کل لاہور میں دھماکے کے بعد ایک عجیب واقع رونما ہوا۔ فیس بک نے غلطی سے "سیفٹی چیک" فیچر لاہور کی بجائے تقریباً ساری دنیا کے لیے ایکٹیویٹ کر دیا۔ اس غلطی کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاہور میں رونما ہونے والے واقعے کو دنیا میں اتنی زیادہ کوریج مل گئی جو تمام بڑے چینلز پر بریکنگ نیوز چلنے سے بھی زیادہ تھی۔ اس لیے کہ فیس بک زیادہ تر لوگ اپنے سمارٹ فون یا ٹیبلٹ پر استعمال کرتے ہیں اور اس طرح کا فیچر ایکٹیویٹ ہونے سے تمام ایکٹیو یوزرز تک ایک سیکنڈ میں لاہور دھماکے کی خبر پہنچ گئی۔
بظاہر یہ ایک ٹیکنیکل قسم کی غلطی ہے جسے کمپیوٹر پروگرامنگ کی عام اصطلاح میں "سافٹ ویئر گلِچ" کہتے ہیں۔ لیکن اگر اس معاملے کو صرف ایک زاویے سے دیکھنے کی بجائے کچھ اور زاویوں سے بھی دیکھ لیا جائے تو شاید ایک ملٹی نیشنل, بلینز آف ڈالرز ورتھ رکھنے اور ڈیڑھ ارب سے زیادہ لوگوں تک رسائی رکھنے والی کمپنی کی چھوٹی سی غلطی کے ہم جیسے ممالک کے گلوبل امیج پر پڑنے والے اثر کو سمجھنے میں آسانی ہو سکے۔
ہمارا ملک پچھلے کئی سال سے دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے اور یہ ہماری عوام کی سخت جانی اور زندہ دلی کا ثبوت ہے کہ ہم نے ہار نہیں مانی اور مصائب کے باوجود نہ صرف دہشتگردی کے خلاف لڑ رہے ہیں بلکہ اس جنگ کو جیت بھی رہے ہیں۔ دورانِ جنگ بھی ہماری قوم کرکٹ میچ دیکھ رہی ہے اور صبح صرف عدالتیں ہی نہیں لگتیں بلکہ شام میں "حسبِ حال", "مذاق رات" اور "سیاسی تھیٹر" سبھی چل رہے ہیں۔
اب اس مرحلے پر جب ہم دنیا کے سامنے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم نے اس جنگ میں ریاست کے خلاف بر سر پیکار عناصر کی کمر توڑ دی ہے, اور اب ان کی طرف سے اس طرح کے منظم حملوں کا امکان کم ہے جس طرح کے حملے وہ گزشتہ سالوں میں کرتے آئے ہیں, تو ایسے میں فیس بک کی یہ چھوٹی سی غلطی ساری دنیا میں ہمارے اس دعوے کی نفی کرنے کا کردار ادا کر رہی ہے۔ فیس بک کی طرف سے دنیا کے کونے کونے میں یہ پیغام پہنچا ہے کہ پاکستان اب تک ایک محفوظ ملک نہیں ہے اور یہاں اب تک دہشتگردوں کا راج ہے۔
دنیا کے زیادہ تر لوگ تو اپنی اپنی ذاتی زندگی میں مگن ہیں۔ وہ کچھ ہی دنوں میں اس واقعے کو سُنا اَن سُنا کر دیں گے۔ لیکن ان کے ذہنوں میں یہ واقعہ پاکستان کی غلط چھاپ لگا دے گا جس کا فائدہ ہمارے دشمن اٹھائیں گے۔
اب جبکہ ہمارے ریاستی اداروں کے پاس ہمارے ہمسایہ ملک کے بارے میں اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ وہ پاکستان میں دہشتگردی کی کاروائیاں کروانے میں ملوث ہے اور ہمارے لوگوں کو ریاست کے خلاف اکسانے, ان کی تربیت کرنے, اور مالی اور تکنیکی معاونت کرنے میں اس کا کردار ہے تو ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ فیس بک جیسی کمپنی, جس کی ایک غلطی نے ہمارے ملک میں پیش آنے والی دہشتگردی کی کاروائی کی عالمی سطح پر تشہیر کر دی, اس کا ہمارے ہمسایہ ملک میں کتنا اور کس نوعیت کا انفراسٹرکچر موجود ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس غلطی سے جن لوگوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے حقیقت میں اس کے پیچھے ہاتھ بھی انہی کا ہو۔ میری بات کو لوگ کانسپریسی تھیوری کہہ کر با آسانی رد کر سکتے ہیں لیکن میرے خیال میں کسی معاملے کو جتنے زیادہ زاویوں سے دیکھا جائے اتنا ہی واضع عکس بنتا ہے۔
یہاں یہ بات قابل تحسین ہے کہ فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے اپنی کمپنی کی اس غلطی پر معذرت کی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کر کے اسے عوامی گروہوں میں نفرتیں پھیلانے کی گھناؤنی کاروائی قرار دیا ہے جو کہ قابل ستائش ہے اور ہم بطور پاکستانی مارک زکربرگ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
لیکن بنیادی سوال اپنی جگہ ہیں۔ فیس بک کی طرف سے یہ غلطی کیسے رونما ہوئی؟ کیا اس کے ذمّہ دار کا تعین کیا گیا؟ فیس بک کے بھارت سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں پھیلے کاروبار میں یہ "سیفئی چیک" والا فیچر کہاں سے کنٹرول کیا جاتا ہے؟
ان سوالوں کے صحیح جواب تو صرف فیس بک والے ہی دے سکتے ہیں۔ لیکن اگر فیس بک کے کاروبار کے بارے میں وکیپیڈیا پر کچھ ریسرچ کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بھارت کے شہر حیدر آباد میں 2010 میں "فیس بک انڈیا آن لائن سروسز" کے نام سے اس کمپنی نے اپنا کاروبار شروع کیا اور یہاں سے فیس بک کی "آن لائن ایڈورٹائزنگ", "ڈویلپر سپورٹ ٹیم" اور "ملٹی لِنگوئل سپورٹ ٹیم" آپریٹ کرتی ہیں۔ میرے محدود علم اور مشاہدے کے مطابق یہ جو "سیفٹی چیک" والا فیچر ہے اس نوعیت کے فیچر "ڈویلپر ٹیم" کی ڈومین میں آتے ہیں کیونکہ ان فیچرز کو اِنیبل, ڈِسیبل اور اَمِینڈ کرنے میں پروگرامنگ, ٹیسٹنگ اور ڈی بگنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔
فیس بک پر پہلے ہی یہ الزام لگتا ہے کہ اس نے بہارِ عرب کے دوران لوگوں کو حکومت مخالف مظاہروں کے لیے باہمی رابطے کا پلیٹ فارم مہیّا کیا اور اس بہار کا نتیجہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے دگرگوں حالات کی صورت میں ساری دنیا کے سامنے ہے۔ میرے خیال میں ہمیں ریاستی سطح پر فیس بک سے اس معاملے کی وضاحت طلب کرنی چاہیے کیونکہ اپنی گلوبل امپلیکیشن کی وجہ سے معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ نیویارک سے آسٹریلیا اور جاپان سے افریقہ تک لوگوں کو فون اور کمپیوٹر پر میسیج ریسیو ہوں کہ "کیا آپ لاہور میں ہونے والے بم دھماکے میں خیریت سے ہیں؟" اور فیس بک اس پر ایک عمومی سا معذرتی بیان دے کر بری الزمّہ ہو جائے۔
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Facebook
http://mobile.abc.net.au/news/2016-...ck-catches-people-nowhere-near-lahore/7279006
http://www.theverge.com/2016/3/28/11316956/facebook-safety-check-pakistan-lahore-bombing
بظاہر یہ ایک ٹیکنیکل قسم کی غلطی ہے جسے کمپیوٹر پروگرامنگ کی عام اصطلاح میں "سافٹ ویئر گلِچ" کہتے ہیں۔ لیکن اگر اس معاملے کو صرف ایک زاویے سے دیکھنے کی بجائے کچھ اور زاویوں سے بھی دیکھ لیا جائے تو شاید ایک ملٹی نیشنل, بلینز آف ڈالرز ورتھ رکھنے اور ڈیڑھ ارب سے زیادہ لوگوں تک رسائی رکھنے والی کمپنی کی چھوٹی سی غلطی کے ہم جیسے ممالک کے گلوبل امیج پر پڑنے والے اثر کو سمجھنے میں آسانی ہو سکے۔
ہمارا ملک پچھلے کئی سال سے دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے اور یہ ہماری عوام کی سخت جانی اور زندہ دلی کا ثبوت ہے کہ ہم نے ہار نہیں مانی اور مصائب کے باوجود نہ صرف دہشتگردی کے خلاف لڑ رہے ہیں بلکہ اس جنگ کو جیت بھی رہے ہیں۔ دورانِ جنگ بھی ہماری قوم کرکٹ میچ دیکھ رہی ہے اور صبح صرف عدالتیں ہی نہیں لگتیں بلکہ شام میں "حسبِ حال", "مذاق رات" اور "سیاسی تھیٹر" سبھی چل رہے ہیں۔
اب اس مرحلے پر جب ہم دنیا کے سامنے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم نے اس جنگ میں ریاست کے خلاف بر سر پیکار عناصر کی کمر توڑ دی ہے, اور اب ان کی طرف سے اس طرح کے منظم حملوں کا امکان کم ہے جس طرح کے حملے وہ گزشتہ سالوں میں کرتے آئے ہیں, تو ایسے میں فیس بک کی یہ چھوٹی سی غلطی ساری دنیا میں ہمارے اس دعوے کی نفی کرنے کا کردار ادا کر رہی ہے۔ فیس بک کی طرف سے دنیا کے کونے کونے میں یہ پیغام پہنچا ہے کہ پاکستان اب تک ایک محفوظ ملک نہیں ہے اور یہاں اب تک دہشتگردوں کا راج ہے۔
دنیا کے زیادہ تر لوگ تو اپنی اپنی ذاتی زندگی میں مگن ہیں۔ وہ کچھ ہی دنوں میں اس واقعے کو سُنا اَن سُنا کر دیں گے۔ لیکن ان کے ذہنوں میں یہ واقعہ پاکستان کی غلط چھاپ لگا دے گا جس کا فائدہ ہمارے دشمن اٹھائیں گے۔
اب جبکہ ہمارے ریاستی اداروں کے پاس ہمارے ہمسایہ ملک کے بارے میں اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ وہ پاکستان میں دہشتگردی کی کاروائیاں کروانے میں ملوث ہے اور ہمارے لوگوں کو ریاست کے خلاف اکسانے, ان کی تربیت کرنے, اور مالی اور تکنیکی معاونت کرنے میں اس کا کردار ہے تو ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ فیس بک جیسی کمپنی, جس کی ایک غلطی نے ہمارے ملک میں پیش آنے والی دہشتگردی کی کاروائی کی عالمی سطح پر تشہیر کر دی, اس کا ہمارے ہمسایہ ملک میں کتنا اور کس نوعیت کا انفراسٹرکچر موجود ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس غلطی سے جن لوگوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے حقیقت میں اس کے پیچھے ہاتھ بھی انہی کا ہو۔ میری بات کو لوگ کانسپریسی تھیوری کہہ کر با آسانی رد کر سکتے ہیں لیکن میرے خیال میں کسی معاملے کو جتنے زیادہ زاویوں سے دیکھا جائے اتنا ہی واضع عکس بنتا ہے۔
یہاں یہ بات قابل تحسین ہے کہ فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے اپنی کمپنی کی اس غلطی پر معذرت کی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کر کے اسے عوامی گروہوں میں نفرتیں پھیلانے کی گھناؤنی کاروائی قرار دیا ہے جو کہ قابل ستائش ہے اور ہم بطور پاکستانی مارک زکربرگ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
لیکن بنیادی سوال اپنی جگہ ہیں۔ فیس بک کی طرف سے یہ غلطی کیسے رونما ہوئی؟ کیا اس کے ذمّہ دار کا تعین کیا گیا؟ فیس بک کے بھارت سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں پھیلے کاروبار میں یہ "سیفئی چیک" والا فیچر کہاں سے کنٹرول کیا جاتا ہے؟
ان سوالوں کے صحیح جواب تو صرف فیس بک والے ہی دے سکتے ہیں۔ لیکن اگر فیس بک کے کاروبار کے بارے میں وکیپیڈیا پر کچھ ریسرچ کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بھارت کے شہر حیدر آباد میں 2010 میں "فیس بک انڈیا آن لائن سروسز" کے نام سے اس کمپنی نے اپنا کاروبار شروع کیا اور یہاں سے فیس بک کی "آن لائن ایڈورٹائزنگ", "ڈویلپر سپورٹ ٹیم" اور "ملٹی لِنگوئل سپورٹ ٹیم" آپریٹ کرتی ہیں۔ میرے محدود علم اور مشاہدے کے مطابق یہ جو "سیفٹی چیک" والا فیچر ہے اس نوعیت کے فیچر "ڈویلپر ٹیم" کی ڈومین میں آتے ہیں کیونکہ ان فیچرز کو اِنیبل, ڈِسیبل اور اَمِینڈ کرنے میں پروگرامنگ, ٹیسٹنگ اور ڈی بگنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔
فیس بک پر پہلے ہی یہ الزام لگتا ہے کہ اس نے بہارِ عرب کے دوران لوگوں کو حکومت مخالف مظاہروں کے لیے باہمی رابطے کا پلیٹ فارم مہیّا کیا اور اس بہار کا نتیجہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے دگرگوں حالات کی صورت میں ساری دنیا کے سامنے ہے۔ میرے خیال میں ہمیں ریاستی سطح پر فیس بک سے اس معاملے کی وضاحت طلب کرنی چاہیے کیونکہ اپنی گلوبل امپلیکیشن کی وجہ سے معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ نیویارک سے آسٹریلیا اور جاپان سے افریقہ تک لوگوں کو فون اور کمپیوٹر پر میسیج ریسیو ہوں کہ "کیا آپ لاہور میں ہونے والے بم دھماکے میں خیریت سے ہیں؟" اور فیس بک اس پر ایک عمومی سا معذرتی بیان دے کر بری الزمّہ ہو جائے۔
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Facebook
http://mobile.abc.net.au/news/2016-...ck-catches-people-nowhere-near-lahore/7279006
http://www.theverge.com/2016/3/28/11316956/facebook-safety-check-pakistan-lahore-bombing