Atif
Chief Minister (5k+ posts)
قیام (نیا) پاکستان
حصہ اول
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کی بغل میں نیا پاکستان پایا جاتا ہے، گو کہ پرانا پاکستان ایک بزرگ قائد اعظم نامی کی کوششوں کا ثمر بتایا جاتا تھا لیکن بدلتے ہوئے وقت اور منظر نامے کا ساتھ نہ دے پانے کی وجہ سے اس میں تنوع کی گنجائش نکالی گئی اور یوں اسے جدید تہذیب اور تقاضوں سے ہم آہنگ کیا گیا۔ تہذیب کا لفظ یہاں محض استعارا" استعمال کیا گیا ہے جس کا نئے پاکستان اور اس کے بانیان سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ بانیِ نیا پاکستان جناب حضرت عمران خان کی جائے رہائش یہعنی بنی گالہ کی نسبت اور مخالفین پر دشنام طرازی کی وجہ سے ان کی تحریک و سپورٹرز کوبنی گالیہ کہا جاتا ہے۔ محترم جناب عمران خان کے آنے سے پہلے پاکستانی قوم شدید قسم کی معاشرتی ،مباشرتی، معاشی اور اخلاقی گراوٹ کا شکار تھی۔ ضان صاحب نے نہائیت مشکل وقت میں ازخود سوموٹوئی کا اعزاز گلے میں ڈالا اورخود ہی مسیحا بننے کا بیڑہ بھی اٹھایا لہذا بیماروں کو خوب شفا کروائی۔
نیا پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کے ووٹ دہندگان انٹرنیٹ پر ہر وقت سماجی برئیوں پر نظر رکھتے ہیں اور یہیں سے حکومت مخالف تحاریک چلانے کی صلاحیت بھی حاصل کرچکے ہیں، زیادہ تر تحریکی بھائی بیرونِ ملک ہونے کے باعث حال ہی میں گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نیا پاکستان کا نام شامل کیا گیا ہے کہ کسی ملک کو باہر بیٹھ کر بلکہ اوندھا لیٹ کر بھی چلایا جاسکتا ہے۔
قائد ِ نیا پاکستان جناب عمران خان کے آنے سے پہلے یہ قوم ذات برادری، حسب ونسب، رنگ و نسل اور مسالک و مذاہب جیسی لغویات و مکروہات میں بری طرح بٹی ہوئی تھی لیکن بحمداللہ خان صاحب رحمتہ علیہ نے اپنی کرشماتی شخصیت کے باعث اس تمام قوم کو اکٹھا کر کے صرف دو حصوں میں تقسیم فرمایا ایک تو وہ جو تمام تحریک میں ان کے لئے نعرے لگاتے رہے اوران کی تمام باتوں اور پالیسیوں جن کو سمجھنا کسی معقول انسان کے بچے کا کام نہیں تھا ان باتوں پر بھی واہ واہ کے ڈونگرے برساتے رہے اور عالم ِ بےخودی میں خان صاحب کے منہہ سے برامد ہوئے تمام بمثل مسلہائے فیثا غورث کی تشریح بھی اتنی آسانی سے فرماتے رہے کہ ہر تحریکی کو اسے سمجھنے میں کسی بھی قسم کی دقت کا سامنہ نہیں کرنا پڑتا تھا، ان تحریکیوں اور خان صاحب کے ساتھیوں کو جنونی یا انقلابی کہا جاتا تھا
اور یہ ریاست نیا پاکستان کے اہم افراد میں شمار کئے جاتے تھے۔ دوسری قسم اس نئے پاکستان میں ان لوگوں کی تھی جو غدار یا پٹواری کہلائے جاتے تھے۔ یہ خان صاحب کے اصولی یوٹرن پر بلاوجہ تنقید کرتے تھے جنہیں وہ اختلاف رائے بتانے پر مصر ہوتے لیکن انقلابی ان کو اچھی طرح جانتے تھے لہذا ان کے جال میں پھنس نہیں پاتے تھے اور اکثر ان غداروں کی اصلیت قوم کو بتاتے رہتے۔ دشمن غداروں کے اس گروہ میں وقت کے جید صحافی، اعلیٰ عدالتیں، ٹی وی چینل، الیکشن کمیشن، مختلف سروے کرنے والی کمپنیاں، اقوام متحدہ، امریکہ اور غیر ملکی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا وغیرہ سرفہرست تھے جن کی انقلابیوں نے خوب گوشمالی کی اور جناب عمران خان ضلِ الہٰی دامت برکاتہم کے دربار خاص میں مقرب اعلیٰ بننے کی خوب کامیاب کوشش کی۔ نئے پیدا ہونے والوں کے لئے یہ امر باعث دلچسپی ہو گا کہ اسوقت پاکستان کی آبادی تقریبا" بیس کروڑ تھی
جس میں سے چند لاکھ لوگوں کے علاوہ بقیہ تمام غدار اور پٹواری تھے جو ان چند لاکھ افراد کو خون چوسنے کے مرتکب پائے گئے لہذا غدار ثابت کرنے کے بعد ان تمام فتنہ سازوں کو طالبان کے حوالے کیا گیا جو کہ نئے پاکستان کی پولیس اور افواج پاکستان میں اہم عہدوں پر شمولیت اختیار کر چکے تھے اور انھوں نے ان تمام غداروں کا قلع قمع کیا، اسطرح تقریبا" بیس کروڑ قیمتی جانوں کی قربانی دے کر یہ نیا پاکستان حاصل کیا گیا۔
نئے پاکستان کو حاصل کرنے کیلئے جناب عمران خان صاحب نے دن رات الزام اور مغلظات کی توپوں کا رخ اپنے دشمنوں کی جانب کر کے گولہ باری کی، اس کارِ سعید میں ان کی دستِ راست جناب شیریں مزاری بھی شامل تھیں جو کہ گھمسان کی رن تھیں اور پڑ جایا کرتی تھی، جناب پرویز خٹک صاحب خود ہلکورے لے کر جنونیوں کے ابلتے خون کو مزید گرمایا کرتے، جناب محمود قریشی صاحب جو ماضی قریب میں پی پی پی کی کشتی ڈوبتے دیکھ کر پی ٹی آئی کے بلبلے پر سوار ہوئے تھے بھی اپنی کرشماتی شخصیت کے معجزات کے باعث دن میں غداروں، پٹواریوں کی حکومت سے مذاکرات کرتے اور رات میں اسی حکومت کے خلاف نعرے لگا کر جنونیوں کے جذبات میں اُبال پیدا کرتے،
نئے پاکستان کے قیام کے لئے اشد ضروری تھا کہ مہنگائی، بےروزگاری، مذہبی شدت پسندی، لاقانونیت ، انصاف کی عدم فراہمی وغیرہ جیسی چھوٹی چھوٹی برائیوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے چار حلقوں میں دھاندلی جیسی عظیم برائی کے خلاف قوم کو سڑکوں پر لایا جائے (اور مروایا جائے) اور یقینا" قائد نیا پاکستان نے اس راہ میں پلس کے ڈنڈے اور زخم بھی کھائے ہوں گے جن کی تفصیل بتا کر پڑھنے والوں کو غمگین کرنا کسی صورت ایک مستحسن اقدام نہ ہوگا۔
خان صاحب جو کہ 14 اگست کو اس ملک کی مزید آزادی کی نوید اپنے چاہنے والوں کو سُنا چکے تھے، بوجوہ مقررہ تاریخ کو یہ کام سرانجام نہ دے سکے جس کی وجہ تقریبا" نو لاکھ نوے ہزار
انقلابیوں کی اس ملین مارچ میں عدم شمولیت تھی ، لیکن خان صاحب بنیادی طور پر چونکہ ایک فائٹر یعنی جھگڑالو طبیعت کے حامل شخص تھے لہذا انہوں نے فوج جو کہ ماضی میں جمہوریت کے خلاف کھڑے ہر فائٹر کا ساتھ دیا کرتی تھی سے مزید مدد طلب کی لیکن
اس راہ میں ایک عدد بڈھا کھوسٹ شخص مزاحم ہوا اور یوں خان صاحب کی فوجی بوٹوں کے ذریعے مخالفین کو سبق سکھانے کی شرعی خواہش تکمیل نہ پاسکی۔ جس کے بعد خان صاحب نے ہر شام چار پانچ سو لوگوں کے عظیم الشان اجتماع کو مختلف اقسام کی پیش گوئیاں، الہامات الزامات وغیرہ سُنا سُنا کر نڈھال کرنے کی ٹھانی۔
یہاں مجھے مُلا نصیر الدین کا ایک حقیقی واقعہ یاد آیا کہ کسی پڑوسی نے مُلا کو ایک صراحی ادھار دی لیکن جب وہ واپس ملی تو تڑخی ہوئی تھی جس پر پڑوسی نے عدالت میں مُلا پر نالش کی۔ اس
نالش کے جواب میں مُلا نصیر الدین نے جواب داخل کیا کہ پہلے تو یہ کہ میں نے اس شخص سے کوئی صراحی لی ہی نہ تھی، دوسرا یہ کہ جب میں نے وہ صراحی واپس کی تب وہ بالکل صحیح سلامت تھی اور تیسرا یہ کہ جب میں نے اس شخص سے وہ صراحی لی تھی تو وہ پہلے ہی سے تڑخی ہوئی تھی۔ ۔ ۔ ۔
کچھ اسی حکائیت لذیذ سے ملتی جلتی بات قائدِنیا پاکستان نے بھی کی کہ پہلے فرمایا کہ چین کے صدر کے آنے پر انہیں ہماری طرف سے کوئی تکلیف نہیں ہو گی دوسرا یہ کہ چین کے صدر تو پاکستان آہی نہیں رہے تھے اور تیسرا یہ کہ چین کے صدر منصوبے دستخط کرنے نہیں بلکہ قرض دینے آرہے تھے۔
اس قسم کی پہیلیاں خان صاحب روزانہ کی بنیادوں پر پوچھا کرتے تھے باشعور لوگ انہیں بچوں کی باتیں اور بچے انہیں بڑوں کی حسب عادت لغویات سمجھ کر درگزر کیا کرتے تھے۔
نیا پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کے ووٹ دہندگان انٹرنیٹ پر ہر وقت سماجی برئیوں پر نظر رکھتے ہیں اور یہیں سے حکومت مخالف تحاریک چلانے کی صلاحیت بھی حاصل کرچکے ہیں، زیادہ تر تحریکی بھائی بیرونِ ملک ہونے کے باعث حال ہی میں گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نیا پاکستان کا نام شامل کیا گیا ہے کہ کسی ملک کو باہر بیٹھ کر بلکہ اوندھا لیٹ کر بھی چلایا جاسکتا ہے۔
قائد ِ نیا پاکستان جناب عمران خان کے آنے سے پہلے یہ قوم ذات برادری، حسب ونسب، رنگ و نسل اور مسالک و مذاہب جیسی لغویات و مکروہات میں بری طرح بٹی ہوئی تھی لیکن بحمداللہ خان صاحب رحمتہ علیہ نے اپنی کرشماتی شخصیت کے باعث اس تمام قوم کو اکٹھا کر کے صرف دو حصوں میں تقسیم فرمایا ایک تو وہ جو تمام تحریک میں ان کے لئے نعرے لگاتے رہے اوران کی تمام باتوں اور پالیسیوں جن کو سمجھنا کسی معقول انسان کے بچے کا کام نہیں تھا ان باتوں پر بھی واہ واہ کے ڈونگرے برساتے رہے اور عالم ِ بےخودی میں خان صاحب کے منہہ سے برامد ہوئے تمام بمثل مسلہائے فیثا غورث کی تشریح بھی اتنی آسانی سے فرماتے رہے کہ ہر تحریکی کو اسے سمجھنے میں کسی بھی قسم کی دقت کا سامنہ نہیں کرنا پڑتا تھا، ان تحریکیوں اور خان صاحب کے ساتھیوں کو جنونی یا انقلابی کہا جاتا تھا
اور یہ ریاست نیا پاکستان کے اہم افراد میں شمار کئے جاتے تھے۔ دوسری قسم اس نئے پاکستان میں ان لوگوں کی تھی جو غدار یا پٹواری کہلائے جاتے تھے۔ یہ خان صاحب کے اصولی یوٹرن پر بلاوجہ تنقید کرتے تھے جنہیں وہ اختلاف رائے بتانے پر مصر ہوتے لیکن انقلابی ان کو اچھی طرح جانتے تھے لہذا ان کے جال میں پھنس نہیں پاتے تھے اور اکثر ان غداروں کی اصلیت قوم کو بتاتے رہتے۔ دشمن غداروں کے اس گروہ میں وقت کے جید صحافی، اعلیٰ عدالتیں، ٹی وی چینل، الیکشن کمیشن، مختلف سروے کرنے والی کمپنیاں، اقوام متحدہ، امریکہ اور غیر ملکی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا وغیرہ سرفہرست تھے جن کی انقلابیوں نے خوب گوشمالی کی اور جناب عمران خان ضلِ الہٰی دامت برکاتہم کے دربار خاص میں مقرب اعلیٰ بننے کی خوب کامیاب کوشش کی۔ نئے پیدا ہونے والوں کے لئے یہ امر باعث دلچسپی ہو گا کہ اسوقت پاکستان کی آبادی تقریبا" بیس کروڑ تھی
جس میں سے چند لاکھ لوگوں کے علاوہ بقیہ تمام غدار اور پٹواری تھے جو ان چند لاکھ افراد کو خون چوسنے کے مرتکب پائے گئے لہذا غدار ثابت کرنے کے بعد ان تمام فتنہ سازوں کو طالبان کے حوالے کیا گیا جو کہ نئے پاکستان کی پولیس اور افواج پاکستان میں اہم عہدوں پر شمولیت اختیار کر چکے تھے اور انھوں نے ان تمام غداروں کا قلع قمع کیا، اسطرح تقریبا" بیس کروڑ قیمتی جانوں کی قربانی دے کر یہ نیا پاکستان حاصل کیا گیا۔
نئے پاکستان کو حاصل کرنے کیلئے جناب عمران خان صاحب نے دن رات الزام اور مغلظات کی توپوں کا رخ اپنے دشمنوں کی جانب کر کے گولہ باری کی، اس کارِ سعید میں ان کی دستِ راست جناب شیریں مزاری بھی شامل تھیں جو کہ گھمسان کی رن تھیں اور پڑ جایا کرتی تھی، جناب پرویز خٹک صاحب خود ہلکورے لے کر جنونیوں کے ابلتے خون کو مزید گرمایا کرتے، جناب محمود قریشی صاحب جو ماضی قریب میں پی پی پی کی کشتی ڈوبتے دیکھ کر پی ٹی آئی کے بلبلے پر سوار ہوئے تھے بھی اپنی کرشماتی شخصیت کے معجزات کے باعث دن میں غداروں، پٹواریوں کی حکومت سے مذاکرات کرتے اور رات میں اسی حکومت کے خلاف نعرے لگا کر جنونیوں کے جذبات میں اُبال پیدا کرتے،
نئے پاکستان کے قیام کے لئے اشد ضروری تھا کہ مہنگائی، بےروزگاری، مذہبی شدت پسندی، لاقانونیت ، انصاف کی عدم فراہمی وغیرہ جیسی چھوٹی چھوٹی برائیوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے چار حلقوں میں دھاندلی جیسی عظیم برائی کے خلاف قوم کو سڑکوں پر لایا جائے (اور مروایا جائے) اور یقینا" قائد نیا پاکستان نے اس راہ میں پلس کے ڈنڈے اور زخم بھی کھائے ہوں گے جن کی تفصیل بتا کر پڑھنے والوں کو غمگین کرنا کسی صورت ایک مستحسن اقدام نہ ہوگا۔
خان صاحب جو کہ 14 اگست کو اس ملک کی مزید آزادی کی نوید اپنے چاہنے والوں کو سُنا چکے تھے، بوجوہ مقررہ تاریخ کو یہ کام سرانجام نہ دے سکے جس کی وجہ تقریبا" نو لاکھ نوے ہزار
انقلابیوں کی اس ملین مارچ میں عدم شمولیت تھی ، لیکن خان صاحب بنیادی طور پر چونکہ ایک فائٹر یعنی جھگڑالو طبیعت کے حامل شخص تھے لہذا انہوں نے فوج جو کہ ماضی میں جمہوریت کے خلاف کھڑے ہر فائٹر کا ساتھ دیا کرتی تھی سے مزید مدد طلب کی لیکن
اس راہ میں ایک عدد بڈھا کھوسٹ شخص مزاحم ہوا اور یوں خان صاحب کی فوجی بوٹوں کے ذریعے مخالفین کو سبق سکھانے کی شرعی خواہش تکمیل نہ پاسکی۔ جس کے بعد خان صاحب نے ہر شام چار پانچ سو لوگوں کے عظیم الشان اجتماع کو مختلف اقسام کی پیش گوئیاں، الہامات الزامات وغیرہ سُنا سُنا کر نڈھال کرنے کی ٹھانی۔
یہاں مجھے مُلا نصیر الدین کا ایک حقیقی واقعہ یاد آیا کہ کسی پڑوسی نے مُلا کو ایک صراحی ادھار دی لیکن جب وہ واپس ملی تو تڑخی ہوئی تھی جس پر پڑوسی نے عدالت میں مُلا پر نالش کی۔ اس
نالش کے جواب میں مُلا نصیر الدین نے جواب داخل کیا کہ پہلے تو یہ کہ میں نے اس شخص سے کوئی صراحی لی ہی نہ تھی، دوسرا یہ کہ جب میں نے وہ صراحی واپس کی تب وہ بالکل صحیح سلامت تھی اور تیسرا یہ کہ جب میں نے اس شخص سے وہ صراحی لی تھی تو وہ پہلے ہی سے تڑخی ہوئی تھی۔ ۔ ۔ ۔
کچھ اسی حکائیت لذیذ سے ملتی جلتی بات قائدِنیا پاکستان نے بھی کی کہ پہلے فرمایا کہ چین کے صدر کے آنے پر انہیں ہماری طرف سے کوئی تکلیف نہیں ہو گی دوسرا یہ کہ چین کے صدر تو پاکستان آہی نہیں رہے تھے اور تیسرا یہ کہ چین کے صدر منصوبے دستخط کرنے نہیں بلکہ قرض دینے آرہے تھے۔
اس قسم کی پہیلیاں خان صاحب روزانہ کی بنیادوں پر پوچھا کرتے تھے باشعور لوگ انہیں بچوں کی باتیں اور بچے انہیں بڑوں کی حسب عادت لغویات سمجھ کر درگزر کیا کرتے تھے۔
جاری ہے۔
(serious)
(serious)
Last edited by a moderator: