سائنسدان
Senator (1k+ posts)
شریف برادران کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ وکیل نہیں کرتے جج کرلیتے ہیں۔ اب تو ان کے بارے میں یہ مشہور ہورہا ہے کہ یہ جج نہیں کرتے بلکہ ساری عدلیہ ہی خریدلیتے ہیں۔
یہ 1990 کی بات ہے جب غلام اسحاق خان نے اسمبلیاں توڑ کر بے نظیر کی حکومت گرادی، بے نظیر سپریم کورٹ چلی گئی عدالت نے فیصلہ غلام اسحاق خان کا فیصلہ برقرار رکھا اور فیصلہ بے نظیر کے خلاف کردیا۔ پھر نوازشریف کی حکومت آئی تو غلام اسحاق خان نےنوازشریف کی حکومت کو بھی گھر بھیج دیا جس پر نوازشریف بھی سپریم کورٹ چلے گئے۔ اس وقت کے سپریم کورٹ کے جج جسٹس نسیم حسن شاہ نے فیصلہ نوازشریف کے حق میں کردیا اورا سمبلیاں بحال کردیں۔ سپریم کورٹ کے نوازشریف کے حق میں فیصلے کو بے نظیر نے "چمک" کا نتیجہ قراردیدیا اور شکوہ کیا کہ عدالتوں کا فیصلہ ایک پنجابی وزیراعظم کیلئے اور ہے اور سندھی وزیراعظم کیلئے اور ہے۔
نوازشریف دوبارہ وزیراعظم کے عہدے پر براجمان ہوگئے مگر کچھ ہی عرصہ بعد اس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ نے غلام اسحاق خان اور نوازشریف دونوں کو ہی گھر بھجوادیا۔ بعد میں نسیم حسن شاہ نے نوازشریف سے شکوہ کیاکہ اگر آپ نے گھر ہی جانا تھا تو ہم سے یہ فیصلہ کیوں لیا؟ 1996 میں فاروق لغاری نے بے نظیر کی حکومت کو گھر بھیجا تو عدالت نے بے نظیر کی درخواست ریجیکٹ کردی اور فیصلہ بے نظیر کے خلاف دیدیا۔
پھر جب 1997 میں نوازشریف کی حکومت آئی تو جسٹس سجاد علی شاہ چیف جسٹس تھے۔ نوازشریف کا خیال تھا کہ یہ پیپلزپارٹی کے حمایتی ہیں اوراور جب نوازشریف کو خدشہ پیدا ہوا کہ جسٹس سجاد علی شاہ نوازشریف کے خلاف فیصلہ کردے گاتو نوازشریف کے ایماء پر سپریم کورٹ پر چڑھائی کردی گئی۔
آصف زرداری کرپشن میں ملوث تو تھا ہی لیکن شریف برادران آصف زرداری کو سبق سکھانے کیلئے ججوں کو استعمال کرتے رہے اور جسٹس قیوم کی مدد سے آصف زرداری کے خلاف فیصلے کرواتے رہے اور ایک ٹیپ بھی منظرعام پر آئی جس کیو جہ سے آصف زرداری کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ اسے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہاہے اور آصف زرداری کی کرپشن کے کیسز ہی مشکوک ہوگئے۔
اسحاق ڈار نے نیب کے سامنے نوازشریف کیلئے منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا اور اسکا اعترافی بیان آج بھی ریکارڈ پر ہے لیکن اس پر کسی عدالت نے کاروائی نہیں کی اور نوازشریف اس الزام کے باوجود حکومت کرتے رہے۔
جیسے ہی شریف برادران وطن واپس لوٹے تو شہبازشریف نے وزیراعلیٰ بننے اور صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کیلئے عدالتوں سے سبزہ زار کیس میں کلین چٹ لی اور سبزہ زار کیس کے متاثرین جو کئی سالوں سے انصاف کے منتظر تھے چیختےرہ گئے۔
اسی طرح شہبازشریف کی صوبائی اسمبلی سے نااہلی کا کیس تھا جس پر لاہور ہائیکورٹ نے شہبازشریف کو سٹے آرڈر دئیے رکھااور شہباز شریف اس سٹے آرڈر پر 5 سال حکومت کرتے رہے۔
سپریم کورٹ نے نوازشریف کو طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں بھی کلین چٹ دیدی اور نوازشریف کو بری کردیا حالانکہ اسی کیس میں اسی عدالت نے نوازشریف کو عمر قید کی سزا دی تھی۔
پیپلزپارٹی کی کرپشن پر روزانہ سوموٹو لینے والے افتخار چوہدری کے پاس جب نندی پور میں کرپشن کا کیس آیا تو افتخارچوہدری نے یہ کیس حکومت کو ریفر کردیا کہ اسکی انکوائری خود ہی کرلیں حالانکہ یہ کیس ہی حکومت کے خلاف تھا
سانحہ ماڈل ٹاؤن میں رانا ثناء اللہ اور شہباز شریف نے 14 قتل کروادئیے لیکن ان دونوں کو کلین چٹ دیدی گئی۔ سپریم کورٹ نے اس پر لواحقین کو آج تک انصاف نہیں ملا۔ دھاندلی کے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ منظرعام پر آگئی لیکن اس کمیشن کی رپورٹ منظرعام پر نہ آسکی۔
دھاندلی کے جوڈیشل کمیشن کے ججوں پر عمران خان نے اعتماد کا اظہار کیا لیکن اس کمیشن نے دھاندلی ثابت ہونے کے باوجود شریف برادران کے حق میں فیصلہ دیدیا۔ عدالت میں فارم 15 پر کئی دن بحث ہوتی رہی۔ تھیلے کھلوائے گئے، ایکسٹرا بیلٹ پیپرز پر بحث ہوتی رہی، ایکسٹرا بیلٹ پیپرز کی چھپائی بھی ثابت ہوگئی، 35 فیصد حلقوں کے فارم 15 بھی غائب، ہزاروں تھیلے کھلے پائے گئے۔ سینکڑوں تھیلے غائب پائے گئے ، نجم سیٹھی نے اعتراف کرلیا کہ اسکے پاس آخری دس دن کوئی پاور نہیں تھی تمام پاورز رائیونڈ منتقل ہوگئی تھیں۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نے بھی پاور نہ ہونے کا اعتراف کیا اور اپنے بھائی کیساتھ ہونیوالی دھاندلی کا الزام لگایا ، تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، ق لیگ، جماعت اسلامی، بی این پی مینگل سمیت آزاد امیدواروں سب نے دھاندلی کے ثبوت دئیے، نادرا کی 40 حلقوں کی دھاندلی کی رپورٹ پیش کی گئی لیکن عدالت نے کہا کہ صاف شفاف تھے۔عدالت نے سیاسی جماعتوں کی طرف سے دئیے گئے ثبوتوں کو کھول کر بھی نہ دیکھا اور نہ ہی اپنی رپورٹ میں تذکرہ کیا۔کمیشن نے تو کراچی اور بلوچستان میں بھی الیکشن کو صاف شفاف قراردیدیا جہاں الیکشن ہوئے ہی نہیں۔کراچی الیکشن کے بارے میں سیکرٹری الیکشن کمیشن نے الیکشن والے دن ہی کہہ دیا تھا کہ کراچی میں الیکشن نہیں ہوئے۔
مگر اس سب کے باوجود الیکشن صاف شفاف قرار دے دئیے گئے لیکن عوام یہ فیصلہ قبول کرنے کو تیار نہیں۔ عوام ابھی بھی یہ سمجھتی ہے کہ شریف برادران نے وکیلوں کی بجائے جج ہی کرلئے ہیں۔ شریف برادران کی چمک آج بھی اسی طرح قائم ہے جیسی آج سے 22 سال پہلے تھی۔
میرے خیال سے اب عمران خان او ر عمران خان کے ساتھ ساتھ ان سیاسی جماعتوں کو معافی مانگ لینی چاہئے جن کا خیال ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے اور اس عوام کو بھی جو یہ سمجھتی ہے کہ الیکشن دھاندلی شدہ تھے اور ان کا مینڈیٹ چوری ہوا ہے۔
یہ 1990 کی بات ہے جب غلام اسحاق خان نے اسمبلیاں توڑ کر بے نظیر کی حکومت گرادی، بے نظیر سپریم کورٹ چلی گئی عدالت نے فیصلہ غلام اسحاق خان کا فیصلہ برقرار رکھا اور فیصلہ بے نظیر کے خلاف کردیا۔ پھر نوازشریف کی حکومت آئی تو غلام اسحاق خان نےنوازشریف کی حکومت کو بھی گھر بھیج دیا جس پر نوازشریف بھی سپریم کورٹ چلے گئے۔ اس وقت کے سپریم کورٹ کے جج جسٹس نسیم حسن شاہ نے فیصلہ نوازشریف کے حق میں کردیا اورا سمبلیاں بحال کردیں۔ سپریم کورٹ کے نوازشریف کے حق میں فیصلے کو بے نظیر نے "چمک" کا نتیجہ قراردیدیا اور شکوہ کیا کہ عدالتوں کا فیصلہ ایک پنجابی وزیراعظم کیلئے اور ہے اور سندھی وزیراعظم کیلئے اور ہے۔
نوازشریف دوبارہ وزیراعظم کے عہدے پر براجمان ہوگئے مگر کچھ ہی عرصہ بعد اس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ نے غلام اسحاق خان اور نوازشریف دونوں کو ہی گھر بھجوادیا۔ بعد میں نسیم حسن شاہ نے نوازشریف سے شکوہ کیاکہ اگر آپ نے گھر ہی جانا تھا تو ہم سے یہ فیصلہ کیوں لیا؟ 1996 میں فاروق لغاری نے بے نظیر کی حکومت کو گھر بھیجا تو عدالت نے بے نظیر کی درخواست ریجیکٹ کردی اور فیصلہ بے نظیر کے خلاف دیدیا۔
پھر جب 1997 میں نوازشریف کی حکومت آئی تو جسٹس سجاد علی شاہ چیف جسٹس تھے۔ نوازشریف کا خیال تھا کہ یہ پیپلزپارٹی کے حمایتی ہیں اوراور جب نوازشریف کو خدشہ پیدا ہوا کہ جسٹس سجاد علی شاہ نوازشریف کے خلاف فیصلہ کردے گاتو نوازشریف کے ایماء پر سپریم کورٹ پر چڑھائی کردی گئی۔
آصف زرداری کرپشن میں ملوث تو تھا ہی لیکن شریف برادران آصف زرداری کو سبق سکھانے کیلئے ججوں کو استعمال کرتے رہے اور جسٹس قیوم کی مدد سے آصف زرداری کے خلاف فیصلے کرواتے رہے اور ایک ٹیپ بھی منظرعام پر آئی جس کیو جہ سے آصف زرداری کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ اسے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہاہے اور آصف زرداری کی کرپشن کے کیسز ہی مشکوک ہوگئے۔
اسحاق ڈار نے نیب کے سامنے نوازشریف کیلئے منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا اور اسکا اعترافی بیان آج بھی ریکارڈ پر ہے لیکن اس پر کسی عدالت نے کاروائی نہیں کی اور نوازشریف اس الزام کے باوجود حکومت کرتے رہے۔
جیسے ہی شریف برادران وطن واپس لوٹے تو شہبازشریف نے وزیراعلیٰ بننے اور صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کیلئے عدالتوں سے سبزہ زار کیس میں کلین چٹ لی اور سبزہ زار کیس کے متاثرین جو کئی سالوں سے انصاف کے منتظر تھے چیختےرہ گئے۔
اسی طرح شہبازشریف کی صوبائی اسمبلی سے نااہلی کا کیس تھا جس پر لاہور ہائیکورٹ نے شہبازشریف کو سٹے آرڈر دئیے رکھااور شہباز شریف اس سٹے آرڈر پر 5 سال حکومت کرتے رہے۔
سپریم کورٹ نے نوازشریف کو طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں بھی کلین چٹ دیدی اور نوازشریف کو بری کردیا حالانکہ اسی کیس میں اسی عدالت نے نوازشریف کو عمر قید کی سزا دی تھی۔
پیپلزپارٹی کی کرپشن پر روزانہ سوموٹو لینے والے افتخار چوہدری کے پاس جب نندی پور میں کرپشن کا کیس آیا تو افتخارچوہدری نے یہ کیس حکومت کو ریفر کردیا کہ اسکی انکوائری خود ہی کرلیں حالانکہ یہ کیس ہی حکومت کے خلاف تھا
سانحہ ماڈل ٹاؤن میں رانا ثناء اللہ اور شہباز شریف نے 14 قتل کروادئیے لیکن ان دونوں کو کلین چٹ دیدی گئی۔ سپریم کورٹ نے اس پر لواحقین کو آج تک انصاف نہیں ملا۔ دھاندلی کے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ منظرعام پر آگئی لیکن اس کمیشن کی رپورٹ منظرعام پر نہ آسکی۔
دھاندلی کے جوڈیشل کمیشن کے ججوں پر عمران خان نے اعتماد کا اظہار کیا لیکن اس کمیشن نے دھاندلی ثابت ہونے کے باوجود شریف برادران کے حق میں فیصلہ دیدیا۔ عدالت میں فارم 15 پر کئی دن بحث ہوتی رہی۔ تھیلے کھلوائے گئے، ایکسٹرا بیلٹ پیپرز پر بحث ہوتی رہی، ایکسٹرا بیلٹ پیپرز کی چھپائی بھی ثابت ہوگئی، 35 فیصد حلقوں کے فارم 15 بھی غائب، ہزاروں تھیلے کھلے پائے گئے۔ سینکڑوں تھیلے غائب پائے گئے ، نجم سیٹھی نے اعتراف کرلیا کہ اسکے پاس آخری دس دن کوئی پاور نہیں تھی تمام پاورز رائیونڈ منتقل ہوگئی تھیں۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نے بھی پاور نہ ہونے کا اعتراف کیا اور اپنے بھائی کیساتھ ہونیوالی دھاندلی کا الزام لگایا ، تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، ق لیگ، جماعت اسلامی، بی این پی مینگل سمیت آزاد امیدواروں سب نے دھاندلی کے ثبوت دئیے، نادرا کی 40 حلقوں کی دھاندلی کی رپورٹ پیش کی گئی لیکن عدالت نے کہا کہ صاف شفاف تھے۔عدالت نے سیاسی جماعتوں کی طرف سے دئیے گئے ثبوتوں کو کھول کر بھی نہ دیکھا اور نہ ہی اپنی رپورٹ میں تذکرہ کیا۔کمیشن نے تو کراچی اور بلوچستان میں بھی الیکشن کو صاف شفاف قراردیدیا جہاں الیکشن ہوئے ہی نہیں۔کراچی الیکشن کے بارے میں سیکرٹری الیکشن کمیشن نے الیکشن والے دن ہی کہہ دیا تھا کہ کراچی میں الیکشن نہیں ہوئے۔
مگر اس سب کے باوجود الیکشن صاف شفاف قرار دے دئیے گئے لیکن عوام یہ فیصلہ قبول کرنے کو تیار نہیں۔ عوام ابھی بھی یہ سمجھتی ہے کہ شریف برادران نے وکیلوں کی بجائے جج ہی کرلئے ہیں۔ شریف برادران کی چمک آج بھی اسی طرح قائم ہے جیسی آج سے 22 سال پہلے تھی۔
میرے خیال سے اب عمران خان او ر عمران خان کے ساتھ ساتھ ان سیاسی جماعتوں کو معافی مانگ لینی چاہئے جن کا خیال ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے اور اس عوام کو بھی جو یہ سمجھتی ہے کہ الیکشن دھاندلی شدہ تھے اور ان کا مینڈیٹ چوری ہوا ہے۔
Last edited: