
پنجاب میں خواتین کے خلاف جرائم کی تفتیش کرنے والے اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کی ناقص کارکردگی کے اعداد و شمار سامنے آ گئے، جن کے مطابق ہزاروں مقدمات درج ہونے کے باوجود مجرموں کو سزا دلوانے میں پولیس اور تفتیشی ادارے ناکام رہے۔حکام کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق پنجاب میں گزشتہ ایک سال کے دوران خواتین کے خلاف جرائم پر 70 ہزار کیسز درج کیے گئے، تاہم صرف 869 ملزمان کو سزا مل سکی۔ ناقص تفتیش کو ان کم سزا یافتہ کیسز کی بنیادی وجہ قرار دیا جا رہا ہے، جس کے باعث بیشتر ملزمان قانونی کارروائی سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق لاہور میں خواتین کے خلاف جرائم کے کیسز میں کسی بھی ملزم کو سزا نہ ہو سکی، جبکہ مجموعی طور پر لاہور سے 65 ملزمان اور صوبے بھر سے 2,388 ملزمان بری ہو گئے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق صوبے میں ایک سال کے دوران 60 ہزار 200 مقدمات درج ہوئے، جبکہ لاہور میں اسی مدت میں 10 ہزار 100 کیسز رجسٹر کیے گئے۔
پولیس حکام کے مطابق خواتین کے خلاف جرائم سے نمٹنے کے لیے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب کی ہدایت پر خصوصی سیل تشکیل دیا گیا تھا، جس کا مقصد ایسے مقدمات میں موثر تحقیقات کو یقینی بنانا تھا۔ تاہم، وسائل کی فراہمی اور خصوصی سیل کے قیام کے باوجود خواتین کے خلاف جرائم میں ملوث ملزمان کو سزائیں دلوانے کی شرح انتہائی کم رہی، جس پر انسانی حقوق کے کارکنان اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یہ امر تشویشناک ہے کہ پنجاب میں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جنسی زیادتی، تیزاب حملے، گھریلو تشدد، اور دیگر صنفی جرائم کے واقعات میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، مگر مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں تفتیشی ادارے ناکام دکھائی دیتے ہیں۔
- Featured Thumbs
- https://static.dw.com/image/43918533_605.jpg