نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو۔۔۔

Amal

Chief Minister (5k+ posts)


اللہ تعالیٰ نے انسان کی یہ ذمے داری لگائی ہے کہ وہ بحیثیت فرد بھی اپنی وسعت کے مطابق نیکی کے فروغ اور برائی کے سدباب کے لیے کوشش کرے، اسلام نے یہ ذمے داری کسی خاص گروہ کے حوالے نہیں کی کہ یہ صرف انہی کی ذمے داری ہے، بلکہ اسلام کے مطابق یہ معاشرے میں بسنے والے ہر فرد کی اوّلین ذمے داری ہے کہ اپنے معاشرے کو پاک اور صاف معاشرہ بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
... ارشادِ باری تعالی ہے

مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی، یقیناًاللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔ ان مومن مردوں اور عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان سدا بہار باغوں میں ان کے لیے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی خوشنودی انہیں حاصل ہوگی۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔
(التوبہ 71۔72)

اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ اہلِ کتاب ایمان لاتے تو انہی کے حق میں بہتر تھا۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایمان دار بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کے بیشتر افراد نافرمان ہیں۔
(آل عمران 110)

وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نیک کاموں میں تیزی سے بڑھتے ہیں، اور یہی لوگ نیکوکاروں میں سے ہیں۔

(آل عمران، 3/ 114)

پھر جب وہ ان (سب) باتوں کو فراموش کر بیٹھے جن کی انہیں نصیحت کی گئی تھی (تو) ہم نے ان لوگوں کو نجات دے دی جو برائی سے منع کرتے تھے (یعنی نہی عن المنکرکا فریضہ ادا کرتے تھے) اور ہم نے (بقیہ سب) لوگوں کو جو (عملاً یا سکوتاً) ظلم کرتے تھے نہایت برے عذاب میں پکڑلیا۔ اس وجہ سے کہ وہ نافرمانی کر رہے تھے۔

(الاعراف، 7/ 165)

(اے حبیبِ مکرّم!) آپ درگزر فرمانا اختیار کریں، اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں۔

(الأعراف، 7/ 199)

توبہ کرنے والے، عبادت گذار، (اللہ کی) حمد و ثنا کرنے والے، دنیوی لذتوں سے کنارہ کش روزہ دار، (خشوع و خضوع سے) رکوع کرنے والے، سجود کرنے والے، نیکی کاحکم کرنے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی (مقرر کردہ) حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور ان اہلِ ایمان کو خوشخبری سنا دیجیے۔
(التوبة، 9/ 112)

زمانہ کی قَسم (جس کی گردش انسانی حالات پر گواہ ہے)۔ بے شک انسان خسارے میں ہے (کہ وہ عمرِ عزیز گنوا رہا ہے)۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لے آئے اور نیک
کرتے رہے اور (معاشرے میں) ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہے اور (تبلیغِ حق کے نتیجے میں پیش آمدہ مصائب و آلام میں) باہم صبر کی تاکید کرتے رہے۔
(العصر، 103/ 2-3)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو کسی برائی کو دیکھے تو
اسے اپنے ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرے اور اگر اپنے ہاتھ سے نہ روک سکے تو اپنی زبان سے روکے اور اگر اپنی زبان سے بھی روکنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو (کم از کم اس برائی کو) اپنے دل میں برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔
بخاری، احمد، ترمذی

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو: ’اے ایمان والو! تم اپنی جانوں کی فکر کرو۔ تمہیں کوئی گمراہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اگر تم ہدایت یافتہ ہو چکے ہو۔‘ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ جب لوگ ظالم کو (ظلم کرتا) دیکھیں اور اسے (ظلم سے) نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن سب کو عذاب میں مبتلا کر دے۔
ابنِ ماجہ، طبرانی

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہیں ضرور نیکی کا حکم دینا چاہیے اور برائی سے منع کرنا چاہیے ورنہ اللہ تعالیٰ تم میں سے برے لوگوں کو تم پر مسلط کر دے گا۔ پھر تم میں سے جو اچھے لوگ ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے (مدد کی) دعا کریں گے لیکن ان کی دعا تمہارے حق میں قبول نہیں ہوگی
ترمذی, بیہقی

حضرت جریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص بھی ایسی قوم میں رہتا ہو جس میں برے کام کئے جاتے ہوں اور لوگ ان کو روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود نہ روکتے ہوں تو اللہ تعالیٰ انہیں ان کی موت سے قبل عذاب میں مبتلا کر دے گا۔
امام احمد، ابو داؤد اور ترمذی

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل نے جبریل علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ فلاں فلاں شہر کو اس کے باشندگان سمیت اُلٹا دو (زیر و زبر کر دو)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جبریل علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب! ان میں تیرا وہ بندہ بھی ہے جس نے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی تیری نافرمانی نہیں کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رب تعالیٰ نے فرمایا: اس شہر کو ان(سب) پر اُلٹا دوکیونکہ اس شخص کا چہرہ (برائی دیکھ کر) کبھی بھی ایک گھڑی کے لئے میری خاطر متغیر نہیں ہوا۔۔
ترمذی , ابنِ ماجہ

امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے کوتاہی برتنے پر احادیث میں سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’جو قوم گناہ کا کام کرے اور ان میں روکنے کے قابل کوئی شخص ہو لیکن وہ نہ روکے تو قریب ہے کہ اللہ عزوجل ان سب کو اپنے عذاب میں مبتلا کردے۔‘‘ (ابوداؤد)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم اُس وقت تک نیکی کا حکم نہیں دیں گے جب تک ہم مکمل طور پر خود اس پر عمل نہیں کر لیتے اور نہ اُس وقت تک برائی سے منع کریں گے جب تک ہم مکمل طور پر خود اس سے اجتناب نہیں کر لیتے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (نہیں) بلکہ نیکی کا حکم دو اگرچہ تم مکمل طور پر اس پر عمل نہ کر سکو اور برائی سے منع کرو اگرچہ مکمل طور پر اس سے اجتناب نہ کر سکو (یعنی اگر کسی حد تک عمل کرتے ہو تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کافریضہ ادا کرو)۔
اس حدیث کو امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’وہ شخص ہماری اتباع کرنے والوں میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے، ہمارے بڑوں کا احترام نہ کرے، نیکی کا حکم نہ کرے اور برائی سے منع نہ کرے۔‘‘ (ترمذی)

حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’آدمی سے بیوی، مال، اولاد اور پڑوسی کے متعلق احکامات پورے کرنے کے سلسلے میں جو کوتاہیاں اور گناہ ہوجاتے ہیں ان کا نماز، صدقہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کفارہ بن جاتے ہیں۔‘‘ (بخاری)

حضرت درہؓ بنتِ ابی لہب بیان کرتی ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! لوگوں میں سے بہترین شخص کون ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہو اور سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والا ہو اور سب سے زیادہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام کرنے والا ہو۔‘‘ (مسند احمد)

 

Back
Top