جی ہاں اینتھنی بلنکن امریکا کا وزیر خارجہ وہ ہی یہودی جس نے داعیش کا سکرپٹ لکھا اور کامیابی سے عراق اور شام کے درمیان موجود بارڈر ختم کروایا اور دونوں ملکو کو خوب تباہ کروایا اب وہ اپنا پرانا کھیل پاکستان اور افغانستان میں کھیلنے جا رہا ہے
یہ ہی وہ وقت ہے جب خطے میں عدم استحکام فیصلہ کن بدیلیاں لا سکتا ہے . پاکستان معاشی طور پر تباہ ہو چکا ہے . پاکستان کو اس سال بھی اپنی معیشت چلانے کے لیے ستائیس ارب ڈالر قرض کی ضرورت ہے اگر عالمی ادارے اپنا ہاتھ روک لیتے ہیں تو پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا .
پاکستان کی معیشت سے زیادہ اہم اس کی سیاسی صورتحال ہے . یہ صورتحال ہر لحاظ سے بہترین ہے کہ افغانستان اور پاکستان کا بارڈر تبدیل کیا جا سکتا ہے . اگر تو مذہبی نقطہ نظر سے دیکھیں تو ملک میں اسٹبلشمنٹ سے مار کھاتی جمعیت علما اسلام طالبان کے انتہائی قریب ہے . اگر مولانا اسٹبلشمنٹ کو مکمل طور پر ناقابل قبول ہو چکے ہیں . اگر وہ اقتدار میں آتے ہیں تو اس صورت میں ایک بار پھر پشتون بیلٹ میں جہادیوں کی طاقت میں اضافے کا خدشہ ہے . اور اگر ان کا رستہ روکا جاتا ہے اور وہ مشتعل ہو جاتے ہیں تو بھی ملک میں جہادی طاقت میں اضافہ ہو گا اور لازمی طور پر افغان طالبان ان کی مدد کو آئیں گے . دوسری طرف سیکولر طبقہ پہلے سے ہی افغانستان کا حامی ہے . طالبان کے خلاف جنگ میں سیکولر طبقہ پی ٹی ایم اور اے این پی پہلے سے ہی افغانستان کے جھنڈے لہرا رہے ہیں . پچھلی دو دھائیوں میں اسٹبلشمنٹ نے جو بھی کھیل پشتون بیلٹ میں کھیلا اس کے نتیجے میں وہاں پرو پاکستان سیاسی قوتیں انتہائی کمزور ہو چکی ہیں . اب پشتون بیلٹ کی سیاست افغانستان سے بے حد متاثر وہ مذہبی طبقہ ہو یا سیکولر دونو پر افغانستان کی صورتحال اثر انداز ہو گی .
اب جیسے ہی امریکا افغانستان سے نکلتا ہے اور اس کے نتیجے میں خانہ جنگی شروع ہو جاتی ہے تو ایک بار پھر یہ جنگ پاکستان کا ہی رخ کرے گی . طالبان کی فتح کی صورت پاکستان میں موجود اسلامی انتہا پسند جو یہاں شریعت چاہتے ہیں وہ متحرک ہوں گے اور ایسے میں ان کا ریاست سے ٹکرانا لازمی ہے . اور دوسری طرف سیکولر طبقہ بھی افغنستان میں موجود اپنے حمایتیوں کی حمایت میں جاۓ گا . ایسے موقع پر جب قبائلی بیس بیس دن لاشیں رکھ کر احتجاج کرتے رہیں اور ان کی داد رسی نہ ہو . ایسے موقع پر جب بڑی تعداد میں ائی ڈی پیز کیمپوں میں زندگی گزار رہے اور اور قبائلی علاقوں کو اسی ایف سی آر کے تحت چلایا جا رہا ہو جس سے بیزار ہو کر وہ طالبان کی حمایت میں چلے جائیں تو کون تبدیلی کو روک سکے گا . پشتون بیلٹ میں بھی بنگلہ دیش جیسی صورتحال پیدا ہوتی دکھائی دے رہی ہے
اسٹبلشمنٹ نے جو کانٹوں کی فصل بوئی ہے اب اسے کاٹنے کی باری آ چکی ہے . پشتون بیلٹ سیاسی طور پر پاکستان کے ہاتھ سے نکل چکی ہے اب وہاں جتنی بھی سیاست ہے وہ افغانستان سے متاثر ہے یہ ہی وہ پاکستان کی کمزوری ہے جس کی مدد سے پاکستان کو تباہ کیا جا سکتا ہے . ایک طرف عالمی طاقت طالبان کو کھلا میدان دے گی اور دوسری طرف سیکولر طبقے کی بھی پیٹھ ٹھوکی جاۓ گی باقی ایک بار پھر تشدد کی لہر پیدا کر کے عدم استحکام کی راہ ہموار کی جاۓ گی . جس کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کی نا اہلی شامل ہے ایسا ہونا بعید نہیں ہے کہ ریاست کے مظالم سے تنگ لوگ کوئی نیا رستہ ڈھونڈ لیں جیسے تحریک طالبان پاکستان کامیاب ہوئی تھی ویسے ہی کوئی نئی تبدیلی پشتون بیلٹ میں واقع ہو جاۓ
عمران نیازی کے ہوتے ایسا سانحہ ہونا طے ہے . وہ اپنے محلات میں پاوڈر سونگھ کر سویا رہے گا لوگ لاشیں رکھ کر احتجاج کرتے رہیں گے اور ایک دن عراق کی طرح دھرنوں پر بیٹھے لوگ بغاوت پر مجبور ہو جائیں گے
یہ ہی وہ وقت ہے جب خطے میں عدم استحکام فیصلہ کن بدیلیاں لا سکتا ہے . پاکستان معاشی طور پر تباہ ہو چکا ہے . پاکستان کو اس سال بھی اپنی معیشت چلانے کے لیے ستائیس ارب ڈالر قرض کی ضرورت ہے اگر عالمی ادارے اپنا ہاتھ روک لیتے ہیں تو پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا .
پاکستان کی معیشت سے زیادہ اہم اس کی سیاسی صورتحال ہے . یہ صورتحال ہر لحاظ سے بہترین ہے کہ افغانستان اور پاکستان کا بارڈر تبدیل کیا جا سکتا ہے . اگر تو مذہبی نقطہ نظر سے دیکھیں تو ملک میں اسٹبلشمنٹ سے مار کھاتی جمعیت علما اسلام طالبان کے انتہائی قریب ہے . اگر مولانا اسٹبلشمنٹ کو مکمل طور پر ناقابل قبول ہو چکے ہیں . اگر وہ اقتدار میں آتے ہیں تو اس صورت میں ایک بار پھر پشتون بیلٹ میں جہادیوں کی طاقت میں اضافے کا خدشہ ہے . اور اگر ان کا رستہ روکا جاتا ہے اور وہ مشتعل ہو جاتے ہیں تو بھی ملک میں جہادی طاقت میں اضافہ ہو گا اور لازمی طور پر افغان طالبان ان کی مدد کو آئیں گے . دوسری طرف سیکولر طبقہ پہلے سے ہی افغانستان کا حامی ہے . طالبان کے خلاف جنگ میں سیکولر طبقہ پی ٹی ایم اور اے این پی پہلے سے ہی افغانستان کے جھنڈے لہرا رہے ہیں . پچھلی دو دھائیوں میں اسٹبلشمنٹ نے جو بھی کھیل پشتون بیلٹ میں کھیلا اس کے نتیجے میں وہاں پرو پاکستان سیاسی قوتیں انتہائی کمزور ہو چکی ہیں . اب پشتون بیلٹ کی سیاست افغانستان سے بے حد متاثر وہ مذہبی طبقہ ہو یا سیکولر دونو پر افغانستان کی صورتحال اثر انداز ہو گی .
اب جیسے ہی امریکا افغانستان سے نکلتا ہے اور اس کے نتیجے میں خانہ جنگی شروع ہو جاتی ہے تو ایک بار پھر یہ جنگ پاکستان کا ہی رخ کرے گی . طالبان کی فتح کی صورت پاکستان میں موجود اسلامی انتہا پسند جو یہاں شریعت چاہتے ہیں وہ متحرک ہوں گے اور ایسے میں ان کا ریاست سے ٹکرانا لازمی ہے . اور دوسری طرف سیکولر طبقہ بھی افغنستان میں موجود اپنے حمایتیوں کی حمایت میں جاۓ گا . ایسے موقع پر جب قبائلی بیس بیس دن لاشیں رکھ کر احتجاج کرتے رہیں اور ان کی داد رسی نہ ہو . ایسے موقع پر جب بڑی تعداد میں ائی ڈی پیز کیمپوں میں زندگی گزار رہے اور اور قبائلی علاقوں کو اسی ایف سی آر کے تحت چلایا جا رہا ہو جس سے بیزار ہو کر وہ طالبان کی حمایت میں چلے جائیں تو کون تبدیلی کو روک سکے گا . پشتون بیلٹ میں بھی بنگلہ دیش جیسی صورتحال پیدا ہوتی دکھائی دے رہی ہے
اسٹبلشمنٹ نے جو کانٹوں کی فصل بوئی ہے اب اسے کاٹنے کی باری آ چکی ہے . پشتون بیلٹ سیاسی طور پر پاکستان کے ہاتھ سے نکل چکی ہے اب وہاں جتنی بھی سیاست ہے وہ افغانستان سے متاثر ہے یہ ہی وہ پاکستان کی کمزوری ہے جس کی مدد سے پاکستان کو تباہ کیا جا سکتا ہے . ایک طرف عالمی طاقت طالبان کو کھلا میدان دے گی اور دوسری طرف سیکولر طبقے کی بھی پیٹھ ٹھوکی جاۓ گی باقی ایک بار پھر تشدد کی لہر پیدا کر کے عدم استحکام کی راہ ہموار کی جاۓ گی . جس کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کی نا اہلی شامل ہے ایسا ہونا بعید نہیں ہے کہ ریاست کے مظالم سے تنگ لوگ کوئی نیا رستہ ڈھونڈ لیں جیسے تحریک طالبان پاکستان کامیاب ہوئی تھی ویسے ہی کوئی نئی تبدیلی پشتون بیلٹ میں واقع ہو جاۓ
عمران نیازی کے ہوتے ایسا سانحہ ہونا طے ہے . وہ اپنے محلات میں پاوڈر سونگھ کر سویا رہے گا لوگ لاشیں رکھ کر احتجاج کرتے رہیں گے اور ایک دن عراق کی طرح دھرنوں پر بیٹھے لوگ بغاوت پر مجبور ہو جائیں گے