Believer12
Chief Minister (5k+ posts)
انکے عقائد کو الگ رکھ کر دیکھا جاۓ کہ ملک کی عزت کو انہوں نے چار چاند لگا دیے یورپ میں انکا قیام انکی علمی پیاس کی وجہ سے تھا فزکس پر ریسرچ کیلئے پاکستان میں آج کے دن تک کوی ریسرچ سنٹر نہیں ہے جبکہ یہ باتیں آدھی صدی بیشتر کی ہیں ریسرچ میں ان رہنے کیلئے اور دوسرے مایہ ناز فزکس کے بڑے دماغوں سے کمبائین ریسرچ ورک کیلئے یورپ میں انکا مسلسل قیام لازمی تھا ورنہ وہ گورنمنٹ کالج کے پروفیسر آف فزکس کی حیثیت سے لڑکوں کو ٹیوشن پڑھاتے رٹائرڈ ہوجاتے انہوں نے پاکستان کا نام یورپ جاکر ہی روشن کرنا تھا لاہور میں رہ کر نہیں خود ڈاکٹر قدیر بھی یورپ میں ماسٹر کرنے گیا تھا حالانکہ یہ ڈگری اسے پنجاب یونیورسٹی بھی دے دیتی اس مضمون میں ڈاکٹر عبدل قدیر کا ذکر بھی آیا ہے حالانکہ اسی کے الفاظ ہیں کہ ڈاکٹر عبد السلام جیسا ذہین سائنسدان شائد اب پیدا ہی نہ ہو ڈاکٹر عبدل قدیر کی بیٹی جماعتی اہم عہدیدار پروفیسر خورشید کی بھو ہے اسلئے اسکی گواہی پر کسی جماعتی کو اعترا ض نہیں ہونا چاہئے
کہوٹہ میں صرف ایک ڈمی پلانٹ ہے اور وہاں ایٹم بم بنانے کا کام آج تک نہیں ہوا اسلئے کہوٹہ کا ماڈل امریکی خفیہ ادارے کے پاس ہونا اور اسکا جذباتی انداز میں یعقوب خان کو یہ ماڈل دکھانا پھر اسی کمرے میں ڈاکٹرسلام کو جاتے ہوے دیکھنا (حالانکہ وہ اٹلی میں ریسرچ کرتے تھے)ایک انتہائی بھونڈی اور جھوٹی کہانی ہے اس واقعے کے جھوٹا اور گھڑت ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ اسکے راوی یعقوب خان نے کبھی اپنی کسی تحریر یا انٹرویو میں اس اہم واقع کا تذکرہ تک نہیں کیا،کبھی ایک لفظ بھی اس نے ایسا نہیں بولا جس سے اس واقع کی تصدیق ہوسکے لکھنے والے کو ضرور بی تار آئ ہوگی حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر سلام نوبل انعام ملنے کے بعد سے وفات تک مسلسل پاکستان کے دورے کرتے رہے وہ فوج کو اہم مشورے ایٹمی ریسرچ کے متعلق دیتے رہے لیکن اس بات کو ایک راز کے طور پر ہمیشہ چھپایا جاۓ گا شائد مستقبل میں اس کو ظاہر کردیا جاۓ کہ ڈاکٹر عبدل اسلام ہی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی اور روح رواں تھے
بھارت جانے کے متعلق میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ جنرل ضیاء تو بن بلاۓ ہی بھارت چلا جاتا تھا اسکی کونسی ماں کا یار تھا وہاں ؟ جماعتی امیر میاں طفیل کہتا تھا کہ ضیاء اسکا فیورٹ حکمران ہے .....اسکو اسکی ایسی بدبودار چائس پرانعام میں جوتے مار مار کر ملک سے باہر پھینک دینا چاہئے تھا ، ہمارا سفیر بھی وہاں مستقل رہتا ہے اگر ہوسکے تو بھارت سے سفارتی تعلقات ہی ختم کردیے جائیں مولانا حضرات بھی وہاں جاتے ہیں اور سیاستدان بھی اسلئے ایسا الزام گھڑنے والا کوی دولے شاہ کا جماعتی چوہا ہی کھلا سکتا ہے انسان نہیں
کہوٹہ میں صرف ایک ڈمی پلانٹ ہے اور وہاں ایٹم بم بنانے کا کام آج تک نہیں ہوا اسلئے کہوٹہ کا ماڈل امریکی خفیہ ادارے کے پاس ہونا اور اسکا جذباتی انداز میں یعقوب خان کو یہ ماڈل دکھانا پھر اسی کمرے میں ڈاکٹرسلام کو جاتے ہوے دیکھنا (حالانکہ وہ اٹلی میں ریسرچ کرتے تھے)ایک انتہائی بھونڈی اور جھوٹی کہانی ہے اس واقعے کے جھوٹا اور گھڑت ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ اسکے راوی یعقوب خان نے کبھی اپنی کسی تحریر یا انٹرویو میں اس اہم واقع کا تذکرہ تک نہیں کیا،کبھی ایک لفظ بھی اس نے ایسا نہیں بولا جس سے اس واقع کی تصدیق ہوسکے لکھنے والے کو ضرور بی تار آئ ہوگی حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر سلام نوبل انعام ملنے کے بعد سے وفات تک مسلسل پاکستان کے دورے کرتے رہے وہ فوج کو اہم مشورے ایٹمی ریسرچ کے متعلق دیتے رہے لیکن اس بات کو ایک راز کے طور پر ہمیشہ چھپایا جاۓ گا شائد مستقبل میں اس کو ظاہر کردیا جاۓ کہ ڈاکٹر عبدل اسلام ہی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی اور روح رواں تھے
بھارت جانے کے متعلق میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ جنرل ضیاء تو بن بلاۓ ہی بھارت چلا جاتا تھا اسکی کونسی ماں کا یار تھا وہاں ؟ جماعتی امیر میاں طفیل کہتا تھا کہ ضیاء اسکا فیورٹ حکمران ہے .....اسکو اسکی ایسی بدبودار چائس پرانعام میں جوتے مار مار کر ملک سے باہر پھینک دینا چاہئے تھا ، ہمارا سفیر بھی وہاں مستقل رہتا ہے اگر ہوسکے تو بھارت سے سفارتی تعلقات ہی ختم کردیے جائیں مولانا حضرات بھی وہاں جاتے ہیں اور سیاستدان بھی اسلئے ایسا الزام گھڑنے والا کوی دولے شاہ کا جماعتی چوہا ہی کھلا سکتا ہے انسان نہیں
Last edited by a moderator: