سنا ہے حکومت نے مذہبی جنونیوں کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے کل پارلیمنٹ میں فرانس کے خلاف قرارداد لانے کا فیصلہ کرلیا ہے، تمام اراکین اسمبلی کو پوری طرح بڑھک بازی کا ٹائم دیا جائے گا۔۔ اس کے بعد شاید حکومت مزید لیٹتے ہوئے فرانس کے سفیر کو بھی ملک بدر کرنے کا فیصلہ کرلے۔۔ خیر میری رائے میں اگر پاکستان فرانس کے سفیر کو ملک بدر کردیتا ہے تو پاکستان کو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ پاکستان کے لوگ تو پہلے بھی کیڑے مکوڑوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں ( یہ یاد رہے کہ یہ زندگی ، یہ بدحالی ان کی اپنی منتخب کردہ ہے)، اب اگر تھوڑی سے زیادہ بدحالی مزید آجاتی ہے، پاکستان کے یورپین یونین کے ساتھ تعلقات بگڑ جاتے ہیں، پاکستان دنیا میں ایک مزید انتہا پسند اور شدت پسند ملک کے طور پر ابھرتا ہے ، دنیا پاکستان کو آئسولیٹ کردیتی ہے، تو پاکستانیوں کو اس سے کیا فرق پڑے گا؟ یہ تو پہلے ہی مرنے کیلئے پیدا ہوتےہیں اور بے شمار اور بے دریغ پیدا ہوتے ہیں۔ اگر دنیا پاکستانیوں کو اپنے ممالک میں مزید سختی سے جانچنا شروع کردیتی ہے، شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کردیتی ہے یا ایئرپورٹ پر سب سے الگ کرکے ان کی تلاشی لینا شروع کردیتی ہے یا پھر پاکستانیوں کو اپنے ملکوں میں گھسنے پر ہی پابندی عائد کردیتی ہے تو اس سے بھی کیا فرق پڑجائے گا؟ پہلے بھی تو کوئی خاص عزت نہیں ہماری باہر کی دنیا میں، کچھ مزید اضافہ ہوگیا تو اس پر تشویش کی کیا بات ہے۔۔
ویسے بھی رزق تو اللہ نے ہی دینا ہے باہر نہ گئے تو اپنے ملک میں بھوکے تھوڑی مرجائیں گے۔ اور اگر چند لوگ بھوکے مربھی گئے تو ایسی کیا قیامت آجائے گی، ماشاء اللہ بائیس کروڑ کا ملک ہے، اگر چند سو، چند ہزار، چند لاکھ بلکہ میں کہتا ہوں کہ چند کروڑ بھی مرگئے تو اللہ کے حکم سے پاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ حضرت مولانا طارق جمیل المعروف حوروں والی سرکار فرماتے ہیں کہ قربانی کرنے سے بکریاں کبھی کم نہیں ہوتیں، وہ فرماتے تھے کہ پاکستان میں جتنے بھی بم دھماکے ہوجائیں، جتنے بھی لوگ مرجائیں، پاکستان میں بکریوں کی، مطلب عوام کی کمی نہیں ہوگی، کیونکہ لوگ بغیر کسی تعطل کےکیڑوں مکوڑوں، مکھیوں مچھروں کی طرح دھڑا دھڑ بچے پیدا کرتے رہتے ہیں۔۔۔
ہاں یہ ہے کہ پاکستان میں غربت اور بدحالی شاید پہلے سے زیادہ ہوجائے، مگر اس سے بھی کیا فرق پڑتا ہے، حکومت کو مگر یہ ضرور کرنا چاہئے کہ اگر عوام مہنگائی یا غربت کی شکایت کرے تو ایک عوامی اشتہار جاری کردے جس میں جلی حروف میں لکھا ہو کہ گھبرائیے مت، آپ کو سب کچھ آخرت میں ملے گا، دنیا تو ویسے بھی چند روزہ ہے اور جدید دنیا میں ویسے بھی کیڑوں مکوڑوں کا کوئی خاص کردار نہیں ہے، اس لئے صبر کریں اور آخرت کی طرف توجہ کریں۔ کیونکہ بہرحال ہماری عوام نے اس دنیا کو تو پوری طرح تباہ کرنے کی ٹھان رکھی ہے اور سب کچھ انہیں آخرت میں ہی چاہئے، اس کے لئے وہ اپنے ملک کو بھی پوری طرح تباہ کرنے پر تیار ہیں، تباہ کرنے کی کوشش تو پچھلی کئی دہائیوں سے ہورہی ہے، مگر ابھی کچھ کسر باقی ہے۔۔ شاید آنے والے دنوں میں پوری ہوجائے۔۔۔ بہرحال دنیا تو امید پر ہی قائم ہے۔
ویسے بھی رزق تو اللہ نے ہی دینا ہے باہر نہ گئے تو اپنے ملک میں بھوکے تھوڑی مرجائیں گے۔ اور اگر چند لوگ بھوکے مربھی گئے تو ایسی کیا قیامت آجائے گی، ماشاء اللہ بائیس کروڑ کا ملک ہے، اگر چند سو، چند ہزار، چند لاکھ بلکہ میں کہتا ہوں کہ چند کروڑ بھی مرگئے تو اللہ کے حکم سے پاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ حضرت مولانا طارق جمیل المعروف حوروں والی سرکار فرماتے ہیں کہ قربانی کرنے سے بکریاں کبھی کم نہیں ہوتیں، وہ فرماتے تھے کہ پاکستان میں جتنے بھی بم دھماکے ہوجائیں، جتنے بھی لوگ مرجائیں، پاکستان میں بکریوں کی، مطلب عوام کی کمی نہیں ہوگی، کیونکہ لوگ بغیر کسی تعطل کےکیڑوں مکوڑوں، مکھیوں مچھروں کی طرح دھڑا دھڑ بچے پیدا کرتے رہتے ہیں۔۔۔
ہاں یہ ہے کہ پاکستان میں غربت اور بدحالی شاید پہلے سے زیادہ ہوجائے، مگر اس سے بھی کیا فرق پڑتا ہے، حکومت کو مگر یہ ضرور کرنا چاہئے کہ اگر عوام مہنگائی یا غربت کی شکایت کرے تو ایک عوامی اشتہار جاری کردے جس میں جلی حروف میں لکھا ہو کہ گھبرائیے مت، آپ کو سب کچھ آخرت میں ملے گا، دنیا تو ویسے بھی چند روزہ ہے اور جدید دنیا میں ویسے بھی کیڑوں مکوڑوں کا کوئی خاص کردار نہیں ہے، اس لئے صبر کریں اور آخرت کی طرف توجہ کریں۔ کیونکہ بہرحال ہماری عوام نے اس دنیا کو تو پوری طرح تباہ کرنے کی ٹھان رکھی ہے اور سب کچھ انہیں آخرت میں ہی چاہئے، اس کے لئے وہ اپنے ملک کو بھی پوری طرح تباہ کرنے پر تیار ہیں، تباہ کرنے کی کوشش تو پچھلی کئی دہائیوں سے ہورہی ہے، مگر ابھی کچھ کسر باقی ہے۔۔ شاید آنے والے دنوں میں پوری ہوجائے۔۔۔ بہرحال دنیا تو امید پر ہی قائم ہے۔