مولوي ہبت اللہ اخونزادہ اور پاکستان

Fazail Mughal

Politcal Worker (100+ posts)
ملّا اختر منصور کی پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دور افتادہ مقام پر ہلاکت کے بعد عالمی میڈیا اور پاکستان میں موجود بھارتی اور امریکی لابی کے کارندوں نے اپنی توپوں کا رُخ پاکستان خصوصا پاکستانی مسلح افوج کی سمت موڑ دیا اور الفاظ کے ذلت آمیز تیر اور خباثت کی گولا باری شروع کر دی۔ وہ دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ملّا اختر منصور پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی پناہ میں تھے جس نے اُن کی کمر میں چُھرا گھونپا ہے۔

اگر حقائق کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات طے ہے کے ملّا اختر منصور ہلاک ہو چُکے ہیں لیکن کیسے اور کن حالات میں ہلاک ہوئے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کے ملّا اختر منصور کی ہلاکت کی خبریں موجودہ ہلاکت سے بہت پہلے گردش کر رہی تھیں عین ممکن ہے کہ وہ بلوچستان کے علاقے کچلاک میں پیش آنے والے ایک فائرنگ کے واقعہ میں کافی عرصہ قبل مارے جا چُکے تھے۔ لیکن امریکہ بہادر نے ماضی کے کئی واقعات کی طرح موجودہ ہلاکت کے ڈرامے سے اُن کی موت کو اپنی تیزی سے گرتی ساکھ کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔


اگر امریکی ڈرامہ کو حقیقت تسلیم بھی کر لیا جائے تو نہ ہی پاکستانی علاقے میں اُن کے مارے جانے سے اُن کا پاکستانی پناہ میں ہونا ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی پاکستانی اسٹیبلشمینٹ کا اُن کی ہلاکت سے کوئی لینا دینا ہے۔ مارے جانے والا شخص ولی محمد (ملّا اختر منصور) چند روز قبل ایران گیا تھا اور ایک ایسی جگہ مارا گیا جو ایرانی بارڈر سے صرف پنتالس کیلو میٹر کے فاصلے پر تھی۔ ایران میں اُس کا قیام یقینا زاہدان یا مشہد میں رہا ہو گا جہاں افغان بستیاں ہیں اور مُبینہ طور پر اُن کا خاندان بھی آباد ہے۔ ممکنہ طور پر ملُا اختر منصور کا اُن کے خاندان سے ملاقات کے لیے پہنچنے پر ایران میں شناخت ہو جانا زیادہ قرین القیاس ہے۔ ملّا اختر منصور نے مشہد یا زاہدان سے روانگی کے بعد تفتان تک سینکڑوں میل کا فیصلہ ایران میں طے کیا جبکہ اُنہوں نے پاکستان میں صرف پنتالیس کلو میٹر کا سفر کیا۔ اُنہوں نے نوشکی میں کھانا کھانے سمیت پاکستان کی حدود میں ایک گھنٹے سے کچھ ہی زائد وقت گزارا ہو گا۔

یہ ممکن ہی نہیں کے اُن کی گاڑی میں ٹریکر لگانے، مخبری ہونے،امریکی صدر کی اجازت ملنے اور سست رفتار ڈرون کی آمد اس قدر قلیل مددت میں ممکن ہو گی۔ دوسری سمت ملّا اختر منصور کی اسقدر کسمپُرسی کی حالت میں ہلاکت اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کم از کم پاکستانی پناہ میں نہیں تھا۔قرائین سے اندازہ ہوتا ہے کہ ولی محمد اگر ملّا اختر منصور ہی تھا تو وہ جہاد سے زیادہ اپنے ہیروئین کے کاروبار کے لیے سرگرم تھا اور وہ پاکستانی پناہ میں نہیں تھا اُس کی ہلاکت میں جو بھی ملوث تھا اُس کا تعلق پاکستان سے نہیں بلکہ ایران یا افغاستان سے تھا۔


ملّا اختر منصور کی ہلاکت کا سرسری پس منظر بیان کرنے کے بعد اصل موضوع کی جانب پلٹتے ہوئے فدوی کی کوشش ہو گی کے دقیق حقئق بیان کرنے کی بجائے آسان عوامی زبان میں ڈھول لا پول کھول دے۔


طالبان کی حیثت پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے سامنے کچھ ایسی ہی ہے جیسی پاکستان کی حیثت امریکہ بہادر کے سامنے۔ جس طرح امریکہ بہادر کی لاکھ زیادتوں اور وعدہ خلافیوں کے باوجود پاکستان کا ردعمل احتجاج سے زیادہ نہیں ہوتا اسی طرح سنجیدہ اور طالبان کی اعلیٰ قیادت پاکستان کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جبکہ طالبان کا نام استعمال کرنے والے اور منسلک چند جرائم پیشہ عناصر جنہیں محدود امریکی سرپرستی اور وافر بھارتی پیسہ اور لاجسٹک سپورٹ مئیسر ہے اپنا رزق حلال کرنے کے لیے پاکستانی علاقوں میں کاروئیاں کرتے ہیں


مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کا طالبان کا نیا امیر چُنا جانا پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے ناقدین کے منہ پر تماچے سے کم نہیں لیکن امریکی آشیرواد اور بھارتی پیسہ سے پنپنے والے یہ عناصر کمال ڈھیٹائی اور بیغرتی سے حائق کے بر خلاف عوام کو گمراہ کر رہے ہیں اور پاکستانی عوام کے مورال کو کمزور کرتے ہیں۔

مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کا چُناؤ پاکستانی اسٹبلشمنٹ، چینی اثر و رسوخ کی کامیابی اور طالبان کی جانب سے امریکہ بہادر اور بھارت شریر کو واضح پیغام ہے کہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔ ملّا اختر منصور کا امریکہ بہادر کے ہاتھوں مارا جانا یا اُس کے مارے جانے کا کریڈٹ لینا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اُن کا جھکاؤ پاکستان کی جانب تھا۔ اس حقیقت سے کوئی لاعلم شخص ہی انکار کر سکتا ہے کہ ملّا اختر منصور کے چناؤ میں پاکستانی اسٹبلشمنٹ اور چینی اثر رسوخ کا اہم کردار تھا۔ دوسری جانب ملّا اختر منصورکہ چناؤ میں مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ گروپ نے اپنا تمام اثر و رسوخ ملّا اختر منصور کے پلڑے میں ڈالا تھا اور زبردست کردار ادا کیا تھا۔ شدت پسند مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کے چناؤ سے طالبان نے ایک طرف تو امریکہ بہادر اور بھارت شریر کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ ہم لڑیں گے دوسری جانب پاکستانی اسٹبلشمنٹ اور چینی اثر و رسوخ کے لیے واضح مفاہمتی پیغام ہے۔
 
Last edited by a moderator:

ambroxo

Minister (2k+ posts)
جی درست فرمایا کہ اختر منصور کی موت کو چھپایا گیا جیسا کہ ملا عمر کے بارے کیا گیا
لیکن ہر بار ایک ہی داؤ نہیں چلتا
جب یہ بات انٹلیجنس سے کونفرم ہو گئی تو ایک ڈرامہ کیا گیا اور دو بے گناہ مار دئیے گے
بلکل ویسا ہی ڈرامہ جیسے اسامہ کے بارے کیا گیا


اس سے بھی اتفاق کرتا ہوں کہ ہیبت اللہ اخونزادہ کی بیت یہ بات بتاتی ہے کہ لڑائی کا پیغام ہے

 

Ahud khan

Senator (1k+ posts)
الله کرے کے بس ایسا ہی ہو اس وقت پاکستان کی بقا لے لئے طالبان کا کنٹرول پاکستان میں ہونا بہت ضروری ہے
 

Back
Top