بلوچستان کے ضلع مستونگ میں مسلح افراد نے دن دیہاڑے ایک منظم حملے میں تحصیل آفس، تین بینکوں اور شہر کے دیگر حصوں کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں ایک کم عمر لڑکا جاں بحق، سات افراد زخمی جبکہ دو حملہ آور مارے گئے۔ یہ واقعہ بلوچستان میں جاری بدامنی کی نئی لہر کا ایک سنگین اور جری اظہار قرار دیا جا رہا ہے۔
بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق حکام کے مطابق منگل کی صبح ساڑھے 10 بجے کے قریب 30 سے 40 کے لگ بھگ مسلح افراد شہر کے مختلف علاقوں میں داخل ہوئے اور تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک شہر میں موجود رہے۔ اس دوران تحصیل آفس کے علاوہ نیشنل بینک، مسلم کمرشل بینک اور بینک الحبیب کو بھی دھماکوں اور گرینیڈ حملوں کے ذریعے شدید نقصان پہنچایا گیا۔
https://twitter.com/x/status/1940128027293491449
تحصیل آفس پر حملے کے دوران مسلح افراد نے دفتر کے مین گیٹ پر حملہ کیا تاہم سکیورٹی اہلکاروں نے گیٹ بند کر کے ابتدائی مزاحمت کی۔ حملہ آور دیواریں پھلانگ کر اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوئے، جہاں انہوں نے مسجد میں موجود لوگوں کو بند کر کے دفتر کو آگ لگا دی۔ گرینیڈ حملوں سے متعدد گاڑیوں اور دفتری ریکارڈ کو جلا دیا گیا۔ پولیس کے مطابق تحصیل آفس کے اندر شدید فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔
بینکوں کو بھی گرینیڈ حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ نیشنل بینک کی پرانی لکڑی کی عمارت بری طرح جل گئی جبکہ مسلم کمرشل بینک کو دوسرا بڑا نقصان پہنچا۔ بینک الحبیب کی عمارت کو نسبتاً کم نقصان پہنچا تاہم شیشے ٹوٹ گئے۔
پولیس اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے حملہ آوروں سے مقابلہ کیا، جس کے دوران فرنٹیئر کور (ایف سی) کی کمک بھی پہنچی۔ ایک اہلکار کے مطابق سی ٹی ڈی کی بکتر بند گاڑی نے حملہ برداشت کیا اور جواب میں راکٹ حملوں اور فائرنگ کے باوجود اہلکار محفوظ رہے۔ فائرنگ کے تبادلے میں دو حملہ آور مارے گئے جبکہ تین زخمی ہوئے۔
واقعے کے بعد شہر میں خوف کی فضا قائم ہو گئی، تمام دکانیں، دفاتر اور تعلیمی ادارے بند ہو گئے۔ آپریشن مکمل ہونے کے باوجود شام تک بازار بند رہے۔ شہر کی فضاؤں میں ہیلی کاپٹر پروازیں جاری رہیں اور انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی، جس سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند کے مطابق فورسز کی بروقت کارروائی نے بڑے جانی نقصان کو روکا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں اور بیرونی ایجنڈے پر کام کرنے والے عناصر کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہی۔ انہوں نے کہا کہ سکیورٹی ادارے مکمل اختیارات کے ساتھ کارروائیاں جاری رکھیں گے اور حملہ آوروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
مستونگ کا شمار ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں بلوچ علیحدگی پسند اور مذہبی شدت پسند دونوں گروہ ماضی میں سرگرم رہے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں مستونگ اور اطراف کے علاقوں میں سکیورٹی اداروں، لیویز تھانوں، نادرا دفاتر اور مال بردار گاڑیوں پر حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جن میں بعض کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی ہے۔
https://twitter.com/x/status/1940266135724732533