
مطیع اللہ جان نے اپنے ایکس پیغام میں کہا کہ ایڈوکیٹ خواجہ حارث نے آج سپریم کورٹ میں دو اہم درخواستیں دائر کی ہیں، ایک جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی آئینی درخواست جس میں جوڈیشل کونسل کے شو کاز نوٹس کو چیلنج کیا گیا ہے اور دوسری وزارتِ دفاع کی طرف سے اپیل جس میں سپریم کورٹ کے فوجی عدالتوں سے متعلق اُس فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے جس میں سویلین شہریوں کے فوجی عدالت میں ٹرائل متعلق آرمی ایکٹ کی شقوں کو غیر آئینی قرار دیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اٹارنی جنرل فار پاکستان نے بھی وفاق کی طرف سے فوجی عدالتوں متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل دائر کی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزارت دفاع وفاقِ پاکستان کے ماتحت نہیں؟ اور آخر خواجہ حارث جیسے مہنگے ترین وکیل کو فیس کی ادائیگی سرکاری بجٹ سے نہیں کی جائیگی؟
انہوں نے مزید کہا کہ اٹارنی جنرل کے ہوتے ہوئے ایک پرائیویٹ وکیل کو حکومت کی طرف سے ہائر کرنا عوام کے وسائل کا ضیا نہیں تو اور کیا ہے؟
مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اس حوالے سے طے کر چکی ہے کہ حکومت اس وقت تک پرائیویٹ وکیل ہائر نہیں کر سکتی جب تک اٹارنی جنرل آفس یہ لکھ کر نہ دے کہ کسی مخصوص کیس میں وہ خود وفاقی حکومت کی نمائندگی کا اہل نہیں۔ تو پھر اگر ایک اٹارنی جنرل وزارت دفاع کی نمائندگی کا اہل نہیں تو وفاق کی نمائندگی کیسے کر سکتا ہے؟
انکے مطابق اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا ایک ماتحت وزارت دفاع وفاقی حکومت کے منافی کوئی موقف اپنا سکتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر کیا خواجہ حارث جو بہت سے کیسوں میں عمران خان کے بھی وکیل انہیں کوئی ترغیب دینے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے؟