QaiserMirza
Chief Minister (5k+ posts)
عاشق رسول حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ

حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کا نام ہونٹوں پر آتا ہے تو دیدۂ و دل میں خوشبو کے چراغ جھلملانے لگتے ہیں اور پلکیں اس عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احترام میں جھک جاتی ہیں۔
جنگِ اُحد میں جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندانِ مبارک شہید ہوئے اور اس سچے عاشقِ رسول تک یہ خبر پہنچی تو انہوں نے ایک ایک کرکے اپنے سارے دانت شہید کر ڈالے کہ معلوم نہیں میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کون سا دانت شہید ہوا ہو گا۔ حضرت اویسِ قرنی رضی اللہ عنہ کو بظاہر نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی سعادت نصیب نہیں ہوئی، لیکن چشمِ تصور ہر لمحہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہء انور کے طواف میں مصروف رہتی۔
حضرت اویسِ قرنی رضی اللہ عنہ قرن کے رہنے والے تھے۔ وہ اپنی ضعیف والدہ کو تنہا چھوڑ کر طویل سفر اختیار نہیں کر سکتے تھے اور پھر یہ خیال بھی دامنگیر تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچ کر نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلووں کی تاب بھی لاسکوں گا کہ نہیں۔
آقائے محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے بے حد محبت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان تھا کہ قرن میں اویس نام کا ایک شخص ہے، جو روزِ محشر بنو ربیعہ اور بنو مضر کی بھیڑوں کے بالوں کی تعداد کے برابر میری اُمت کے لوگوں کی شفاعت کرے گا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اس غلام سے کتنی محبت فرماتے ہوں گے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
إن خير التابعين رجلٌ يقال له أويس، وله والدة، وکان به بياض. فمروه فليستغفرلکم.
مسلم، الصحيح، 4 : 1968، کتاب فضائل الصحابه، رقم : 22542
حاکم، المستدرک، 3 : 456، رقم : 35720
تابعین میں سب سے افضل شخص ایک آدمی ہے، جس کا نام اویس ہو گا، اور اُس کی والدہ حیات ہے، اُس کو برص کی بیماری ہے، پس اُس سے کہو کہ وہ تمہارے لئے مغفرت کی دُعا کرے۔
تاجدارِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اس عاشقِ رسول کے پاس پہنچ گئے، اس وقت حضرت اویسِ قرنی رضی اللہ عنہ بارگاہِ خُدا وندی میں سجدہ ریز تھے۔ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلام پہنچایا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت کی خاطر دعا کے لئے عرض کیا۔
ابونعيم، حلية الاولياء، 2 : 80 - 582
ابنِ عساکر، تاريخ، 6 : 145 - 166