اسٹبلشمنٹ کا شہباز شریف سے یہ ہی معاہدہ ہوا تھا کہ وہ نواز شریف اور مریم نواز کو اقتدار پر اثر انداز نہیں ہونے دے گا اور حکومت میں ان کا کوئی رول نہیں ہو گا لیکن در حقیقت شہباز نے حکومت ہی بڑے میاں کے پاسپورٹ کی خاطر لی تھی . اب جسے ہی شہباز نے مریم اور نواز کو شامل اقتدار کرنے کی کوشش کی تو اسٹبلشمنٹ ناراض ہو گئی . دوسری طرف شہباز شریف نے مشکل فیصلوں سے انکار کر کے کھیل ختم کرنے کا اشارہ دے دیا . نواز شریف نے شہباز کو یہ ہی حکم دے کر لندن سے روانہ کیا تھا کہ جا کر اسمبلیاں توڑ دینا لیکن شہباز اقتدار سے چمٹا رہا . مذاکرات چلتے رہے اور انتیس تاریخ کو اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ ہو گیا . اس بات سے اندازہ لگائیں کہ اسٹبلشمنٹ کو ملک کی تباہی منظور ہے لیکن نواز شریف اور مریم منظور نہیں . اسٹبلشمنٹ میں جن لوگوں نے نواز اور مریم کو انتقام کا نشانہ بنایا تھا وہ کسی صورت نہیں چاہتے کہ نون لیگ اقتدار میں رہے اور ان کے ساتھ مشرف والا سلوک ہو . اسٹبلشمنٹ کا نواز مخالف دھڑا یہ ہی کوشش کرے گا کہ کم سے کم شریف خاندان اقتدار میں نہ رہے
اب اس دوران عمران نیازی نے قلع فتح کرنے کا فیصلہ کر لیا اور سوچا کہ جس طرح نواز کا لانگ مارچ گجرانوالہ پہنچا تھا اور جج کی بحالی ہو گئی تھی وہ بھی رستے میں ہی ہو گا اور الیکشن کا اعلان ہو جاۓ گا . اگر عمران نیازی عزت سے اقتدار چھوڑ جاتا تو کوئی مسلہ نہیں تھا لیکن آخری وقت جو عمران نیازی نے چیف بدلنے کی کوشش کی تھی اور چپڑیں کھا کر ذلیل ہو کر نکلا اس وجہ سے اب اس کا مخالف دھڑا بھی چاہے گا کہ جسے ٹھڈے مار کر نکالا تھا وہ واپس نہ آ جاۓ . عمران نیازی کا سر کچلنا ضروری تھا اس لیے تحریک انصاف کو مار مار کر لال کر دیا گیا . عمران نیازی کو سیاسی فتح دینے کے لیے اسٹبلشمنٹ تیار نہیں تھی اس لیے اسمبلیاں تحلیل اور الیکشن کا فیصلہ بجٹ موخر کر دیا گیا
صدر نے متفقہ اجلاس بلایا ہے یہ کسی ڈیل کا حصہ محسوس ہوتا ہے جس کا مقصد یہ ہی ہو سکتا ہے کہ ائی ایم ایف کے منظور نظر بجٹ جلد از جلد متفقہ طور پر پاس کر کر کے الیکشن کی طرف جایا جاۓ . نون لیگ نے مشکل فیصلوں کی ابتدا کی تھی لیکن ایسا لگتا ہے وہ کڑوی گولی نگلنے کو تیار نہیں جو ائی ایم ایف چاہتا ہے . نون لیگ مشکل فیصلے کر کے اپنی سیاست کا جنازہ نہیں نکالنا چاہتی اور اسٹبلشمنٹ نون لیگ کو اقتدار میں نہیں رہنے دینا چاہتی تو دیر کس بات کی ہے ؟ شہباز شریف دراصل اسٹبلشمنٹ کا ذاتی ملازم ہے اور وہ ہر صورت اسٹبلشمنٹ کو خوش کرنا چاہتا ہے کیوں کے اگر شہباز شریف اسٹبلشمنٹ کے اشاروں پر نہ چلے اور اپنی پارٹی کی لائن پکڑے تو اسے مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے اور اس کے خلاف مقدموں کا فیصلہ آ سکتا ہے . شہباز شریف کی مجبوری یہ ہی ہے کہ اسے اسٹبلشمنٹ کی ہر بات ماننی ہے اور اپنا دامن بچانا ہے شک اس میں نون لیگ کی سیاست کا جنازہ نکلے ، ایک طرف شہباز اسٹبلشمنٹ کے اشاروں پر مشکل فیصلے بھی کرے گا اور دوسری طرف اسٹبلشمنٹ نون لیگ کے اقتدار کا خاتمہ بھی کر دے گی . اس کھینچا تانی میں ملک مزید تباہ ہو گا . ایسی صورتحال میں بہترین بات یہ ہی تھی کہ اسٹبلشمنٹ کو ہی اقتدار دے دیا جاتا ملک کسی سمت تو چلتا سیاسی مصلحتوں کا شکار تو نہ ہوتا