چیف جسٹس آفس کے "ون مین شو" کا سلسلہ ختم کیا جائے،اختلافی فیصلے کامتن

14cjmansormandokhlel.jpg

عدالت کا اصل دائرہ اختیار غیرمعمولی ہے جس کا استعمال صرف بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے خاص موقعوں پر استعمال کیا جا سکتا ہے: اختلافی فیصلہ

سپنجاب وخیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا گیا ہے۔

جس کے مطابق پنجاب وخیبرپختونخوا صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق درخواست مسترد اور اور لاہور وپشاور ہائیکورٹس کو زیر التوا درخواستوں پر 3 روز میں فیصلہ کرنے کی ہدایات کر دی گئی ہیں۔ تفصیلی فیصلے کے مطابق الیکشن ازخود نوٹس 4 ججز نے مسترد کر دیا ہے جبکہ آرڈر آف کورٹ 4-3 کا فیصلہ ہے۔


الیکشن ازخود نوٹس کیس میں جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کو ایک شخص فیصلوں پر نہیں چھوڑ سکتے، چیف جسٹس کے "ون مین پاور شو" کے اختیار پر نظرثانی کرنی ہو گی۔ وقت آ چکا ہے کہ چیف جسٹس آفس کے "ون مین شو" کا سلسلہ ختم کیا جائے، اس حوالے سے فل کورٹ پالیسی بنانی ہو گی۔

کسی کیس میں ایک بار کازلسٹ جاری ہونے کے بعد بینچ تبدیل نہیں ہو سکتا۔

فیصلے کے مطابق ججوں کی صلاحیت یا سہولت اور تنازعہ کی نوعیت نہیں بلکہ آئین اور قوانین سے عدالت کے دائرہ اختیار کا تعین ہوتا ہے، جب ججز کی صلاحیتیں اور سہولت غالب آ جائیں تو سامراجی سپریم کورٹ کا تصور ابھرتا ہے۔ فیصلے میں پروفیسر مارک اے لیملی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا کہ گزشتہ چند سالوں میں امریکی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں سے انتظامیہ، کانگریس اور چھوٹی عدالتوں کی طاقت کو بھی غصب کر لیا ہے۔

امریکی سپریم کورٹ کے اداروں کے اختیارات غصب کرنے سے یہ فوری خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ آئینی نظام کو نقصان پہنچائے گی جبکہ اس کے دوررس خطرہ اس سے مختلف ہو سکتا ہے۔
عوام کی نظروں میں عدالت کے سیاسی ادارے میں تبدیل ہونے سے اس کے فیصلوں کی قانونی حیثیت اور اعتبار کو نقصان پہنچے گا۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ ہماری سپریم کورٹ اپنے فیصلوں کے ذریعے حکومت، پارلیمنٹ اور صوبائی ہائیکورٹس کے اختیارات کو سلب کرنے کے ساتھ سامراجی سپریم کورٹ نہ بن جائے۔

ہمیں جو دائرہ اختیار دیا گیا ہے اس کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا ہو گا، اس سے زیادہ نہیں کہ جو دیا گیا ہے۔ازخود نوٹس کیس سے منسلک آئینی درخواستیں عدالت کو آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اپنے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کا کہتی ہیں ، یہ معاملات پہلے ہی صوبائی ہائیکورٹس میں زیرالتوا ہیں اور ایک کیس میں صوبائی ہائیکورٹ فیصلہ کر چکی ہے جس پر قانون کو دیکھنا ہو گا۔

فیصلے کے مطابق بہت ضروری ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت جائزہ لینا ہو گا کہ صوابدیدی دائرہ اختیار عدالتی حد سے تجاوز کے زمرے میں تو نہیں آتا۔ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس عدالت کا اصل دائرہ اختیار صوابدیدی کے علاوہ خصوصی اور غیرمعمولی بھی ہے جس کا استعمال صرف بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے خاص موقعوں پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

عدالت کے اس غیرمعمولی اختیار کو بار بار استعمال کرنے سے ادارے کے غیرجانبدار ہونے کے عوامی امیج کو نقصان پہنچتا ہے۔ ادارے پر عوامی اعتماد کے فقدان کے باعث عدالت اپنے کاموں کو انجام دینے کے لیے قانونی جواز کھو دیتی ہے۔ عدالت کی قانونی حیثیت ادارے کے لیے نہیں بلکہ عوام کیلئے ہوتی ہے جس کے سامنے وہ ذمہ دار ہے۔
 

Islamabadiya

Chief Minister (5k+ posts)
Had this been taken care of decades ago, Pak would have been in a better state today

These adventurous and at times corrupt babay judges have ruined our country with their idiotic notices and decisions

Dam baba rehmatay lol
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)

بس نام یاد سکھیں اور جہاں نظر آئین ان کے ساتھ میاں سانپ آف گنج پورہ والا حال کریں جو اس کے ساتھ لندن میں روز ہوتا ہے
 

Melanthus

Chief Minister (5k+ posts)
This is not the judgment of full court.This judgment by three disgruntled judges is not binding on anyone.The establishment is using these judges to weaken SC court.Pakistan has gone down the drain because of dollar generals.
 

imalam

MPA (400+ posts)
Fair point. So should be the Army chief. He shouldn't be one who run the whole army. Navy and Air force should also have the exact powers. There should be amendments that any officer who see an order unlawful, he should have the right to reject it. Court should have the ultimate power and the judges should have a PCS exame and a tough one if any one want to succeed
 
Last edited:

Zulu76

MPA (400+ posts)
14cjmansormandokhlel.jpg

عدالت کا اصل دائرہ اختیار غیرمعمولی ہے جس کا استعمال صرف بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے خاص موقعوں پر استعمال کیا جا سکتا ہے: اختلافی فیصلہ

سپنجاب وخیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا گیا ہے۔

جس کے مطابق پنجاب وخیبرپختونخوا صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق درخواست مسترد اور اور لاہور وپشاور ہائیکورٹس کو زیر التوا درخواستوں پر 3 روز میں فیصلہ کرنے کی ہدایات کر دی گئی ہیں۔ تفصیلی فیصلے کے مطابق الیکشن ازخود نوٹس 4 ججز نے مسترد کر دیا ہے جبکہ آرڈر آف کورٹ 4-3 کا فیصلہ ہے۔


الیکشن ازخود نوٹس کیس میں جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کو ایک شخص فیصلوں پر نہیں چھوڑ سکتے، چیف جسٹس کے "ون مین پاور شو" کے اختیار پر نظرثانی کرنی ہو گی۔ وقت آ چکا ہے کہ چیف جسٹس آفس کے "ون مین شو" کا سلسلہ ختم کیا جائے، اس حوالے سے فل کورٹ پالیسی بنانی ہو گی۔

کسی کیس میں ایک بار کازلسٹ جاری ہونے کے بعد بینچ تبدیل نہیں ہو سکتا۔

فیصلے کے مطابق ججوں کی صلاحیت یا سہولت اور تنازعہ کی نوعیت نہیں بلکہ آئین اور قوانین سے عدالت کے دائرہ اختیار کا تعین ہوتا ہے، جب ججز کی صلاحیتیں اور سہولت غالب آ جائیں تو سامراجی سپریم کورٹ کا تصور ابھرتا ہے۔ فیصلے میں پروفیسر مارک اے لیملی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا کہ گزشتہ چند سالوں میں امریکی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں سے انتظامیہ، کانگریس اور چھوٹی عدالتوں کی طاقت کو بھی غصب کر لیا ہے۔

امریکی سپریم کورٹ کے اداروں کے اختیارات غصب کرنے سے یہ فوری خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ آئینی نظام کو نقصان پہنچائے گی جبکہ اس کے دوررس خطرہ اس سے مختلف ہو سکتا ہے۔
عوام کی نظروں میں عدالت کے سیاسی ادارے میں تبدیل ہونے سے اس کے فیصلوں کی قانونی حیثیت اور اعتبار کو نقصان پہنچے گا۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ ہماری سپریم کورٹ اپنے فیصلوں کے ذریعے حکومت، پارلیمنٹ اور صوبائی ہائیکورٹس کے اختیارات کو سلب کرنے کے ساتھ سامراجی سپریم کورٹ نہ بن جائے۔

ہمیں جو دائرہ اختیار دیا گیا ہے اس کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا ہو گا، اس سے زیادہ نہیں کہ جو دیا گیا ہے۔ازخود نوٹس کیس سے منسلک آئینی درخواستیں عدالت کو آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اپنے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کا کہتی ہیں ، یہ معاملات پہلے ہی صوبائی ہائیکورٹس میں زیرالتوا ہیں اور ایک کیس میں صوبائی ہائیکورٹ فیصلہ کر چکی ہے جس پر قانون کو دیکھنا ہو گا۔

فیصلے کے مطابق بہت ضروری ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت جائزہ لینا ہو گا کہ صوابدیدی دائرہ اختیار عدالتی حد سے تجاوز کے زمرے میں تو نہیں آتا۔ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس عدالت کا اصل دائرہ اختیار صوابدیدی کے علاوہ خصوصی اور غیرمعمولی بھی ہے جس کا استعمال صرف بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے خاص موقعوں پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

عدالت کے اس غیرمعمولی اختیار کو بار بار استعمال کرنے سے ادارے کے غیرجانبدار ہونے کے عوامی امیج کو نقصان پہنچتا ہے۔ ادارے پر عوامی اعتماد کے فقدان کے باعث عدالت اپنے کاموں کو انجام دینے کے لیے قانونی جواز کھو دیتی ہے۔ عدالت کی قانونی حیثیت ادارے کے لیے نہیں بلکہ عوام کیلئے ہوتی ہے جس کے سامنے وہ ذمہ دار ہے۔
Two ISI/ PLMN ASSETS DOING ANTI PAKISTAN ANTI ISLAM TREASON. WITH OUT THESE BASTARDS, DO YOU THINK ZARDARIS, SHAREEFS, MONEY LAUNDERING ILLITERATE GANG COULD HAVE SURVIVED?
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
مجھے تو یہ ساری باتیں رفیق تارڑ کا مشن کوئٹہ پارٹ ٹو لگتا ہے۔
ارے جب جسٹس نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن نےبینچ سے علیحدگی اختیار کی تو بینچ تو ٹوٹ گیا۔ اب آگے چیف جسٹس کا اختیار ہے کہ وہ کیسا بنچ بناتا ہے۔ میرا خیال یہ دونوں اختلافی نوٹ لکھنے والے جج صاحبان یہ کہنا چاہتے ہیں کہ چیف جسٹس لارجز بینچ کی تشکیل ہم سے پوچھ کر کریں۔
 

Siberite

Chief Minister (5k+ posts)
مجھے تو یہ ساری باتیں رفیق تارڑ کا مشن کوئٹہ پارٹ ٹو لگتا ہے۔
ارے جب جسٹس نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن نےبینچ سے علیحدگی اختیار کی تو بینچ تو ٹوٹ گیا۔ اب آگے چیف جسٹس کا اختیار ہے کہ وہ کیسا بنچ بناتا ہے۔ میرا خیال یہ دونوں اختلافی نوٹ لکھنے والے جج صاحبان یہ کہنا چاہتے ہیں کہ چیف جسٹس لارجز بینچ کی تشکیل ہم سے پوچھ کر کریں۔
They are telling CJ and you that we should avoid Judicial Imperialism in the country. One man shows, either in armed forces or in Supreme court have brought disaster for the country.
 

sensible

Chief Minister (5k+ posts)
They are telling CJ and you that we should avoid Judicial Imperialism in the country. One man shows, either in armed forces or in Supreme court have brought disaster for the country.
جو اختیارات ون مین شو چلانے کے چیف جسٹس کو ديے وہ پارلیمنٹ سے آئے۔ اس نے خود سے تو نہیں بنائے ۔پارلیمنٹ قانون بدل دے۔لیکن بندیال کو تو کوئ فرق نہیں پڑے گا یہ اختیارات مریمانڈوز ججز کے کم ہونگے فائز عیسی کے اور ان روٹھے ہوئے پٹواری ججوں کے بھی
 

Siberite

Chief Minister (5k+ posts)
جو اختیارات ون مین شو چلانے کے چیف جسٹس کو ديے وہ پارلیمنٹ سے آئے۔ اس نے خود سے تو نہیں بنائے ۔پارلیمنٹ قانون بدل دے۔لیکن بندیال کو تو کوئ فرق نہیں پڑے گا یہ اختیارات مریمانڈوز ججز کے کم ہونگے فائز عیسی کے اور ان روٹھے ہوئے پٹواری ججوں کے بھی
The discretionary power of the CJ to constitute the desire bench has been extracted from the Judiciary rules. It was not taken from any parliament law.
Parliament has never given CJ the power to constitute any bench. Your knowledge about the Constitution is as same as your knowledge of the country's law.