Zia Hydari
Chief Minister (5k+ posts)
عورت کیلئے شوہر کا مقام
میاں بیوی کے باہمی تعلقات میں اہم بات یہ ہے کہ دونوں اپنے فرائض کو پہچانیں ۔ شوہر کے کیا فرائض ہیں اور بیوی کےکیا فرائض ہیں ۔ ہر ایک اپنے فرائض ادا کرنے کی فکر کرے اور درحقیقت زندگی کی گاڑی اسی طرح چلتی ہے ۔اگر دونوں اپنے فرائض کا احساس کریں اپنے حقوق حاصل کرنے کی اتنی فکر نہ ہو جتنی دوسرے کےحقوق کی ادا ئیگی کی فکر ہو اگر یہ جذبہ پیدا ہو جائے تو پھر یہ زندگی استوار ہو جاتی ہے ،اگر انسان ان پر عمل کر لے تو دنیا بھی درست ہوجائے اور آخرت بھی درست ہو جائے ۔
اگر چہ اسلا م کی نظر میں مرد اور عورت دونوں انسان ہو نے کی حیثیت سے برابر ہیں عورت کسی بھی طرح کمتر یا حقیر مخلوق نہیں ہے جیسا کہ دیگر قوموں میں یہ نظریہ پا یا جاتا ہے لیکن جہاں تک ان کے فرائض وواجبات کا تعلق ہے ان دونوں کا دائرہ کار الگ الگ ہے چنانچہ گھریلو انتظام کے نقطہ نظر سے اسلام نے مرد کو گھرکا رکھوالا یا منتظم تسلیم کیا ہے اس اعتبار سے وہ عورت کا نگراں ومحافظ ہے۔
حقوق نسوان کی باجیوں کو ناگوار خاطر نہ ہو تو اتنا عرض کردوں کہ مرد عورت پر حاکم ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَائِ
یعنی مرد عورتوں پر نگہبان اور منتظم ہیں
یہاں مرد کے لئے قوام کا لفظ استعمال کیا قوام کے معنیٰ وہ شخص جو کسی کام کا ذمہ دار ہو اور زمہ دار ہو نے کے معنیٰ یہ ہیں کہ بحیثیت مجموعی زندگی گزانے کی پالیسی وہ طے کرے گا اور پھر اس پالیسی کے مطابق زندگی گزاری جائیگی لیکن قوام ہونے کے یہ معنیٰ ہر گز نہیں کہ وہ آقا ہے اور بیوی اس کی کنیز ہے یا بیوی اس کی نوکر ہے بلکہ دونوں کے درمیان امیر مامور حاکم اور محکوم کا رشتہ ہے اور اسلام میں امیر کا تصوریہ نہیں ہے کہ وہ تخت پر بیٹھ کر حکومت چلائے بلکہ اسلام میں امیر کا تصوروہ ہے جو حضور اقدس ﷺ نے فر مایا کہ سَیِّد الْقَوْمِ خَادِمُھُمْ قوم کا سردار ان کا خادم ہوتا ہے۔
اس آیت میں جو اوپر مذکور ہے اس میں شوہر کی عظمت وحرمت بیان کی گئی ہے اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلیٰ النِّسَائِ کہ مرد حاکم ہیں عورتوں پر پھر اس کی دو وجہیں بیان فر مائیں ایک یہ کہ اللہ نے مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی ہے کہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں میں عقل وقوت زیادہ ہوتی ہے اور دوسری وجہ یہ کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں ۔ حدیث میں ہے کہ یہ آیت سعد بن ربیعؓ کی عورت حبیبہ بنت زیدؓ کے بارے میں نازل ہوئی جبکہ سعدؓ نے اپنی بیوی کو اس کی نافر مانی پر ایک طمانچہ رسید کر دیا تھا تو اس کے والد نے حضور پاک ﷺ سے شکایت کی تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ تو بھی اپنے شوہر کے ایک طمانچہ رسید کردے اور بدلہ لے لے جب یہ باپ اور بیٹی بدلہ لینے کیلئے چلے تو اسی وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام یہ آیت لے کر نازل ہوئے آپﷺ نے ان سے فر مایا کہ واپس آجاؤ یہ دیکھو ! میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے ہیں اور یہ آیت سنا کر اللہ کے نبی علیہ السلام نے فر مایا کہ ہم نے ایک ارادہ کیا اور اللہ نے دوسرا ارادہ کیا ۔اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے ایک بات کا ارادہ کیا اور اللہ نے ایک بات کا ارادہ کیا اور اللہ نے جو ارادہ کیا وہی خیر ہے ( قرطبی ۵؍ ۱۶۸ روح المعانی ۵؍۲۳
اس آیت اور اس کے شان نزول سے معلوم ہوا کہ مرد ( شوہر) کا اللہ ورسول کی نظر میں کیا مقام ومرتبہ ہے بہر حال عورت پر مرد کے بہت سارے حقوق ہیں اسی بنا پر شوہر کو عورت کا مجازی خدا قرار دیا گیا ہے ۔ حدیث میں ارشاد فر ماگیا ہے
اگر اللہ کے علاوہ کسی اور کیلئے میں سجدہ کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے بوجہ اس حق کے جو اللہ نے ان مردوں کا عورتوں پر لکھا ہے ( ابو داؤد ۱؍ ۲۹۱)
اندازہ کیجئے کہ رسول اللہ ﷺ نے مرد کا کتنا اونچا مقام ومرتبہ بتایا ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ کی
اجازت ہوتی تو عورت کو حکم ہوتا کہ وہ مرد کو سجدہ کرے لہٰذا عورت کو چاہئے کہ وہ مرد کی عظمت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے ساتھ زندگی گزارے ۔
آج فرقہ نسوانیت کی لبرل عورتوں نے یورپ وامریکہ کی تقلید میں شوہر کی عظمت وحرمت کا پاس وخیال ہی چھوڑ دیا ہے اور مساوات مساوات کا کھو کھلا نعرہ لگا کر اسلام کی اس تعلیم کے خلاف چلنا شروع کر دیا ہے ۔ یہ یاد رکھو کہ اسلام سے زیادہ مساوات کا سبق دینے والا کوئی نہیں ہو سکتا ۔ مگر مساوات کا یہ مطلب لینا کہ شوہر کی عظمت وحرمت کا پاس ولحاظ نہ رکھا جائے، گھرانہ ٹوٹنے پر منتج ہوتا ہے، جیسا کہ آجکل مغرب میں ہورہا ہے اور یہی چلن پاکستان میں بھی عام کرنے کی کوشش ہے۔