وہ جن کے خواب بکھر گئے - عمران خان کے مداح سے نقاد تک ( پارٹ -١ )
سلیم صافی - پختونوں کے نام پر سیاہ دھبہ
ہر قوم کے لوگوں میں کالی بھیڑیں ہوتی ہیں جنھیں تاریخ انکی مخصوس عادات ،اطوار اور وارداتوں کے حوالے سے یاد رکھتی ہے . موصوف اپنے چینل کے پینل پر جب اظہار رائے کے بارے میں اپنی چول مار رہے تھے تو استاد حسن نثار صاحب نے اپنے طرز پر جواب دیا کہ ، آزادی اظھار کی اجازت ہوتی ہے ، بھوکنے اور کاٹنے کی نہیں عمومی طور پر صحافی دوسرے صحافی کا پردہ رکھتا ہے مگر اس کلپ میں جتنا زناٹے دار تھپڑ حسن نثار صاحب نے سلیم صافی کے مونہ پر مارا ، اسکی گونج سوشل میڈیا پر بہت عرصہ تک سنائی دیتی رہے گی
وہ جن کے خواب بکھر گئے - عمران خان کے مداح سے نقاد تک کے موضوع پر موصوف ابتک کامران شاہد ، مبشر لقمان اور ارشاد بھٹی کا انٹرویو اپنے یو ٹیوب چینل کے لئے چکا ہے .ان تمام صحافیوں کا تعلق پنجاب اور پنجاب کے میڈیا ہاؤسز سے ہے . وزیراعظم عمران خان دل ہی دل میں کہتے ہوں گے
دشمنوں کی جفا کا خوف نہیں
دوستوں کی وفا سے ڈرتے ہیں
پنجاب کے مذکورہ تینوں صحافیوں کا دعوی ہے کہ وہ عمران خان کو بھر پور سپورٹ کرتے تھے مگر اب نہیں کرتے . میرے تین معصومانہ سوالات . اس پر بھر پور بحث اگلے بلاگ میں
آخر عمران خان نے ایسا کیا گناہ /جرم کیا جس سے انکے دل ٹوٹ گئے اور خواب بکھر گئے ؟
کیا کسی پروفیشنل صحافی کو کسی بھی سیاستدان سے امیدیں رکھنی چاہئے ؟
میرے بعد وفا کا دھوکا اور کسی سے مت کرنا
گالی دے گی دنیا تجھ کو سر میرا جھک جائے گا
جب کوئی صحافی کسی سیاستدان سے امیدیں لگاتا ہے تو ان امیدوں کی میعاد کتنی ہونی چاہئے ؟
اڑ گئی یوں وفا زمانے سے
کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں
کیا اپنے کبھی سنا کہ بی بی سی اور دوسرے عالمی اداروں کے صحافیوں نے ایسی کبھی کوئی بات کہی ہو . اگر کوئی صحافی یہ کہے کہ ، فلاں فلاں لیڈر سے عوام کو بہت امیدیں تھیں تو بات سمجھ میں اتی ہے مگر جب صحافی تمام سیاق اور سباق سے اگاہ ہو، تمام حالات اور واقعات پر گہری نظر ہو ، محلاتی سازشوں سے اگاہ ہو ، مافیہ کے طریقہ واردات سے اگاہ ہو تو کیا ایسے صحافیوں کے رد عمل پر انھیں صحافی کہا جائے یا صحافتی طوائفیں ؟
( جاری ہے )
سلیم صافی - پختونوں کے نام پر سیاہ دھبہ
ہر قوم کے لوگوں میں کالی بھیڑیں ہوتی ہیں جنھیں تاریخ انکی مخصوس عادات ،اطوار اور وارداتوں کے حوالے سے یاد رکھتی ہے . موصوف اپنے چینل کے پینل پر جب اظہار رائے کے بارے میں اپنی چول مار رہے تھے تو استاد حسن نثار صاحب نے اپنے طرز پر جواب دیا کہ ، آزادی اظھار کی اجازت ہوتی ہے ، بھوکنے اور کاٹنے کی نہیں عمومی طور پر صحافی دوسرے صحافی کا پردہ رکھتا ہے مگر اس کلپ میں جتنا زناٹے دار تھپڑ حسن نثار صاحب نے سلیم صافی کے مونہ پر مارا ، اسکی گونج سوشل میڈیا پر بہت عرصہ تک سنائی دیتی رہے گی
وہ جن کے خواب بکھر گئے - عمران خان کے مداح سے نقاد تک کے موضوع پر موصوف ابتک کامران شاہد ، مبشر لقمان اور ارشاد بھٹی کا انٹرویو اپنے یو ٹیوب چینل کے لئے چکا ہے .ان تمام صحافیوں کا تعلق پنجاب اور پنجاب کے میڈیا ہاؤسز سے ہے . وزیراعظم عمران خان دل ہی دل میں کہتے ہوں گے
دشمنوں کی جفا کا خوف نہیں
دوستوں کی وفا سے ڈرتے ہیں
پنجاب کے مذکورہ تینوں صحافیوں کا دعوی ہے کہ وہ عمران خان کو بھر پور سپورٹ کرتے تھے مگر اب نہیں کرتے . میرے تین معصومانہ سوالات . اس پر بھر پور بحث اگلے بلاگ میں
آخر عمران خان نے ایسا کیا گناہ /جرم کیا جس سے انکے دل ٹوٹ گئے اور خواب بکھر گئے ؟
کیا کسی پروفیشنل صحافی کو کسی بھی سیاستدان سے امیدیں رکھنی چاہئے ؟
میرے بعد وفا کا دھوکا اور کسی سے مت کرنا
گالی دے گی دنیا تجھ کو سر میرا جھک جائے گا
جب کوئی صحافی کسی سیاستدان سے امیدیں لگاتا ہے تو ان امیدوں کی میعاد کتنی ہونی چاہئے ؟
اڑ گئی یوں وفا زمانے سے
کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں
کیا اپنے کبھی سنا کہ بی بی سی اور دوسرے عالمی اداروں کے صحافیوں نے ایسی کبھی کوئی بات کہی ہو . اگر کوئی صحافی یہ کہے کہ ، فلاں فلاں لیڈر سے عوام کو بہت امیدیں تھیں تو بات سمجھ میں اتی ہے مگر جب صحافی تمام سیاق اور سباق سے اگاہ ہو، تمام حالات اور واقعات پر گہری نظر ہو ، محلاتی سازشوں سے اگاہ ہو ، مافیہ کے طریقہ واردات سے اگاہ ہو تو کیا ایسے صحافیوں کے رد عمل پر انھیں صحافی کہا جائے یا صحافتی طوائفیں ؟
( جاری ہے )