عدلیہ کے مائی باپ
آج کی تازہ خبر پڑھی تو یہ اندازہ ہوا کہ ہمارے ملک میں آئین اور قانون کی حقیقت مذاق سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ادارے نہیں صرف برادریاں ہوتی ہیں اور ہر برادری اس بات کو یقینی بنانے کی کوششکرتی ہے کہ ان کے بھائی بندوں کو کوئی تکلیف نہ ہو باقی نہ کسی کو آئین کی پاسدار ی سے کوئی خاص مطلب ہےاور نہ ہی خلاف قانون ضابطے بنانے سے۔خبر یہ ہے کہ ہماری عدلیہ کے مائی باپ اس بات پہ شدید ناراض تھے کہاٹارنی جنرل نے کچھ ججوں کے بارے یہ شبہ ظاہر کیا کہ وہ غیر جانبدار نہیں تھے بلکہ ملزم جسٹس فائز عیسی۱ کےلیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔اس بات پہ نہ صرف یہ کہ کل اٹارنی جنرل کو معافی مانگنا پڑی بلکہ آج ججوں کے بلاوجہکے غضب کا بھی سامنا کرنا پڑا اور آج کے ریمارکس میں جج صاحبان نے یہ تاثر بھی دے دیا کہ اس ریفرینس کےخلاف عدلیہ کس قسم کا فیصلہ دینے کی تیاری میں ہے۔
پوری دنیا کے اصول و ضوابط ایک طرف اور ہماری عدلیہ اور وکلاء کی فتنہ انگیزی ایک طرف۔جب چاہیں کسی کومجرم بنیادیں اور جب چاہیں کسی مجرم کو حافظ قرآن سمجھ کے چھوڑ دیں۔جسٹس فائز کے خلاف ریفرینس اسبنیاد پہ بھیجا گیا کہ ان کی بیرون ملک بے نامی جائیدادیں ہیں اور ممکنہ طور پہ وہ منی لانڈرنگ کے بھی مرتکب ہوسکتے ہیں مگر عدلیہ اور میڈیا نے کیس یہ بنا دیا کہ چونکہ وہ نہایت با اصول آدمی ہیں وکیل بھی رہے ہیں اور آجکل جج ہیں،فوج کے سخت خلاف بھی ہیں تو اس لیے آئین کا اطلاق ایسے بندے پہ کرنا غیر قانونی ہی نہیں بلکہ لائقگردن زنی بھی ہے۔
پھر پوری دنیا میں یہ قاعدہ ہے کہ جج نہ تو رائے عامہ سے influence ہوتے ہیں اور نہ ہی رائے عامہ پہ image building کی کوشش کرتے ہیں مگر یہاں شوکت عزیز صدیقی سرعام جلسے کرکے الزام لگا سکتے ہیں اور فائز صاحبمن پسند صحافیوں کو خبریں feed کر سکتے ہیں خواجہ شریف لفافہ لے سکتے ہیں اور افتخار چوہدری سرعام یہکہتے پائے جاتے ہیں کہ فلاں پروگرام دیکھا کریں کیونکہ مجھے بہت سارے کیسز کے حقائق ادھر سے پتہ چلتے ہیں مگرمجال ہے کہ کوئی ان سے پوچھ سکے کہ مائی باپ آپ کو اگر سیاست ہی کرنی تھی تو پارٹی بنا لیتے غریب عوامکی جیبیں کاٹ کے انقلابی کیوں بنتے ہیں؟
رونا اس بات پہ آتا ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں جج صاحب ایک ایسے شخص کو باعزت بری ہونے کا پروانہ سناتےپائے جاتے ہیں جو نہ صرف تین سال پہلے مر چکا تھا بلکہ اس کی جائیداد کا ایک بڑا حصہ بھی بک چکا تھا،نہمیڈیا آواز اٹھاتا ہے نہ ہی عوام کا ضمیر جاگتا ہے مگر فائز عیسی۱ کے خلاف ریفرینس دائر ہو تو ساری توپوں کارخ ایوان صدر کی طرف ہوجاتا ہے۔ایک ایسے معاشرے میں جہاں سپریم کورٹ میں وکیلوں کی لاکھوں کی فیس اداکرکے بھی انصاف نہ مل سکے مگر مسئلہ نا انصافی کے بجائے صدارتی ریفرینس ہو وہ قوم ادارے deserve ہی نہیںکرتی بلکہ وہاں وحشی درندوں کے مختلف گروہ بن جاتے ہیں۔کوئی گروہ سیاستدان کہلواتا ہے تو کوئی وکیل کوئیجج تو کوئی جنرل۔اور ان درندوں کی چیخ و پکار کے بیچ ہر روز ایک نئی virtue کا قتل ہوتا ہے۔اور انصاف کا قتلعدلیہ کے مائی باپ کر رہے ہیں مگر کوئی انہیں روکنے والا نہیں ہے۔
آج کی تازہ خبر پڑھی تو یہ اندازہ ہوا کہ ہمارے ملک میں آئین اور قانون کی حقیقت مذاق سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ادارے نہیں صرف برادریاں ہوتی ہیں اور ہر برادری اس بات کو یقینی بنانے کی کوششکرتی ہے کہ ان کے بھائی بندوں کو کوئی تکلیف نہ ہو باقی نہ کسی کو آئین کی پاسدار ی سے کوئی خاص مطلب ہےاور نہ ہی خلاف قانون ضابطے بنانے سے۔خبر یہ ہے کہ ہماری عدلیہ کے مائی باپ اس بات پہ شدید ناراض تھے کہاٹارنی جنرل نے کچھ ججوں کے بارے یہ شبہ ظاہر کیا کہ وہ غیر جانبدار نہیں تھے بلکہ ملزم جسٹس فائز عیسی۱ کےلیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔اس بات پہ نہ صرف یہ کہ کل اٹارنی جنرل کو معافی مانگنا پڑی بلکہ آج ججوں کے بلاوجہکے غضب کا بھی سامنا کرنا پڑا اور آج کے ریمارکس میں جج صاحبان نے یہ تاثر بھی دے دیا کہ اس ریفرینس کےخلاف عدلیہ کس قسم کا فیصلہ دینے کی تیاری میں ہے۔
پوری دنیا کے اصول و ضوابط ایک طرف اور ہماری عدلیہ اور وکلاء کی فتنہ انگیزی ایک طرف۔جب چاہیں کسی کومجرم بنیادیں اور جب چاہیں کسی مجرم کو حافظ قرآن سمجھ کے چھوڑ دیں۔جسٹس فائز کے خلاف ریفرینس اسبنیاد پہ بھیجا گیا کہ ان کی بیرون ملک بے نامی جائیدادیں ہیں اور ممکنہ طور پہ وہ منی لانڈرنگ کے بھی مرتکب ہوسکتے ہیں مگر عدلیہ اور میڈیا نے کیس یہ بنا دیا کہ چونکہ وہ نہایت با اصول آدمی ہیں وکیل بھی رہے ہیں اور آجکل جج ہیں،فوج کے سخت خلاف بھی ہیں تو اس لیے آئین کا اطلاق ایسے بندے پہ کرنا غیر قانونی ہی نہیں بلکہ لائقگردن زنی بھی ہے۔
پھر پوری دنیا میں یہ قاعدہ ہے کہ جج نہ تو رائے عامہ سے influence ہوتے ہیں اور نہ ہی رائے عامہ پہ image building کی کوشش کرتے ہیں مگر یہاں شوکت عزیز صدیقی سرعام جلسے کرکے الزام لگا سکتے ہیں اور فائز صاحبمن پسند صحافیوں کو خبریں feed کر سکتے ہیں خواجہ شریف لفافہ لے سکتے ہیں اور افتخار چوہدری سرعام یہکہتے پائے جاتے ہیں کہ فلاں پروگرام دیکھا کریں کیونکہ مجھے بہت سارے کیسز کے حقائق ادھر سے پتہ چلتے ہیں مگرمجال ہے کہ کوئی ان سے پوچھ سکے کہ مائی باپ آپ کو اگر سیاست ہی کرنی تھی تو پارٹی بنا لیتے غریب عوامکی جیبیں کاٹ کے انقلابی کیوں بنتے ہیں؟
رونا اس بات پہ آتا ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں جج صاحب ایک ایسے شخص کو باعزت بری ہونے کا پروانہ سناتےپائے جاتے ہیں جو نہ صرف تین سال پہلے مر چکا تھا بلکہ اس کی جائیداد کا ایک بڑا حصہ بھی بک چکا تھا،نہمیڈیا آواز اٹھاتا ہے نہ ہی عوام کا ضمیر جاگتا ہے مگر فائز عیسی۱ کے خلاف ریفرینس دائر ہو تو ساری توپوں کارخ ایوان صدر کی طرف ہوجاتا ہے۔ایک ایسے معاشرے میں جہاں سپریم کورٹ میں وکیلوں کی لاکھوں کی فیس اداکرکے بھی انصاف نہ مل سکے مگر مسئلہ نا انصافی کے بجائے صدارتی ریفرینس ہو وہ قوم ادارے deserve ہی نہیںکرتی بلکہ وہاں وحشی درندوں کے مختلف گروہ بن جاتے ہیں۔کوئی گروہ سیاستدان کہلواتا ہے تو کوئی وکیل کوئیجج تو کوئی جنرل۔اور ان درندوں کی چیخ و پکار کے بیچ ہر روز ایک نئی virtue کا قتل ہوتا ہے۔اور انصاف کا قتلعدلیہ کے مائی باپ کر رہے ہیں مگر کوئی انہیں روکنے والا نہیں ہے۔