Qarar
MPA (400+ posts)
قرار نامہ
9/19/2014
...
میں اس مضمون میں ماڈل ٹاؤن کے واقعے پر ایک مختلف زاویے سے روشنی ڈالنا چاہتا ہوں ...ذرائع ابلاغ میں یہ عام تاثر یہ ہے کہ حکومت نے ظلم اور بربریت، اور کچھ حضرات کے مطابق، ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے هوئے منہاج القرآن کے چودہ نہتے کارکنوں کو بھون ڈالا جبکہ دسیوں بلکہ سینکڑوں افراد کو مار پیٹ کرکے زخمی کیا ....میرا اس پورے واقعے پر ایک بلکل مختلف نقطہ نظر ہے
لاہور پولیس منہاج القرآن کے سیکرٹیریٹ میں غیر قانونی تجاوزات ہٹانے کی آڑ میں ماڈل ٹاؤن گئی .....اب اس موقعے پر خاص طور پر قادری کی آمد سے پہلے پولیس کو یہ اقدام کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ ...ظاہر ہے کہ قادری کے پر کاٹنے کا پروگرام تھا ...اور اسے یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ اگر لونگ مارچ وغیرہ کا ارادہ ترک نہ کیا تو حکومت سختی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے...(جو دھما چوکڑی قادری نے اسلام آباد میں مچائی ہے اس کو دیکھتے هوئے یہ اقدام شاید کوئی اتنا برا بھی نہ تھا) ...میڈیا کے مطابق پولیس کے منہاج القرآن کی انتظامیہ سے تقریباً دو گھنٹے مذاکرات هوئے لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا ... پولیس نے زبردستی کرنے کی کوشش کی جس پر قادری کے کارکن مشتعل ہوگئے اور انہوں نے پولیس کو بزور طاقت اس اقدام سے روکنے کی کوشش کی
اب یہاں ایک لمحے کا توقف کرتے ہیں ...اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ پولیس غلط تھی اور منہاج القرآن کی انتظامیہ کا موقف درست تھا کہ تجاوزات قانونی تھیں تو کیا عوامی تحریک کے کارکنوں کا یہ رویہ درست تھا کہ پولیس پر حملہ کردیا جائے؟ جن لوگوں کی زبان ان کارکنوں کو "نہتے کارکن" کہتے نہیں تھکتی کیا انھوں نے ان کارکنوں کے ہاتھوں میں تھامے ڈنڈوں کی لمبائی اور موٹائی پر غور کیا ہے؟ یہ تین انچ قطر کا ڈنڈا اگر کسی انسان پر برس پڑے تو اس کا کیا حشر ہوگا؟
پولیس اکثر زیادتی بھی کرتی ہے ...کرپٹ بھی ہے ...غریبوں کو مختلف اور امیروں کو مختلف ٹریٹ کرتی ہے ...پولیس میں یہ ساری خامیاں ہونگی مگر پولیس ریاست کی رٹ کو بھی قائم کرنے کی ذمہ دار ہے ....کسی لٹھ بردار گروہ کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اینٹوں، پتھروں ، ڈنڈوں، کیل والے ڈنڈوں یا اسلحے کا استعمال پولیس کے خلاف کرے چاہے بظاہر انہیں پولیس کا اقدام جائز نہ لگے ....اگر عوامی تحریک والے لوگ پولیس پر حملہ کرنے کی بجائے عدالت سے رجوع کرتے تو پولیس کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کرسکتے تھے ...یاد رکھئے کہ یہ وہی عدالتیں ہیں جنہوں نے لاہور اور اسلام آباد میں عوامی تحریک کے کارکنوں کے مرنے پر وزیراعظم ، وزیراعلیٰ، اور متعدد وفاقی وزراء کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے احکامات دے رکھے ہیں ....مسئلہ یہ ہے کہ متعدد فوجی مداخلتوں کے بعد پاکستان کے عوام کو بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون استعمال کرنے کی لت پر چکی ہے
پولیس پر حملہ کرنے کے اقدام کو حق بجانب کہنے سے پہلے یہ بھی سوچئے کہ اگر پولیس کسی اطلاع پر کہ کسی وڈیرے نے ایک نجی جیل میں لوگوں کو قید کیا ہوا ہے کوئی کاروائی کرنے بوہنچتی ہے ...جس پر وڈیرے کے محافظ لاٹھیوں یا اسلحے کے زور پر پولیس کو پسپا کردیتے ہیں .........یا یہ کہ ایک با اثر شخص کسی علاقے میں زبردستی لوگوں سے بھتہ وصول کر رہا ہے ...مگر پولیس کے روکنے پر غنڈے الٹا پولیس پر حملہ کردیتے ہیں ....کیا یہ صحیح ہوگا؟ کیا لوگوں کو اس بات کی اجازت دی جاسکتی ہے کہ آپ اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کریں کہ پولیس کا حکم ماننا ہے یا نہیں؟ پولیس کی زیادتیوں کی داد رسی کے لیے ایک فورم یعنی عدالت موجود ہے ...اس سے استفادہ حاصل کیا جانا چاہئیے ....انتہائی شرمناک بات یہ ہے کہ اس سارے قضیے میں پولیس کہیں بھی منہاج القرآن کی عمارت میں داخل نہیں ہونا چاہتی تھی ...وہ صرف چند تجاوزات ہٹا کر سڑک صاف کرنا چاہتی تھی ....اس معمولی سی بات پر کارکنوں کا انتہائی اقدام ....سڑک کو میدان جنگ بنا دینا کیوں ضروری تھا؟ ان چودہ جانوں کے ضیاع کی ذمہ داری پولیس سے زیادہ خود ان کارکنوں پر ہے
میڈیا کا اس سارے معاملے میں انتہائی جانبدارانہ تھا اور ہے ....ہر کوئی شخص "سانحہ سانحہ" کی رٹ لگا رہا ہے ....جن بوجھ کر ...بار بار صرف وہ فوٹیج ٹی وی پر دکھائی جارہی ہے جس میں پولیس اپنے آپ پر ہونے والے انتہائی پرتشدد حملوں کے بعد اپنے دفاع میں کاروائی کر رہی ہے ....ہم میں سے جن لوگوں نے مارشل لاء ادوار میں پولیس کی بربریت کے مناظر دیکھے اور سنے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پولیس کرنے پر آئے تو چند سو کے قریب کارکنوں اور ملازمین کو آسانی سے زیادہ تشدد کرکے قابو کیا جاسکتا تھا ....پھر کیا وجہ تھی کہ پولیس اور کارکنوں کے درمیان دس بارہ گھنٹے لڑائی ہوتی رہی؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ پولیس نے ہاتھ ہولا رکھنے کی حتی المقدور کوشش کی ...شروع میں مذاکرات بھی کیے ...تاہم آخر میں جب مظاہرین حد سے بڑھ گئے اور کچھ ہوائی فائرنگ کی بھی آوازیں آئیں تو پولیس کے لیے ضروری تھا کہ اپنے دفاع میں گولی چلاتی .....میڈیا بڑے دھوم دھڑکے سے وہ گولیاں چلانے کے تو مناظر تو دکھا رہا ہے مگر شروع کے چند گھنٹوں کی ....کارکنوں کی طرف سے ہونے والی پر تشدد کاروائیوں کو بلکل گول کر رہا ہے ....یہ صحافتی بدیانتی کی ایک بڑی مثال ہے کہ تصویر کے دونوں رخ نہیں دکھائے جارہے
اب بیرون ملک پولیس کو حاصل کچھ اختیارات کا ذکر کرتے ہیں ....امریکا میں ایک پولیس افسر کو اس شخص پر گولی چلانے کا اختیار حاصل ہے جو پولیس افسر کی وارننگ کو نظر انداز کرکے افسر کی طرف بڑھے ..وارننگ پر ہاتھ کھڑے نہ کرے اور مسلسل جارحانہ عمل اختیار کرے ....میں ایک آنکھوں دیکھا واقعہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ...میں ایک دوست کی گاڑی میں سفر کر رہا تھا ...اچانک ایک پولیس کار نے پیچھے آکر لائٹیں جلادیں ....دوست نے گاڑی سائیڈ پر پارک کی اور گاڑی سے نکل کر پولیس کار کی طرف کچھ وضاحت کرنے چل پڑا...(یہ غلط تھا ...اس صورتحال میں قانون گاڑی میں بیٹھ کر افسر کا انتظار کرنے کو کہتا ہے) ...پولیس افسر نے جوکہ ابھی اپنی گاڑی سے نکلا ہی تھا میرے دوست کو واپس گاڑی میں جانے کی ہدایت کی...دوست نے کچھ بولنے کی کوشش کی تو اس پولیس افسر نے پستول نکال کر تان لی ...میرے دوست نے غلطی محسوس کی اور واپس گاڑی میں بیٹھ گیا ...لیکن میں یقین سے کہ سکتا ہوں کہ اگر میرا دوست پیش قدمی جاری رکھتا تو پولیس افسر اس پر ضرور گولی چلا دیتا ...اور امریکا کی کوئی عدالت یا جیوری اس افسر کو قصوروار نہ ٹھہراتی ....ابھی حال ہی میں امریکی ریاست میزوری (میسوری) کے شہر فرگوسن میں ایک پولیس افسر کی طرف سے ایک سیاہ فام نوجوان پر گولی چلانے کا واقعہ پیش آیا ہے جس میں نوجوان ہلاک ہو گیا ..جس پر لوگ..خاص طور پر سیاہ فام ... مظاہرے کر رہے ہیں ....پولیس افسر کے مخالفین اصرار کرتے ہیں کہ اس نوجوان نے اپنے ہاتھ اٹھا دئیے تھے لہذا پولیس افسر کو فائر نہیں کرنا چاہئیے تھا ...جبکہ پولیس کا موقف ہے کہ نوجوان نے پیش قدمی کی اور افسر نے اپنے دفاع میں گولی چلائی کیونکہ اسے شاید نوجوان کے ہاتھ میں کوئی چاقو نما ہتھیار کا شک ہوا تھا ....لیکن اہم بات یہ ہے کہ پولیس کے مخالفین بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ افسر کو نوجوان کو پیش قدمی کی صورت میں گولی چلانے کا اختیار ہے ...ان کا آرگیومنٹ صرف یہ ہے کہ نوجوان ہاتھ اٹھا کر کھڑا تھا اس لیے گولی کی ضرورت نہیں تھی
اب مندرجہ بالا مثال کا موازنہ ماڈل ٹاؤن کے "نہتے" مظاہرین سے کریں تو کیا پولیس کا گولی چلانا غیر مناسب لگتا ہے جبکہ ان پر ڈنڈوں اور پتھروں کی بارش ہو رہی ہو؟
ساری کی ساری پولیس کو کرپٹ کہ کر تھانوں پر حملے کرنا ....ملزموں کو چھڑوانا ...سیاسی یا غیر سیاسی ریلیوں کے دوران توڑ پھوڑ کرنا اور پھر پولیس کی طرف سے روکنے یا جائز مارپیٹ اور تشدد کے بعد اپنی معصومیت کے رونے رونا ایک فیشن بن گیا ہے جس کی بھرپور مذمت کی جانی چاہئیے
کچھ لوگ اس پر بھی آوازیں اٹھا رہے ہیں کہ سیدھی سیدھی گولیاں کیوں چلائی گئیں ...ٹانگ اور بازو پر مار کر زخمی کیوں نہ کیا گیا ...بندے تو نہ مرتے ....عرض یہ ہے کہ پولیس کو ٹریننگ کے دوران جسم کے بڑے حصے پر گولی مارنے کی تربیت دی جاتی ہے ...مجھے خود بھی گنز جمع کرنے کا شوق ہے اور نشانہ بازی کے لیے مختلف شوٹنگ رینجز میں آتا جاتا ہوں ...وہاں بھی پولیس سے وابستہ یا ریٹائرڈ افراد یہی کنفرم کرتے ہیں کہ گولی اگر سینے پر مارنے کی بجائے ٹانگ اور بازو پر ماری جائے تو نشانہ چوکنے کا اور راہگیروں کے مرنے کا خدشہ ہوتا ہے
....آخر میں شہباز شریف کے طرز حکومت پر کچھ الفاظ
شہباز شریف یا رانا ثناء اللہ کی بری پلاننگ یا بد انتظامی تھی کہ چند سو مظاہرین کو قابو نہ کیا جاسکا ...اگر اس قابل نہ تھے تو پھر پولیس بھیجنے کی کیا ضرورت تھی ...اور اگر مظاہرین کو ابتدائی طور پر پسپا نہ کیا جاسکا تھا تو پھر بعد میں زیادہ قوت کے ساتھ واپس بھی آیا جاسکتا تھا ....تجاوزات ہٹانے والے معمولی سے کام کے دوران چودہ بندے مارنا ایک انتظامی ناکامی تھی.......لیکن سب سے بدترین بات پولیس پر سارا ملبہ گرانا ہے ....شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ میں اتنی اخلاقی جرات ہونی چاہئیے تھی کہ اپنے اور پولیس کے اقدام کو صحیح اور درست کہتے اور پولیس کا مکمل دفاع کیا جاتا ....آج بھی دیکھ لیں ...ہر حکومتی وزیر میڈیا کے پریشر میں آکر ماڈل ٹاؤن والے واقعے کو ناقابل دفاع کہ رہا ہے ...اس کو غلطی کہ رہا ہے ....مافیاں مانگ رہا ہے ..جبکہ حقیقت میں قصور پولیس کا نہیں بلکہ مظاہرین کا ہے ..پولیس عمارت میں نہیں جارہی تھی ..کسی کو گرفتار نہیں کر رہی تھی ...صرف سڑک کلئیر کروا رہی تھی ....لیکن اپنے اوپر ہونے والے شدید حملوں کے بعد پولیس کو بھی غصہ آیا اور جیسے گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے ...کئی بیگناہ بھی پھر رگڑے گئے اور کچھ اشخاص اور عورتوں کے ساتھ ناروا سلوک ہوا جوکہ نہیں ہونا چاہئیے تھا
حکومت کا فرض تھا کہ پولیس کے ساتھ کھڑی ہوتی اور لوگوں کو وارننگ دیتی کہ قانون ہاتھ میں لینے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا ...لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا.....پہلی ایف آئی آر پولیس کی مدعیت میں عوامی تحریک کے کارکنوں کے خلاف درج کی گئی ..اور یہی اصل ایف آئی آر تھی ...بدقسمتی سے کچھ جج بھی ٹی وی پر لاشیں دیکھ کر میڈیا کے دباؤ میں الٹی سیدھی ایف آئی آر درج کرنے کے حکمنامے دے رہے ہیں
9/19/2014
...
میں اس مضمون میں ماڈل ٹاؤن کے واقعے پر ایک مختلف زاویے سے روشنی ڈالنا چاہتا ہوں ...ذرائع ابلاغ میں یہ عام تاثر یہ ہے کہ حکومت نے ظلم اور بربریت، اور کچھ حضرات کے مطابق، ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے هوئے منہاج القرآن کے چودہ نہتے کارکنوں کو بھون ڈالا جبکہ دسیوں بلکہ سینکڑوں افراد کو مار پیٹ کرکے زخمی کیا ....میرا اس پورے واقعے پر ایک بلکل مختلف نقطہ نظر ہے
لاہور پولیس منہاج القرآن کے سیکرٹیریٹ میں غیر قانونی تجاوزات ہٹانے کی آڑ میں ماڈل ٹاؤن گئی .....اب اس موقعے پر خاص طور پر قادری کی آمد سے پہلے پولیس کو یہ اقدام کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ ...ظاہر ہے کہ قادری کے پر کاٹنے کا پروگرام تھا ...اور اسے یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ اگر لونگ مارچ وغیرہ کا ارادہ ترک نہ کیا تو حکومت سختی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے...(جو دھما چوکڑی قادری نے اسلام آباد میں مچائی ہے اس کو دیکھتے هوئے یہ اقدام شاید کوئی اتنا برا بھی نہ تھا) ...میڈیا کے مطابق پولیس کے منہاج القرآن کی انتظامیہ سے تقریباً دو گھنٹے مذاکرات هوئے لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا ... پولیس نے زبردستی کرنے کی کوشش کی جس پر قادری کے کارکن مشتعل ہوگئے اور انہوں نے پولیس کو بزور طاقت اس اقدام سے روکنے کی کوشش کی
اب یہاں ایک لمحے کا توقف کرتے ہیں ...اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ پولیس غلط تھی اور منہاج القرآن کی انتظامیہ کا موقف درست تھا کہ تجاوزات قانونی تھیں تو کیا عوامی تحریک کے کارکنوں کا یہ رویہ درست تھا کہ پولیس پر حملہ کردیا جائے؟ جن لوگوں کی زبان ان کارکنوں کو "نہتے کارکن" کہتے نہیں تھکتی کیا انھوں نے ان کارکنوں کے ہاتھوں میں تھامے ڈنڈوں کی لمبائی اور موٹائی پر غور کیا ہے؟ یہ تین انچ قطر کا ڈنڈا اگر کسی انسان پر برس پڑے تو اس کا کیا حشر ہوگا؟
پولیس اکثر زیادتی بھی کرتی ہے ...کرپٹ بھی ہے ...غریبوں کو مختلف اور امیروں کو مختلف ٹریٹ کرتی ہے ...پولیس میں یہ ساری خامیاں ہونگی مگر پولیس ریاست کی رٹ کو بھی قائم کرنے کی ذمہ دار ہے ....کسی لٹھ بردار گروہ کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اینٹوں، پتھروں ، ڈنڈوں، کیل والے ڈنڈوں یا اسلحے کا استعمال پولیس کے خلاف کرے چاہے بظاہر انہیں پولیس کا اقدام جائز نہ لگے ....اگر عوامی تحریک والے لوگ پولیس پر حملہ کرنے کی بجائے عدالت سے رجوع کرتے تو پولیس کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کرسکتے تھے ...یاد رکھئے کہ یہ وہی عدالتیں ہیں جنہوں نے لاہور اور اسلام آباد میں عوامی تحریک کے کارکنوں کے مرنے پر وزیراعظم ، وزیراعلیٰ، اور متعدد وفاقی وزراء کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے احکامات دے رکھے ہیں ....مسئلہ یہ ہے کہ متعدد فوجی مداخلتوں کے بعد پاکستان کے عوام کو بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون استعمال کرنے کی لت پر چکی ہے
پولیس پر حملہ کرنے کے اقدام کو حق بجانب کہنے سے پہلے یہ بھی سوچئے کہ اگر پولیس کسی اطلاع پر کہ کسی وڈیرے نے ایک نجی جیل میں لوگوں کو قید کیا ہوا ہے کوئی کاروائی کرنے بوہنچتی ہے ...جس پر وڈیرے کے محافظ لاٹھیوں یا اسلحے کے زور پر پولیس کو پسپا کردیتے ہیں .........یا یہ کہ ایک با اثر شخص کسی علاقے میں زبردستی لوگوں سے بھتہ وصول کر رہا ہے ...مگر پولیس کے روکنے پر غنڈے الٹا پولیس پر حملہ کردیتے ہیں ....کیا یہ صحیح ہوگا؟ کیا لوگوں کو اس بات کی اجازت دی جاسکتی ہے کہ آپ اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کریں کہ پولیس کا حکم ماننا ہے یا نہیں؟ پولیس کی زیادتیوں کی داد رسی کے لیے ایک فورم یعنی عدالت موجود ہے ...اس سے استفادہ حاصل کیا جانا چاہئیے ....انتہائی شرمناک بات یہ ہے کہ اس سارے قضیے میں پولیس کہیں بھی منہاج القرآن کی عمارت میں داخل نہیں ہونا چاہتی تھی ...وہ صرف چند تجاوزات ہٹا کر سڑک صاف کرنا چاہتی تھی ....اس معمولی سی بات پر کارکنوں کا انتہائی اقدام ....سڑک کو میدان جنگ بنا دینا کیوں ضروری تھا؟ ان چودہ جانوں کے ضیاع کی ذمہ داری پولیس سے زیادہ خود ان کارکنوں پر ہے
میڈیا کا اس سارے معاملے میں انتہائی جانبدارانہ تھا اور ہے ....ہر کوئی شخص "سانحہ سانحہ" کی رٹ لگا رہا ہے ....جن بوجھ کر ...بار بار صرف وہ فوٹیج ٹی وی پر دکھائی جارہی ہے جس میں پولیس اپنے آپ پر ہونے والے انتہائی پرتشدد حملوں کے بعد اپنے دفاع میں کاروائی کر رہی ہے ....ہم میں سے جن لوگوں نے مارشل لاء ادوار میں پولیس کی بربریت کے مناظر دیکھے اور سنے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پولیس کرنے پر آئے تو چند سو کے قریب کارکنوں اور ملازمین کو آسانی سے زیادہ تشدد کرکے قابو کیا جاسکتا تھا ....پھر کیا وجہ تھی کہ پولیس اور کارکنوں کے درمیان دس بارہ گھنٹے لڑائی ہوتی رہی؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ پولیس نے ہاتھ ہولا رکھنے کی حتی المقدور کوشش کی ...شروع میں مذاکرات بھی کیے ...تاہم آخر میں جب مظاہرین حد سے بڑھ گئے اور کچھ ہوائی فائرنگ کی بھی آوازیں آئیں تو پولیس کے لیے ضروری تھا کہ اپنے دفاع میں گولی چلاتی .....میڈیا بڑے دھوم دھڑکے سے وہ گولیاں چلانے کے تو مناظر تو دکھا رہا ہے مگر شروع کے چند گھنٹوں کی ....کارکنوں کی طرف سے ہونے والی پر تشدد کاروائیوں کو بلکل گول کر رہا ہے ....یہ صحافتی بدیانتی کی ایک بڑی مثال ہے کہ تصویر کے دونوں رخ نہیں دکھائے جارہے
اب بیرون ملک پولیس کو حاصل کچھ اختیارات کا ذکر کرتے ہیں ....امریکا میں ایک پولیس افسر کو اس شخص پر گولی چلانے کا اختیار حاصل ہے جو پولیس افسر کی وارننگ کو نظر انداز کرکے افسر کی طرف بڑھے ..وارننگ پر ہاتھ کھڑے نہ کرے اور مسلسل جارحانہ عمل اختیار کرے ....میں ایک آنکھوں دیکھا واقعہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ...میں ایک دوست کی گاڑی میں سفر کر رہا تھا ...اچانک ایک پولیس کار نے پیچھے آکر لائٹیں جلادیں ....دوست نے گاڑی سائیڈ پر پارک کی اور گاڑی سے نکل کر پولیس کار کی طرف کچھ وضاحت کرنے چل پڑا...(یہ غلط تھا ...اس صورتحال میں قانون گاڑی میں بیٹھ کر افسر کا انتظار کرنے کو کہتا ہے) ...پولیس افسر نے جوکہ ابھی اپنی گاڑی سے نکلا ہی تھا میرے دوست کو واپس گاڑی میں جانے کی ہدایت کی...دوست نے کچھ بولنے کی کوشش کی تو اس پولیس افسر نے پستول نکال کر تان لی ...میرے دوست نے غلطی محسوس کی اور واپس گاڑی میں بیٹھ گیا ...لیکن میں یقین سے کہ سکتا ہوں کہ اگر میرا دوست پیش قدمی جاری رکھتا تو پولیس افسر اس پر ضرور گولی چلا دیتا ...اور امریکا کی کوئی عدالت یا جیوری اس افسر کو قصوروار نہ ٹھہراتی ....ابھی حال ہی میں امریکی ریاست میزوری (میسوری) کے شہر فرگوسن میں ایک پولیس افسر کی طرف سے ایک سیاہ فام نوجوان پر گولی چلانے کا واقعہ پیش آیا ہے جس میں نوجوان ہلاک ہو گیا ..جس پر لوگ..خاص طور پر سیاہ فام ... مظاہرے کر رہے ہیں ....پولیس افسر کے مخالفین اصرار کرتے ہیں کہ اس نوجوان نے اپنے ہاتھ اٹھا دئیے تھے لہذا پولیس افسر کو فائر نہیں کرنا چاہئیے تھا ...جبکہ پولیس کا موقف ہے کہ نوجوان نے پیش قدمی کی اور افسر نے اپنے دفاع میں گولی چلائی کیونکہ اسے شاید نوجوان کے ہاتھ میں کوئی چاقو نما ہتھیار کا شک ہوا تھا ....لیکن اہم بات یہ ہے کہ پولیس کے مخالفین بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ افسر کو نوجوان کو پیش قدمی کی صورت میں گولی چلانے کا اختیار ہے ...ان کا آرگیومنٹ صرف یہ ہے کہ نوجوان ہاتھ اٹھا کر کھڑا تھا اس لیے گولی کی ضرورت نہیں تھی
اب مندرجہ بالا مثال کا موازنہ ماڈل ٹاؤن کے "نہتے" مظاہرین سے کریں تو کیا پولیس کا گولی چلانا غیر مناسب لگتا ہے جبکہ ان پر ڈنڈوں اور پتھروں کی بارش ہو رہی ہو؟
ساری کی ساری پولیس کو کرپٹ کہ کر تھانوں پر حملے کرنا ....ملزموں کو چھڑوانا ...سیاسی یا غیر سیاسی ریلیوں کے دوران توڑ پھوڑ کرنا اور پھر پولیس کی طرف سے روکنے یا جائز مارپیٹ اور تشدد کے بعد اپنی معصومیت کے رونے رونا ایک فیشن بن گیا ہے جس کی بھرپور مذمت کی جانی چاہئیے
کچھ لوگ اس پر بھی آوازیں اٹھا رہے ہیں کہ سیدھی سیدھی گولیاں کیوں چلائی گئیں ...ٹانگ اور بازو پر مار کر زخمی کیوں نہ کیا گیا ...بندے تو نہ مرتے ....عرض یہ ہے کہ پولیس کو ٹریننگ کے دوران جسم کے بڑے حصے پر گولی مارنے کی تربیت دی جاتی ہے ...مجھے خود بھی گنز جمع کرنے کا شوق ہے اور نشانہ بازی کے لیے مختلف شوٹنگ رینجز میں آتا جاتا ہوں ...وہاں بھی پولیس سے وابستہ یا ریٹائرڈ افراد یہی کنفرم کرتے ہیں کہ گولی اگر سینے پر مارنے کی بجائے ٹانگ اور بازو پر ماری جائے تو نشانہ چوکنے کا اور راہگیروں کے مرنے کا خدشہ ہوتا ہے
....آخر میں شہباز شریف کے طرز حکومت پر کچھ الفاظ
شہباز شریف یا رانا ثناء اللہ کی بری پلاننگ یا بد انتظامی تھی کہ چند سو مظاہرین کو قابو نہ کیا جاسکا ...اگر اس قابل نہ تھے تو پھر پولیس بھیجنے کی کیا ضرورت تھی ...اور اگر مظاہرین کو ابتدائی طور پر پسپا نہ کیا جاسکا تھا تو پھر بعد میں زیادہ قوت کے ساتھ واپس بھی آیا جاسکتا تھا ....تجاوزات ہٹانے والے معمولی سے کام کے دوران چودہ بندے مارنا ایک انتظامی ناکامی تھی.......لیکن سب سے بدترین بات پولیس پر سارا ملبہ گرانا ہے ....شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ میں اتنی اخلاقی جرات ہونی چاہئیے تھی کہ اپنے اور پولیس کے اقدام کو صحیح اور درست کہتے اور پولیس کا مکمل دفاع کیا جاتا ....آج بھی دیکھ لیں ...ہر حکومتی وزیر میڈیا کے پریشر میں آکر ماڈل ٹاؤن والے واقعے کو ناقابل دفاع کہ رہا ہے ...اس کو غلطی کہ رہا ہے ....مافیاں مانگ رہا ہے ..جبکہ حقیقت میں قصور پولیس کا نہیں بلکہ مظاہرین کا ہے ..پولیس عمارت میں نہیں جارہی تھی ..کسی کو گرفتار نہیں کر رہی تھی ...صرف سڑک کلئیر کروا رہی تھی ....لیکن اپنے اوپر ہونے والے شدید حملوں کے بعد پولیس کو بھی غصہ آیا اور جیسے گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے ...کئی بیگناہ بھی پھر رگڑے گئے اور کچھ اشخاص اور عورتوں کے ساتھ ناروا سلوک ہوا جوکہ نہیں ہونا چاہئیے تھا
حکومت کا فرض تھا کہ پولیس کے ساتھ کھڑی ہوتی اور لوگوں کو وارننگ دیتی کہ قانون ہاتھ میں لینے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا ...لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا.....پہلی ایف آئی آر پولیس کی مدعیت میں عوامی تحریک کے کارکنوں کے خلاف درج کی گئی ..اور یہی اصل ایف آئی آر تھی ...بدقسمتی سے کچھ جج بھی ٹی وی پر لاشیں دیکھ کر میڈیا کے دباؤ میں الٹی سیدھی ایف آئی آر درج کرنے کے حکمنامے دے رہے ہیں
- Featured Thumbs
- http://i.dawn.com/primary/2014/07/53c1dcc45c496.jpg
Last edited by a moderator: