قتل ہوگئے ہیں ،ام سلمہؓ نے کہا: انھون نے یہ کام کر دیا ہے اللہ تعالیٰٰ ان کی قبروں یا گھروں کوآگ سے بھر دے اور بھر ام سلمہؓ غم کی شدت سے بے ہوش ہوگئیں

[FONT=&amp]البدایہ والنھایہ//ابن کثیر//محقق:عبدالمحسن ترکی//ج:11//ص 574//طبع الاولیٰٰ 1418 ھ ،جز:21 الھجر بیروت[/FONT] [FONT=&amp]تاریخ دمشق//ابن عساکر//ج 14//ص 238//طبع 1415ھ ، دارالفکر بیروت[/FONT] [FONT=&amp]مندرجہ بالا روایت کی صحت سند کے لحاظ سے حسن کے درجہ کی ہے

[/FONT]
حدیث نمبر:4 ایک اور روایت میں ہے کہ پھر جبرائیلؑ نے کہا کیا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان کے قتل گاہ کی مٹی دکھائوں ،وہ چند مٹھیاں لے کر آئے جسے میں نے ایک بوتل میں رکھ دیا. ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ جب قتل حسینؑ کی رات آئی تومیں نے ایک کہنے والے کو کہتے سنا اے حسینؑ کو جہالت سے قتل کرنے والو! تمہیں عذاب و ذلت کی خوشخبری ہو تم پر ابن دائود، موسیٰٰ اور عیسی ٰٰ علیہم السلام کی زبان س لعنت پڑچکی ہے ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ میں رو پڑی اور میں نے بوتل کو کھولا تو مٹی خون ہو کر بہہ پڑی

حدیث نمبر:
5 الملا کی روایت اور احمد کی زیادۃ المسند میں ہے کہ حضرت ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہ مٹی مجھے دے دی اور فرمایاا کہ یہ زمین کی مٹی ہے جہاں اسے قتل کیا جائے گا.جب یہ مٹی لہو ہو جائے تو سمجھ لینا کہ اسے قتل کر دیا گیا ہے .ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ میں نے اس مٹی کو ایک بوتل میں رکھ دیا اور میں کہا کرتی تھی کہ ایک دن یہ خون میں تبدیل ہوجائے گی .وہ بہت بڑا دن ہوگا اور ام سلمہؓ ہی روایت میں ہے کہ قتل حسینؑ کے روز میں نے اسے پکڑا تو وہ خون ہوگئی تھی

الصواعق المحرقہ // ابن حجر مکی // تحقیق:عبدالوھاب عبد الطیف//ص 192// فصل: ثالث//طبع سوم 1410 ھ ، کتب خانہ مجیدیہ ملتان پاکستان


آسمان و زمین کا رونا

44_29.png
Sahih International
And the heaven and earth wept not for them, nor were they reprieved.

Urdu
سو ان پر نہ تو آسمان وزمین روئے اور نہ انہیں مہلت ملی


آسمان و زمین شھدا کربلاؑ کے غم میں گریہ کناں ہوں گے
حدیث نمبر 9: ابو نعیم حضرت اصبغ بن نباتہ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم امام حسینؑ[FONT=&amp] کی قبر کے مقام پر پہنچے تو حضرت علی کرم اللہ وجہھ نے فرمایا: یہاں ان کی سواریاں بیٹھیں گی.یہاں ان کے کجاوے رکھے جائیں گے اور یہاں ان کا خون بہے گا.آل محمد علیہم السلام کے نوجوانوں کو اس میدان میں شہید کیا جائے گا اورآسمان وزمین ان کے غم میں گریہ کناں ہوں گے

[/FONT]
[FONT=&amp] الخصائص الکبریٰٰ //جلال الدین سیوطی //ج 2//ص 362//اردو ترجمہ:مقبول احمد//طبع جون 2007، جز:2 ضیاءاالقرآن باکستان//باب:اخبار شہادت امام حسین[/FONT][FONT=&amp][FONT=&amp][FONT=&amp]ؑ

[/FONT][/FONT][/FONT]

آخر میں، میں اپنے قارئین کے لیے صحیح روایات سے حضرت علی کرم اللہ وجہھ کے اس فقرہ کی وضاحت کرتا چلوں جس میں آپ فرماتے ہیں کہ زمین و آسمان حضرت امام حسینؑ کی شہادت پر نوحہ کناں ہوں گے

ما رُفِعَ بالشَّامِ حَجَرٌ يومَ قُتِلَ الحسينِ بنِ عليٍّ إلَّا عن دمٍ
الراوي: محمد بن مسلم بن شهاب الزهري المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 9/199
خلاصة حكم المحدث: رجاله رجال الصحيح‏‏

قال لي عبدُ الملكِ أيُّ واحدٍ أنت إنْ أعلمتَني أيَّ علامةٍ كانت يومَ قُتِلَ الحُسَينُ بنُ عليٍّ فقال قلْتُ لم تُرفَعْ حَصاةٌ ببيتِ المقدسِ إلَّا وُجِدَ تحتَها دمٌ عَبيطٌ فقال لي عبدُ الملكِ إنِّي وإيَّاك في هذا الحديثِ لَقرينان
الراوي: محمد بن مسلم بن شهاب الزهري المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 9/199
خلاصة حكم المحدث: رجاله ثقات

ما رُفع بالشامِ حجرٌ يومَ قُتل الحسينُ إلا عن دمٍ

الراوي: محمد بن مسلم بن عبيدالله المحدث: ابن الوزير اليماني - المصدر: العواصم والقواصم - الصفحة أو الرقم: 8/55
خلاصة حكم المحدث: رجاله رجال الصحيح

ما رُفِعَ حجرٌ بالشَّامِ يومَ قُتِلَ الحسَينُ بنُ عليٍّ إلَّا عن دمٍ
الراوي: محمد بن مسلم بن عبيدالله المحدث: الشوكاني - المصدر: در السحابة - الصفحة أو الرقم: 236
خلاصة حكم المحدث: إسناده رجاله رجال الصحيح

قالَ لي عبدُ الملكِ بنُ مرْوانَ أيُّ واحدٍ أنتَ إن أعلَمتَني أيُّ علامةٍ كانت يومَ قتلِ الحسينِ بنِ عليٍّ؟ قلتُ لم تُرفَعْ حصاةٌ ببيتِ المقدسِ إلَّا وُجِدَ تحتَها دمٌ عبيطٍ فقالَ لي عبدُ الملكِ إنِّي وإيَّاكَ في هذا الحديثِ لقرينانِ
الراوي: محمد بن مسلم بن عبيدالله المحدث: الشوكاني - المصدر: در السحابة - الصفحة أو الرقم: 235
خلاصة حكم المحدث: إسناده رجاله ثقات

لما قتل الحسين بن علي انكسفت الشمس كسفة حتى بدت الكواكب نصف النهار حتى ظننا أنها هي
الراوي: أبو قبيل المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 9/200
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن‏‏

لما قتل الحسين بن علي انكسفت الشمس كسفة حتى بدت الكواكب نصف النهار حتى ظننا أنها هي

الراوي: أبو قبيل المحدث: الشوكاني - المصدر: در السحابة - الصفحة أو الرقم: 236
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن

لما قُتل الحسينُ انكسفتِ الشمسُ كسفةً حتى بدتِ الكواكبُ نصفَ النهارِ حتى ظننَّا أنها هي
الراوي: أبو قبيل حيي بن هانئ المعافري المحدث: ابن الوزير اليماني - المصدر: العواصم والقواصم - الصفحة أو الرقم: 8/55
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن وله شواهد

عن أم حكيم قالت: قتل الحسين فمكثت السماء أياما مثل العلقة
.
الراوي: - المحدث: ابن الوزير اليماني - المصدر: العواصم والقواصم - الصفحة أو الرقم: 8/55
خلاصة حكم المحدث: رجاله رجال الصحيح

ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے
کہ حضرت امام حسینؑ کے قتل والے دن شام میں اور بیت المقدس میں جس پتھر کو بھی اُٹھایا گیا اُس کے نیچے سے خون جاری ہو گیا اور اُس دن اتنا سخت (مکمل) سورج گرہن لگا کہ دوپہر کو آسمان پر تارے نظر آنے لگے اور آسمان کئی دنوں تک سُرخی مائل رہا اور لوگ گمان کرنے لگے کہ قیامت آنے والی ہے۔
rlcf1s.jpg


 

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
ان تمام باتوں نے مجھے واقعہ کربلا پر مزید ڈھونڈنے پر مجبور کیا کہ معلوم کروں کہ اخر واقعہ کربلا کی حقیقت کیا ہے.اس پر میں حدیث کی ایک اولین کتابوں میں سے ایک کتاب موطا امام مالک کو کھنگالا لیکن اس میں بھی واقعہ کربلا سے مطلق کوئی روایت نہیں ہے

ذیل میں محمد علی مرزا کے ریسرچ پیپرز سے واقعہ کربلا پر 5 احادیث کا سکرین شاٹ پیش خدمت ہے۔ جن مقالوں سے یہ احادیث لی گئی ہیں اُن کا لنک بھی نیچے درج ہے۔
Karbala.png



 
Last edited:

Paki Thinker

Voter (50+ posts)
Thanks for your research and findings that there is no kerbala tragedy and all is fiction. My dear brother, in your research you could not find any solid reference of kerbala in history books so came up with this result after 1400yrs that no such things happened in the past. Brother in your research, did you collect the data how many religious scholars of each sects deny this incident?Are they over 90% or less than 1%. If answer is the second one then, I am sorry, your whole research is not that useful.
Obviously this tragedy was happened but the details can be debatable like world war 2 happened without any doubt however details like what actually happened with jews may have different perspectives.
 
Status
Not open for further replies.