Sohail Shuja
Chief Minister (5k+ posts)
عمران خان کو اکثر حضرت ابو بکرؓ کی مثال دیتے سنا کہ جب منصب اقتدار پر جانشین ہوئے، تب ہی اپنے کاروبار کو تالا لگا دیا۔
اب اس مسئلے کو اگر ایک اور زاویے سے دیکھا جائے، تو سوال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کیا حکومت کو بھی کاروبار کرنا
چاہیئے؟ یا پابندی صرف حکمران پر ہی ہے؟
اگر کہ ایسے کسی کاروبار سے عوام کی بہتری مقصود ہو، مثلاً نئے علم اور ہنر سے استفادہ اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے میدانوں تک رسائی، وغیرہ۔ لیکن جب یہ ہدف حاصل ہو جائے، اور یہ کاروبار صرف منافع کے لیئے رہ جایئں، اور بازار میں اپنے ہی سرمائیہ کاروں سے تقابل کریں، روٹی کپڑا اور مکان کی جنگ کریں، تب یہ کاروبار، حکومت کو زیب نہیں دیتے۔ حکومت کسی بھی میدان میں اپنے لوگوں سے مقابلہ نہیں کرتی۔ ایسا کرنے سے وہ اپنے ایک ہاتھ میں دبوچا ڈنڈا اپنے ہی گھٹنے پر رسید کر رہی ہوتی ہے۔ ایک طرف سے آنے والے ٹیکس کے پیسے سے دوسری طرف کے ٹیکس آنے کے خلاف کام کر ہی ہوتی ہے۔ اپنے ہاتھوں اپنا گلا دبوچتی ہے۔
عوام کے ٹیکس سے حاصل شدہ پیسہ اس کی بھلائی کے کاموں میں صرف ہونا چاہیئے، نہ کہ اس کے معاشرے میں بڑھتے ہوئے کاروبار اور بیرونی سرمائیہ کاری کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کے لیئے۔ حکومت کے ایسے کاروبار اس کے معاشرے میں خود ہی اپنے اندر بسنے والی کاروباری دنیا سے حالت جنگ میں ہوتی ہے۔ جبکہ اسکو چایئے کہ اس میدان کو کھلا چھوڑ دے اور یہاں کاروبار کو ترویج دے اور یہاں سے ٹیکس میں آنے والا پیسہ اور ان اداروں میں ڈوبنے والا پیسہ بچا کر بنیادی انسانی حقوق کی راہ، مثلاً صحت، تعلیم، خوراک وغیرہ پر لگائے تو بہتر ہے۔ یا پھر ایسے پیسے سے کسی ایسے نئے کاروباری میدان تک رسائی حاصل کرے جس کی دور حاضر میں ضرورت ہو اور جہاں ابھی تک اپنے علم و ہنر اور روزگار کے مواقع موجود نہ ہوں، یعنی ابھی تک وہ ٹیکنالوجی پاکستان میں نا بلد ہو۔
حکومت کا کام کاروبار کے مواقع پیدا کرنا ہوتا ہے، کاروبار کرنا نہیں۔
پی آئی اے، پاکستان اسٹیل ملز وغیرہ ایسے ہی ادارے ہیں۔ جب یہ لگے تھے، تب یہاں اس میدان میں کوئی عوامی ادارے یعنی لوکل پرائیویٹ سیکٹر کمنپنیاں معرض وجود میں نہ تھیں۔ ۱۹۵۰ کی اور ۱۹۷۰ کی دھائیوں میں پاکستان میں ہوا بازی اور اسٹیل کی پیداوار کے میدانوں میں اتنی ترقی نہیں تھی کہ یہاں پر اپنے ہی سرمائیہ کار سرمائیہ لگا سکیں۔ لیکن اب، یعنی دور حاضر میں جب یہاں مقامی صنعتکاروں کی صنعتیں اپنی ہی حکومت سے روٹی کی جنگ کریں گی، تو نوبت کبھی بھی نہیں آسکتی کہ ملک کی معاشی صورتحال بہتری کی طرف جائے؟ کیونکہ حکومت کی کمپنی کے فائدے کا مطلب یہاں اپنے ہی کسی سرمائیہ دار پر شب خون مارنے سے کم نہیں۔ اگر یہ ادارے فائدے میں بھی چل رہے ہوں، تب بھی یہ دوسری طرف ملک کے اندر آنے والے سرمائیہ کو روک رہے ہوتے ہیں اور اس کے لیئے پیسہ عوام کی صحت، تعلیم اور خوراک کے بجٹ سے نکال کر خرچ کر رہے ہوتے ہیں۔ اسطرح حکومت اپنا اور اپنی عوام کا تین طرح سے نقصان کر رہی ہوتی ہے۔
حکومت کو ان کاروباروں پر توجہ دینی چاہیئے جہاں ابھی تک عوام کی رسائی نہ ہوئی ہو۔ اس نظریے کے تحت، فواد چوھدری پر اب بہت بھاری ذمّہ داری ہے کہ وہ وزیر اعظم کو ایسی کسی نئی سائنسی ٹیکنالوجی کے بارے میں بتائیں جس کو کمرشل بنیاد پر لانے سے کوئی اقتصادی بہتری کی توقع ہو۔ ملک میں نئے علوم و فنون متعارف ہوں، یہاں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں اور یہاں کی صنعت اتنی ترقی پر ہو کہ جہاں ملک کے اپنے لوگ کاروبار کر سکیں اور کھل کر کرسکیں، انکا مقابلہ اپنے ہی پیسے سے چلنے والی حکومت سے نہ ہو اور حکومت عوام کے اس پیسے سے اس کی بہتری کے لیئے اور کام کر سکے۔ انکو مفت علاج، روٹی ، کپڑا اور مکان تک رسائی مہیا کرے انکے لیئے علم و ہنر کے نئے راستے کھولے۔
اب اس مسئلے کو اگر ایک اور زاویے سے دیکھا جائے، تو سوال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کیا حکومت کو بھی کاروبار کرنا
چاہیئے؟ یا پابندی صرف حکمران پر ہی ہے؟
اگر کہ ایسے کسی کاروبار سے عوام کی بہتری مقصود ہو، مثلاً نئے علم اور ہنر سے استفادہ اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے میدانوں تک رسائی، وغیرہ۔ لیکن جب یہ ہدف حاصل ہو جائے، اور یہ کاروبار صرف منافع کے لیئے رہ جایئں، اور بازار میں اپنے ہی سرمائیہ کاروں سے تقابل کریں، روٹی کپڑا اور مکان کی جنگ کریں، تب یہ کاروبار، حکومت کو زیب نہیں دیتے۔ حکومت کسی بھی میدان میں اپنے لوگوں سے مقابلہ نہیں کرتی۔ ایسا کرنے سے وہ اپنے ایک ہاتھ میں دبوچا ڈنڈا اپنے ہی گھٹنے پر رسید کر رہی ہوتی ہے۔ ایک طرف سے آنے والے ٹیکس کے پیسے سے دوسری طرف کے ٹیکس آنے کے خلاف کام کر ہی ہوتی ہے۔ اپنے ہاتھوں اپنا گلا دبوچتی ہے۔
عوام کے ٹیکس سے حاصل شدہ پیسہ اس کی بھلائی کے کاموں میں صرف ہونا چاہیئے، نہ کہ اس کے معاشرے میں بڑھتے ہوئے کاروبار اور بیرونی سرمائیہ کاری کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کے لیئے۔ حکومت کے ایسے کاروبار اس کے معاشرے میں خود ہی اپنے اندر بسنے والی کاروباری دنیا سے حالت جنگ میں ہوتی ہے۔ جبکہ اسکو چایئے کہ اس میدان کو کھلا چھوڑ دے اور یہاں کاروبار کو ترویج دے اور یہاں سے ٹیکس میں آنے والا پیسہ اور ان اداروں میں ڈوبنے والا پیسہ بچا کر بنیادی انسانی حقوق کی راہ، مثلاً صحت، تعلیم، خوراک وغیرہ پر لگائے تو بہتر ہے۔ یا پھر ایسے پیسے سے کسی ایسے نئے کاروباری میدان تک رسائی حاصل کرے جس کی دور حاضر میں ضرورت ہو اور جہاں ابھی تک اپنے علم و ہنر اور روزگار کے مواقع موجود نہ ہوں، یعنی ابھی تک وہ ٹیکنالوجی پاکستان میں نا بلد ہو۔
حکومت کا کام کاروبار کے مواقع پیدا کرنا ہوتا ہے، کاروبار کرنا نہیں۔
پی آئی اے، پاکستان اسٹیل ملز وغیرہ ایسے ہی ادارے ہیں۔ جب یہ لگے تھے، تب یہاں اس میدان میں کوئی عوامی ادارے یعنی لوکل پرائیویٹ سیکٹر کمنپنیاں معرض وجود میں نہ تھیں۔ ۱۹۵۰ کی اور ۱۹۷۰ کی دھائیوں میں پاکستان میں ہوا بازی اور اسٹیل کی پیداوار کے میدانوں میں اتنی ترقی نہیں تھی کہ یہاں پر اپنے ہی سرمائیہ کار سرمائیہ لگا سکیں۔ لیکن اب، یعنی دور حاضر میں جب یہاں مقامی صنعتکاروں کی صنعتیں اپنی ہی حکومت سے روٹی کی جنگ کریں گی، تو نوبت کبھی بھی نہیں آسکتی کہ ملک کی معاشی صورتحال بہتری کی طرف جائے؟ کیونکہ حکومت کی کمپنی کے فائدے کا مطلب یہاں اپنے ہی کسی سرمائیہ دار پر شب خون مارنے سے کم نہیں۔ اگر یہ ادارے فائدے میں بھی چل رہے ہوں، تب بھی یہ دوسری طرف ملک کے اندر آنے والے سرمائیہ کو روک رہے ہوتے ہیں اور اس کے لیئے پیسہ عوام کی صحت، تعلیم اور خوراک کے بجٹ سے نکال کر خرچ کر رہے ہوتے ہیں۔ اسطرح حکومت اپنا اور اپنی عوام کا تین طرح سے نقصان کر رہی ہوتی ہے۔
حکومت کو ان کاروباروں پر توجہ دینی چاہیئے جہاں ابھی تک عوام کی رسائی نہ ہوئی ہو۔ اس نظریے کے تحت، فواد چوھدری پر اب بہت بھاری ذمّہ داری ہے کہ وہ وزیر اعظم کو ایسی کسی نئی سائنسی ٹیکنالوجی کے بارے میں بتائیں جس کو کمرشل بنیاد پر لانے سے کوئی اقتصادی بہتری کی توقع ہو۔ ملک میں نئے علوم و فنون متعارف ہوں، یہاں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں اور یہاں کی صنعت اتنی ترقی پر ہو کہ جہاں ملک کے اپنے لوگ کاروبار کر سکیں اور کھل کر کرسکیں، انکا مقابلہ اپنے ہی پیسے سے چلنے والی حکومت سے نہ ہو اور حکومت عوام کے اس پیسے سے اس کی بہتری کے لیئے اور کام کر سکے۔ انکو مفت علاج، روٹی ، کپڑا اور مکان تک رسائی مہیا کرے انکے لیئے علم و ہنر کے نئے راستے کھولے۔
Last edited: