پوری دنیا میں مسلمان ہی کیوں ذلیل ہورہے ہیں؟

M_Shameer

MPA (400+ posts)
And I disagree that rule of law and justice are a by product of financial stability but rather the other way round. Financial stability only comes through rule of law and justice, take Nigeria's example it is one of the major oil exporting countrys in the world ( $52 billion in 2022 ) yet its population is dirt poor. Why? Because there is no rule of law and justice, the corrupt just pocket the money, there is no rule of law to stop the corruption and the population never sees any of that money.

کسی بھی معاشرے میں رول آف لاء اور جسٹس کس نے قائم کرنا ہوتا ہے؟ اسی معاشرے کے لوگوں نے۔ جج ہوں، پولیس والے ہوں ، یا سیاستدان، سب اسی معاشرے سے نکل کر آتے ہیں، اگر معاشرہ بحثیت مجموعی مالی بدحالی کا شکار ہو تو ایسے معاشرے میں ہر شخص عدم تحفظ کا شکار ہوگا اور لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہوگا۔ چاہے وہ عام ریڑھی والا ہو ، پولیس والا ہو، جج ہو یا وزیراعظم۔ پھر کیا کوئی آسمان سے آکر رول آف لاء قائم کرے گا۔ ایسے معاشرے میں اگر چند افراد دیانتدار ہوں بھی تو وہ کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے۔

ہاں ایک ایسا معاشرہ جس میں بحثیت مجموعی مالی ابتری نہ ہو، ایسے معاشرے میں لوگوں کی اکثریت امن اور سکون سے رہنا چاہے گی، لوگوں کی اکثریت نہ دوسرے کا مال لوٹے گی اور نہ چاہے گی کہ دوسرے ان کا مال لوٹیں۔ (ہاں ایک اقلیت موجود رہے گی جو جرائم پیشہ اور شرپسند حرکات پر مائل رہے گی، مگر اس کو معاشرے کی اکثریت کنٹرول کرلے گی) ایسے معاشرے سے جو جج، پولیس والے، اور سیاستدان نکل کرر آئیں گے ان کیلئے ایسے معاشرے کو مزید بہتر کرنا بہت آسان ہوگا۔ ایسے معاشرے میں جسٹس اور رول آف لاء بھی قائم کرنا آسان ہوگا۔ بہ نسبت پہلے والے معاشرے کے۔

maslow-needs3-1024x1024.jpg


یہ امریکی نفسیات دان ابراہم میسلو کی پیش کردہ ہائرارکی آف نیڈز ہے۔ جس کو انسانی نفسیات کو سمجھنے میں خاص مقام حاصل ہے۔ اور یہ کامن سینس کی بات بھی ہے۔ اس کے مطابق انسان کی سب سے پہلی ضرورت خوراک، پانی، پناہ اور کپڑے وغیرہ ہیں۔ جب یہ ضرورت پوری ہوجائے تو پھر وہ اپنی سیفٹی اور سیکورٹی چاہتا ہے۔ اس کے بعد اگلے مرحلے میں وہ معاشرتی تعلقات قائم کرتا ہے۔ جب یہ تینوں ضروریات پوری ہوجائیں پھر وہ اپنی قابلیت کو بروئے کار لاکر اچیومنٹس حاصل کرتا ہے، دنیا میں کانٹری بیوٹ کرتا ہے، نئی ایجادات کرتا ہے۔ اور سب سے اوپر والے مرحلے پر بہت کم لوگ پہنچتے ہیں جو کہ سیلف ایکچولائزیشن کا مرحلہ ہے، اس مرحلے پر انسان دنیا پر اور اپنے وجود پر سوالات اٹھاتا ہے، فلسفی نئے فلسفے تراشتے ہیں، دنیا کو بہتر کرنے کے اصول وضع کرتے ہیں۔

مسلم معاشروں کی بدقسمتی یہ ہے کہ روزی روٹی اور تحفظ کے مرحلوں سے ہی نہیں نکل پائے، تو انہوں نے ایجادات کرکے جدید دنیا میں اپنا حصہ کیا ڈالنا ہے۔ کیونکہ یہ سارے اسی واہمے کا شکار ہیں کہ تبدیلی اوپر سے کہیں آتی ہے، کوئی آکر آسمان سے ان کو ٹھیک کردے گا ، یا کوئی حکمران آکر رول آف لاء جسٹس قائم کرے گا۔ ان کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ تبدیلی تب آئے گی جب یہ خود تبدیل ہوں گے۔ اوپر سے کوئی تبدیلی نہیں آتی۔۔

 

Rambler

Chief Minister (5k+ posts)
کسی بھی معاشرے میں رول آف لاء اور جسٹس کس نے قائم کرنا ہوتا ہے؟ اسی معاشرے کے لوگوں نے۔ جج ہوں، پولیس والے ہوں ، یا سیاستدان، سب اسی معاشرے سے نکل کر آتے ہیں، اگر معاشرہ بحثیت مجموعی مالی بدحالی کا شکار ہو تو ایسے معاشرے میں ہر شخص عدم تحفظ کا شکار ہوگا اور لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہوگا۔ چاہے وہ عام ریڑھی والا ہو ، پولیس والا ہو، جج ہو یا وزیراعظم۔ پھر کیا کوئی آسمان سے آکر رول آف لاء قائم کرے گا۔ ایسے معاشرے میں اگر چند افراد دیانتدار ہوں بھی تو وہ کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے۔

ہاں ایک ایسا معاشرہ جس میں بحثیت مجموعی مالی ابتری نہ ہو، ایسے معاشرے میں لوگوں کی اکثریت امن اور سکون سے رہنا چاہے گی، لوگوں کی اکثریت نہ دوسرے کا مال لوٹے گی اور نہ چاہے گی کہ دوسرے ان کا مال لوٹیں۔ (ہاں ایک اقلیت موجود رہے گی جو جرائم پیشہ اور شرپسند حرکات پر مائل رہے گی، مگر اس کو معاشرے کی اکثریت کنٹرول کرلے گی) ایسے معاشرے سے جو جج، پولیس والے، اور سیاستدان نکل کرر آئیں گے ان کیلئے ایسے معاشرے کو مزید بہتر کرنا بہت آسان ہوگا۔ ایسے معاشرے میں جسٹس اور رول آف لاء بھی قائم کرنا آسان ہوگا۔ بہ نسبت پہلے والے معاشرے کے۔

maslow-needs3-1024x1024.jpg


یہ امریکی نفسیات دان ابراہم میسلو کی پیش کردہ ہائرارکی آف نیڈز ہے۔ جس کو انسانی نفسیات کو سمجھنے میں خاص مقام حاصل ہے۔ اور یہ کامن سینس کی بات بھی ہے۔ اس کے مطابق انسان کی سب سے پہلی ضرورت خوراک، پانی، پناہ اور کپڑے وغیرہ ہیں۔ جب یہ ضرورت پوری ہوجائے تو پھر وہ اپنی سیفٹی اور سیکورٹی چاہتا ہے۔ اس کے بعد اگلے مرحلے میں وہ معاشرتی تعلقات قائم کرتا ہے۔ جب یہ تینوں ضروریات پوری ہوجائیں پھر وہ اپنی قابلیت کو بروئے کار لاکر اچیومنٹس حاصل کرتا ہے، دنیا میں کانٹری بیوٹ کرتا ہے، نئی ایجادات کرتا ہے۔ اور سب سے اوپر والے مرحلے پر بہت کم لوگ پہنچتے ہیں جو کہ سیلف ایکچولائزیشن کا مرحلہ ہے، اس مرحلے پر انسان دنیا پر اور اپنے وجود پر سوالات اٹھاتا ہے، فلسفی نئے فلسفے تراشتے ہیں، دنیا کو بہتر کرنے کے اصول وضع کرتے ہیں۔

مسلم معاشروں کی بدقسمتی یہ ہے کہ روزی روٹی اور تحفظ کے مرحلوں سے ہی نہیں نکل پائے، تو انہوں نے ایجادات کرکے جدید دنیا میں اپنا حصہ کیا ڈالنا ہے۔ کیونکہ یہ سارے اسی واہمے کا شکار ہیں کہ تبدیلی اوپر سے کہیں آتی ہے، کوئی آکر آسمان سے ان کو ٹھیک کردے گا ، یا کوئی حکمران آکر رول آف لاء جسٹس قائم کرے گا۔ ان کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ تبدیلی تب آئے گی جب یہ خود تبدیل ہوں گے۔ اوپر سے کوئی تبدیلی نہیں آتی۔۔


For a Muslim this world is a mirage - just a simulation. A person's life span of 60-70 years is a fleeting second when compared to the overall system time scales. Your argument would have validity if we were not to face death. For real Muslim this world is just a preparation for the hereafter so having 'success' or not in this world does not really matter. Got it?
 

Citizen X

President (40k+ posts)
Dr Adam please give him your signature injection of 100% unadulterated urine. Dog is getting out of his manger.
Still your delusional senile ass can't help but boss people around while perched way up on that high horse of yours, you do this, you do that! lol
 

Citizen X

President (40k+ posts)

بھائی میرے۔ اگر آپ کے یہ آرگیومنٹس ہیں تو پھر آپ کو اسلام کے بارے میں ککھ پتا نہیں۔ پہلے قرآن اور احادیث کو پڑھیں اور یہ جو آپ جیسے مومنین بار بار "جس نے ایک انسان کو مارا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا والی آیت بتاتے ہیں" انہوں نے کیا یہ آیات نہیں پڑھیں، یہ بھی قرآن ہی میں ہیں۔

fight-1.jpg
muhammad-4.jpg

friendship-1.jpg



So like Islamophobes you are going to quote out of context verses and twist their meaning into what you want them to be?
 

Citizen X

President (40k+ posts)
کرکے جدید دنیا میں اپنا حصہ کیا ڈالنا ہے۔ کیونکہ یہ سارے اسی واہمے کا شکار ہیں کہ تبدیلی اوپر سے کہیں آتی ہے، کوئی آکر آسمان سے ان کو ٹھیک کردے گا ،
This is because their books tell them fairy tales of Prophets coming again and saviours coming and saving them and then Muslims will rule over the world till the end of time and they will wine and dine like kings in this world and then eventually after their small sins are dealt with they will go to heaven.

So when in the end when "we" are all going to win and end up in heaven as per our comedy books of fairytales then why should be strive and struggle today, we'll just chill and wait for our mahdis to come and save us!
 

Citizen X

President (40k+ posts)
کسی بھی معاشرے میں رول آف لاء اور جسٹس کس نے قائم کرنا ہوتا ہے؟ اسی معاشرے کے لوگوں نے۔ جج ہوں، پولیس والے ہوں ، یا سیاستدان، سب اسی معاشرے سے نکل کر آتے ہیں، اگر معاشرہ بحثیت مجموعی مالی بدحالی کا شکار ہو تو ایسے معاشرے میں ہر شخص عدم تحفظ کا شکار ہوگا اور لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہوگا۔ چاہے وہ عام ریڑھی والا ہو ، پولیس والا ہو، جج ہو یا وزیراعظم۔ پھر کیا کوئی آسمان سے آکر رول آف لاء قائم کرے گا۔ ایسے معاشرے میں اگر چند افراد دیانتدار ہوں بھی تو وہ کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے۔

ہاں ایک ایسا معاشرہ جس میں بحثیت مجموعی مالی ابتری نہ ہو، ایسے معاشرے میں لوگوں کی اکثریت امن اور سکون سے رہنا چاہے گی، لوگوں کی اکثریت نہ دوسرے کا مال لوٹے گی اور نہ چاہے گی کہ دوسرے ان کا مال لوٹیں۔ (ہاں ایک اقلیت موجود رہے گی جو جرائم پیشہ اور شرپسند حرکات پر مائل رہے گی، مگر اس کو معاشرے کی اکثریت کنٹرول کرلے گی) ایسے معاشرے سے جو جج، پولیس والے، اور سیاستدان نکل کرر آئیں گے ان کیلئے ایسے معاشرے کو مزید بہتر کرنا بہت آسان ہوگا۔ ایسے معاشرے میں جسٹس اور رول آف لاء بھی قائم کرنا آسان ہوگا۔ بہ نسبت پہلے والے معاشرے کے۔

maslow-needs3-1024x1024.jpg


یہ امریکی نفسیات دان ابراہم میسلو کی پیش کردہ ہائرارکی آف نیڈز ہے۔ جس کو انسانی نفسیات کو سمجھنے میں خاص مقام حاصل ہے۔ اور یہ کامن سینس کی بات بھی ہے۔ اس کے مطابق انسان کی سب سے پہلی ضرورت خوراک، پانی، پناہ اور کپڑے وغیرہ ہیں۔ جب یہ ضرورت پوری ہوجائے تو پھر وہ اپنی سیفٹی اور سیکورٹی چاہتا ہے۔ اس کے بعد اگلے مرحلے میں وہ معاشرتی تعلقات قائم کرتا ہے۔ جب یہ تینوں ضروریات پوری ہوجائیں پھر وہ اپنی قابلیت کو بروئے کار لاکر اچیومنٹس حاصل کرتا ہے، دنیا میں کانٹری بیوٹ کرتا ہے، نئی ایجادات کرتا ہے۔ اور سب سے اوپر والے مرحلے پر بہت کم لوگ پہنچتے ہیں جو کہ سیلف ایکچولائزیشن کا مرحلہ ہے، اس مرحلے پر انسان دنیا پر اور اپنے وجود پر سوالات اٹھاتا ہے، فلسفی نئے فلسفے تراشتے ہیں، دنیا کو بہتر کرنے کے اصول وضع کرتے ہیں۔

مسلم معاشروں کی بدقسمتی یہ ہے کہ روزی روٹی اور تحفظ کے مرحلوں سے ہی نہیں نکل پائے، تو انہوں نے ایجادات کرکے جدید دنیا میں اپنا حصہ کیا ڈالنا ہے۔ کیونکہ یہ سارے اسی واہمے کا شکار ہیں کہ تبدیلی اوپر سے کہیں آتی ہے، کوئی آکر آسمان سے ان کو ٹھیک کردے گا ، یا کوئی حکمران آکر رول آف لاء جسٹس قائم کرے گا۔ ان کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ تبدیلی تب آئے گی جب یہ خود تبدیل ہوں گے۔ اوپر سے کوئی تبدیلی نہیں آتی۔۔

 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)
But you are a doctor first with duty of care obligation. You have to administer the drug dear doctor. Patient is crying for it. Please procure 1 litre of concentrated you know what at the earliest.

Its a doctor's prerogative to decide which med to prescribe to a person but not of a passerby.
Enough now, no more on this useless talk.

Citizen X

 

Rambler

Chief Minister (5k+ posts)
Its a doctor's prerogative to decide which med to prescribe to a person but not of a passerby.
Enough now, no more on this useless talk.

Citizen X


You have disappointed me and more so the patient who will die of excessive farting. No worries - I will arrange for a transvestite to administer the required dose into our beloved friend the farting falcon.