پاکستان کا انتخابی نظام یا انتخابی دھوکا

QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)
پاکستان کا انتخابی نظام یا انتخابی دھوکا



شاہنواز فاروقی




ایک قوم کی حیثیت سے ہمارا معاملہ عجیب ہے۔ ہم کیکر لگاتے ہیں اور اس سے انگور توڑنے کی توقع کرتے ہیں۔ ہم جھوٹ بولتے ہیں اور سچ کے اُگنے کی امید کرتے ہیں۔ ہم انتخابی دھوکا تخلیق کرتے ہیں اور اسے انتخابی نظام کا شاندار نام عطا کرتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ دھوکے کا دھوکا ہونا ظاہر اور ثابت ہوتا ہے تو ہم شور مچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آزاد کشمیر میں ہونے والے انتخابات میں بدترین دھاندلی ہوئی ہے۔

نوازلیگ کا کہنا ہے کہ انتخابی فہرستیں جعلی تھیں اور ہم ان فہرستوں کو عدالت میں چیلنج کررہے ہیں۔ مسلم کانفرنس کا دعویٰ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر نے جانبداری کے تمام معلوم ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں اور آزاد کشمیر کے انتخابات کو انتخابات کہنا درست نہیں۔ ایم کیو ایم نے کراچی میں دو نشستوں پر انتخاب کے التواءکو دھاندلی قرار دیتے ہوئے عدالت سے رجوع کرلیا۔ لیکن یہ واویلا اس اعتبار سے مضحکہ خیز ہے کہ پاکستان میں انتخابی نظام کی تاریخ انتخابی دھوکے کی تاریخ ہی، اور اس نظام سے تہہ در تہہ اور مرحلہ بہ مرحلہ دھوکا ہی برآمد ہوا ہے۔

اس بات کا مفہوم عیاں ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کے انتخابی نظام میں نہ صرف دھوکے موجود ہیں بلکہ پاکستان کا انتخابی نظام حقیقی حکمران طبقے نے دھوکے سے تعمیر کیا ہے۔ یعنی دھوکا پاکستان کے انتخابی نظام کی اینٹ ہی، غلط کاری اس نظام کا گارا ہے اور شاطر اس نظام کے معمار ہیں۔

پاکستان کے انتخابی نظام میں مسلّمہ دھوکا دہی کی تاریخ کو دیکھا جائے تو سب سے بڑی حقیقت یہ نظر آتی ہے کہ پاکستان 1947ءمیں قائم ہوا لیکن 1970ءتک ملک میں بالغ حق رائے دہی یعنی ایک آدمی ایک ووٹ کی بنیاد پر انتخابات ہی نہیں ہوسکے۔ یہ صورت حال ملک کی سیاست پر جرنیلوں اور سول بیوروکریسی کے مکمل غلبے کی علامت ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بعدازاں ملک میں جو انتخابی نظام سامنے آیا وہ سر سے پیر اور الف سے ے تک پابند تھا دھوکا دہی پر مبنی تھا۔ اس کا سب سے بڑا اور پہلا ثبوت جنرل ایوب خان کا تخلیق کردہ بنیادی جمہوریت کا نظام یا بی ڈی سسٹم تھا جس کا بنیادی مقصد جنرل ایوب کے غاصبانہ اقتدار کو سیاسی بنیاد اور سیاسی چہرہ فراہم کرنا اور معاشرے پر جنرل ایوب کی گرفت کو مضبوط بنانا تھا۔ جنرل ایوب سیاست کے قائل نہیں تھے لیکن انہوں نے بی ڈی سسٹم کے ذریعے طویل عرصے تک غیر سیاسی سیاست کی، اور ایک غیر نمائندہ نظام کو نمائندہ نظام بنائے رکھا۔ البتہ انتخابی نظام میں دھوکا دہی کی سب سے بڑی اور ہولناک واردات جنرل ایوب کے دور میں ہونے والا صدارتی انتخاب تھا۔ اس انتخاب میں قائداعظم کی بہن اور مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح جنرل ایوب کے مقابل تھیں۔

اس انتخابی معرکے کے بنیادی حقائق عیاں تھے۔ فاطمہ جناح بانی  پاکستان کی بہن اور ان کی جانشین تھیں۔ مشرقی پاکستان کی آبادی پاکستان کی کل آبادی کا 54 فیصد تھی اور مشرقی پاکستان میں فاطمہ جناح انتہائی مقبول اور جنرل ایوب انتہائی غیر مقبول تھے۔ مغربی پاکستان کے شہری علاقوں بالخصوص کراچی میں محترمہ فاطمہ جناح کی پذیرائی غیر معمولی تھی۔ اس کے باوجود جنرل ایوب جیت گئی، محترمہ فاطمہ جناح ہارگئیں۔ اس مثال کو دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اگر قائداعظم بھی جنرل ایوب کے مقابلے میں انتخاب لڑتے تو انتخابی دھوکے سے انہیں بھی شکست سے دوچار کردیا جاتا اور جنرل ایوب قائداعظم سے بھی بڑی شخصیت بن کر ابھر آتے

۔ 1970ءکے انتخابات کے بارے میں یہ رائے عام ہے کہ یہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ تھی، اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی۔ لیکن عوامی لیگ اور پیپلزپارٹی کی اس سیاسی تفریق یا Political Polarization میں جنرل یحییٰ صدر منتخب ہونا چاہتے تھے اور یہ اُسی صورت میں ممکن تھا کہ کسی ایک سیاسی جماعت کو غلبہ حاصل نہ ہو، کیوں کہ اسی صورت میں جنرل یحییٰ کی سیاسی دال گل سکتی تھی۔ کسی سیاسی جماعت کو پورے سیاسی منظرنامے میں مکمل غلبہ حاصل ہوجاتا تو وہ سیاسی جماعت جنرل یحییٰ کو منتخب کرنے کی پابند نہیں ہوسکتی تھی۔

جنرل یحییٰ کے زمانے کے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل بریگیڈیئر (ر) اے آر صدیقی نے اپنے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ مولانا بھاشانی مشرقی پاکستان کے دیہی علاقوں میں مقبول تھے اور انہیں وہاں عوامی لیگ کے خلاف انتخاب لڑانے کا فیصلہ ہوا تھا اور جنرل یحییٰ نے انہیں دو کروڑ روپے دینے کا وعدہ کیا تھا، مگر اس وعدے پر عمل نہ ہوسکا جس کی وجہ سے عوامی لیگ کی راہ نہ روکی جاسکی۔ ایسا کیوں نہ ہوسکا؟ جب یہ سوال بریگیڈیئر(ر) صدیقی سے کیا گیا تو انہوں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جنرل یحییٰ پاکستان توڑنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔

اس اطلاع کو درست مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے ایک فوجی آمر نے انتخابی نظام کو ملک توڑنے کے لیے استعمال کیا۔ 1977ءکے انتخابات ہوئے تو بھٹو صاحب ملک میں مقبول تھے اور اگر وہ انتخابی دھاندلیاں نہ کراتے تو آسانی کے ساتھ دوبارہ منتخب ہوجاتے۔ لیکن پاکستان کے انتخابی نظام کا خمیر دھوکا دہی سے اٹھا ہی، چنانچہ بھٹو صاحب نے انتخابات میں دھاندلی کرائی اور ان کے خلاف ایک بڑی تحریک برپا ہوگئی۔ بھٹو صاحب نے پی این اے کے ساتھ مذاکرات میں بالآخر دھاندلی کو تسلیم کیا اور وہ 33 نشستوں پر دوبارہ انتخاب کرانے پر آمادہ ہوگئے تھے مگر اُس وقت دیر ہوچکی تھی۔ جنرل ضیاءالحق مارشل لاءلگانے کا فیصلہ کرچکے تھے اور انہوں نے پی این اے اور بھٹو کے درمیان سمجھوتے کی اطلاع ملتے ہی مارشل لاءلگادیا۔

اس طرح ملک کے انتخابی نظام کی دھوکا دہی نے ملک کو تیسرے مارشل لاءکی لعنت میں مبتلا کردیا۔ جنرل ضیاءالحق نے پاکستان کے انتخابی نظام کی دھوکا دہی میں ایک نئی جہت کا اضافہ کیا۔ انہوں نے ملک میں انتخابات کرائے تو غیر جماعتی بنیادوں پر۔ یہ ملک کے سیاسی نظام کو سیاسی بے چہرگی میں مبتلا کرنے کا منصوبہ تھا اور اس کا مقصد ایک ایسی اسمبلی وجود میں لانا تھا جس پر جنرل ضیاءالحق کا مکمل غلبہ ہو۔ جنرل ضیاءالحق اپنے اس منصوبے میں پوری طرح کامیاب رہی، لیکن اُن کے اس منصوبے نے ملک کی سیاست کو بدعنوانی کے سمندر میں غرق کردیا، اس لیے کہ پہلے جو خرابیاں جماعتی بنیادوں پر موجود تھیں اب انفرادی بنیادوں پر پیدا ہوگئیں۔ پاکستان کے انتخابی نظام کی خرابی اور دھوکادہی کا ایک زاویہ یہ ہے کہ ملک کے تمام انتخابات میں حلقہ بندی سیاسی بنیادوں پر ہوئی ہے اور تمام برسراقتدار جماعتوں نے اس سلسلے میں دھاندلیوں کے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔

یہ تیکنیکی انتخابی دھاندلی کی ایک صورت ہے۔ تیکنیکی انتخابی دھاندلی کی دوسری صورت یہ ہے کہ انتخابی فہرستیں جعلی ہوتی ہیں۔ اس جعل سازی کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے مطابق گزشتہ انتخابات میں 3 کروڑ 70 لاکھ ووٹ جعلی تھے۔ یہ کل ووٹوں کا تقریباً نصف ہی، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ گزشتہ انتخابات کے تمام نتائج جعلی تھے اور موجودہ منتخب ایوانوں کی کوئی اخلاقی سیاسی آئینی قانونی اور سماجی بنیاد نہیں ہے۔ انتخابی دھوکا دہی کا ایک شرمناک پہلو کراچی میں گزشتہ بلدیاتی انتخابات کے موقع پر سامنے آیا۔ ایم کیو ایم نے پولیس اور رینجرز کی موجودگی میں حریف سیاسی جماعتوں کے تمام انتخابی ایجنٹوں کو پولنگ اسٹیشنوں سے باہر نکال دیا اور جعلی ووٹوں سے انتخابی بکسوں کو بھر دیا۔ جماعت اسلامی کے قائدین اس صورت حال پر فوج رینجرز پولیس اور الیکشن کمیشن کے اعلیٰ اہلکاروں سے رابطے کی کوشش کرتے رہے مگر یا تو ان کو متعلقہ لوگ دستیاب ہی نہ ہوسکے یا پھر انہوں نے کہہ دیا کہ ہم اس سلسلے میں کچھ نہیں کرسکتے۔ اس صورت حال کا مفہوم یہ ہے کہ انتخابی دھوکادہی کوئی اتفاقی امر نہیں بلکہ ایک شعوری عمل ہی، اور اس عمل میں خاکی اور سول سب شریک ہیں۔ لیکن انتخابات میں تیکنیکی دھاندلی اور تیکنیکی دھوکادہی کا معاملہ یہیں تک محدود نہیں۔ پاکستان کا کوئی انتخاب ایسا نہیں جس کے حتمی انتخابی نتائج جرنیلوں کی مہر کے بغیر جاری کیے گئے ہوں۔

یہ انتخابی دھوکادہی کی وہ منزل ہے جہاں جیتے ہوئے بھی ہار جاتے ہیں۔ انتخابی دھوکادہی کے دو پہلو نظریاتی اور فکری بھی ہیں۔ ان میں سے ایک پہلو یہ ہے کہ دنیا میں چپراسی بھی بھرتی کیا جاتا ہے تو اس کی کم سے کم اہلیت کا تعین کیا جاتا ہی، لیکن پاکستان کے اعلیٰ ترین منتخب ایوانوں کے اراکین کے لیے اہلیت کی کوئی شرط ہی نہیں ہے۔ 1973ءکے آئین کی دفعہ 62 اور 63 کہتی ہیں کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو امین اور صادق ہونا چاہیے اور ان کی شہرت ایک اچھے عامل مسلمان کی ہونی چاہیی، لیکن آئین کی ان شقوں کو آج تک موثر نہیں بنایا جاسکا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کے اعلیٰ منتخب ایوان چوروں لٹیروں قاتلوں بھتہ خوروں شرابیوں لوٹوں کمیشن کھانے والوں ناخواندہ نیم خواندہ اور مذہبی تعلیمات سے یکسر غافل لوگوں سے بھر جاتے ہیں۔ ان لوگوں میں رحمن ملک جیسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو دیکھ کر بھی سورہ اخلاص نہیں سنا پاتے۔ پاکستان کے انتخابی نظام کی دھوکا دہی کا ایک اہم حوالہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے قوم کو صوبائی اور لسانی جذبات و نفسیات کا قیدی بنادیا ہے اور انہیں ذات برادری کی تفریق سے کبھی بلند نہیں ہونے دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد انہی تعصبات کی بنیاد پر ووٹ ڈالتی ہے۔ گزشتہ انتخابات کے نتائج اس کا سب سے بڑا ثبوت ہیں۔ ان نتائج کے مطابق نوازشریف پنجاب سے باہر کہیں موجود نہیں۔ پیپلزپارٹی کی ساری قوت دیہی سندھ میں ہے۔ اے این پی خیبر پختون خوا میں قید ہے اور سندھ کے شہری علاقوں کے ایک حصے پر مہاجر نفسیات کا اثر ہے۔ اس منظرنامے میں نہ کہیں اسلام ہی، نہ جمہوریت اور نہ پاکستان۔