پوری دنیا میں مسلمان ہی کیوں ذلیل ہورہے ہیں؟

M_Shameer

MPA (400+ posts)
آج کی جدید دنیا میں پچاس سے زائد مسلم اکثریتی ممالک ہیں، پونے دو ارب کے قریب مسلمان ہیں، مگر آپ کو پوری دنیا میں جو قوم سب سے زیادہ ذلیل و خوار ہوتی ہوئی ملے گی، وہ ہے مسلمان۔ دوسری طرف غیر مسلم اقوام ہیں جن میں معاشی خوشحالی کے لحاظ سے سرِ فہرست مغربی ممالک کے لوگ ہیں اور دوسرے نمبر پر ایشین جن میں چائنا، چاپان، کوریا وغیرہ کے لوگ، تیسرے نمبر پر ہندوستان کے لوگ، یہ سب مسلمانوں سے بہت بہتر حالت میں ہیں۔ مغربی ممالک میں تو جانے کیلئے مسلمان مرتے ہیں، ہر سال افغانستان، شام، پاکستان، ایران، عراق، تیونس ، لیبیا وغیرہ سے یورپ جانے کا سپنا لئے کتنے ہی مسلمان سمندر میں ڈوب کر مرکھپ جاتے ہیں۔

کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ آج کے جدید دور میں مسلمان ہی کیوں اتنے ذلیل و خوار ہیں۔ آپ اگر مسلمان ممالک اور مغربی ممالک کا موازنہ کریں تو آپ کو چند نمایاں فرق ملیں گے۔ مغربی ممالک کے لوگوں نے اپنے معاشرے ایسے تشکیل دیئے ہیں جن میں مذہب ہر شخص کا پرائیویٹ معاملہ ہے، وہ لوگ تین چار سو سال تک مذہبی جنگیں لڑتے رہے، پھر ان کو سمجھ آگئی کہ اگر مذہبی جنگ و جدل سے چھٹکارا پانا ہے تو مذہب کو ہر فرد کا پرائیویٹ معاملہ قرار دینا ہوگا۔ انہوں نے مذہب کو فرد کا پرائیویٹ معاملہ قرار دے کر ریاست اور سیاست کو اس سے الگ کردیا۔ دوسری طرف آپ مسلمان ملکوں کو دیکھ لیں انہوں نے سیاست سے لے کر معیشت تک ہر چیز میں مذہب کو گھسایا ہوتا ہے، آئین میں بھی مذہبی شقیں ڈالی ہوتی ہیں، اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشرے سے کبھی بھی مذہبی سرپھٹول ختم نہیں ہوتی۔ آپ اسلامی ملکوں کا حال دیکھ لیں، ہر جگہ مذہب کو لے کر لڑائیاں چل رہی ہیں، افغانستان، یمن، شام، عراق، ایران، پاکستان کسی اسلامی ملک میں آپ کو چین سکون نظر نہیں آئے گا۔ اس مسئلے کا سب سے بہتر حل یہی ہے کہ مذہب کو یورپ کی طرح ہر فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے دیا جائے۔

مغربی معاشروں اور مسلم معاشروں کا دوسرا فرق یہ ہے کہ مغربی معاشروں میں عورتوں کو آزادی ہے کہ وہ اپنی مرضی کی زندگی جی سکیں، اپنی مرضی کی جاب چن سکیں، خود کمائیں اور نہ صرف اپنا پیٹ پالیں بلکہ معاشرے کی پروڈکٹیویٹی میں بھی حصہ ڈالیں۔ جبکہ مسلم معاشروں میں عورتوں کو گھروں کی چار دیواری میں بند کیا ہوتا ہے، ان کو برقعوں اور چادروں میں لپیٹ لپیٹ کر رکھا جاتا ہے، ان کا کام صرف خاوند کی خدمت اور بچے پیدا کرکے ان کی پرورش کرنا ہوتا ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے آدھی آبادی کو ناکارہ کرکے اس کا مالی بوجھ باقی آدھی آبادی پر ڈال دیا جاتا ہے، نتیجتاً ایسا معاشرہ کبھی غربت سے باہر آہی نہیں پاتا۔ مسلم معاشرے اس کی عملی مثال ہیں۔ جس معاشرے میں عورتیں جتنی قید میں ہیں، وہ معاشرہ مالی طور پر اتنا ہی بدحال ہے۔۔

مہذب معاشروں اور بدحال مسلم معاشروں میں تیسرا بڑا فرق یہ ہے کہ مہذب معاشروں کے لوگ بچے اپنے وسائل کے حساب سے پیدا کرتےہیں جبکہ مسلمان ممالک میں لوگ اندھا دھند جانوروں کی طرح بچے پیدا کرتے ہیں اور لاجک یہ دیتے ہیں کہ رزق تو اللہ نے دینا ہے، جب آبادی انتہائی تیزی سے بڑھتی ہے تو وسائل اس حساب سے نہیں بڑھ پاتے، اس لئے معاشرہ مزید سے مزید غربت کا شکار ہوتا جاتا ہے۔ یا تو آپ میں اتنی سکت ہو کہ آپ آبادی کے حساب سے اپنے وسائل بڑھاسکیں، جو کہ بہت ہی مشکل کام ہے تو اس کا بہتر حل یہ ہے کہ اپنے وسائل کے حساب سے بچے پیدا کریں۔ کوئی جوڑا اس وقت تک بچہ پیدا نہ کرے جب تک اس کی مالی حالت ایسی نہ ہوجائے کہ وہ اس بچے کو اچھی خوراک دے سکے ، اچھی تعلیم دے سکے اوراچھی پرورش کرسکے۔ مسلم ممالک کے بچوں کی اکثریت ناکافی خوراک ملنے کی وجہ سے سٹنٹڈ گروتھ کا شکار ہوتی ہے، اپنے پورے قد پر نہیں پہنچ پاتی۔

آج کی دنیا میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ کون سے اصول اپنا کر کوئی معاشرہ مالی طور پر خوشحال ہوسکتا ہے، مگر آج کے مسلمان کو یہ سمجھ نہیں آرہی، وہ کتوں کی طرح ذلیل ہورہا ہے، دنیا بھر میں بھکاریوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے، یہ بھیک مانگ لیں گے، چوریاں کرلیں گے، دو نمبریاں کرلیں گے، مگر اپنے سدھار کیلئے وہ اصول اپنانے کی طرف نہیں جائیں گے جن کو اپنا کر ترقی یافتہ معاشرے آج خوشحال ہیں۔ یورپ جانے کیلئے مسلمان لوگ مرتے ہیں، کتوں کی طرح خجل خوار ہوتے ہیں، وہاں جاکر ہر گھٹیا سے گھٹیا کام کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں، گوروں کے ٹوائلٹ صاف کرتے ہیں، مگر یہ نہیں سوچتے کہ ہم اپنے معاشروں میں یہی اصول لاگوں کیوں نہیں کرتے۔ جس سے پوچھو، وہ چار گالیاں حکومت کو دے گا اور کہے گا کہ سارا قصور حکومت کا ہے اسی لئے ہم نے ترقی نہیں کی۔ حکومت جس کی بھی لے آؤ جب تک معاشرے کی سمت درست نہیں ہوگی، تب تک معاشرہ خوشحال نہیں ہوسکتا۔

مسلمان پرانی سوچ پر روا رہ کر روزی روٹی کے چکر سے نہیں نکل پایا تو وہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کیا خاک کرے گا۔ آج کی جدید دنیا میں مسلمانوں کا حصہ صفر ہے، کیا یہ پونے دو ارب مسلمانوں کیلئے ڈوب مرنے کا مقام نہیں ہے؟
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
ترقی کرنے کے لئے ترقی کرنے والے کام کرنا پڑتے ہیں چاہے چین کرے یا روس یا امریکا یورپ۔

دیسی سیکولر چاہتے ہیں طبقاتی تقسیم برقرار رہے. کچھ خاندان سیاست، عدالتوں، معیشت اور افسر شاہی پر اپنی اجارہ داری قائم رکھیں. اور لاہور کو پیرس نا بنا پانے کا الزام مذہب پر لگا کو عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھیں
 

Raza888

Councller (250+ posts)
Mazheb chahe koi sa bhi ho insaan ko belief kerna sikhata he. Phir insaan apni energies us belief ko sach prove kerne main laga deta he. Its not just restricted to Islam. Africans main different mazhabi aur traditional beliefs ki bharmaar he unka hamse bhi bura haal he.
Jo muashre taraki ker gae un k logon ki learning start hoti he k mujhe kuch nahi pata. Phir wo truth finding k liye ilm haasil kerte hein. Jab k hamare deeni hazraat k pass har sawal ka jawab he. Kainaat k banene se pehle kia chal raha tha aur qiamat k baad kia hoga. Aapne kisi aalim k mun se ye suna he "I don't know"? Jab sab pata he to learning kahan kerni phir. Bewaqoof bande ki sabse bari alamat hoti he k baqol us k usse sab pata hota he.
I don't agree with this argument aurat k ghar main bethne se taraki ruki hui he.
 

M_Shameer

MPA (400+ posts)
Mazheb chahe koi sa bhi ho insaan ko belief kerna sikhata he. Phir insaan apni energies us belief ko sach prove kerne main laga deta he. Its not just restricted to Islam. Africans main different mazhabi aur traditional beliefs ki bharmaar he unka hamse bhi bura haal he.
Jo muashre taraki ker gae un k logon ki learning start hoti he k mujhe kuch nahi pata. Phir wo truth finding k liye ilm haasil kerte hein. Jab k hamare deeni hazraat k pass har sawal ka jawab he. Kainaat k banene se pehle kia chal raha tha aur qiamat k baad kia hoga. Aapne kisi aalim k mun se ye suna he "I don't know"? Jab sab pata he to learning kahan kerni phir. Bewaqoof bande ki sabse bari alamat hoti he k baqol us k usse sab pata hota he.
I don't agree with this argument aurat k ghar main bethne se taraki ruki hui he.

مغربی معاشروں نے جب "میں کچھ نہیں جانتا" کو اصول بنیاد کر ہر عقیدے پر سوال اٹھانا اور عقل کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کیا تو انہوں نے مذہب کو بہت ہی کھوکھلا پایا، مذہب اور خدا کے وجود کو رد کرنے کے بعد وہاں جو خلا پیدا ہوا اس کو فریڈرک نیچے، سارتر، شوپنہاؤر، کانٹ، روسو اور ڈیکارٹ جیسے فلسفیوں نے پر کیا، انہوں نے پرامن اور مستحکم معاشرے کیلئے سوشل کانٹریکٹ جیسے اصول وضع کئے، ہارم پرنسپل کے تحت شخصی آزادیوں کی حد طے کی۔ وہ تمام معاملات جو پہلے مذہب طے کیا کرتا تھا، وہ انسانی عقل کے ذریعے طے کئے جانے لگے اور معاشرے بتدریج بہتر ہوتے گئے۔ انہی میں سے ایک معاملہ عورتوں پر لگی قدغنیں تھا جو تقریباً ہر مذہب نے لگائیں، انسان نے عورت کو اس کا کھویا ہوا درجہ واپس دیا، مرد کے برابر تسلیم کیا اور جب عورت معاشرے کی پروڈکٹیویٹی میں برابر کا کردار ادا کرنے لگی تو نہ صرف مرد کا بوجھ کم ہوا بلکہ معاشرے کی خوشحالی بھی بڑھی۔ کوئی ایک معاشرہ آپ مجھے ایسا نہیں بتاسکتے جس نے عورتوں کو چار دیواریوں میں بند رکھ کر ترقی کرلی ہو۔
 

Raza888

Councller (250+ posts)
مغربی معاشروں نے جب "میں کچھ نہیں جانتا" کو اصول بنیاد کر ہر عقیدے پر سوال اٹھانا اور عقل کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کیا تو انہوں نے مذہب کو بہت ہی کھوکھلا پایا، مذہب اور خدا کے وجود کو رد کرنے کے بعد وہاں جو خلا پیدا ہوا اس کو فریڈرک نیچے، سارتر، شوپنہاؤر، کانٹ، روسو اور ڈیکارٹ جیسے فلسفیوں نے پر کیا، انہوں نے پرامن اور مستحکم معاشرے کیلئے سوشل کانٹریکٹ جیسے اصول وضع کئے، ہارم پرنسپل کے تحت شخصی آزادیوں کی حد طے کی۔ وہ تمام معاملات جو پہلے مذہب طے کیا کرتا تھا، وہ انسانی عقل کے ذریعے طے کئے جانے لگے اور معاشرے بتدریج بہتر ہوتے گئے۔ انہی میں سے ایک معاملہ عورتوں پر لگی قدغنیں تھا جو تقریباً ہر مذہب نے لگائیں، انسان نے عورت کو اس کا کھویا ہوا درجہ واپس دیا، مرد کے برابر تسلیم کیا اور جب عورت معاشرے کی پروڈکٹیویٹی میں برابر کا کردار ادا کرنے لگی تو نہ صرف مرد کا بوجھ کم ہوا بلکہ معاشرے کی خوشحالی بھی بڑھی۔ کوئی ایک معاشرہ آپ مجھے ایسا نہیں بتاسکتے جس نے عورتوں کو چار دیواریوں میں بند رکھ کر ترقی کرلی ہو۔
Khwateen k gharon mein bethne se muashre taraki main compete nahi ker sakte, ye concept industrial revolution k dor main wajood main aya jab industries ko afradi quwat ki zarurat thi. Is k pros aus cons dono hein. Mere khayal main is k cons ziada hein. Ab dunya main technological revolution aa raha he jiski wajah se 50 afraad per mushtamil company 1000 afraad per mushtamil company se ziada revenue generate ker rahi he to aane wale dinun main aap khud west mein is concept ki nafi hote dekhen ge. It's all about market forces and supply and demand rule
 

Raza888

Councller (250+ posts)
مغربی معاشروں نے جب "میں کچھ نہیں جانتا" کو اصول بنیاد کر ہر عقیدے پر سوال اٹھانا اور عقل کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کیا تو انہوں نے مذہب کو بہت ہی کھوکھلا پایا، مذہب اور خدا کے وجود کو رد کرنے کے بعد وہاں جو خلا پیدا ہوا اس کو فریڈرک نیچے، سارتر، شوپنہاؤر، کانٹ، روسو اور ڈیکارٹ جیسے فلسفیوں نے پر کیا، انہوں نے پرامن اور مستحکم معاشرے کیلئے سوشل کانٹریکٹ جیسے اصول وضع کئے، ہارم پرنسپل کے تحت شخصی آزادیوں کی حد طے کی۔ وہ تمام معاملات جو پہلے مذہب طے کیا کرتا تھا، وہ انسانی عقل کے ذریعے طے کئے جانے لگے اور معاشرے بتدریج بہتر ہوتے گئے۔ انہی میں سے ایک معاملہ عورتوں پر لگی قدغنیں تھا جو تقریباً ہر مذہب نے لگائیں، انسان نے عورت کو اس کا کھویا ہوا درجہ واپس دیا، مرد کے برابر تسلیم کیا اور جب عورت معاشرے کی پروڈکٹیویٹی میں برابر کا کردار ادا کرنے لگی تو نہ صرف مرد کا بوجھ کم ہوا بلکہ معاشرے کی خوشحالی بھی بڑھی۔ کوئی ایک معاشرہ آپ مجھے ایسا نہیں بتاسکتے جس نے عورتوں کو چار دیواریوں میں بند رکھ کر ترقی کرلی ہو۔
Abhi jo aap west main ye HE, She aur THEY wala mamla ubherte hue dekh rahe hein ye isi shift ki taraf pehla qadam he. West ab aurat aur mard ki tafreeq khatam kare ga. Log He ya SHE ki bajae They ban jaen ge aur mojoda family structure ka europe main dabba gol ker diya jae ga. Ager aap history ko dekhen to pehle insan tribes ki shakal main rehte the, phir bigger family systems se hote hue joint family system, then mono family aur in future everyone will just live for themselves, without marriage, kids and any long term commitments
 

انقلاب

Chief Minister (5k+ posts)
کیونکہ ہر ایک مسلمان ملک میں ہر ایک بااختیار شخص/اداہ مغرب کا ٹاؤٹ ہے اور قوم خصی
 

Fury

New Member
آج کی جدید دنیا میں پچاس سے زائد مسلم اکثریتی ممالک ہیں، پونے دو ارب کے قریب مسلمان ہیں، مگر آپ کو پوری دنیا میں جو قوم سب سے زیادہ ذلیل و خوار ہوتی ہوئی ملے گی، وہ ہے مسلمان۔ دوسری طرف غیر مسلم اقوام ہیں جن میں معاشی خوشحالی کے لحاظ سے سرِ فہرست مغربی ممالک کے لوگ ہیں اور دوسرے نمبر پر ایشین جن میں چائنا، چاپان، کوریا وغیرہ کے لوگ، تیسرے نمبر پر ہندوستان کے لوگ، یہ سب مسلمانوں سے بہت بہتر حالت میں ہیں۔ مغربی ممالک میں تو جانے کیلئے مسلمان مرتے ہیں، ہر سال افغانستان، شام، پاکستان، ایران، عراق، تیونس ، لیبیا وغیرہ سے یورپ جانے کا سپنا لئے کتنے ہی مسلمان سمندر میں ڈوب کر مرکھپ جاتے ہیں۔

کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ آج کے جدید دور میں مسلمان ہی کیوں اتنے ذلیل و خوار ہیں۔ آپ اگر مسلمان ممالک اور مغربی ممالک کا موازنہ کریں تو آپ کو چند نمایاں فرق ملیں گے۔ مغربی ممالک کے لوگوں نے اپنے معاشرے ایسے تشکیل دیئے ہیں جن میں مذہب ہر شخص کا پرائیویٹ معاملہ ہے، وہ لوگ تین چار سو سال تک مذہبی جنگیں لڑتے رہے، پھر ان کو سمجھ آگئی کہ اگر مذہبی جنگ و جدل سے چھٹکارا پانا ہے تو مذہب کو ہر فرد کا پرائیویٹ معاملہ قرار دینا ہوگا۔ انہوں نے مذہب کو فرد کا پرائیویٹ معاملہ قرار دے کر ریاست اور سیاست کو اس سے الگ کردیا۔ دوسری طرف آپ مسلمان ملکوں کو دیکھ لیں انہوں نے سیاست سے لے کر معیشت تک ہر چیز میں مذہب کو گھسایا ہوتا ہے، آئین میں بھی مذہبی شقیں ڈالی ہوتی ہیں، اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشرے سے کبھی بھی مذہبی سرپھٹول ختم نہیں ہوتی۔ آپ اسلامی ملکوں کا حال دیکھ لیں، ہر جگہ مذہب کو لے کر لڑائیاں چل رہی ہیں، افغانستان، یمن، شام، عراق، ایران، پاکستان کسی اسلامی ملک میں آپ کو چین سکون نظر نہیں آئے گا۔ اس مسئلے کا سب سے بہتر حل یہی ہے کہ مذہب کو یورپ کی طرح ہر فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے دیا جائے۔

مغربی معاشروں اور مسلم معاشروں کا دوسرا فرق یہ ہے کہ مغربی معاشروں میں عورتوں کو آزادی ہے کہ وہ اپنی مرضی کی زندگی جی سکیں، اپنی مرضی کی جاب چن سکیں، خود کمائیں اور نہ صرف اپنا پیٹ پالیں بلکہ معاشرے کی پروڈکٹیویٹی میں بھی حصہ ڈالیں۔ جبکہ مسلم معاشروں میں عورتوں کو گھروں کی چار دیواری میں بند کیا ہوتا ہے، ان کو برقعوں اور چادروں میں لپیٹ لپیٹ کر رکھا جاتا ہے، ان کا کام صرف خاوند کی خدمت اور بچے پیدا کرکے ان کی پرورش کرنا ہوتا ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے آدھی آبادی کو ناکارہ کرکے اس کا مالی بوجھ باقی آدھی آبادی پر ڈال دیا جاتا ہے، نتیجتاً ایسا معاشرہ کبھی غربت سے باہر آہی نہیں پاتا۔ مسلم معاشرے اس کی عملی مثال ہیں۔ جس معاشرے میں عورتیں جتنی قید میں ہیں، وہ معاشرہ مالی طور پر اتنا ہی بدحال ہے۔۔

مہذب معاشروں اور بدحال مسلم معاشروں میں تیسرا بڑا فرق یہ ہے کہ مہذب معاشروں کے لوگ بچے اپنے وسائل کے حساب سے پیدا کرتےہیں جبکہ مسلمان ممالک میں لوگ اندھا دھند جانوروں کی طرح بچے پیدا کرتے ہیں اور لاجک یہ دیتے ہیں کہ رزق تو اللہ نے دینا ہے، جب آبادی انتہائی تیزی سے بڑھتی ہے تو وسائل اس حساب سے نہیں بڑھ پاتے، اس لئے معاشرہ مزید سے مزید غربت کا شکار ہوتا جاتا ہے۔ یا تو آپ میں اتنی سکت ہو کہ آپ آبادی کے حساب سے اپنے وسائل بڑھاسکیں، جو کہ بہت ہی مشکل کام ہے تو اس کا بہتر حل یہ ہے کہ اپنے وسائل کے حساب سے بچے پیدا کریں۔ کوئی جوڑا اس وقت تک بچہ پیدا نہ کرے جب تک اس کی مالی حالت ایسی نہ ہوجائے کہ وہ اس بچے کو اچھی خوراک دے سکے ، اچھی تعلیم دے سکے اوراچھی پرورش کرسکے۔ مسلم ممالک کے بچوں کی اکثریت ناکافی خوراک ملنے کی وجہ سے سٹنٹڈ گروتھ کا شکار ہوتی ہے، اپنے پورے قد پر نہیں پہنچ پاتی۔

آج کی دنیا میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ کون سے اصول اپنا کر کوئی معاشرہ مالی طور پر خوشحال ہوسکتا ہے، مگر آج کے مسلمان کو یہ سمجھ نہیں آرہی، وہ کتوں کی طرح ذلیل ہورہا ہے، دنیا بھر میں بھکاریوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے، یہ بھیک مانگ لیں گے، چوریاں کرلیں گے، دو نمبریاں کرلیں گے، مگر اپنے سدھار کیلئے وہ اصول اپنانے کی طرف نہیں جائیں گے جن کو اپنا کر ترقی یافتہ معاشرے آج خوشحال ہیں۔ یورپ جانے کیلئے مسلمان لوگ مرتے ہیں، کتوں کی طرح خجل خوار ہوتے ہیں، وہاں جاکر ہر گھٹیا سے گھٹیا کام کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں، گوروں کے ٹوائلٹ صاف کرتے ہیں، مگر یہ نہیں سوچتے کہ ہم اپنے معاشروں میں یہی اصول لاگوں کیوں نہیں کرتے۔ جس سے پوچھو، وہ چار گالیاں حکومت کو دے گا اور کہے گا کہ سارا قصور حکومت کا ہے اسی لئے ہم نے ترقی نہیں کی۔ حکومت جس کی بھی لے آؤ جب تک معاشرے کی سمت درست نہیں ہوگی، تب تک معاشرہ خوشحال نہیں ہوسکتا۔

مسلمان پرانی سوچ پر روا رہ کر روزی روٹی کے چکر سے نہیں نکل پایا تو وہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کیا خاک کرے گا۔ آج کی جدید دنیا میں مسلمانوں کا حصہ صفر ہے، کیا یہ پونے دو ارب مسلمانوں کیلئے ڈوب مرنے کا مقام نہیں ہے؟
The real reason why stand where we do, is pinning all blame on religion and our flawed ways of practicing it. More importantly, our mental growth has been stunted because we are in awe of the west and consider their ways better than our own because they have made advances in science in technology. However, when it comes to social constructs and institutes, the west is far inferior than us or at least used to be.

Its our own shortcoming that we have set aside the deen and left its teachings to collect cobwebs in our minds somewhere. Impressed by the western advances, we have forgotten that Islam gives us a complete framework to operate within. Something that we ought to be pondering over and continuously evolving and implementing with the passage of time. When you say that the west has progressed because it has separated religion from the state, you might be surprised to learn that things are no different in Muslim countries. The states have completely deviated from the religious teachings. The majority of the so called aalim-e-deen are simply meant to keep the religious sentiments of the public in check by convincing them that it isn't the duty of layman to understand and implement deen but rather the sole responsibility of the religious clergy. This has allowed the state to do as they please and has given the clergy and illusion of power. The only one's suffering are the people who are being led to practice a distorted version of Islam where they aren't allowed to think for themselves.

Secondly, if you think that allowing women out of the house to join the workforce is one of the defining factors behind western progress, you are once again sadly mistaken. It only takes a few generations after women step out of homes to act as breadwinners before the moral values of a society deteriorate. Why do we think that being a good wife and a mother are values that ought to be frowned upon? There is no better and honorable job than being a mother, provided she does her job the way she was meant to and by being good to her husband - she sets an example for her children. A family can only operate optimally when all members of it are aware of their roles and fulfill their responsibilities towards each other (this includes the husband/father) as well. Rather than teaching our children to look up to the west, why don't we teach them what those roles and responsibilities are from a young age? We don't because we don't know them ourselves. It is not a woman's job to bring about industrial and economic progress. It's her job to raise and nurture the intellectual minds of tomorrow to think about those jobs and she can do that very well without stepping out of the sanctity of her home.

Lastly, human capital is a wealth on it's own, provided we know how to harness it. The reason why you are blaming population growth for economic downfall is because you see lack of productivity. Western countries are often found opening up doors of immigration because they are looking for people to do the work that needs to be done (not because they are waiting to rescue 3rd world country folks from their woes - if that was the case, there would have been no immigration requirements). You will also find them alarmed about the drop in their own birth rates.

I do agree with your last assessment. Despite being high in numbers our contribution to the advances in modern science and technology is appalling. However, the cause of that isn't Islam or women not being part of the workforce or high birth rates. The real reasons are our refusal to actually understand our deen and our defeated mentality (among others).
 

Rambler

Chief Minister (5k+ posts)
مغربی معاشروں نے جب "میں کچھ نہیں جانتا" کو اصول بنیاد کر ہر عقیدے پر سوال اٹھانا اور عقل کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کیا تو انہوں نے مذہب کو بہت ہی کھوکھلا پایا، مذہب اور خدا کے وجود کو رد کرنے کے بعد وہاں جو خلا پیدا ہوا اس کو فریڈرک نیچے، سارتر، شوپنہاؤر، کانٹ، روسو اور ڈیکارٹ جیسے فلسفیوں نے پر کیا، انہوں نے پرامن اور مستحکم معاشرے کیلئے سوشل کانٹریکٹ جیسے اصول وضع کئے، ہارم پرنسپل کے تحت شخصی آزادیوں کی حد طے کی۔ وہ تمام معاملات جو پہلے مذہب طے کیا کرتا تھا، وہ انسانی عقل کے ذریعے طے کئے جانے لگے اور معاشرے بتدریج بہتر ہوتے گئے۔ انہی میں سے ایک معاملہ عورتوں پر لگی قدغنیں تھا جو تقریباً ہر مذہب نے لگائیں، انسان نے عورت کو اس کا کھویا ہوا درجہ واپس دیا، مرد کے برابر تسلیم کیا اور جب عورت معاشرے کی پروڈکٹیویٹی میں برابر کا کردار ادا کرنے لگی تو نہ صرف مرد کا بوجھ کم ہوا بلکہ معاشرے کی خوشحالی بھی بڑھی۔ کوئی ایک معاشرہ آپ مجھے ایسا نہیں بتاسکتے جس نے عورتوں کو چار دیواریوں میں بند رکھ کر ترقی کرلی ہو۔

Citizen X give him some good farts - He is trying to act too intellectual with an IQ of less than 1.
 

Citizen X

President (40k+ posts)
Citizen X give him some good farts - He is trying to act too intellectual with an IQ of less than 1.
As always Mr know it all senile twat thinks hes the boss of everyone and order them around, well guess what? Not your father fuckin' servant, so instead why don't you do what you always do, get up on your high horse and tell everyone they don't know anything about anything and they are all wrong and your the only one who knows everything about everything without actually know the difference between your elbow and your asshole.
 

Siberite

Chief Minister (5k+ posts)
آج کی جدید دنیا میں پچاس سے زائد مسلم اکثریتی ممالک ہیں، پونے دو ارب کے قریب مسلمان ہیں، مگر آپ کو پوری دنیا میں جو قوم سب سے زیادہ ذلیل و خوار ہوتی ہوئی ملے گی، وہ ہے مسلمان۔ دوسری طرف غیر مسلم اقوام ہیں جن میں معاشی خوشحالی کے لحاظ سے سرِ فہرست مغربی ممالک کے لوگ ہیں اور دوسرے نمبر پر ایشین جن میں چائنا، چاپان، کوریا وغیرہ کے لوگ، تیسرے نمبر پر ہندوستان کے لوگ، یہ سب مسلمانوں سے بہت بہتر حالت میں ہیں۔ مغربی ممالک میں تو جانے کیلئے مسلمان مرتے ہیں، ہر سال افغانستان، شام، پاکستان، ایران، عراق، تیونس ، لیبیا وغیرہ سے یورپ جانے کا سپنا لئے کتنے ہی مسلمان سمندر میں ڈوب کر مرکھپ جاتے ہیں۔

کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ آج کے جدید دور میں مسلمان ہی کیوں اتنے ذلیل و خوار ہیں۔ آپ اگر مسلمان ممالک اور مغربی ممالک کا موازنہ کریں تو آپ کو چند نمایاں فرق ملیں گے۔ مغربی ممالک کے لوگوں نے اپنے معاشرے ایسے تشکیل دیئے ہیں جن میں مذہب ہر شخص کا پرائیویٹ معاملہ ہے، وہ لوگ تین چار سو سال تک مذہبی جنگیں لڑتے رہے، پھر ان کو سمجھ آگئی کہ اگر مذہبی جنگ و جدل سے چھٹکارا پانا ہے تو مذہب کو ہر فرد کا پرائیویٹ معاملہ قرار دینا ہوگا۔ انہوں نے مذہب کو فرد کا پرائیویٹ معاملہ قرار دے کر ریاست اور سیاست کو اس سے الگ کردیا۔ دوسری طرف آپ مسلمان ملکوں کو دیکھ لیں انہوں نے سیاست سے لے کر معیشت تک ہر چیز میں مذہب کو گھسایا ہوتا ہے، آئین میں بھی مذہبی شقیں ڈالی ہوتی ہیں، اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشرے سے کبھی بھی مذہبی سرپھٹول ختم نہیں ہوتی۔ آپ اسلامی ملکوں کا حال دیکھ لیں، ہر جگہ مذہب کو لے کر لڑائیاں چل رہی ہیں، افغانستان، یمن، شام، عراق، ایران، پاکستان کسی اسلامی ملک میں آپ کو چین سکون نظر نہیں آئے گا۔ اس مسئلے کا سب سے بہتر حل یہی ہے کہ مذہب کو یورپ کی طرح ہر فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے دیا جائے۔

مغربی معاشروں اور مسلم معاشروں کا دوسرا فرق یہ ہے کہ مغربی معاشروں میں عورتوں کو آزادی ہے کہ وہ اپنی مرضی کی زندگی جی سکیں، اپنی مرضی کی جاب چن سکیں، خود کمائیں اور نہ صرف اپنا پیٹ پالیں بلکہ معاشرے کی پروڈکٹیویٹی میں بھی حصہ ڈالیں۔ جبکہ مسلم معاشروں میں عورتوں کو گھروں کی چار دیواری میں بند کیا ہوتا ہے، ان کو برقعوں اور چادروں میں لپیٹ لپیٹ کر رکھا جاتا ہے، ان کا کام صرف خاوند کی خدمت اور بچے پیدا کرکے ان کی پرورش کرنا ہوتا ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے آدھی آبادی کو ناکارہ کرکے اس کا مالی بوجھ باقی آدھی آبادی پر ڈال دیا جاتا ہے، نتیجتاً ایسا معاشرہ کبھی غربت سے باہر آہی نہیں پاتا۔ مسلم معاشرے اس کی عملی مثال ہیں۔ جس معاشرے میں عورتیں جتنی قید میں ہیں، وہ معاشرہ مالی طور پر اتنا ہی بدحال ہے۔۔

مہذب معاشروں اور بدحال مسلم معاشروں میں تیسرا بڑا فرق یہ ہے کہ مہذب معاشروں کے لوگ بچے اپنے وسائل کے حساب سے پیدا کرتےہیں جبکہ مسلمان ممالک میں لوگ اندھا دھند جانوروں کی طرح بچے پیدا کرتے ہیں اور لاجک یہ دیتے ہیں کہ رزق تو اللہ نے دینا ہے، جب آبادی انتہائی تیزی سے بڑھتی ہے تو وسائل اس حساب سے نہیں بڑھ پاتے، اس لئے معاشرہ مزید سے مزید غربت کا شکار ہوتا جاتا ہے۔ یا تو آپ میں اتنی سکت ہو کہ آپ آبادی کے حساب سے اپنے وسائل بڑھاسکیں، جو کہ بہت ہی مشکل کام ہے تو اس کا بہتر حل یہ ہے کہ اپنے وسائل کے حساب سے بچے پیدا کریں۔ کوئی جوڑا اس وقت تک بچہ پیدا نہ کرے جب تک اس کی مالی حالت ایسی نہ ہوجائے کہ وہ اس بچے کو اچھی خوراک دے سکے ، اچھی تعلیم دے سکے اوراچھی پرورش کرسکے۔ مسلم ممالک کے بچوں کی اکثریت ناکافی خوراک ملنے کی وجہ سے سٹنٹڈ گروتھ کا شکار ہوتی ہے، اپنے پورے قد پر نہیں پہنچ پاتی۔

آج کی دنیا میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ کون سے اصول اپنا کر کوئی معاشرہ مالی طور پر خوشحال ہوسکتا ہے، مگر آج کے مسلمان کو یہ سمجھ نہیں آرہی، وہ کتوں کی طرح ذلیل ہورہا ہے، دنیا بھر میں بھکاریوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے، یہ بھیک مانگ لیں گے، چوریاں کرلیں گے، دو نمبریاں کرلیں گے، مگر اپنے سدھار کیلئے وہ اصول اپنانے کی طرف نہیں جائیں گے جن کو اپنا کر ترقی یافتہ معاشرے آج خوشحال ہیں۔ یورپ جانے کیلئے مسلمان لوگ مرتے ہیں، کتوں کی طرح خجل خوار ہوتے ہیں، وہاں جاکر ہر گھٹیا سے گھٹیا کام کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں، گوروں کے ٹوائلٹ صاف کرتے ہیں، مگر یہ نہیں سوچتے کہ ہم اپنے معاشروں میں یہی اصول لاگوں کیوں نہیں کرتے۔ جس سے پوچھو، وہ چار گالیاں حکومت کو دے گا اور کہے گا کہ سارا قصور حکومت کا ہے اسی لئے ہم نے ترقی نہیں کی۔ حکومت جس کی بھی لے آؤ جب تک معاشرے کی سمت درست نہیں ہوگی، تب تک معاشرہ خوشحال نہیں ہوسکتا۔

مسلمان پرانی سوچ پر روا رہ کر روزی روٹی کے چکر سے نہیں نکل پایا تو وہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کیا خاک کرے گا۔ آج کی جدید دنیا میں مسلمانوں کا حصہ صفر ہے، کیا یہ پونے دو ارب مسلمانوں کیلئے ڈوب مرنے کا مقام نہیں ہے؟



آپ کی یہ سب باتیں اجتماعی قومی شعور سے منسلک ہیں ۔ جب تک جہالت لوگوں کے دماغوں پر حکومت کرتی رھے گی ، ھم لوگ لکیر کے فقیر بنے رھیں گے ، اور جھالت کی گرد کو اڑاتے رھیں گے ، چالاک بیوقوقفوں کا احتصال کرتے رھیں گے اور امیر غریبوں کو غلام بنائے رکھیں گے ۔

اللہ کا دین تو دنیا میں عربوں کی بچیوں کو زندہ دفن کرنے کی روایت کو ختم کرنے آیا تھا ، عمر کے قول کے مطابق تو اللہ نے انسانوں کوآزاد پیدا کیا تھا ۔


لیکن افسوس ، ھم سب نے 1400 سال کے بعد اسی دین کا حلیہ بگارڈ کے رکھ دیا ھے ۔



 

xshadow

Minister (2k+ posts)
جب جمہوریت کو بغیر جانے کے ہے کیا' حرام کرار دے دیا جائے تو ہر طاقتور اپنی مرضی کرنے پر تل جاتا ہے اور پھر یہی حشر ہوتا ہے جو پاکستان کا ہورہا ہے۔
 

Panthar_pk

Councller (250+ posts)
آج کی جدید دنیا میں پچاس سے زائد مسلم اکثریتی ممالک ہیں، پونے دو ارب کے قریب مسلمان ہیں، مگر آپ کو پوری دنیا میں جو قوم سب سے زیادہ ذلیل و خوار ہوتی ہوئی ملے گی، وہ ہے مسلمان۔ دوسری طرف غیر مسلم اقوام ہیں جن میں معاشی خوشحالی کے لحاظ سے سرِ فہرست مغربی ممالک کے لوگ ہیں اور دوسرے نمبر پر ایشین جن میں چائنا، چاپان، کوریا وغیرہ کے لوگ، تیسرے نمبر پر ہندوستان کے لوگ، یہ سب مسلمانوں سے بہت بہتر حالت میں ہیں۔ مغربی ممالک میں تو جانے کیلئے مسلمان مرتے ہیں، ہر سال افغانستان، شام، پاکستان، ایران، عراق، تیونس ، لیبیا وغیرہ سے یورپ جانے کا سپنا لئے کتنے ہی مسلمان سمندر میں ڈوب کر مرکھپ جاتے ہیں۔

کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ آج کے جدید دور میں مسلمان ہی کیوں اتنے ذلیل و خوار ہیں۔ آپ اگر مسلمان ممالک اور مغربی ممالک کا موازنہ کریں تو آپ کو چند نمایاں فرق ملیں گے۔ مغربی ممالک کے لوگوں نے اپنے معاشرے ایسے تشکیل دیئے ہیں جن میں مذہب ہر شخص کا پرائیویٹ معاملہ ہے، وہ لوگ تین چار سو سال تک مذہبی جنگیں لڑتے رہے، پھر ان کو سمجھ آگئی کہ اگر مذہبی جنگ و جدل سے چھٹکارا پانا ہے تو مذہب کو ہر فرد کا پرائیویٹ معاملہ قرار دینا ہوگا۔ انہوں نے مذہب کو فرد کا پرائیویٹ معاملہ قرار دے کر ریاست اور سیاست کو اس سے الگ کردیا۔ دوسری طرف آپ مسلمان ملکوں کو دیکھ لیں انہوں نے سیاست سے لے کر معیشت تک ہر چیز میں مذہب کو گھسایا ہوتا ہے، آئین میں بھی مذہبی شقیں ڈالی ہوتی ہیں، اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشرے سے کبھی بھی مذہبی سرپھٹول ختم نہیں ہوتی۔ آپ اسلامی ملکوں کا حال دیکھ لیں، ہر جگہ مذہب کو لے کر لڑائیاں چل رہی ہیں، افغانستان، یمن، شام، عراق، ایران، پاکستان کسی اسلامی ملک میں آپ کو چین سکون نظر نہیں آئے گا۔ اس مسئلے کا سب سے بہتر حل یہی ہے کہ مذہب کو یورپ کی طرح ہر فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے دیا جائے۔

مغربی معاشروں اور مسلم معاشروں کا دوسرا فرق یہ ہے کہ مغربی معاشروں میں عورتوں کو آزادی ہے کہ وہ اپنی مرضی کی زندگی جی سکیں، اپنی مرضی کی جاب چن سکیں، خود کمائیں اور نہ صرف اپنا پیٹ پالیں بلکہ معاشرے کی پروڈکٹیویٹی میں بھی حصہ ڈالیں۔ جبکہ مسلم معاشروں میں عورتوں کو گھروں کی چار دیواری میں بند کیا ہوتا ہے، ان کو برقعوں اور چادروں میں لپیٹ لپیٹ کر رکھا جاتا ہے، ان کا کام صرف خاوند کی خدمت اور بچے پیدا کرکے ان کی پرورش کرنا ہوتا ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے آدھی آبادی کو ناکارہ کرکے اس کا مالی بوجھ باقی آدھی آبادی پر ڈال دیا جاتا ہے، نتیجتاً ایسا معاشرہ کبھی غربت سے باہر آہی نہیں پاتا۔ مسلم معاشرے اس کی عملی مثال ہیں۔ جس معاشرے میں عورتیں جتنی قید میں ہیں، وہ معاشرہ مالی طور پر اتنا ہی بدحال ہے۔۔

مہذب معاشروں اور بدحال مسلم معاشروں میں تیسرا بڑا فرق یہ ہے کہ مہذب معاشروں کے لوگ بچے اپنے وسائل کے حساب سے پیدا کرتےہیں جبکہ مسلمان ممالک میں لوگ اندھا دھند جانوروں کی طرح بچے پیدا کرتے ہیں اور لاجک یہ دیتے ہیں کہ رزق تو اللہ نے دینا ہے، جب آبادی انتہائی تیزی سے بڑھتی ہے تو وسائل اس حساب سے نہیں بڑھ پاتے، اس لئے معاشرہ مزید سے مزید غربت کا شکار ہوتا جاتا ہے۔ یا تو آپ میں اتنی سکت ہو کہ آپ آبادی کے حساب سے اپنے وسائل بڑھاسکیں، جو کہ بہت ہی مشکل کام ہے تو اس کا بہتر حل یہ ہے کہ اپنے وسائل کے حساب سے بچے پیدا کریں۔ کوئی جوڑا اس وقت تک بچہ پیدا نہ کرے جب تک اس کی مالی حالت ایسی نہ ہوجائے کہ وہ اس بچے کو اچھی خوراک دے سکے ، اچھی تعلیم دے سکے اوراچھی پرورش کرسکے۔ مسلم ممالک کے بچوں کی اکثریت ناکافی خوراک ملنے کی وجہ سے سٹنٹڈ گروتھ کا شکار ہوتی ہے، اپنے پورے قد پر نہیں پہنچ پاتی۔

آج کی دنیا میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ کون سے اصول اپنا کر کوئی معاشرہ مالی طور پر خوشحال ہوسکتا ہے، مگر آج کے مسلمان کو یہ سمجھ نہیں آرہی، وہ کتوں کی طرح ذلیل ہورہا ہے، دنیا بھر میں بھکاریوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے، یہ بھیک مانگ لیں گے، چوریاں کرلیں گے، دو نمبریاں کرلیں گے، مگر اپنے سدھار کیلئے وہ اصول اپنانے کی طرف نہیں جائیں گے جن کو اپنا کر ترقی یافتہ معاشرے آج خوشحال ہیں۔ یورپ جانے کیلئے مسلمان لوگ مرتے ہیں، کتوں کی طرح خجل خوار ہوتے ہیں، وہاں جاکر ہر گھٹیا سے گھٹیا کام کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں، گوروں کے ٹوائلٹ صاف کرتے ہیں، مگر یہ نہیں سوچتے کہ ہم اپنے معاشروں میں یہی اصول لاگوں کیوں نہیں کرتے۔ جس سے پوچھو، وہ چار گالیاں حکومت کو دے گا اور کہے گا کہ سارا قصور حکومت کا ہے اسی لئے ہم نے ترقی نہیں کی۔ حکومت جس کی بھی لے آؤ جب تک معاشرے کی سمت درست نہیں ہوگی، تب تک معاشرہ خوشحال نہیں ہوسکتا۔

مسلمان پرانی سوچ پر روا رہ کر روزی روٹی کے چکر سے نہیں نکل پایا تو وہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کیا خاک کرے گا۔ آج کی جدید دنیا میں مسلمانوں کا حصہ صفر ہے، کیا یہ پونے دو ارب مسلمانوں کیلئے ڈوب مرنے کا مقام نہیں ہے؟
ooh bhai kabhe Pakistan say bahir nikal kr daykho Christain Jews Hindu suub zalil ho rahay hain, pata nahi aap kon c parallel universe main rah rahay ho

jews nahi koi seedhay mu baat nahi krta, africa main kia musalman kia christain suub zalil ho rahy hain , indians ki bhe koi khas izzat nahi

uae saudi sy koi aata hy us ko izzat milti hy

bhai sahab paysa ho na chayea jis kay paas paysa us ky paass izzat
 

M_Shameer

MPA (400+ posts)

آپ کی یہ سب باتیں اجتماعی قومی شعور سے منسلک ہیں ۔ جب تک جہالت لوگوں کے دماغوں پر حکومت کرتی رھے گی ، ھم لوگ لکیر کے فقیر بنے رھیں گے ، اور جھالت کی گرد کو اڑاتے رھیں گے ، چالاک بیوقوقفوں کا احتصال کرتے رھیں گے اور امیر غریبوں کو غلام بنائے رکھیں گے ۔

اللہ کا دین تو دنیا میں عربوں کی بچیوں کو زندہ دفن کرنے کی روایت کو ختم کرنے آیا تھا ، عمر کے قول کے مطابق تو اللہ نے انسانوں کوآزاد پیدا کیا تھا ۔


لیکن افسوس ، ھم سب نے 1400 سال کے بعد اسی دین کا حلیہ بگارڈ کے رکھ دیا ھے ۔




معذرت کے ساتھ یہ بھی ہماری سب سے بڑی کنفیوژن ہے کہ کسی مذہب نے عورت کو آزادی دی، عورت پر تو ہر مذہب نے پابندیاں ہی لگائیں۔
 

Rambler

Chief Minister (5k+ posts)
As always Mr know it all senile twat thinks hes the boss of everyone and order them around, well guess what? Not your father fuckin' servant, so instead why don't you do what you always do, get up on your high horse and tell everyone they don't know anything about anything and they are all wrong and your the only one who knows everything about everything without actually know the difference between your elbow and your asshole.

Wake up Pak Looks like your friend is going to explode very soon. You must inter him immediately or else all the crap from the eruption will be unbearable.