RajaRawal111
Prime Minister (20k+ posts)
عمران اور عمرانی عدالتوں کو رات کو لگنے سے جلے ہوے ہیں ان بیچاروں کو ذرا پانامہ کیس کی سپیڈ یاد دلا دیں کیوں کہ ان میں ٩٠% تو جاہل ہیں جن پتا ہی نہیں - باقی ١٠% اپنی منافقت کے ہاتھوں مجبور ہیں
میں اج آپ کے سامنے ایک تلخ حقیت بیان کرنے جا رہا ہوں، یہ #تھریڈ پڑھ کر اپ خود فیصلہ کرنا
میں نے پانامہ فیصلے کے بعد سپریم کورٹ میں اپنے انکھوں سے جو دیکھا اور کانوں سے جو سنا،وہ منظر اپکو اس تھریڈ میں بتانا چاہتا ہوں۔
فروری2018 اپریل 2018دس جون 2018 نومبر 2018کو ثاقب نثار اور اعجاز الحسن پر مشتمل دو رکنی بینج نے احستاب عدالت کے جج بشیر کو کیا احکامات دیے اس کا پس منظر کچھ اس طرح ہے فروری 2018 کو احتساب کورٹ کے جج بشیر نے نواز شریف کے خلاف ریفرنس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں مزید وقت لینے کے لئے دارخواست دی تو سپریم کورٹ نے 7ہفتے کا ٹائم دیا،ثاقب نثار نے کہا 7 ہفتوں میں کیس کی سماعت مکمل کرنا، پھر اپریل میں جب 7ہفتے کا ٹائم مکمل ہوا تو جج بشیر صاحب توسیع کے لئے سپریم کورٹ گئے، اس مرتبہ بھی میں وہاں موجود تھا ڈیم جج ثاقب نثار نے جون 2018 تک کا وقت دیا۔جون میں کیس کا فیصلہ نہیں ہوا جج بشیر کی درخواست پر سپریم کورٹ میں 10جون کو کیس لگا۔خواجہ حارث صاحب بھی وہاں پیش ہوئے، ثاقب نثار اور اعجاز الحسن کیس کی سماعت کے لئے کورٹ روم نمبر ایک ائے تو بہت غصے میں تھے۔کیس کے حوالے سے پوچھا، خواجہ حارث کو روسٹرم پر بلایا خواجہ صاحب نے دلائل دئے میرے اور بھی بہت کیسز ہیں وہاں پر بھی پیش ہونا پڑتا ہے۔ ثاقب نثار غصے میں اگئے کہا جو بھی ہو جائے نواز شریف کے خلاف ریفرنس کا فیصلہ 25 جولائی 2018 کے الیکشن سے پہلے ہونا چاہئے، احتساب عدالت کے جج بشیر کو حکم دیا کچھ بھی ہو جائے بےشک ہفتے میں کیس کی سماعت 7 دن ہو جائے ہفتے اور اتور کو بھی کیس کی سماعت ہو، صبح سے لیکر رات تک کیس کی سماعت ہو کیس کا فیصلہ 25 جولائی 2018 کے الیکشن سے پہلے ہونا چاہئے یہ ریمارکس تھے ڈیم جج ثاقب نثار کے،
پھر اسی طرح ہوا ہفتے میں 6 دن کیس کی سماعت ہوئی اور الیکشن سے پہلے کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ اور میاں نواز شریف، مریم نواز کو سزا دی گئی۔ اس کے بعد باقی دو ریفرنس احتساب عدالت کے دوسرے جج ارشد ملک صاحب کی کورٹ میں چل رہے تھے، نومبر 2018 کو سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی ٹائم ختم ہوئی تو جج ارشد ملک اضافی وقت کے لئے سپریم کورٹ میں درخواست لیکر پہنچ گئے, یہ نومبر 2018 کی بات ہے نواز شریف صاحب کو IHC سے ضمانت پر رہائی مل چکی تھی سپریم کورٹ میں کیس لگا، خواجہ حارث صاحب کو بھی
بلایا گیا، میں بھی اپنے پارٹی کے وکلا دوستوں کے ساتھ وہاں موجود تھا، جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تو ثاقب نثار نے خواجہ حارث صاحب کو مخاطب کر کے کہا میں ایک مہینے کا ٹائم دے رہا ہوں دسمبر میں کیس کا فیصلہ ہونا چاہئے خواجہ صاحب نے کہا یہ ممکن نہیں، مجھے اور کیسوں میں بھی پیش ہونا ہے ثاقب نثار نے کہا تو پھر آپ نے یہ کیس کیوں لیا، خواجہ حارث نے کہا ٹھیک ہے میں اپنا وکالت نامہ واپس لیتا ہوں، نواز شریف کوئی اور وکیل کرے گا، ڈیم جج ثاقب نثار نے غصے میں کہا، اپ وکالت نامہ واپس نہی لے سکتے، آپ نے وکالت نامہ واپس لیا تو دوسرا وکیل کیس کی تیاری کے لئے وقت مانگے گا آپ کو ہی ہر حال میں پیش ہونا ہو گا، اور دن رات کیس کی سماعت ہونا چاہئے اور دسمبر میں کیس کا فیصلہ ہونا چاہئے یہ ریمارکس تھے ڈیم جج ثاقب نثار کے، اصل بات یہ تھی جنوری میں ثاقب نثار صاحب ریٹائر ہو رہا تھا ثاقب نثار کے مرضی کے مطابق دسمبر 2018 میں کیس کا فیصلہ ہو گیا، فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف صاحب کو بری کیا العزیزیہ میں 7سال کی سزا ہوئی۔
#نوٹ میں نے جو تفصیلات یہاں بیان کی اس کی تصدیق آپ لوگ کورٹ رپورٹر
@HassanAyub82
@Matiullahjan919
@HasnaatMalik
@QayyumReports
سمیت بہت سے اور صحافیوں سے بھی کر سکتے۔اعجاز الحسن اب بھی ن لیگ کے کیسز سنتا ہے
میں اج آپ کے سامنے ایک تلخ حقیت بیان کرنے جا رہا ہوں، یہ #تھریڈ پڑھ کر اپ خود فیصلہ کرنا
میں نے پانامہ فیصلے کے بعد سپریم کورٹ میں اپنے انکھوں سے جو دیکھا اور کانوں سے جو سنا،وہ منظر اپکو اس تھریڈ میں بتانا چاہتا ہوں۔
فروری2018 اپریل 2018دس جون 2018 نومبر 2018کو ثاقب نثار اور اعجاز الحسن پر مشتمل دو رکنی بینج نے احستاب عدالت کے جج بشیر کو کیا احکامات دیے اس کا پس منظر کچھ اس طرح ہے فروری 2018 کو احتساب کورٹ کے جج بشیر نے نواز شریف کے خلاف ریفرنس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں مزید وقت لینے کے لئے دارخواست دی تو سپریم کورٹ نے 7ہفتے کا ٹائم دیا،ثاقب نثار نے کہا 7 ہفتوں میں کیس کی سماعت مکمل کرنا، پھر اپریل میں جب 7ہفتے کا ٹائم مکمل ہوا تو جج بشیر صاحب توسیع کے لئے سپریم کورٹ گئے، اس مرتبہ بھی میں وہاں موجود تھا ڈیم جج ثاقب نثار نے جون 2018 تک کا وقت دیا۔جون میں کیس کا فیصلہ نہیں ہوا جج بشیر کی درخواست پر سپریم کورٹ میں 10جون کو کیس لگا۔خواجہ حارث صاحب بھی وہاں پیش ہوئے، ثاقب نثار اور اعجاز الحسن کیس کی سماعت کے لئے کورٹ روم نمبر ایک ائے تو بہت غصے میں تھے۔کیس کے حوالے سے پوچھا، خواجہ حارث کو روسٹرم پر بلایا خواجہ صاحب نے دلائل دئے میرے اور بھی بہت کیسز ہیں وہاں پر بھی پیش ہونا پڑتا ہے۔ ثاقب نثار غصے میں اگئے کہا جو بھی ہو جائے نواز شریف کے خلاف ریفرنس کا فیصلہ 25 جولائی 2018 کے الیکشن سے پہلے ہونا چاہئے، احتساب عدالت کے جج بشیر کو حکم دیا کچھ بھی ہو جائے بےشک ہفتے میں کیس کی سماعت 7 دن ہو جائے ہفتے اور اتور کو بھی کیس کی سماعت ہو، صبح سے لیکر رات تک کیس کی سماعت ہو کیس کا فیصلہ 25 جولائی 2018 کے الیکشن سے پہلے ہونا چاہئے یہ ریمارکس تھے ڈیم جج ثاقب نثار کے،
پھر اسی طرح ہوا ہفتے میں 6 دن کیس کی سماعت ہوئی اور الیکشن سے پہلے کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ اور میاں نواز شریف، مریم نواز کو سزا دی گئی۔ اس کے بعد باقی دو ریفرنس احتساب عدالت کے دوسرے جج ارشد ملک صاحب کی کورٹ میں چل رہے تھے، نومبر 2018 کو سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی ٹائم ختم ہوئی تو جج ارشد ملک اضافی وقت کے لئے سپریم کورٹ میں درخواست لیکر پہنچ گئے, یہ نومبر 2018 کی بات ہے نواز شریف صاحب کو IHC سے ضمانت پر رہائی مل چکی تھی سپریم کورٹ میں کیس لگا، خواجہ حارث صاحب کو بھی
بلایا گیا، میں بھی اپنے پارٹی کے وکلا دوستوں کے ساتھ وہاں موجود تھا، جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تو ثاقب نثار نے خواجہ حارث صاحب کو مخاطب کر کے کہا میں ایک مہینے کا ٹائم دے رہا ہوں دسمبر میں کیس کا فیصلہ ہونا چاہئے خواجہ صاحب نے کہا یہ ممکن نہیں، مجھے اور کیسوں میں بھی پیش ہونا ہے ثاقب نثار نے کہا تو پھر آپ نے یہ کیس کیوں لیا، خواجہ حارث نے کہا ٹھیک ہے میں اپنا وکالت نامہ واپس لیتا ہوں، نواز شریف کوئی اور وکیل کرے گا، ڈیم جج ثاقب نثار نے غصے میں کہا، اپ وکالت نامہ واپس نہی لے سکتے، آپ نے وکالت نامہ واپس لیا تو دوسرا وکیل کیس کی تیاری کے لئے وقت مانگے گا آپ کو ہی ہر حال میں پیش ہونا ہو گا، اور دن رات کیس کی سماعت ہونا چاہئے اور دسمبر میں کیس کا فیصلہ ہونا چاہئے یہ ریمارکس تھے ڈیم جج ثاقب نثار کے، اصل بات یہ تھی جنوری میں ثاقب نثار صاحب ریٹائر ہو رہا تھا ثاقب نثار کے مرضی کے مطابق دسمبر 2018 میں کیس کا فیصلہ ہو گیا، فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف صاحب کو بری کیا العزیزیہ میں 7سال کی سزا ہوئی۔
#نوٹ میں نے جو تفصیلات یہاں بیان کی اس کی تصدیق آپ لوگ کورٹ رپورٹر
@HassanAyub82
@Matiullahjan919
@HasnaatMalik
@QayyumReports
سمیت بہت سے اور صحافیوں سے بھی کر سکتے۔اعجاز الحسن اب بھی ن لیگ کے کیسز سنتا ہے
Source"
https://twitter.com/x/status/1546724240791158784
Chacha Basharat Siberite Bubber Shair Meme Awami Awaz@arifkarim