گاڑی چلی گئی تھی پٹڑی چمک رہی تھی
قُلی: یہ ٹرنک بھی آپ ہی کا ہے بیگم صاحب؟
ثُریّا: ہاں۔۔۔ میرا ہی ہے۔۔۔ بس اب باربار نہ پوچھنا۔ سب سامان میں تمہیں بتا چکی ہوں۔۔۔ مجھ سے زیادہ مغزدردی نہیں ہو سکتی۔۔۔ ہاں بہن تو میری بات سن کرسکینہ بیگم نے کہا۔۔۔ لو ان کا بھانجا ممتاز ہر روز آتا ہے۔۔۔ وہ موادُم کٹا لنڈورا کوٹ پہن کر اور کبھی کبھی چار چار دن خالہ ہی کے یہاں رہتا ہے۔۔۔ میں نے کہابھئی ہو گا۔ جو آگ کھائے گاانگارے ہگے گا۔۔۔ اب سامنے کھڑکی میں بیٹھی ہوئی بشیرا کی ماں یہ ساری باتیں سُن رہی تھیں۔ باتیں خوب غور سے سنیں پیٹ میں چوہے دوڑنے لگے ۔ چدریا اوڑھ سیدھی گمانی خانم بریلی والی بیگم کی بڑی بہن کے یہاں پہنچیں۔ گمانی خانم نے بڑی آؤ بھگت سے بشیرا کی ماں کو بٹھایا اور کہنے لگیں۔ سُناؤ بشیرا کی ماں اتنے دن کہاں رہیں۔۔۔ تم تو چودھویں کا چاند ہو گئیں۔۔۔ آج کدھر راستہ بھول کر ادھر آگئیں۔۔۔۔ سارا قصہ تو مجھ سے سنایا نہ جائے گا بہن کہ میں زیادہ بول نہیں سکتی اور پھر مجھے پوری بات بھی تو کبھی یاد نہیں رہتی۔۔۔ اس نگوڑی خاموش پسند طبیعت کو کیا کہوں۔
شمشاد: آپ تو پھر دو بول منہ سے بول لیتی ہیں۔ پر یہاں تو ہر وقت منہ بند رہتا ہے۔
قُلی: یہ پندنیا آپ ہی کی ہے۔
ثُریّا: ہاں۔۔۔ میری ہی ہے۔ پر دیکھو ذرا احتیاط سے ٹرنک کے اوپر رکھ دینا۔
۔۔۔ ہاں تو بشیرا کی اماں نے کہا۔ آج کچھ ایسی ہی بات ہے جو خاص کر تم سے ملنے آگئی۔ ۔۔۔ اے سنا تم نے ۔ مبارک ہو۔۔۔ میں نے تو سنا کہ تمہاری بہن بریلی والی بیگم کی لے پالک اب ماشاء اللہ خوب ناچتی ہے۔ روزناچ گھر بھی جاتی ہے اور ۔۔۔ اور ممتاز بھی کئی کئی دن خالہ ہی کے یہاں رہتا ہے۔۔۔ جب گمانی خانم نے یہ سناتو بول اٹھیں ہے ہے خدا کا غصب بہتان جھوٹ۔ سفید جھوٹ ۔ اے کل ہی تو انہیں بھولی پرسوں شام کو وہاں گئی ہوئی تھی۔ فریدہ کسی ناچ گھر میں نہیں جاتی۔ پر ہاں یہ تو کہو تم نے یہ بات سُنی کس سے۔۔۔ بشیرا کی ماں نے جواب دیا۔ سیکنہ بیگم کلثوم بائی کی زبانی یہ سارا قصہ میری ہمسائیثُریّا بیگم کو سُنا رہی تھیں۔۔۔ میں کیا جانوں سچ ہے یا جھوٹ۔ گناہ کہنے والے کی گردن پر ۔ مجھے تو خود تعجب تھا۔
شمشاد: اس پر گمانی خانم تو بہت بگڑی ہوں گی۔
ثُریّا: گمانی خانم چلا کر بولیں سنو بشیرا کی اماں تمہیں کاہے کا ڈر میں تو بغیر صحیح صحاوے اس بات کو چھوڑوں گی نہیں سیکنہ بیگم اور کلثوم بائی دونوں کو بلواؤں گی اور تم کو بھی آنا ہو گا۔ نابابا کسی کی بہو بیٹی کو بدنام کرنا کیا اچھی بات ہے۔ فریدہ کے ماں باپ سنیں گے تو کیا کہیں گے میری بہن کو کہ میں نے لڑکی اس لیئے آپ کے یہاں رکھی تھی کہ وہ یوں بدنام ہو۔ ہم لوگ غریب ضرور ہیں پر اشراف ہیں۔ یہ ذلت ہم سے گوارانہ ہوگی۔۔۔ سُنا تم نے بشیرا کی اماں۔ اس بات کا آمنا سامنا کرانا ضروری ہے۔۔۔ میں تو کلثوم بائی کے لتے لے ڈالوں گی۔۔۔ ان کو کیا حق کہ کسی کی بہو بیٹی کو جھوٹ بدنام کرتی پھریں اور ایسی حالت میں کہ ایک نہیں دو دو ان کی بھی جوان کنواری لڑکیاں ہیں۔۔۔ نہ کرساس برائی کہ تیرے آگے بھی جائی۔ واہ یہ خوب وتیرا نکالا ہے۔
(گھنٹے کی آواز۔۔۔ پھر ریل کی سیٹی)
شمشاد: بہن گاڑی چھوٹنے کا وقت ہو گیا۔۔۔ جائیے آپ کا سارا اسباب باہر نکل چکا ہے۔۔۔ قُلی باہر رہ گیا ہے۔۔۔ دیکھ لیجئے۔ کوئی چیز رہ نہ گئی ہو۔
ثُریّا: جاتی ہوں بہن۔ پریہ بات ادھوری ہی رہ گئی۔۔۔ یہ نگوڑی خاموشی پسند طبیعت بھی کسی کی نہ ہو۔۔۔ ہاں بہن تو اس قصے کا لب لباب یہ تھا۔۔۔
شمشاد لیکن بہن۔۔۔
ثُریّا: گاڑی چھوٹنے میں ابھی پانچ منٹ تو ضرور ہوں گے۔۔۔ میں اچھی طرح جانتی ہوں۔ ایک بار رشید کے ابا مسوری سے آرہے تھے۔ اسٹیشن پر۔۔۔ لیکن ہاں۔۔۔ ہاں تو میں اس کا لب لباب بیان کرنے والی تھی۔۔۔ یہ اسٹیشن والی بات تو بہت لمبی ہے اور مجھے ساری یاد بھی کہاں ہوگی۔ یہ نگوڑی اختصار پسند طبیعت۔۔۔ ہاں بہن تو اس قصے کا لبِ لباب یہ تھا کہ رائی کا پہاڑ بنا لیا گیا تھا۔ پھنسی کا بھگندر ہو گیا تھا۔ بات صرف یہ تھی کہ فریدہ بیچاری شامت اعمال سے ایک روز ریڈیو گھر دیکھنے چلی گئی تھی۔ ساتھ ممتاز بھی تھا۔۔۔ بس اتنی سی بات تھی۔ جسے افسانہ کر دیا۔۔۔ وہ تو خیر گزری۔۔۔
شمشاد: لیکن بہن گاڑی بس اب چھوٹا ہی چاہتی ہے۔
ثُریّا: مجھے معلوم ہے۔۔۔ پچھلے دنوں رشید کے ابا مسوری سے جب واپس آرہے تھے۔ مسوری میں ان کی بہت بڑی دکان ہے ان کے بھانجے کی لڑکی سعیدہ کا خالو اور میرے بھتیجے کی نانی۔۔۔ مگر مجھے یہ رشتے بھی کہاں یاد ہیں۔ یہ نگوڑی ہر دم چپ رہنے والی طبیعت ۔۔۔ ہاں بہن اب میں جاتی ہوں۔۔۔ پر مجھے سدا اس بات کا افسوس رہے گا کہ آپ سے کھل کر باتیں نہ کر سکی۔۔۔تو آپ ضرور کبھی مسوری آئیے گا۔۔۔ ان کے بھانجے کی لڑکی سعیدہ کاخالو اور میرے بھتیجے کی نانی۔۔۔ نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔ میرا مطلب یہ ہے کہ ہماری مسوری میں ایک نہیں دو تین کوٹھیاں ہیں۔۔۔ میں آپ کو دعوت دے چکی ہوں دیکھئے بھو لیئے گا نہیں۔۔۔ اچھا تو میں چلی۔۔۔ خدا حاف٭۔۔۔ آپ بمبئی جارہی ہیں نا۔۔۔ مجھے یاد آیا۔ ان کے چچا کا خلیرا بھائی بمبئی ہی میں تو رہتا ہے۔ کیا آپ ان کو نہیں جانتے۔۔۔ ٹھہرئیے میں آپ کو ان کا سارا پتہ بتاتی ہوں۔۔۔
(گھنٹہ بجنے کی آواز۔۔۔پھر ریل کی سیٹی)
شمشاد: اب آپ جائیے۔۔۔ گاڑی بس اب چلنے والی ہے۔۔۔
اچھا خدا حافظ۔
(دروازہ کھلنے اور بند کرنے کی آواز)
ثُریّا: اچھا بہن خدا حاف٭۔۔۔ بھئی مجھے معاف کر دینا۔ اس سفر میں آپ کے ساتھ میں کھل کر باتیں نہ کر سکی۔۔۔ دراصل میری خاموشی پسند طبیعت۔۔۔ (انجن کے چلنے کی آواز)۔۔۔ اچھا خدا حافظ۔
شمشاد : خدا حافظ (گاڑی چلنے کی آواز) خُدا حاف٭۔۔۔(اطمینان کا سانس لے کر) شکر ہے۔۔۔ دماغ چاٹ گئی تھی۔۔۔ باتیں کرتی تھی۔ معلوم ہوتا تھا۔ چکن کاڑھتی چلی جارہی ہے۔۔۔متواتر تین گھنٹے سے بول رہی تھی۔۔۔ توبہ۔
سعادت حسن منٹو