خان کا مسئلہ ہی یہی ایک بات بنی۔ اس نے سوچا کہ سسٹم ٹھیک کرنے کے لیئے ایک مرتبہ الیکٹیبلز کو ساتھ ملا کر حکومت حاصل کر لی جائے اور بعد میں سسٹم کو ٹھیک کیا جائے۔
اس کے لیئے خان نے سب سے پہلے جسٹس وجیہہ الدّین کے اوپر جہانگیر ترین اور خٹک کو ترجیح دی۔
بعد میں یہی دونوں اس کی حکومت کا توا لگوانے میں پیش پیش، یعنی ڈبل پیش رہے۔
خان کو جب تک سمجھ آئی کہ بجائے میں انھیں ٹھیک کرسکتا، میری حکومت کے تو پائے ہی ان دونوں کے سہارے ٹِکے ہوئے ہیں۔
تب خان بھی خودکش موڈ میں آگیا۔ فوج نے منع فرمایا کہ خبردار، کسی بھی جگہہ ہاتھ ڈالنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ پاکستان میں جہاں کہیں بھی کرپشن پر ہاتھ ڈالوگے، تانے بانے ہم پر ہی آکر ختم ہونگے۔
بہرحال، یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ خان اگر بات نہیں مانتا تو اسے کنارے لگا دیا جائے۔ دوسری بات جو چندا ستاروں کو بری لگ رہی تھی وہ یہ کہ عالمی سطح پر خان نے دو بہت بڑے بلنڈر مارے ۔۔۔۔۔ ایک عربوں سے علٰیحدہ ایران اور ترکی کے کیمپ سے تعلّقات بڑھانا اور دوسرا امریکہ کے سامنے اکڑ کر کھڑے ہونا اور روس کی جانب کھل کر ہاتھ بڑھانا۔
بس یہی اسکی چارج شیٹ بن گئی۔
اب بھی خان کو جیل کے چکّر میں پھنسانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اسے باور کروایا جائے کہ دو نمبر کیس بنا کر سیاسی اتقام اس ملک میں کیسے لیا جاتا ہے۔ لہٰذا اگر کل کو دوبارہ اقتدار میں آوٗ تو یہ سمجھ لینا کہ تم سے پہلے کے لوگوں پر بھی بہت سارے کیس اسی سیاسی انتقام بازی میں بنے اور اگر تم غلط یا صحیح، کسی پر بھی ہاتھ ڈالو گے تو کل کو تمھیں غلط الزامات میں ہی ایسا اندر کیا جائے گا کہ ساری عمر جیل او عدالتوں کے چکّر میں ہی پھنسے رہوگے۔