آج کی جدید دنیا میں پچاس سے زائد مسلم اکثریتی ممالک ہیں، پونے دو ارب کے قریب مسلمان ہیں، مگر آپ کو پوری دنیا میں جو قوم سب سے زیادہ ذلیل و خوار ہوتی ہوئی ملے گی، وہ ہے مسلمان۔ دوسری طرف غیر مسلم اقوام ہیں جن میں معاشی خوشحالی کے لحاظ سے سرِ فہرست مغربی ممالک کے لوگ ہیں اور دوسرے نمبر پر ایشین جن میں چائنا، چاپان، کوریا وغیرہ کے لوگ، تیسرے نمبر پر ہندوستان کے لوگ، یہ سب مسلمانوں سے بہت بہتر حالت میں ہیں۔ مغربی ممالک میں تو جانے کیلئے مسلمان مرتے ہیں، ہر سال افغانستان، شام، پاکستان، ایران، عراق، تیونس ، لیبیا وغیرہ سے یورپ جانے کا سپنا لئے کتنے ہی مسلمان سمندر میں ڈوب کر مرکھپ جاتے ہیں۔
کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ آج کے جدید دور میں مسلمان ہی کیوں اتنے ذلیل و خوار ہیں۔ آپ اگر مسلمان ممالک اور مغربی ممالک کا موازنہ کریں تو آپ کو چند نمایاں فرق ملیں گے۔ مغربی ممالک کے لوگوں نے اپنے معاشرے ایسے تشکیل دیئے ہیں جن میں مذہب ہر شخص کا پرائیویٹ معاملہ ہے، وہ لوگ تین چار سو سال تک مذہبی جنگیں لڑتے رہے، پھر ان کو سمجھ آگئی کہ اگر مذہبی جنگ و جدل سے چھٹکارا پانا ہے تو مذہب کو ہر فرد کا پرائیویٹ معاملہ قرار دینا ہوگا۔ انہوں نے مذہب کو فرد کا پرائیویٹ معاملہ قرار دے کر ریاست اور سیاست کو اس سے الگ کردیا۔ دوسری طرف آپ مسلمان ملکوں کو دیکھ لیں انہوں نے سیاست سے لے کر معیشت تک ہر چیز میں مذہب کو گھسایا ہوتا ہے، آئین میں بھی مذہبی شقیں ڈالی ہوتی ہیں، اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشرے سے کبھی بھی مذہبی سرپھٹول ختم نہیں ہوتی۔ آپ اسلامی ملکوں کا حال دیکھ لیں، ہر جگہ مذہب کو لے کر لڑائیاں چل رہی ہیں، افغانستان، یمن، شام، عراق، ایران، پاکستان کسی اسلامی ملک میں آپ کو چین سکون نظر نہیں آئے گا۔ اس مسئلے کا سب سے بہتر حل یہی ہے کہ مذہب کو یورپ کی طرح ہر فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے دیا جائے۔
مغربی معاشروں اور مسلم معاشروں کا دوسرا فرق یہ ہے کہ مغربی معاشروں میں عورتوں کو آزادی ہے کہ وہ اپنی مرضی کی زندگی جی سکیں، اپنی مرضی کی جاب چن سکیں، خود کمائیں اور نہ صرف اپنا پیٹ پالیں بلکہ معاشرے کی پروڈکٹیویٹی میں بھی حصہ ڈالیں۔ جبکہ مسلم معاشروں میں عورتوں کو گھروں کی چار دیواری میں بند کیا ہوتا ہے، ان کو برقعوں اور چادروں میں لپیٹ لپیٹ کر رکھا جاتا ہے، ان کا کام صرف خاوند کی خدمت اور بچے پیدا کرکے ان کی پرورش کرنا ہوتا ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے آدھی آبادی کو ناکارہ کرکے اس کا مالی بوجھ باقی آدھی آبادی پر ڈال دیا جاتا ہے، نتیجتاً ایسا معاشرہ کبھی غربت سے باہر آہی نہیں پاتا۔ مسلم معاشرے اس کی عملی مثال ہیں۔ جس معاشرے میں عورتیں جتنی قید میں ہیں، وہ معاشرہ مالی طور پر اتنا ہی بدحال ہے۔۔
مہذب معاشروں اور بدحال مسلم معاشروں میں تیسرا بڑا فرق یہ ہے کہ مہذب معاشروں کے لوگ بچے اپنے وسائل کے حساب سے پیدا کرتےہیں جبکہ مسلمان ممالک میں لوگ اندھا دھند جانوروں کی طرح بچے پیدا کرتے ہیں اور لاجک یہ دیتے ہیں کہ رزق تو اللہ نے دینا ہے، جب آبادی انتہائی تیزی سے بڑھتی ہے تو وسائل اس حساب سے نہیں بڑھ پاتے، اس لئے معاشرہ مزید سے مزید غربت کا شکار ہوتا جاتا ہے۔ یا تو آپ میں اتنی سکت ہو کہ آپ آبادی کے حساب سے اپنے وسائل بڑھاسکیں، جو کہ بہت ہی مشکل کام ہے تو اس کا بہتر حل یہ ہے کہ اپنے وسائل کے حساب سے بچے پیدا کریں۔ کوئی جوڑا اس وقت تک بچہ پیدا نہ کرے جب تک اس کی مالی حالت ایسی نہ ہوجائے کہ وہ اس بچے کو اچھی خوراک دے سکے ، اچھی تعلیم دے سکے اوراچھی پرورش کرسکے۔ مسلم ممالک کے بچوں کی اکثریت ناکافی خوراک ملنے کی وجہ سے سٹنٹڈ گروتھ کا شکار ہوتی ہے، اپنے پورے قد پر نہیں پہنچ پاتی۔
آج کی دنیا میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ کون سے اصول اپنا کر کوئی معاشرہ مالی طور پر خوشحال ہوسکتا ہے، مگر آج کے مسلمان کو یہ سمجھ نہیں آرہی، وہ کتوں کی طرح ذلیل ہورہا ہے، دنیا بھر میں بھکاریوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے، یہ بھیک مانگ لیں گے، چوریاں کرلیں گے، دو نمبریاں کرلیں گے، مگر اپنے سدھار کیلئے وہ اصول اپنانے کی طرف نہیں جائیں گے جن کو اپنا کر ترقی یافتہ معاشرے آج خوشحال ہیں۔ یورپ جانے کیلئے مسلمان لوگ مرتے ہیں، کتوں کی طرح خجل خوار ہوتے ہیں، وہاں جاکر ہر گھٹیا سے گھٹیا کام کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں، گوروں کے ٹوائلٹ صاف کرتے ہیں، مگر یہ نہیں سوچتے کہ ہم اپنے معاشروں میں یہی اصول لاگوں کیوں نہیں کرتے۔ جس سے پوچھو، وہ چار گالیاں حکومت کو دے گا اور کہے گا کہ سارا قصور حکومت کا ہے اسی لئے ہم نے ترقی نہیں کی۔ حکومت جس کی بھی لے آؤ جب تک معاشرے کی سمت درست نہیں ہوگی، تب تک معاشرہ خوشحال نہیں ہوسکتا۔
مسلمان پرانی سوچ پر روا رہ کر روزی روٹی کے چکر سے نہیں نکل پایا تو وہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کیا خاک کرے گا۔ آج کی جدید دنیا میں مسلمانوں کا حصہ صفر ہے، کیا یہ پونے دو ارب مسلمانوں کیلئے ڈوب مرنے کا مقام نہیں ہے؟
کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ آج کے جدید دور میں مسلمان ہی کیوں اتنے ذلیل و خوار ہیں۔ آپ اگر مسلمان ممالک اور مغربی ممالک کا موازنہ کریں تو آپ کو چند نمایاں فرق ملیں گے۔ مغربی ممالک کے لوگوں نے اپنے معاشرے ایسے تشکیل دیئے ہیں جن میں مذہب ہر شخص کا پرائیویٹ معاملہ ہے، وہ لوگ تین چار سو سال تک مذہبی جنگیں لڑتے رہے، پھر ان کو سمجھ آگئی کہ اگر مذہبی جنگ و جدل سے چھٹکارا پانا ہے تو مذہب کو ہر فرد کا پرائیویٹ معاملہ قرار دینا ہوگا۔ انہوں نے مذہب کو فرد کا پرائیویٹ معاملہ قرار دے کر ریاست اور سیاست کو اس سے الگ کردیا۔ دوسری طرف آپ مسلمان ملکوں کو دیکھ لیں انہوں نے سیاست سے لے کر معیشت تک ہر چیز میں مذہب کو گھسایا ہوتا ہے، آئین میں بھی مذہبی شقیں ڈالی ہوتی ہیں، اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشرے سے کبھی بھی مذہبی سرپھٹول ختم نہیں ہوتی۔ آپ اسلامی ملکوں کا حال دیکھ لیں، ہر جگہ مذہب کو لے کر لڑائیاں چل رہی ہیں، افغانستان، یمن، شام، عراق، ایران، پاکستان کسی اسلامی ملک میں آپ کو چین سکون نظر نہیں آئے گا۔ اس مسئلے کا سب سے بہتر حل یہی ہے کہ مذہب کو یورپ کی طرح ہر فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے دیا جائے۔
مغربی معاشروں اور مسلم معاشروں کا دوسرا فرق یہ ہے کہ مغربی معاشروں میں عورتوں کو آزادی ہے کہ وہ اپنی مرضی کی زندگی جی سکیں، اپنی مرضی کی جاب چن سکیں، خود کمائیں اور نہ صرف اپنا پیٹ پالیں بلکہ معاشرے کی پروڈکٹیویٹی میں بھی حصہ ڈالیں۔ جبکہ مسلم معاشروں میں عورتوں کو گھروں کی چار دیواری میں بند کیا ہوتا ہے، ان کو برقعوں اور چادروں میں لپیٹ لپیٹ کر رکھا جاتا ہے، ان کا کام صرف خاوند کی خدمت اور بچے پیدا کرکے ان کی پرورش کرنا ہوتا ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے آدھی آبادی کو ناکارہ کرکے اس کا مالی بوجھ باقی آدھی آبادی پر ڈال دیا جاتا ہے، نتیجتاً ایسا معاشرہ کبھی غربت سے باہر آہی نہیں پاتا۔ مسلم معاشرے اس کی عملی مثال ہیں۔ جس معاشرے میں عورتیں جتنی قید میں ہیں، وہ معاشرہ مالی طور پر اتنا ہی بدحال ہے۔۔
مہذب معاشروں اور بدحال مسلم معاشروں میں تیسرا بڑا فرق یہ ہے کہ مہذب معاشروں کے لوگ بچے اپنے وسائل کے حساب سے پیدا کرتےہیں جبکہ مسلمان ممالک میں لوگ اندھا دھند جانوروں کی طرح بچے پیدا کرتے ہیں اور لاجک یہ دیتے ہیں کہ رزق تو اللہ نے دینا ہے، جب آبادی انتہائی تیزی سے بڑھتی ہے تو وسائل اس حساب سے نہیں بڑھ پاتے، اس لئے معاشرہ مزید سے مزید غربت کا شکار ہوتا جاتا ہے۔ یا تو آپ میں اتنی سکت ہو کہ آپ آبادی کے حساب سے اپنے وسائل بڑھاسکیں، جو کہ بہت ہی مشکل کام ہے تو اس کا بہتر حل یہ ہے کہ اپنے وسائل کے حساب سے بچے پیدا کریں۔ کوئی جوڑا اس وقت تک بچہ پیدا نہ کرے جب تک اس کی مالی حالت ایسی نہ ہوجائے کہ وہ اس بچے کو اچھی خوراک دے سکے ، اچھی تعلیم دے سکے اوراچھی پرورش کرسکے۔ مسلم ممالک کے بچوں کی اکثریت ناکافی خوراک ملنے کی وجہ سے سٹنٹڈ گروتھ کا شکار ہوتی ہے، اپنے پورے قد پر نہیں پہنچ پاتی۔
آج کی دنیا میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ کون سے اصول اپنا کر کوئی معاشرہ مالی طور پر خوشحال ہوسکتا ہے، مگر آج کے مسلمان کو یہ سمجھ نہیں آرہی، وہ کتوں کی طرح ذلیل ہورہا ہے، دنیا بھر میں بھکاریوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے، یہ بھیک مانگ لیں گے، چوریاں کرلیں گے، دو نمبریاں کرلیں گے، مگر اپنے سدھار کیلئے وہ اصول اپنانے کی طرف نہیں جائیں گے جن کو اپنا کر ترقی یافتہ معاشرے آج خوشحال ہیں۔ یورپ جانے کیلئے مسلمان لوگ مرتے ہیں، کتوں کی طرح خجل خوار ہوتے ہیں، وہاں جاکر ہر گھٹیا سے گھٹیا کام کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں، گوروں کے ٹوائلٹ صاف کرتے ہیں، مگر یہ نہیں سوچتے کہ ہم اپنے معاشروں میں یہی اصول لاگوں کیوں نہیں کرتے۔ جس سے پوچھو، وہ چار گالیاں حکومت کو دے گا اور کہے گا کہ سارا قصور حکومت کا ہے اسی لئے ہم نے ترقی نہیں کی۔ حکومت جس کی بھی لے آؤ جب تک معاشرے کی سمت درست نہیں ہوگی، تب تک معاشرہ خوشحال نہیں ہوسکتا۔
مسلمان پرانی سوچ پر روا رہ کر روزی روٹی کے چکر سے نہیں نکل پایا تو وہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کیا خاک کرے گا۔ آج کی جدید دنیا میں مسلمانوں کا حصہ صفر ہے، کیا یہ پونے دو ارب مسلمانوں کیلئے ڈوب مرنے کا مقام نہیں ہے؟