ملاقات کے بعد عافیہ کو زنجیروں میں جکڑ کر لے جایا گیا
امریکی جیل میں عافیہ صدیقی کے ساتھ ظلم کی انتہا ہوگئی، امریکی جیل میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی اپنی بہن فوزیہ صدیقی سے دوسرے روز بھی ملاقات ہوئی، عافیہ صدیقی یہی کہتی رہیں انہیں اس جہنم سے نکالو، انہیں زنجیر میں جکڑ کر لے جایا گیا۔
عافیہ موومنٹ میڈیا انفارمیشن سیل کے مطابق عافیہ صدیقی سے ملاقات میں فوزیہ صدیقی کے ہمراہ سینیٹر مشتاق احمد خان اور برطانوی نژاد امریکی وکیل کلائیو اسٹفورڈ اسمتھ بھی موجود تھے۔ 3 گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ملاقات کی گفتگو کو مکمل طور پر ریکارڈ کیا گیا۔
سینیٹر مشتاق احمد کی جانب سے موصول تفصیلات میں بتایا گیا عافیہ صدیقی کو ملاقات کیلئے ایک چھوٹے سے کمرے میں لایا گیا جہاں درمیان میں شیشے کی دیوار حائل تھی۔ عافیہ کی صحت کمزور تھی اور آنکھوں میں آنسوں لیے وہ بار بار کہہ رہی تھیں مجھے اس جہنم سے نکالو۔
سینیٹر مشتاق نے ملاقات کا احوال بتاتے ہوئے کہا ماحول تبدیل کرنے کے لئے انہوں نے ادب اور شاعری کے موضوعات کا سہارا لیا جس پر عافیہ یہی کہتی رہیں کہ مجھے اس جہنم سے نکالو،عافیہ صدیقی اور فوزیہ صدیقی نے بچپن کا گیت بھی گایا جسے وہ بچپن میں کھیل کے دوران گایا کرتی تھیں۔
عافیہ صدیقی کی دو روز پہلے بیس سال بعد بڑی بہن فوزیہ صدیقی سے ملاقات ہوئی تھی، ریاست ٹیکساس کے فورٹ ورتھ جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ سے ’تین گھنٹے طویل ملاقات‘ کے بعد سینیٹر مشتاق نے اس حوالے سے چند تفصیلات جاری کی تھیں۔
مارچ 2003 میں پاکستانی نیورو سائنسدان ڈاکٹر عافیہ کراچی سے لاپتہ ہوئی تھیں۔ انھیں افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں 2010 میں امریکہ میں 86 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ امریکی محکمۂ انصاف نے انھیں ’القاعدہ کی رکن اور سہولت کار‘ قرار دیا تھا۔
تاہم عافیہ صدیقی کے حامی سزا کے اس فیصلے کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ گذشتہ کئی برسوں سے ان کی پاکستان واپسی کی تحریک چلائی جا رہی ہے جس کی سربراہی ان کی اپنی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کر رہی ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ سے ان کی بہن کی کل دو ملاقاتیں ہوئی ہیں جن میں سے پہلی ملاقات وہ تنہا تھیں جبکہ دوسری ملاقات میں ان کے ساتھ وکیل کلائیو سٹیفورڈ سمتھ اور جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان بھی موجود ہیں۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے بتایا ہے کہ پہلی ملاقات کا دورانیہ ڈھائی گھنٹے تھا جس دوران عافیہ نے اپنی بہن کو بتایا تھا کہ انھیں اپنی ماں کی وفات کا علم نہیں تھا۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ملاقات کے دوران ڈاکٹر فوزیہ کو عافیہ سے گلے ملنے اور ہاتھ ملانے تک کی اجازت نہیں تھی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر فوزیہ کو اس بات کی اجازت بھی نہیں دی گئی کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کو ان کے بچوں کی تصاویر دکھا سکیں۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ ملاقات جس جگہ ہوئی وہاں دونوں بہنوں کے درمیان جیل کے ایک کمرے کے درمیان میں موٹا شیشہ موجود تھا۔
تین گھنٹوں پر محیط دوسری ملاقات، جس میں سینیٹر مشتاق بھی شامل تھے، کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ’سفید سکارف اور خاکی جیل ڈریس میں ملبوس ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے ملاقات کے دوران کہا کہ اُن کو اپنی والدہ اور بچے ہر وقت یاد آتے ہیں۔‘
مشتاق احمد خان نے دعویٰ کیا کہ ڈاکٹر عافیہ کے سامنے والے دانت جیل میں ہونے والے حملے کی وجہ سے گر چکے ہیں جبکہ ان کو سر پر ایک چوٹ کی وجہ سے سننے میں بھی مشکل پیش آ رہی تھی۔
وکیل کلائیو سٹیفورڈ کا کہنا ہے کہ عافیہ نے انھیں بتایا کہ وہ یہ جاننا چاہتی ہیں کہ آیا ان کا نوزائیدہ بیٹا سلیمان ’اس وقت ہلاک ہوا تھا جب انھیں اغوا کیا گیا۔‘
ان کے مطابق عافیہ اور فوزیہ نے اپنے بچپن کی نظم ’آئی ایم شرلی ٹیمپل دی گرل ود کرلی ہیئر پڑھی،کلائیو سٹیفورڈ نے دعویٰ کیا کہ فوزیہ کو دیکھ کر ڈاکٹر عافیہ مسکرائیں مگر ’شیشے کی دیوار جو انھیں گلے ملنے سے روک رہی تھی اسے دیکھ کر یہ اداسی میں بدل گئی۔
سینیٹر مشتاق نے عافیہ صدیقی کے ساتھ ملاقات کے بعد دعویٰ کیا کہ جیل میں ہونے والی تین گھنٹے کی ملاقات اور گفتگو ’مکمل ریکارڈ ہو رہی تھی۔ عافیہ کی صحت کمزور، بار بار ان کی آنکھوں میں آنسو، جیل اذیت سے دکھی اور خوفزدہ تھیں۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ عافیہ کے ’سامنے کے اوپر کے چار دانت ٹوٹے ہوئے تھے، ان کے سر پر چوٹ کی وجہ سے سماعت میں مشکل پیش آرہی ہے۔ وہ بار بار کہہ رہی تھیں کہ مجھے اس جہنم سے نکالو،جولائی 2022 میں جیل کے اندر ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر ایک دوسرے قیدی نے حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں انھیں چوٹیں آئی تھیں۔