ایک یقین مجھے ہمیشہ سے تھا کے الله تعلی اس قوم کے امتحان پر امتحان لیتا رہتا ہے تا کے یہ قوم سیدھا راستہ چنے. پچلے دنوں سے ملکی حالت نے میری توجہ پھر اس طرف دلائی کے اب کس کا امتحان ہے. بہت سے دانشور یہ سمجھ بیتھے ہیں کے یہ عمران خان کی سیاسی صلاحیتوں کا امتحان ہے. مگر میرے نظر میں یہ اس قوم کا امتحان ہے. جو برسوں سے ایک دیانت دار رہنما کی تلاش میں ہے اور صبح و شام الله سے ایک مدد کی متلاشی ہے. آج یہ قوم پھر ایک دوراہے پر کھڑی ہے. اس کے سامنے ایک فی زمانہ نا تجربہ کر سیاست دان ہے لیکن اس کی دیانت پر کوئی شاک نہیں. اس کا ماضی کیا رہا وہ تو الله بہتر جانتا ہے لیکن اس کا حال سب کے سامنے ہے. ہفتے بھر سے دار الحکومت میں اجتجاج جاری ہے اور نہ کوئی لاش گری نہ کوئی ٹائر جلا.اگ و خوں کے پیاسے لبرلز اور نون لبرلز کے لیے اس سے بڑی شکست کوئی شاید نہیں ہے تبھی عمران خان کے ہر فیصلے کو اس کا آخری فیصلہ اور اس کی ایک اور ناکامی جتانے میں ایک دوسرے سے بازی لیتے نہیں تھک رہے. کیا وہ چاہتے تھے کے لاشیں گریں ہڑتالیں ہوں تبھی کمیابھی کی کرن نظر آتی.
اس قوم نے شاید اب یہ ثابت کرنا ہے کے اسے ایک غیر سیاسی دیانت دار رہنما چاہے یا سیاسی لٹیرے اور منافق . اس حالیہ معرکے میں میرا جھکاؤ پی ٹی آی کی طرف تب ہوا جب میں نے دیکھا کے باطل کی ساری قوتیں یکجا ہو کر اسے ناکام کرنے میں لگی ہیں. جب ایک طرف باطل ہوا تو یہ پرکھنا آسان ہوگیا کے حق پر کون ہے. ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تافے ، نورے اور بھٹے کمر بست ہو کر یک جماعت ہوگے . کیا یہ عمران کے الگ ہونے کی دلیل نہیں . دیکھنا یہ ہے کے یہ قوم اس امتحان سے کیسے گزرتی ہے. انقلاب دانشور نہیں لاتے جنونی اور پاگل لاتے ہیں کیونکے انقلاب میرے نزدیک حصول جنوں کا دوسرا نام ہے. باقی الله علم الغیب ہے