مسجد کے ممبر سے قتل کی ترغیب

khan_sultan

Banned


سلمان تاثیرکھلے عام اس معاملہ میں ملوث تھا،اس کی دریدہ دہنی بڑھتی جارہی تھی۔ اسکے خلاف قانون کو حرکت میں لانےکی ضرورت تھی، جب قانون بے بس نظرآیا تو،، عام عوام میں سے ایک نے قانون اپنے ہاتھ میں لے لیا،
انجام سب کے سامنے ہے۔ وہ مرگیا دوسرے دریدہ دہن بھی ڈر گئے۔


جس نے رسالت مآب کے سامنے کہا ہو کے وہ ہذیان بول رہے ہیں اس کا کیا کرنا چاہیے ہے ؟
 

Believer12

Chief Minister (5k+ posts)

سلمان تاثیر ناموس رسالت قانون کا احترام نہ کررہا تھا اور اس پر نصیحت کارگر نہیں ہورہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق نےاس کا کعب بن اشرف والا حشر کردیا
یزید سے بڑھ کر کس نے توہین رسالت کی ہوگی جس نے نبی کریم pbuhکی پوری آل اولاد کو شہید کردیا ؟؟؟ اب کہہ دو کہ سب سے بڑا ملعون یزید اور اسکے جرم میں شریک دوسرے مجرم تھے
 

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)
lefttop.gif
سورة النساء
righttop.gif
An-Nisaa | 176 verses | The Women | Sura #4 | Medinan
Search | Recitation | Topics | Uthmani Script | Words | Quran Teacher
bismillah.gif
65فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
Yusuf Ali 65:But no, by the Lord, they can have no (real) Faith, until they make thee judge in all disputes between them, and find in their souls no resistance against Thy decisions, but accept them with the fullest conviction.
Urdu 65:سو تیرے رب کی قسم ہے یہ کبھی مومن نہیں ہوں گے جب تک کہ اپنے اختلافات میں تجھے منصف نہ مان لیں پھر تیرے فیصلہ پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور خوشی سے قبول کریں

The commandment contained in verse 65 was not meant to be confined to the lifetime of the Holy Prophet, but it was to hold good up to the Last Day. Whatever the Holy Prophet (upon whom be peace) brought from Allah and whatever way of life he followed and practiced under His guidance and inspiration, shall remain the final authority among Muslims for ever and the acknowledgment of that authority alone determines whether one is a true Muslim or not.

According to Tafseer Ibne Kather, two men took their dispute to the Prophet (SAW), and he gave a judgment to the benefit of whoever among them had the right. The person who lost the dispute said, "I do not agree." The other person asked him, "What do you want then" He said, "Let us go to Abu Bakr As-Siddiq."


They went to Abu Bakr and the person who won the dispute said, "We went to the Prophet (SAW) with our dispute and he issued a decision in my favor." Abu Bakr said, "Then the decision is that which the Messenger of Allah (SAW) issued." The person who lost the dispute still rejected the decision and said, "Let us go to 'Umar bin Al-Khattab." When they went to 'Umar, the person who won the dispute said, "We took our dispute to the Prophet (SAW) and he decided in my favor, but this man refused to submit to the decision."


'Umar bin Al-Khattab asked the second man and he concurred. 'Umar went to his house and emerged from it holding aloft his sword. He struck the head of the man who rejected the Prophet’s decision with the sword and killed him. Consequently, Allah revealed, [فَلا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ] (But no, by your Lord, they can have no Faith, until they make you judge in all disputes between them... (An-Nisa 4:65)).


[Tafseer Ibn Katheer (2/351-352)]

Note: During the time of Prophet Muhammad pbuh, any action done (right or wrong) by a companion
(رضی اللہ عنھا) could be identified as wrong or right by Prophet Muhammad pbuh and in some cases verses of Quraan were revealed by Allah regarding the issue, as Deen was not yet completed.

Now, since the Deen is completed and the courts are there to decide in the light of Quran and Sunnah, no individual is allowed to take law in their hands.

Lesson Learned: If we ever come across any religious matter, where there is a conflict we should refer the issue to Quran and Sunnah (authentic Hadeeths), if an authentic Hadeeth is presented by other party which helps in resolving the issue than regardless of our religious background or affiliation with any school of thought we should accept the decision of Prophet Muhammad pbuh whole heartedly and
find in our souls no resistance against Prophet's pbuh decisions, but accept them with the fullest conviction.
 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)
ویسے آپکو وہ ہذیان والا تاریخ کا باب توہین رسالت نہیں لگتا ؟


تاریخ اتنی تروڑ مروڑ دی گئی ہے کہ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ سچ کیا ہے ،جھوٹ کیا ہے ...اگر تو یہ واقعہ سچا ہے تو اس سے بڑی توہین رسالت کوئی نہیں ...میں جاننا چاہوں گی کہ حقیقت کیا ہے ..دونوں طرف کا موقف سننا چاہوں گی
 

Zain Itrat

Minister (2k+ posts)
تاریخ اتنی تروڑ مروڑ دی گئی ہے کہ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ سچ کیا ہے ،جھوٹ کیا ہے ...اگر تو یہ واقعہ سچا ہے تو اس سے بڑی توہین رسالت کوئی نہیں ...میں جاننا چاہوں گی کہ حقیقت کیا ہے ..دونوں طرف کا موقف سننا چاہوں گی


واقعہ قرطاس بخاری کی روایت ہے جو کے سب سے بڑا سنی حدیث کا سورس ہے
اور روایت بھی مستند ہے اور صرف بخاری میں ہی 6 دفعہ مختلف ذیل میں آئی ہے

آپ ؐ کے آخری ایام میں جب آپ پر بیماری کا غلبہ ہوا تو اصحاب سے کہاکہ مجھے قلم ودوات اورکاغذ دیدو تاکہ میں تمہارے لیے ایک ایسا نوشتہ لکھ دوں جوتمہیں گمراہی سے ہمیشہ ہمیشہ بچانے کے لیے کافی ہو یہ سن کر اصحاب میں باہمی چہ می گوئیاں ہونے لگیں لوگوں کے رحجانات قلم ودوات دے دینے کی طرف دیکھ کر حضرت عمرنے کہا ”ان الرجل لیھجرحسبناکتاب اللہ“ یہ مرد ہذیان بک رہاہے ہمارے لیے کتاب خداکافی ہے صحیح بخاری پ ۳۰ ص
۸۴۲ علامہ شبلی لکھتے ہیں روایت میں ہجرکالفظ ہے جس کے معنی ہذیان کے ہیں ۔۔۔۔
حضرت عمرنے آنحضرت کے اس ارشادکو ہذیان سے تعبیرکیاتھا (الفاروق ص ۶۱) لغت میں ہذیان کے معنی بیہودہ گفتن یعنی بکواس کے ہیں(صراح جلد ۲ ص ۱۲۳)

روایت کہ الفاظ تو یہ ہیں فیصلہ خود کر لیں
اب چاہنے والے تاویلیں پیش کرتے ہیں اور مخالف الفاظ کو کافی سمجھتے ہیں
 
Last edited:

نادان

Prime Minister (20k+ posts)



ایک ہی طرف کا موقف کافی ہے اس کے لئے اور اور ووہی دونوں کا ہے
کیونکے واقعہ قرطاس بخاری کی روایت ہے

آپ ؐ کے آخری ایام میں جب آپ پر بیماری کا غلبہ ہوا تو اصحاب سے کہاکہ مجھے قلم ودوات اورکاغذ دیدو تاکہ میں تمہارے لیے ایک ایسا نوشتہ لکھ دوں جوتمہیں گمراہی سے ہمیشہ ہمیشہ بچانے کے لیے کافی ہو یہ سن کر اصحاب میں باہمی چہ می گوئیاں ہونے لگیں لوگوں کے رحجانات قلم ودوات دے دینے کی طرف دیکھ کر حضرت عمرنے کہا ”ان الرجل لیھجرحسبناکتاب اللہ“ یہ مرد ہذیان بک رہاہے ہمارے لیے کتاب خداکافی ہے صحیح بخاری پ ۳۰ ص
۸۴۲ علامہ شبلی لکھتے ہیں روایت میں ہجرکالفظ ہے جس کے معنی ہذیان کے ہیں ۔۔۔۔
حضرت عمرنے آنحضرت کے اس ارشادکو ہذیان سے تعبیرکیاتھا (الفاروق ص ۶۱) لغت میں ہذیان کے معنی بیہودہ گفتن یعنی بکواس کے ہیں(صراح جلد ۲ ص ۱۲۳)

مسلہ یہ ہے کہ بخاری کو میں زیادہ نہیں مانتی ...اس میں بہت سی ایسی حدیثیں ہیں جو قرانی تعلیمات کے بر عکس ہیں ...اور جو سراسر توہین رسالت کے زمرے میں آتی ہیں
 

Zain Itrat

Minister (2k+ posts)
مسلہ یہ ہے کہ بخاری کو میں زیادہ نہیں مانتی ...اس میں بہت سی ایسی حدیثیں ہیں جو قرانی تعلیمات کے بر عکس ہیں ...اور جو سراسر توہین رسالت کے زمرے میں آتی ہیں

بیشک ایسا ہی ہے لیکن جو مانتے ہیں انکے لئے تو حجت ہے نہ ؟ مگر یہاں وہ بھی حجت نہیں مانتے
 

Zain Itrat

Minister (2k+ posts)


They went to Abu Bakr and the person who won the dispute said, "We went to the Prophet (SAW) with our dispute and he issued a decision in my favor." Abu Bakr said, "Then the decision is that which the Messenger of Allah (SAW) issued." The person who lost the dispute still rejected the decision and said, "Let us go to 'Umar bin Al-Khattab." When they went to 'Umar, the person who won the dispute said, "We took our dispute to the Prophet (SAW) and he decided in my favor, but this man refused to submit to the decision."


'Umar bin Al-Khattab asked the second man and he concurred. 'Umar went to his house and emerged from it holding aloft his sword. He struck the head of the man who rejected the Prophets decision with the sword and killed him. Consequently, Allah revealed, [فَلا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ] (But no, by your Lord, they can have no Faith, until they make you judge in all disputes between them... (An-Nisa 4:65)).


[Tafseer Ibn Katheer (2/351-352)]

Note: During the time of Prophet Muhammad pbuh, any action done (right or wrong) by a companion
(رضی اللہ عنھا) could be identified as wrong or right by Prophet Muhammad pbuh and in some cases verses of Quraan were revealed by Allah regarding the issue, as Deen was not yet completed.

Now, since the Deen is completed and the courts are there to decide in the light of Quran and Sunnah, no individual is allowed to take law in their hands.

Lesson Learned: If we ever come across any religious matter, where there is a conflict we should refer the issue to Quran and Sunnah (authentic Hadeeths), if an authentic Hadeeth is presented by other party which helps in resolving the issue than regardless of our religious background or affiliation with any school of thought we should accept the decision of Prophet Muhammad pbuh whole heartedly and
find in our souls no resistance against Prophet's pbuh decisions, but accept them with the fullest conviction.


مجھے یہ سمجھ نہیں آتی لوگوں کو غیب کا علم کیسے ہو جاتا ہے کہ وہ روایت میں حضورؐ کے بعد آئندہ منعقد ہونے والی خلافت کی ترتیب سے لوگوں کے پاسس جاتے ہیں
یہ معمہ تاریخ اسلام میں آج تک حل طلب ہے

اور آپ کہنا چاہ رہے ہیں کے کوئی بھی صحابی کسی کو گستاخ قرار دے کر تلوار نکال کر قتل کر دینے کا حق رکھتا تھا ؟
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
آفاق میرے بھائی لا دین طبقہ گیا بھاڑ میں ہمیں تو اعتدال رکھنا ہے کے نہیں ؟
کیا ہمیں یہ یقینی نہیں بنانا کے کسی کو نہ جائز سزاء نہ ملے ہمارے نبی ؐ کی ناموس کے نام پر؟
سوچئے ایک غلط سزاء ان لوگوں کے دلوں میں ہمارے نبی اور دین کے لئے کتنی نفرت کو جنم دے گی ؟
موم بتی مافیا یا مذہب بیزار لا دین طبقے کے لئے نہیں بلکے اسلام کے لئے یہ سب کرنا چاہیے



اعتدال کیسے قائم ہو سکتا ہے ؟؟؟؟؟ کیا ہر وقت فرقہ واریت بھڑکانے سے ، لادینیت پھیلانے سے ، تعصب . لسانبیت ، صوبائیت پھیلانے سے ، دن کے بارے شکوک و شبہات پیدا کرنے سے . گستاخیوں اور توہین سے ، حکمرانوں کی امریکی چاکری سے ، بھارت کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے ؟؟؟
جس کو اعتدال، امن، بھائی چارے ، اخوت ، محبت ، احترام کی خواہش ہے وہ سب اپنے سے آغاز کریں ، سب بدلتے جائیں گیں ، آپ اپنے اسی تھریڈ کی مثال لے لیں، آپ مثال خلیفہ راشد کی دے رہے ہیں اور تلقین اعتدال کی ؟؟؟
 

Zain Itrat

Minister (2k+ posts)


اعتدال کیسے قائم ہو سکتا ہے ؟؟؟؟؟ کیا ہر وقت فرقہ واریت بھڑکانے سے ، لادینیت پھیلانے سے ، تعصب . لسانبیت ، صوبائیت پھیلانے سے ، دن کے بارے شکوک و شبہات پیدا کرنے سے . گستاخیوں اور توہین سے ، حکمرانوں کی امریکی چاکری سے ، بھارت کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے ؟؟؟
جس کو اعتدال، امن، بھائی چارے ، اخوت ، محبت ، احترام کی خواہش ہے وہ سب اپنے سے آغاز کریں ، سب بدلتے جائیں گیں ، آپ اپنے اسی تھریڈ کی مثال لے لیں، آپ مثال خلیفہ راشد کی دے رہے ہیں اور تلقین اعتدال کی ؟؟؟

جناب اعتدال یہ کے قانون کو مضبوط بنایا جائے اس میں تفصیلات دہلی جائیں کے کس چیز کو گستاخی کہنا ہے کس کو نہیں ، کس پر یہ قانون لاگو ہوگا کس پر نہیں
"مثلا َََ ایک وہ ان پڑھ عورت جسکو 'پرائے' دیس میں پرائے مذہب کے ایک انتہائی باریک قانون کا ادراک ہی نہیں کہ وہ اس گناہ کی مرتکب ہو رہی ہے اور اسے اس قدر سنگین سزاء سنانا چاہیے یا نہیں
بہت سے فیکٹر دیکھ جانے چاہییں قانون کی مزید شکیں ہونی چاہییں " گستاخ کی سزا سر تن سے جدا " کا قانون بہت مبہم ہے
ایک بات کلیر کر دوں کے میرا اس قانون پر پورہ ایمان ہے مگر اس کی موجودہ شکل میں نہیں
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
جناب اعتدال یہ کے قانون کو مضبوط بنایا جائے اس میں تفصیلات دہلی جائیں کے کس چیز کو گستاخی کہنا ہے کس کو نہیں ، کس پر یہ قانون لاگو ہوگا کس پر نہیں
"مثلا َََ ایک وہ ان پڑھ عورت جسکو 'پرائے' دیس میں پرائے مذہب کے ایک انتہائی باریک قانون کا ادراک ہی نہیں کہ وہ اس گناہ کی مرتکب ہو رہی ہے اور اسے اس قدر سنگین سزاء سنانا چاہیے یا نہیں
بہت سے فیکٹر دیکھ جانے چاہییں قانون کی مزید شکیں ہونی چاہییں " گستاخ کی سزا سر تن سے جدا " کا قانون بہت مبہم ہے
ایک بات کلیر کر دوں کے میرا اس قانون پر پورہ ایمان ہے مگر اس کی موجودہ شکل میں نہیں


تو پھر آپ کو اس شکل میں قانون چاہئے جس میں ایک گستاخ سزا سے بچ جائے اور روشن خیالی کو مزید چار چند لگ جائیں ؟؟؟؟ پاکستان کی ساری اسمبلی تو پھر جاہل تھی ، اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان ان پڑھ ہیں ، صرف فرقہ واریت کے علمبردار اس ملک میں عقلمند ہیں
یہ سب ڈالروں کے حصول کا چکر ہے جو اس توہین کے پیچھے اصل مقصد ہوتا ہے ورنہ کسی عیسائی کیا، یہودی اور ہندو میں جرأت نہیں کہ وہ خواہ مخواہ اپنی گردن قانون کے پھندے میں لائے
 

Zain Itrat

Minister (2k+ posts)


تو پھر آپ کو اس شکل میں قانون چاہئے جس میں ایک گستاخ سزا سے بچ جائے اور روشن خیالی کو مزید چار چند لگ جائیں ؟؟؟؟ پاکستان کی ساری اسمبلی تو پھر جاہل تھی ، اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان ان پڑھ ہیں ، صرف فرقہ واریت کے علمبردار اس ملک میں عقلمند ہیں
یہ سب ڈالروں کے حصول کا چکر ہے جو اس توہین کے پیچھے اصل مقصد ہوتا ہے ورنہ کسی عیسائی کیا، یہودی اور ہندو میں جرأت نہیں کہ وہ خواہ مخواہ اپنی گردن قانون کے پھندے میں لائے


سازشی مفروضے اسلام کو لے کر بیٹھ گئے ، پاؤں کی بیڑیاں بن گئے کچھ نہیں کرنے دیتے ، آگے نہیں پڑھنے دیتے
دنیا میں لوگ اپنی مرضی سے بھی کام کرتے ہیں سلمان تاثیر بھی اپنا دماغ استعمال کر سکتا ہے ضروری نہیں کے کوئی امریکی سازش یا ڈالر ہی انوالو ہوں

کمنٹ غلطی سے دس لائیک ہوا
 
Last edited:

ابابیل

Senator (1k+ posts)



واقعہ قرطاس بخاری کی روایت ہے جو کے سب سے بڑا سنی حدیث کا سورس ہے
اور روایت بھی مستند ہے اور صرف بخاری میں ہی 6 دفعہ مختلف ذیل میں آئی ہے

آپ ؐ کے آخری ایام میں جب آپ پر بیماری کا غلبہ ہوا تو اصحاب سے کہاکہ مجھے قلم ودوات اورکاغذ دیدو تاکہ میں تمہارے لیے ایک ایسا نوشتہ لکھ دوں جوتمہیں گمراہی سے ہمیشہ ہمیشہ بچانے کے لیے کافی ہو یہ سن کر اصحاب میں باہمی چہ می گوئیاں ہونے لگیں لوگوں کے رحجانات قلم ودوات دے دینے کی طرف دیکھ کر حضرت عمرنے کہا ”ان الرجل لیھجرحسبناکتاب اللہ“ یہ مرد ہذیان بک رہاہے ہمارے لیے کتاب خداکافی ہے صحیح بخاری پ ۳۰ ص
۸۴۲ علامہ شبلی لکھتے ہیں روایت میں ہجرکالفظ ہے جس کے معنی ہذیان کے ہیں ۔۔۔۔
حضرت عمرنے آنحضرت کے اس ارشادکو ہذیان سے تعبیرکیاتھا (الفاروق ص ۶۱) لغت میں ہذیان کے معنی بیہودہ گفتن یعنی بکواس کے ہیں(صراح جلد ۲ ص ۱۲۳)

روایت کہ الفاظ تو یہ ہیں فیصلہ خود کر لیں
اب چاہنے والے تاویلیں پیش کرتے ہیں اور مخالف الفاظ کو کافی سمجھتے ہیں


اصل حديث كي طرف رجوع سے قبل كچھ امور كا جاننا اور سمجھنا بهتر هے تاكه حديث قرطاس سمجھنے ميں آساني هو. سلف صالحين كو ان امور كا بخوبي علم تھا ، اسي بنا پر آج تك انھيں اس ميں كوئي اشكال محسوس نهيں هوا. فقير كو كسي ايسے سني عالم كا معلوم نهيں هو سكا جنهيں اس ميں اشكال محسوس هوا هو.
اس كا يه مطلب بھي هرگز نهيں كه اگر آج كسي كو (جس كي نيت صاف هو) اس ميں اشكال محسوس هو تو اسے ملامت كيا جائے. بالكل نهيں ، هر وه عقل جو سوچتي هے اسے بعض امور ميں پيچيدگي محسوس هوا كرتي هے اور يه فطرت انساني هے. اگر كسي مطالعه پسند شخصيت كو اشكال هو تو اشكال كو علماء كے هاں لے جانا چاهيے. اشكال بھي رفع هو جاتا هے اور ورثاء الابنياء كي زيارت بھي هو جاتي هے.
[FONT=&quot]يه دور (خصوصا پاكستان ميں) علمي مندي اور كساد بازاري كا دور هے ، اس ميں اشكال كا پيدا هو جانا ممكن هے ، خصوصا تب جب همارے هاں بدقسمتي سے ديني امور ميں درس لينے ميں دلچسپي بهت كم لي جاتي هے البته رائے زني كرنا هر كسي كا حق تصور كيا جاتا هے.[/FONT]

شادي بياه كا جشن هو ، عيد ملن هو يا كسي كي وفات په اكٹھا هوا جائے، لوگ بلا تكلف ديني امور ميں بڑھ چڑھ كر بحث مباحثه كر رهے هوتے هيں.
صحيح حديث كا مفهوم هے كه "الله تعالى علم كو اس طرح نهيں اٹھاتے كه بندوں (كے سينوں) سے كھينچ كر ، مگر علماء كو اٹھا نے سے علم ختم كرتے هيں. يهاں تك كه جب الله كسي عالم كو (زمين پر) باقي نه چھوڑيں تو لوگ جاهلوں كو اپنا پيشوا بناليں اور جب ان سے پوچھيں تو بلا علم رائے ديں اور خود بھي گمراه هوں اور دوسروں كو بھي گمراه كريں گے." (حديث ختم هوئي)
ايك اور صحيح حديث كا مفهوم هے كه "بے شك قيامت كي نشانيوں ميں سے هے كه علم اٹھا ليا جائے اور جهالت راسخ هو جائے."(حديث ختم هوئي)
ايك اور صحيح حديث كا مفهوم هے كه "قيامت سے قبل كچھ دن (يعني زمانه) آئے گا جس ميں جهالت نازل هو گي اور علم اٹھا ليا جائے گا اور قتل عام هوگا"(حديث ختم هوئي)

آپ كو غالبا كئي بار احساس هوا هي هوگا كه هم قريب از قيامت زمانه هي ميں ره رهے هيں. ايسے ميں يه الفاظ "ميري رائے" ، "ميري سمجھ" ، "ميري تحقيق" ، "ميرے خيال سے" ، "روايتي مولوي" ، "پرانے فقهاء تنگ نظر" اور "اسلاف غلطي كر گئے" وغيره مذكوره بالا احاديث كي روشني ميں هماري ايك خطرناك روش هے.
صحيح حديث ميں چند لوگوں كا ذكر هے كه "وه جهنم كے ابواب پر كھڑے جهنم كي طرف دعوت دينے والے هونگے جس نے ان كي پكار مان لي اسے وه جهنم ميں گرائيں گے. حضرت حذيفه رضي الله عنه نے ان لوگوں كي نشاني پوچھي تو فرمايا كه وه هميں ميں سے هونگے اور هماري هي زبان بولا كريں گے".(حديث ختم هوئي)

[FONT=&quot]سلف صالحين اور امت كا وه عمل جس پر 1300 صدي هجري كے بعد مختلف تحقيقات اور علميت كي آڑ ميں هرزه سرائي هونے لگے اسي حديث كي عين اليقين شرح لگتي هے. ايسے ميں اپنا ايمان بچانے كا بهترين طريقه جو حديث ميں هے وه مسلمانوں كي جماعت (يعني مفهوما متفقه نظريات) كو لازم پكڑنے ميں هے. يه چاروں احاديث اس قسم سے تعلق ركھتي هيں جنهيں صحيح ترين يعني "متفق عليه" كها جاتا هے. يه چاروں احاديث متفق عليها هيں
[/FONT]
[FONT=&quot][FONT=&quot]حديث قرطاس[/FONT].

[/FONT]حديث قرطاس ، صرف ايك كتاب الجامع الصحيح از امام بخاري ميں نهيں هے بلكه بسيوں كتب ميں هے اور كئي اسانيد سے مروي هے.

جمعرات كو سيدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم كے پاس بهت سے صحابه موجود تھے۔

رسول الله صلى الله عليه وسلم پر درد كي شدت هوتي هے مگر اس گھڑي بھي حضور صلى الله عليه وسلم كو اپني امت هي كي فكر هے.

رسول الله صلى الله عليه وسلم كچھ لكھوانا چاهتے هيں اور قلم كتاب طلب فرماتے هيں. كتاب سے يهاں مراد كوئي بھي چيز جس پر لكھا جاسكے اس سے مراد كاغذ بالكل بھي نهيں هے اور نه اس سے يه مراد هو سكتا هے. عرب ميں كاغذ هي كتنا تھا. عرب ميں لكھنے پڑھنے كا رواج نه تھا. تو قلم اور لكھنے كا سامان بھي كمياب تھا.

ايسے ميں قلم اور كتاب كسي كاتب وحي كے گھر پر هي ميسر هو سكتا هے. جو لانے ميں وقت لگے گا.

حضور صلى الله عليه وسلم كي حالت ديكھ كر حضرت عمر رضي الله عنه نے حاضرين كي توجه اس طرف دلائي كه حضور صلى الله عليه وسلم پر درد كا غلبه هے. اس پر باقي صحابه بھي حضرت عمر رضي الله عنه كي تائيد كرتے هيں سوائے كچھ صحابه كے.

[FONT=&quot]يهاں تك بات آساني سے سمجھ آجاتي هے. اور اگر كسي كو صحابه سے بغض كي بيماري لاحق نه هو تو اسے اتنا يقين هے كه حضرت عمر رضي الله عنه نے فرط اخلاص ميں حضور صلى الله عليه وسلم كے آرام كي خاطر يه كها تھا. اور يقين كيوں نه هو كه يه عمر حضور صلى الله عليه وسلم سے 15 سال چھوٹے تھے يعني اولاد كي جگه تھے اور اتني شديد محبت ركھتے تھے كه حضور صلى الله عليه وسلم كي رحلت كا انهيں يقين هي نه آيا تھا اور اگر كوئي يقين دلانے كي كوشش كرتا تو شديد برهم هوجاتے يهاں تك كه حضرت ابو بكر نے قرآن كي آيات سے حضور صلى الله عليه وسلم كي رحلت كا يه سانحه ثابت كيا. جنهيں ايسي محبت هوتي هے وه حديبيه كے دن لفظ "رسول الله" مٹا نه سكے. جنهيں ايسي محبت هوتي هے وه ايك جنازه كے لئے حضور صلى الله عليه وسلم كو نيند سے بيدار نه كرسكے اگرچه كه حكم سر آنكھوں پر.[/FONT]



اس كے علاوه جتنے بھي علماء نے اس حديث پر كلام كيا هے ان سب نے حضرت عمر رضي الله عنه كي رائے هي كو صحيح اور افضل كها هے اس ميں صرف ايك شخصيت نے اختلاف كيا هے جو ظاهري مذهب سے تعلق ركھتے هيں.
علماء نے اس واقعه كو حضرت عمر رضي الله عنه كي فقاهت كي واضح دليل قرار ديا هے. اور كيوں نه هو كه حضرت عمر رضي الله عنه كي فقاهت پهلے سے ثابت شده هے.

صحابه كے بهترين فقهاء ميں سے ايك حضرت عبد الله بن مسعود كي گواهي هے كه "اگر عمر (رضي الله عنه) كا علم ترازو كي ايك جانب هو اور باقي زمين والوں كا علم دوسري جانب هو تو عمر (رضي الله عنه) كي طرف بھاري رهے گي."

حضرت حذيفه كا كهنا هے كه "يوں محسوس هوتا هے كه لوگون كا علم عمر (رضي الله عنه) كے همراه ايك جگه جمع رها هے."

بهر حال حضرت عمر كي فقاهت پر تو كتب موجود هيں، يهاں صرف يه ثابت كرنا تھا كه اگر بعض صحابه بزرگ أصحاب سے اختلاف نه كرتے اور حضرت عمر كي بات پر غور كرتے اور مان ليتے تو تنازعه نه هوتا اور سب كي حالت ايسي هوتي جيسي ابن عباس رضي الله عنه كي تھي يا كم از كم ان جيسي جنهوں نے حضور صلى الله عليه وسلم كو نيند سے نه جگايا. مگر اختلاف كي وجه سے تنازعه هوا جو حضور صلى الله عليه وسلم كو ناگوار گزرا اور حضور صلى الله عليه وسلم نے سب كو اٹھ كھڑے هونے كا حكم دے ديا.



يهاں يه ياد رهے كه اٹھ كھڑے هونے كا حكم يا تو تنازعه كي وجه سے ديا گيا تھا اور يا حضور صلى الله عليه وسلم نے آرام كرنا چاها اور سب كو جانے كا كها. اگر اس كو نكير اور حضور صلى الله عليه وسلم كي ناپسنديدگي مانا جائے تو بھي يه اس وجه سے هرگز نه تھي كه صحابه نے قلم اور كتاب لانے ميں تامل كيا. كيونكه اگر ايسا هوتا تو حضور صلى الله عليه وسلم ان كي تعريف فرماتے جو قلم اور كتاب لانا چاه رهے تھے اور ان لوگوں كي ترديد اور تصحيح فرماتے جو تامل كر رهے تھے. مگر اس كے برعكس حضور صلى الله عليه وسلم نے كسي كو غلط نهيں فرمايا اور اس سے معلوم هوا كه دونوں فريقين كا اجتهاد ويسے هي مقبول هوا جيسے عصر والے معاملے ميں دونوں فريقين كا اجتهاد مقبول هوا تھا. البته حضور صلى الله عليه وسلم كا مبارك عمل يه ظاهر كرتا هے كه حضرت عمر رضي الله عنه كا فعل حضور صلى الله عليه وسلم نے قبول فرمايا اور لكھوانے كا اراده ترك فرما ديا.

ليكن تنازعه هوا اور حضور صلى الله عليه وسلم كے آرام ميں خلل واقع هوا اور حضور صلى الله عليه وسلم كي طبيعت سخت عليل تھي لهذا حضور صلى الله عليه وسلم نے زياده بات مناسب (يا طبيعت كے باعث ممكن) نه سمجھي اور سب كو اٹھ جانے كا حكم دے ديا.

الله تعالى كا حكم هے كه "اگر تم كسي چيز ميں اختلاف كرو تو اسے الله اور رسول صلى الله عليه وسلم كي طرف لوٹا ديا كرو" (سوره النساء)

ماضي ميں جهاں كهيں كسي مسئله پر اختلاف هوجاتا سيدي صلى الله عليه وسلم فيصله فرما ديا كرتے. مگر اس دفعه ايسا نه فرمايا ، كيوں؟

شايد طبيعت بهت ناساز تھي اس لئے معامله كو رفع فرمايا اور تمام اصحاب كو اٹھ كھڑا هونے كو فرماديا. يا پھر يه كه سيدي صلى الله عليه وسلم نے آرام فرمانا چاها.
انبياء كي موجودگي ميں اگر كوئي ناجائز عمل هو تو انبياء اس كي تصحيح فرمايا كرتے هيں اور كرنے والے كو بلا تصحيح نهيں جانے ديتے. اگر دليل ملاحظه كرني هو تو سوره حديد آيت 25 ديكھ ليں.
[FONT=&quot]لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط (القرآن)

[/FONT]
يه كوئي بهت بڑا واقعه نهيں تھا بلكه اتنا سا تھا كه اسے صرف ايك صحابي نے روايت كيا. اگر يه كوئي بهت بڑي نكير هوتي تو ضرور صحابه ميں مشهور هوتي اور كئي صحابه اسے بيان كرتے. مكر واقعه اس كے برعكس هے.

اگر اس واقعه ميں كي گئي نكير كا موازنه فقير كي پهلے دي گئي مثالوں سے كيا جائے تو يه واقعه بهت بڑا نهيں رهتا.

صحابه كے هر دو فريق نے اپنے خلوص سے وه كيا جو ان كے ايمان ويقين نے انهيں راه دكھائي مگر يه كه اختلاف رائے پيدا هوا اور حضرت ابن عباس رضي الله عنه كے قول كے مطابق اختلاف رائے انبياء كے سامنے جائز نهيں لهذا اس پر نكير هوئي.

يهاں تك يه ثابت هوگيا – والحمد لله – كه نكير كا تعلق قلم اور قرطاس سے تھا هي نهيں. اس كا تعلق باهم تنازعه سے تھا اور امام بخاري كي فقاهت ملاحظه هو كه وه بھي اس حديث سے يهي معنى اخذ كرتے هوئے "باب كراهية الخلاف"
[FONT=&quot]ميں اسے لائے هيں. لهذا نكير كا تعلق قلم قرطاس سے بتانا محض هٹ دھرمي هے اور هميشه كيلئے محتاج برهان هے.[/FONT]



 



سلمان تاثیر اور بہت سے لوگوں کی تشریح کے مطابق اس عورت کے ساتھ زیادتی ہو رہی تھی اسے اس جرم کا ادراک ہی نہیں تھا جو اس پر ڈالا جا رہا تھا مگر اسی عدالت نےجس نے ابھی سلمان تاثیر کو مرنے کے بعد بے گناہ قرار دیا ہے، نے آسیہ مسیح کو پھر بھی پھانسی سنا دی ، چیزیں ضروری نہیں کے سیاہ اور سفید میں ہی ہوں ، یہ صرف علم وحکمت کی کمی ہے کے ایک گناہ اور ایک اصول کو سب پر برابر تھوپ دیا جائے
عظیم ہستیھوں کے عدل کی مثالوں میں روایات ملتی ہیں کے ایک ہی گناہ کی مختلف سزائیں دیکھی گئی ہیں

میں ایک مثال دیتاہوں شاید آپ کو سمجھ آ جائے

خلیفہ ہارون رشید کے دور میں فرزندِ رسول امامِ اہل بیت غالباً محمدتقیؑ کو خلیفہ نے اپنے دربار میں بلایا
اور یحییٰ نامی قاضی القضاء نے فرزند رسولؐ سے سوال کیا
(مقصد آپکا علم آزمانا تھا )
پوچھا کوئی شخص حالت احرام میں شکار کرے تو اسکا کیا کفارہ ہے ؟
آپ نے فرمایا آپکا سوال نا مکمل اور مبہم ہے
پوچھا وہ کیسے ، آپ نے فرمایا جب تک شکار کرنے والے کے مطلق تفصیلات معلوم نہیں ہو جاتیں کفارہ نہیں بتایا جا سکتا ، پھر آپ نے فرمایا

اگر شکاری مرد ہے تو کفارہ اور عورت ہے تو کفارہ اور
احرام حج کا ہے تو کفارہ اور عمرہ کا ہے تو کفارہ اور
شکاری مسلے سے واقف ہے تو کفارہ اور اور نہ واقف ہے تو کفارہ اور
شکاری اپنے کیے پر نادم ہے تو کفارہ اور اور بضد ہے تو کفارہ اور
حرم کی حدود میں شکار ہوا تو کفارہ اور اور باہر ہوا تو کفارہ اور

اس طرح کی اور بہت سی تفصیلات امام نے بیان کیں اور کفارے کی تفصیل بھی بتائی
اس پر پورہ دربار اور قاضی القضاء ششدر رہ گیا اور آپ کے علم اور حکمت کا قائل اور طابع ہوگیا

تو میرے بھائی فیصلہ کرنے والا ایک ہی سانچے اور ایک ہی قانون میں ہر مجرم کو نہیں ڈال سکتا
مختلف باریکیوں کو مد نظر رکھنا بہت لازم ہوتا ہے اور آسیہ مسیح جو جاہل ، غیر تعلیم یافتہ ، اور کسی پرائے مذہب کے ایک متنازعہ قانون سے نہ واقف تھی جو ذہنی طور پر قائم بھی نہیں بتائی جاتی ، پر توہین رسالت کا الزام لگانا اور پھر سزاء بیشک انصاف کے بہت سے تقاضوں کا قتل اور خودالله اور ہمارے پیارے نبیؐ کے دین کی بدنامی کا سبب اور انتشار کا موجب بنا لہٰذہ فیصلہ علم کی کمی معامله فہمی اور مذہبی بصیرت کے فقدان اور انتہاء پسندی کی نظر ہوگیا
سلمان تاثیر ایک گناہگار اور بدکار آدمی تصور کیا جاتا ہے اور شاید تھا بھی مگر اس غیر مسلم عورت کا لئے کھڑا ہوگیا اور سزاء ہونے سے بہت پہلے سے اس سے رابطے میں تھا اور کیس کی باریکی کو بہت اچھی طرح جانتا تھا اس کے گاؤں جا کر بھی شواہد اکٹھے کرتا رہا اسی لئے شاید سزاء پر آواز بھی بلند کر دی اس نے ، مگر سوچ سمجھ سے اور انصاف کے تقاضوں اور باریکیوں سے عاری ، خود تحقیق نہ کرنے والے، جھوٹے اور خریدے ہوۓ گواہوں کے رحم و کرم پر فیصلے کرنے والے ، اور ملاوں کے پریشر تلے دبے جج نے موت کی سزاء سنا دی جو شاید اس سے ہضم نہ ہوئی اور اس کے لئے رحم کی بھیک زرداری سے مانگتا رہا یہاں تک کے خود قتل ہوگیا

لوگ الزام لگاتے ہیں کے امریکہ اور مغربی طاقتوں کے آشیرواد پر وہ یہ سب کر رہا تھا . کوئی مجھے بتائے مجھے کس کا آشیرواد ہے اور میرا کیا مفاد ہے ؟ ، سلمان تاثیر یا آسیہ مسیح میرے تو کچھ نہیں لگتے...... لہٰذہ کسی کا اپنا نقطۂ نظر بھی ہو سکتا ہے ضروری نہیں کوئی سازش ہی ہو
لوگ ممتاز قادری کی نیت کی بات کر رہے ہیں اور اسکے اجر کی بات کر رہے ہیں کسی نے سلمان تاثیر جیسے گناہگار کی نیت کے بارے میں بھی سوچا جو ایک غیر مسلم عورت کے لئے کھڑا ہوا ؟

میری اس لمبی کتھا کا مقصد یہ ہے کے آسیہ مسیح کو سزاء دیتے ہوئے بہت سی چیزوں اور باریکیوں کا خیال رکھا جانا چاہیے تھا جو نہیں رکھا گیا
اور جب قانون ون لائنر ہو جس میں دوسرے سانس کی گنجائش بھی نہ ہو یعنی "گستاخ کی سزا سر تن سے جدا" ، اور فورا تلوار نکال کر گردن اڑا دینے جیسی سنّت پر عمل کیا جا رہا ہو تو پھر انصاف کا یہی معیار ہوتا ہے جو نظر آ رہا

الله سے دعا ہے کسی کو یہ بات اور اسی باریکی سمجھ آ جائے












or aag jama kar apni qabar k leye .... jab ankh bandh hougi tujhy pata chal jaeyga .... aasiya maloona nay khud iqrar kiya tha k us nay ghustakhi ki hai ,,,, tu kitna bara begh rat hara mi or kutt a hai jo ye bhe nahe man raha jo aasiya nay khud mana hai k us nay ghustakhi ki hai .. akh thooo teray moun pay ,,, akhhh thoooo ghustakh ka sath dynay walay ***** teri zindagi par
 

جس نے رسالت مآب کے سامنے کہا ہو کے وہ ہذیان بول رہے ہیں اس کا کیا کرنا چاہیے ہے ؟
jis ki ghustakhi ki jaey us ko maaf karnay ka haqq hota hai .... teri maa ko mai gali dou or yahan ka moderator mujhy maff karday tou tu kya kahayga ...yehe na k moderator ko kis nay haq diya isko maff karnay ka ...
 

یزید سے بڑھ کر کس نے توہین رسالت کی ہوگی جس نے نبی کریم pbuhکی پوری آل اولاد کو شہید کردیا ؟؟؟ اب کہہ دو کہ سب سے بڑا ملعون یزید اور اسکے جرم میں شریک دوسرے مجرم تھے
yazeed jhannumi hai or is ka jin logo nay sath diya sub jahannumi hain bila shak ....
 
مسلہ یہ ہے کہ بخاری کو میں زیادہ نہیں مانتی ...اس میں بہت سی ایسی حدیثیں ہیں جو قرانی تعلیمات کے بر عکس ہیں ...اور جو سراسر توہین رسالت کے زمرے میں آتی ہیں
ak bat batao khali Quran manti hou .. Quran say namaz ka tareeqa batado or kis kis time kitni rakatain parhni hain ye batado ??
 

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)
مسلہ یہ ہے کہ بخاری کو میں زیادہ نہیں مانتی ...اس میں بہت سی ایسی حدیثیں ہیں جو قرانی تعلیمات کے بر عکس ہیں ...اور جو سراسر توہین رسالت کے زمرے میں آتی ہیں

It is quite evident from your previous posts that you belong to Shia religion. Hence it is not strange that you do not believe in Sahih Bukhari. But Muslim from all over the world believe that Sahih Bukhari is among the most authentic Book of Hadeeth. So please stop performing your religious duty by creating doubts among Muslims regarding the authenticity of Book of Sahih Bukhari.

Thanks to member ابابیل for defending attack on Sahih Bukhari by Taqayyah group. See his post#133 above.

..یہ بات تو سمجھ آتی ہے کہ آل سعود کو تخت سے اتارنا ہے ،،اگر ایسا کچھ کرنا ہے تو میں مدد کو تیار ہوں ..ہاں اگر ایسا کوئی پلان ہے کوئی اور اور ملک وہاں جا کر وہاں حملہ کر کے مکہ آزاد کروائے ..تو بھی میں حاضر ہوں .. .
Direct Link

The Six Authentic Hadeeth Books
(Sihah Sitta)

- Sahih al-Bukhari
- Sahih Muslim
- Sunan an-Nasa'i al-Sughra
- Sunan Abu Dawood
- Sunan al-Tirmidhi
- Sunan ibn Majah

A hadith is a saying of Muhammad or a report about something he did. Over time, during the first few centuries of Islam, it became obvious that many so-called hadith were in fact spurious sayings that had been fabricated for various motives, at best to encourage believers to act righteously and at worse to corrupt believers' understanding of Islam and to lead them astray. Since Islamic legal scholars were utilizing hadith as an adjunct to the Qur'an in their development of the Islamic legal system, it became critically important to have reliable collections of hadith. While the early collections of hadith often contained hadith that were of questionable origin, gradually collections of authenticated hadith called sahih (lit. true, correct) were compiled. Such collections were made possible by the development of the science of hadith criticism, a science at the basis of which was a critical analysis of the chain of (oral) transmission (isnad) of the hadith going all the way back to Muhammad.

The two most highly respected collections of hadith are the authenticated collections the Sahih Bukhari and Sahih Muslim. (Sahih literally means "correct, true, valid, or sound.")

In addition to these, four other collections came to be well-respected, although not to the degree of Bukhari and Muslim's sahih collections.These four other collections are the Sunan of Tirmidhi, Nasa'i, Ibn Majah, and Abu Da'ud. Together these four and the two sahih collections are called the "six books" (al-kutub al-sitta). Two other important collections, in particular, are the Muwatta of Ibn Malik, the founder of the Maliki school of law, and the Musnad of Ahmad ibn Hanbal, the founder of the Hanbali school of law.


Source: http://www.uga.edu/islam/hadith.html
 
Last edited:

khan_sultan

Banned
jis ki ghustakhi ki jaey us ko maaf karnay ka haqq hota hai .... teri maa ko mai gali dou or yahan ka moderator mujhy maff karday tou tu kya kahayga ...yehe na k moderator ko kis nay haq diya isko maff karnay ka ...

یہ جو توں نے مثال دی ہے صرف مثال ہی دی ہے پر بچ اس وقت سے جب تیرے مونڈوں پر میری یا کسی ادھر کے کن ٹٹے کی تون ہو گی

 

Zain Itrat

Minister (2k+ posts)
اس كے علاوه جتنے بھي علماء نے اس حديث پر كلام كيا هے ان سب نے حضرت عمر رضي الله عنه كي رائے هي كو صحيح اور افضل كها هے اس ميں صرف ايك شخصيت نے اختلاف كيا هے جو ظاهري مذهب سے تعلق ركھتے هيں.
علماء نے اس واقعه كو حضرت عمر رضي الله عنه كي فقاهت كي واضح دليل قرار ديا هے. اور كيوں نه هو كه حضرت عمر رضي الله عنه كي فقاهت پهلے سے ثابت شده هے.

صحابه كے بهترين فقهاء ميں سے ايك حضرت عبد الله بن مسعود كي گواهي هے كه "اگر عمر (رضي الله عنه) كا علم ترازو كي ايك جانب هو اور باقي زمين والوں كا علم دوسري جانب هو تو عمر (رضي الله عنه) كي طرف بھاري رهے گي."

حضرت حذيفه كا كهنا هے كه "يوں محسوس هوتا هے كه لوگون كا علم عمر (رضي الله عنه) كے همراه ايك جگه جمع رها هے."

بهر حال حضرت عمر كي فقاهت پر تو كتب موجود هيں، يهاں صرف يه ثابت كرنا تھا كه اگر بعض صحابه بزرگ أصحاب سے اختلاف نه كرتے اور حضرت عمر كي بات پر غور كرتے اور مان ليتے تو تنازعه نه هوتا اور سب كي حالت ايسي هوتي جيسي ابن عباس رضي الله عنه كي تھي يا كم از كم ان جيسي جنهوں نے حضور صلى الله عليه وسلم كو نيند سے نه جگايا. مگر اختلاف كي وجه سے تنازعه هوا جو حضور صلى الله عليه وسلم كو ناگوار گزرا اور حضور صلى الله عليه وسلم نے سب كو اٹھ كھڑے هونے كا حكم دے ديا.



يهاں يه ياد رهے كه اٹھ كھڑے هونے كا حكم يا تو تنازعه كي وجه سے ديا گيا تھا اور يا حضور صلى الله عليه وسلم نے آرام كرنا چاها اور سب كو جانے كا كها. اگر اس كو نكير اور حضور صلى الله عليه وسلم كي ناپسنديدگي مانا جائے تو بھي يه اس وجه سے هرگز نه تھي كه صحابه نے قلم اور كتاب لانے ميں تامل كيا. كيونكه اگر ايسا هوتا تو حضور صلى الله عليه وسلم ان كي تعريف فرماتے جو قلم اور كتاب لانا چاه رهے تھے اور ان لوگوں كي ترديد اور تصحيح فرماتے جو تامل كر رهے تھے. مگر اس كے برعكس حضور صلى الله عليه وسلم نے كسي كو غلط نهيں فرمايا اور اس سے معلوم هوا كه دونوں فريقين كا اجتهاد ويسے هي مقبول هوا جيسے عصر والے معاملے ميں دونوں فريقين كا اجتهاد مقبول هوا تھا. البته حضور صلى الله عليه وسلم كا مبارك عمل يه ظاهر كرتا هے كه حضرت عمر رضي الله عنه كا فعل حضور صلى الله عليه وسلم نے قبول فرمايا اور لكھوانے كا اراده ترك فرما ديا.

ليكن تنازعه هوا اور حضور صلى الله عليه وسلم كے آرام ميں خلل واقع هوا اور حضور صلى الله عليه وسلم كي طبيعت سخت عليل تھي لهذا حضور صلى الله عليه وسلم نے زياده بات مناسب (يا طبيعت كے باعث ممكن) نه سمجھي اور سب كو اٹھ جانے كا حكم دے ديا.

الله تعالى كا حكم هے كه "اگر تم كسي چيز ميں اختلاف كرو تو اسے الله اور رسول صلى الله عليه وسلم كي طرف لوٹا ديا كرو" (سوره النساء)

ماضي ميں جهاں كهيں كسي مسئله پر اختلاف هوجاتا سيدي صلى الله عليه وسلم فيصله فرما ديا كرتے. مگر اس دفعه ايسا نه فرمايا ، كيوں؟

شايد طبيعت بهت ناساز تھي اس لئے معامله كو رفع فرمايا اور تمام اصحاب كو اٹھ كھڑا هونے كو فرماديا. يا پھر يه كه سيدي صلى الله عليه وسلم نے آرام فرمانا چاها.
انبياء كي موجودگي ميں اگر كوئي ناجائز عمل هو تو انبياء اس كي تصحيح فرمايا كرتے هيں اور كرنے والے كو بلا تصحيح نهيں جانے ديتے. اگر دليل ملاحظه كرني هو تو سوره حديد آيت 25 ديكھ ليں.
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط (القرآن)

يه كوئي بهت بڑا واقعه نهيں تھا بلكه اتنا سا تھا كه اسے صرف ايك صحابي نے روايت كيا. اگر يه كوئي بهت بڑي نكير هوتي تو ضرور صحابه ميں مشهور هوتي اور كئي صحابه اسے بيان كرتے. مكر واقعه اس كے برعكس هے.

اگر اس واقعه ميں كي گئي نكير كا موازنه فقير كي پهلے دي گئي مثالوں سے كيا جائے تو يه واقعه بهت بڑا نهيں رهتا.

صحابه كے هر دو فريق نے اپنے خلوص سے وه كيا جو ان كے ايمان ويقين نے انهيں راه دكھائي مگر يه كه اختلاف رائے پيدا هوا اور حضرت ابن عباس رضي الله عنه كے قول كے مطابق اختلاف رائے انبياء كے سامنے جائز نهيں لهذا اس پر نكير هوئي.

يهاں تك يه ثابت هوگيا – والحمد لله – كه نكير كا تعلق قلم اور قرطاس سے تھا هي نهيں. اس كا تعلق باهم تنازعه سے تھا اور امام بخاري كي فقاهت ملاحظه هو كه وه بھي اس حديث سے يهي معنى اخذ كرتے هوئے "باب كراهية الخلاف"
ميں اسے لائے هيں. لهذا نكير كا تعلق قلم قرطاس سے بتانا محض هٹ دھرمي هے اور هميشه كيلئے محتاج برهان هے.





!ابابیل بھائی

کاش کوئی سلمان تاثیر اور آسیہ مسیح کی باری بھی اتنی لمبی تاویل پیش کرتا جتنی حضرت عمر کے لفظ ہذیان کو گستاخی کے زمرے سے نکالنے کے لئے پیش کی جا رہی ہے
یہی میں نے کہا تھا قانون صرف " گستاخ کی سزا سر تن سے جدا" جتنا مختصر نہیں ہونا چاہیے اس میں بھی تفصیلات ہونی چاہیئں اس میں بھی تاویلیں پیش کرنے کا موقعہ دینا چاہیے
آپکی اتنی لمبی تاویل اور جگہ جگہ ایک ایک لفظ پر آپؓ کی جانب خوش گمانی، سپورٹنگ فضائل کی روایات اور انکا دفاع پھر بھی روایت میں سے ہذیان کا لفظ نہیں نکال سکا جو کےاصل موزع بحث ہے
اور اگر یہ اتنا اہم واقعہ نہیں تھا تو یہ بخاری تک کیسے پہنچ گیا اور چھے دفع کیوں دہرایا گیا ؟ اور اتنی لمبی تاویل بذات خود اسے مشکوک بناتی ہے
اٹھ جاؤ کو ہمارے معاشرے اور انگریزی زبان میں یا کسی بھی تہذیب میں عزت کے معنوں میں نہیں کہا جاتا ، ہو سکتا ہے عرب میں بھی انسان ہی ہوں اور وہاں بھی اس میں بیزاری اور ناگواری کا ہی پہلو موجود ہو
رہی بات اہمیت کی تو مجھے صرف اتنا پتا ہے کہ آپؐ جو بھی لکھوانا چاہتے تھے وہ اس قدر اہمیت کا ضرور تھا کے آپ نے
اسے اپنے بعد امّت کی گمراہی سے بچاؤ کا سامان قرار دے دیا اور امّت کا گمراہ نہ ہونا اس تحریر سے مشروط کر دیا
وہ آپکی وصیت تھی جو نہیں لکھنے دی گئی

کاش وہ تحریر لکھنے دے جاتی ! شاید ہم لوگ گرفتارِ ابو بکر و علی نہ ہوتے اگر ہم نبی کو سن لیتے اور گمراہ نہ ہوتے فرقوں میں نہ بٹتے ، نبی ؐ کا وصی اور جانشین پتا چل جاتا علی ہیں یا ابو بکر ، قران کے ساتھ سنّت ہے یا اہل بیت
آپکے فورا بعد جو ہوا وہ سب نے دیکھا امّت دو گرہوں میں بٹ گئی دوسرے لفظوں میں بقول اس حدیث کے گمراہ ہو گئی
حضرت عمر نے کہا ہمیں قران کافی ہے اور وقت نے ثابت کیا کے وہ کافی نہیں تھا
کسی نے قران کے ساتھ سنّت کو جوڑ کر پورا کیا تو کسی نے اہل بیت کو
اور خلافت کا ادارہ اس طرح مشکوک نا ہوتا کسی خلیفہ پر امّت کا اجماع ہوتا کیونکے اسے نبی نامزد کر کے جاتے پھر کون اس فیصلے پر اختلاف کرتا ؟ سوائے منافق کے
میں آپؐ کے بعد کی اس گمراہی اور تفرقے کا ذمدار اس واقعے کو قرار دیتا ہوں اور ان لوگوں کو جنہوں نے نہ صرف قلم کاغذ دینے سے انکار کیا
بلکے نبی ؐ کو نعوذبالله ہذیان کا لفظ بولا اور قدرت اتنی عادل کے اسے تاریخ کو نہایت مسخ ہونے کا باوجود ریکارڈ کا حصّہ رکھا وہ بھی مریدوں کی
جانے کیوں توہین رسالت کا شورمچانے والے لوگوں کو یہ لفظ توہین رسالت کیوں نہیں لگتا؟ حیرت ہے
لوگوں کو یہ سمجھ کیوں نہیں آتا کے نبی جو دے اسے لے لو جس سے منع کرے اس سے منع ہو جاؤ
اسی طرح نبی نے جو مانگا تھا اسے دےبھی دینا چاہیے تھا اپنی عقل نہیں لڑانی چاہیے تھی اگر نیت صاف تھی بھی تو
نبی کی موجودگی میں کونسا اجتہاد ؟
الله پاک سوره نجم میں فرماتا ہے کے نبی تب تک کلام نہیں کرتا جب تک ہم وہی نہیں بھیجتے
قران کافی کہنے والوں کو قران کی یہ آیت بھی یاد ہونی چاھیے تھی آپ کے کلام کو ہذیان کہنے سے پہلے
نبی کا ایک ایک لفظ الله کی رضا کے تابع ہے کاغذ قلم مانگنا بھی یہی تھا
مگر پچھلے بہت سے واقعات کی طرح کچھ لوگوں کو نبی کے فیصلوں پر تحفظات ہوتے تھے اور وہ اپنی رائے دہی اور مرضی سے باز نہیں آتے تھے
روایت ہے کہ جب صلح حدیبیہ میں آپ کفار سے صلح کر رہے تھے تو کچھ صحابہ کو آپکے کے صلح کے فیصلے سے شدید اختلاف تھا کئی کا تو یہ تک کہنا تھا کے "میراتو ایک وقت کے لئے ایمان اٹھ گیا تھا کے خدا نخواستہ آپ ؐ سچے نبی ہیں یا نہیں " آپس میں ایک دوسرے سے سوال کرتے تھے
تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں میں کس واقعہ کی بات کر رہا ہوں
کہاں نبی کا فیصلہ نہ ماننے پر گردن اڑا دینا اور کہاں صحابہ کا آپ سے سیدھا اختلاف کرنا
اور سوره حجرات میں الله پاک نے آپ ؐ کا پروٹوکول صاف بتا دیا ہے
الله فرماتا ہے اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو یہ نہ ہو تمہارے پہلے سے کردہ اعمال ضائع ہو جائیں اور تمہے پتا بھی نہ چلے

آپ نے آپ کے حجرے میں قلم کاغذ دینے یا نہ دینے پر شور مچنے پر لوگوں کو یہ ( سوره حجرات ) تک یاد دلایا تھا کے تمہے نہیں پتا میرے پاسس شور مچانا منع ہے ؟ مگر شور اس قدر بڑھ گیا تکرار میں کے آپکو کہنا پڑا کو اٹھ جاؤ
الله کرےشور مچانے والے ان لوگوں کے اعمال ضائع نہ ہوئے ہوں ، قران نے تو آپکے پروٹوکول میں بہت سیریس دھمکی دی ہے
کہاں نبی کی آواز سے آواز بلند کرنا اور کہاں سیدھا ہذیان ہی کہ دینا

آپ ؐ کی ناموس پر لوگوں کی جان لینے والے کبھی ضمیر کے ساتھ اس سب کے بارے میں بھی سوچیں

تھا تو کاپی پیسٹ ، بہر حال اچھی کوشش تھی آپکی وضاحت کی




 
Last edited: