قرار نامہ
پاکستان میں ایک جشن برپا ہے - افغانستان میں امریکا کی "شکست" پر مباحثے ہور رہے ہیں - کوئی فتح مکہ کی یاد دلا رہا ہے تو کوئی اس ایمانی طاقت کے ڈھنڈورے پیٹ رہا ہے جس کے سامنے کوئی بھی سپر پاور ٹھہر نہیں سکتی- لیکن الیکٹرانک میڈیا ہو یا سوشل میڈیا، اس ساری بحث میں یہ نکتہ کہیں کھو گیا ہے کہ یہ طالبان کی فتح ہے یا امریکا سے ایک ڈیل ..اور پاکستان جو کبھی افغانستان کے سیاسی امور میں باقی دنیا کے لیے ایک ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا، پاکستان جس کے بغیر امریکا کی فارن پالیسی ادھوری تھی، اب اس سارے قضیے میں "ایم آئی اے" یعنی مسنگ ان ایکشن ہے - ایک پاکستانی کی حیثیت سے میں "فال آف کابل" پر تبصرہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان وجوہات پر بھی روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا جن کی وجہ سے پاکستان افغانستان کی بحث میں ایک انتہائی غیر متعلق فریق بن گیا ہے
جو لوگ طالبان کے کابل پر قبضے کو امریکی شکست گردان رہے ہیں میں ان کی خدمت میں امریکی عدالتی نظام سے ایک مثال پیش کرتا ہوں جس کا بظاہر خارجہ امور سے کوئی تعلق نہیں مگر کوئی اور بہتر مثال میرے سامنے موجود نہیں - امریکا کی عدالتوں میں میں اکثر ہرجانے کے ..ہتک عزت ..کے یا دوسرے سول کیسز کیس فائل کیے جاتے ہیں - ان سول کیسز میں مخالف فریق (فرد یا کمپنی) سے مالی معاوضے کا مطالبہ کیا جاتا ہے - کیس ہارنے کی صورت میں مخالف کو جیل جانا نہیں ہوتا بلکہ معاوضہ ادا کرنا ہوتا ہے - کافی سارے کسیز میں دونوں فریق عدالت میں جاۓ بغیر باہر ہی کوئی سیٹلمنٹ کرلیتے ہیں - میرے لیے یہ ایک حیرانگی کا موجب تھا کہ کچھ سیریس کیسز میں جس میں، فرض کیا، کسی عورت نے جنسی ہراسگی کا مقدمہ دائر کیا ہو ..ان کیسز میں بھی اکثر عدالت سے باہر ہی سیٹلمنٹ ہو جاتی ہے - کیا اس کا یہ مطلب لیا جاۓ کہ عورت حق بجانب تھی اور جنسی ہراسگی واقعی ہوئی تھی اور مالدار شخص نے پیسوں سے عورت کا منہ بند کردیا؟ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ کئی کیسز میں وہ شخص بھی ہرجانہ دینے پر تیار ہوجاتا ہے جو قصوروار نہیں ہوتا - اس کی کیا وجہ ہے؟
وہ بے گناہ مالدار شخص اصل میں ایک کیلکولیشن کرتا ہے - کیس کتنے مہینے یا سال چلے گا، کیس جیتنے کے لیے اسے وکیلوں کو کتنے پیسے دینے پڑیں گے، کیس ہارنے کا کتنے فیصد امکان ہے - اگر پانچ فیصد بھی امکان ہے کہ کیس ہارا جاسکتا ہے تو اس صورت میں کتنے گنا اضافی معاوضہ دینا پڑے گا وغیرہ وغیرہ
لہٰذا اگر دو سال مقدمہ بھگتنے کے بعد ..کیس جینے کی صورت میں بھی ..اگر وکیلوں کو دس ملین ڈالر فیسوں کی مد میں دے دینے ہے تو اس جیت کا کیا فائدہ؟ اس سے بہتر ہے کہ آج دو ملین ڈالر کی سیٹلمنٹ کرکے،بغیر عدالت جائے، آٹھ ملین بچا لیے جائیں؟
صرف نقصان یہ ہے کہ اخلاقی پوزیشن کمزور ہوگی ..کچھ لوگ سمجھیں گے کہ سیٹلمنٹ اس لیے کی کہ خود قصوروار ہیں لیکن کیا یہ اخلاقی نقصان آٹھ ملین بچانے سے بڑا ہے؟ بہت سارے لوگ ہیں جو فیسوں کی پروا کیے بغیر ہر صورت میں مقدمہ جیتنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کا ضمیر سیٹلمنٹ کی اجازت نہیں دینا
جب بات عالمی سیاست کی ہو تو ضمیر وغیرہ ثانوی چیزیں بن جاتی ہیں ..نائن الیون کے بعد امریکی جذبات بلندیوں پر تھے ..طالبان کے اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے سے انکار کے بعد ..حکومت کے لیے افغانستان پر چڑھائی کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا..لیکن بیس سال بعد ..اور خاص طور پر اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد اس قبضے کی کوئی خاص ضرورت نہ رہ گئی تھی ...کئی ٹریلین ڈالرز امریکی جیب سے نکل چکے تھے ..افغانستان ایک بنجر سرزمین ہے ..یہ قبضہ کوئی منفعت بخش بھی نہ تھا ...امریکی فوجی دس سے بیس دفعہ اور بار بار افغانستان میں ڈیوٹی دینے جاچکے تھے ..یہ پوسٹنگ امریکی فوجیوں کے خاندانوں کے لیے بھاری تھی ...مزید یہ کہ امریکی اس نتیجے پر پونھچ چکے تھے کہ طالبان کو ختم نہیں کیا جا سکتا تھا ...امریکیوں کے نکلنے کے بعد افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہوجاتا جہاں امریکی فوج تو افغان زمین پر موجود نہ ہوتی مگر امریکی فضائیہ اور ڈرون وغیرہ افغان حکومت کو مدد فراہم کرتے ..افغان حکومت کی مالی امداد کی جاتی ..پاکستان سے اڈے مانگے جاتے ...پاکستان کو "ڈو مور" کہا جاتا ...پاکستان کو ڈالر دیے جاتے کہ وہ طالبان کو اپنی سر زمین استعمال نہ کرنے دے ..وغیرہ وغیرہ
لیکن امریکیوں نے ایک مختلف راستہ چنا ..انگریزی میں ایک محاورہ ہے
If you can't beat them, join them
طالبان سے مزید جنگ کرنے کی بجائے کیوں نہ ان سے صلح کر لی جاۓ؟
تین سال پہلے پاکستان کی جیل میں قید طالبان لیڈر ملا برادر کو چھڑوایا گیا تاکہ طالبان سے مذاکرات کا آغاز کی جاۓ ..مقصد یہ تھا کہ طالبان کو اقتدار دینے کے بدلے اس سے کچھ شرائط منوائی جائیں کہ غیر ملکیوں کے سر قلم نہ کیے جائیں ...مخالف افغان ملیشیا کو ذبح نہ کیا جاۓ ...امریکا نواز دھڑوں کو اقتدار میں شامل کی جاۓ ..اور سب سے اہم کہ افغان سر زمین کو امریکا مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال نہ ہونے دیا جاۓ
بدلے میں امریکا اور طالبان کے درمیان سفارتی تعلقات بحال رہیں گے ..شرائط پوری ہونے کے بعد طالبان حکومت کو تعمیر نو کے نام پر امریکی امداد کے وعدے بھی کیے گئے
طالبان کے لیے بھی یہ ایک سود مند سودا تھا ...بیس سال بعد بھی طالبان امریکا کو شکست نہ دے سکے تھے ..ان کے تمام بڑے بڑے لیڈر چوہوں کی طرح فضائی اور ڈرون حملوں میں مارے جاچکے تھے ...امریکا سے ڈیل کرنے کے بعد وہ پورے افغانستان پر حکومت بناسکتے تھے اور پوری دنیا ان کی حکومت کو تسلیم کر سکتی تھی ...طالبان کی واحد شرط اشرف غنی کو اقتدار میں شریک نہ کرنا تھا ..جس شرط پر آخر کار امریکیوں نے گھٹنے ٹیک دیے
تو جو لوگ طالبان کی فتح پر ڈھول بجا رہے ہیں ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ جو اشرف غنی کو لائے تھے وہی طالبان کو لائے ہیں ..البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ طالبان نے امریکا کو ان کی سلیکشن پر مجبور کردیا تھا
اگر کسی کو میرے تبصرے پر اعتراض ہے تو کیا آپ طالبان کے اعلانات نہیں سن رہے؟ مثلاً ...کسی غیر ملکی کو کچھ نہیں کہا جاۓ گا ..مخالفین کے لیے عام معافی کا اعلان کردیا گیا ہے ..ورنہ طالبان اور امن کی باتیں؟ یہ تو مخالفین کی عورتوں پر قبضہ کرنے اور انہیں لونڈیاں بنانے والے لوگ تھے ..مگر وقت نے انہیں بھی سکھا دیا ہے کہ امریکا اور مغرب سے دوستی ہی ان کے لیے فائدہ مند ہے
کیا وجہ ہے کہ بیس سال طالبان سے جنگ کرنے والی افغان فوج یا دھڑے اچانک ریت کی دیوار کی طرح اچانک پچھلے کچھ دنوں میں ڈھے گئے ..جیسا کہ ہرات کا کمانڈر اور سابق مجاہد اسمعیل ...کیونکہ وہ بیوقوف لوگ نہیں تھے ..انہیں پتا چل چکا تھا کہ امریکہ اور طالبان کی ڈیل ہوچکی ہے ..لہٰذا ان لوگوں نے طالبان سے اچھی شرائط پر ڈیل کرکے اپنا مستقبل بچایا اور لڑے بغیر اپنے علاقے طالبان کے حوالے کر دیے
ایک بات جس پر امریکا میں صدر بائیڈن پر تنقید ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ امریکی انخلا اور طالبان کو اقتدار دینے میں انتہائی برق رفتاری کی گئی ہے .. ..پلان تو یہ تھا کہ ابھی ایک دو مہینے انخلا میں لگیں گے اور طالبان آھستہ آہستہ اقتدار پر قابض ہونگے ...مگر مقامی طالبان مخالفین نے صورتحال بھانپتے ھوئے ..امریکی مرضی کے خلاف فوراً علاقے طالبان کو دے دیے ..جس پر صدر بائیڈن کو مجبوراً پانچ ہزار فوجیوں کو عارضی طور پر کابل بھیجنا پڑا تاکہ امریکی سفارت خانے کے عملے کا انخلا یقینی بنایا جائے ..طالبان سے ایک ڈیل کے بعد یہ ضروری تو نہ تھا مگر طالبان جس تیزی سے کابل تک آگئے، اس کے بعد کچھ خدشہ پیدا ہوگیا کہ شاید "ایمانی حرارت" کے نشے میں کچھ طالبان اپنی اوقات سے باہر ہو کر امریکی سفارت خانے پر حملہ نہ کردیں ... ایک سابقہ امریکی صدر ریگن کا ایک قول ہے
Trust but verify
یعنی طالبان سے ڈیل تو کرلی ہے ، ان پر اعتماد بھی کر لیا جاۓ مگر یہ ویریفائی بھی کیا جاۓ کہ طالبان ڈیل کی شرائط پوری کر رہے ہیں یا نہیں ..پانچ ہزار امریکی فوجیوں کی تعیناتی صرف حفظ ماتقدم کے طور پر تھی ..شنید یہی ہے کہ ڈیل پر حرف بحرف عمل ہو رہا ہے ..غالباً صرف اشرف غنی اور رشید دوستم نے ملک چھوڑا ہے ..ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، حامد کرزئی اور گلبدین حکمت یار وغیرہ ابھی بھی کابل میں ہی موجود ہیں اور طالبان سے مذاکرات کر رہے ہیں
پاکستان کو اس سارے قضیے میں کیا ملا؟ میری ذاتی رائے میں پاکستان سب سے بڑے لوزر کی صورت میں سامنے آیا ہے...پاکستان نے ہر ممکن کوشش کی کہ امریکا طالبان سے براہ راست مذاکرات نہ کرے اور اگر کرے بھی تو پاکستان کو اس میں شامل رکھا جاۓ ..پاکستان کی راۓ کو مقدم جانا جاۓ ..مگر امریکیوں نے پاکستان کو صاف جھنڈی کروا دی ..پاکستان نے ماضی میں اپنے آپ کو ایک ایسے اتحادی کے طور پر پیش کیا ہے جس نے اپنے ہی ساتھیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے ..امریکیوں سے ڈالر بھی لیے ..طالبان کے خلاف جنگ کرنے کا ناٹک بھی کیا مگر طالبان کی مدد بھی کی ..ان کے لیڈران کو پناہ بھی دی ...حقانی گروپ کی مالی اور اسلحہ سے مدد کی ..اور افغان حکومت کے لیے مشکلات پیدا کیں
اکثر پاکستانی سوال کرتے ہیں کہ امریکا پاکستان سے اس قسم کے معاہدے کیوں نہیں کرتا جیسے بھارت سے کرتا ہے ..یعنی نیوکلئیر انرجی یا تجارتی معاہدے وغیرہ ..اس کا جواب یہ ہے کہ تجارتی معاہدے دوستوں کے درمیان ہوتے ہیں ..افغانستان کے معاملے میں ہر قدم پر پاکستانیوں نے دو نمبری کی ہے ...پاکستانی قوم کے جذبات امریکیوں کے بارے میں عیاں ہیں ..یہ جذبات دوستی کے نہیں دشمنی کے ہیں ..اور دشمنوں کو کوئی فیور نہیں دیتا ..اس کے برعکس بھارتی عوام میں امریکا کی فیوریبلیٹی بہت اوپر ہے اور امریکیوں کو بھی پتا ہے اور جواب میں وہ بھارتی عوام پر مہربان بھی ہیں ..پاکستان نے امریکہ کے لیے کیا کیا ہے؟
پاکستانی حکومت فوج اور جرنیلوں کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ حالات واپس دو ہزار تین پر چلے جائیں ...یعنی امریکا افغانستان سے بیشک فوجیں بلوا لے مگر اشرف غنی کی حکومت کی مالی اور فوجی مدد جاری رکھے ..طالبان پر فضائی حملے جاری رکھے ..پاکستان کے فوجی اڈے استعمال کرکے ڈرون حملے شروع کرے ..یعنی ہر حال میں امریکا یہ ممکن بناۓ کہ طالبان کابل پر قبضہ نہ کرسکیں ...اس ساری صورتحال میں پاکستان کی بے تاج بادشاہ والی حیثیت واپس بحال ہوجاتی ...امریکی پاکستان سے فوجی اڈے مانگتے ..اس سے تعاون مانگتے ..اس پر ڈالرز کی بارش کرتے ..یعنی پھر وہی مشرف والا بابرکت دور امریکی ڈالروں سمیت واپس آجاتا
امریکیوں نے وقت سے یہی سیکھا کہ پاکستان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ..لہٰذا بہتر ہے کہ اسے سارے مذاکرات سے باہر رکھا جاۓ ..اور اسے ایک ٹکا بھی نہ دیا جاۓ ...یہی وجہ ہے کہ صدر بائیڈن نے بار بار دہائیوں کے باوجود عمران خان کو ایک بھی کال کرنا مناسب نہ سمجھا ...اس کی دو وجوہات تھیں ..ایک تو امریکیوں کو پاکستان پر شدید غصہ ہے اور دوسرا وہ عمران خان کو کٹھ پتلی حکمران سمجھتے ہیں ..اگر کچھ کام کروانا ہی ہے تو امریکی اول نائب وزیر دفاع براہ راست جنرل باجوہ کو فون کرکے وہ کام کروا لے گا ..عمران خان جیسے ڈمی حکمران سے بات کرنے اور فیور کی درخواست کرنے کی کیا ضرورت ہے ..میرے خیال میں اگر امریکی صدر نے عمران خان کو کال کی بھی تو وہ دھمکی دینے کے لیے ہو گی کہ بندے کے پتر بن کر رہو اور مزید افغانستان کو غیر مستحکم کرنے سے باز رہو ..یہ کال کوئی فیور لینے کے لیے نہیں ہو گی
مزید برآں پاکستان کی سفارتی ہزیمت کا اس سے بڑا سامان کیا ہو گا کہ پاکستان کے بار بار کے مطالبات کے باوجود سلامتی کونسل کے افغان امور پر ہونے والے اجلاس میں پاکستان کو مبصر کے طور پر بھی مدعو نہیں کیا گیا
عمران خان نے کچھ عرصہ قبل بھاؤ بڑھانے کے لیے خود ہی خبریں لیک کروائیں کہ امریکا پاکستان سے فوجی اڈے مانگ رہا ہے ..اور عمران خان نے "ایبسولوٹلی ناٹ" جیسی بڑکیں بھی لگائی تھیں .. توقع یہ تھی کہ امریکا مجبوری میں مالی امداد میں اضافہ کرے گا ..اور فوج خفیہ طور پر اڈے امریکیوں کو دے دے گی ..لیکن یہاں بھی پاکستانیوں کو منہ کی کھانی پڑی... امریکی اس دفعہ حقیقت میں طالبان سے صلح کرنے جارہے تھے اور انہیں ڈرون پروگرام کی ضرورت نہ تھی .... یہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ پاکستانی حکومت اور فوج امریکا اور طالبان کی ممکنہ صلح اور ڈیل سے مکمل بے خبر رہے ورنہ امریکی اڈوں کی درخواست کا انتظار نہ کرتے ..ایسی سفارتی بے خبری عام طور پر کسی بھی حکومت کے لیے ایک چارج شیٹ کے طور پر لی جاتی ہے مگر پاکستان میں ستے خیراں ہیں ..عوام کو کون کافر جواب دہ ہے
اور آخر میں کچھ الفاظ پاکستانی عوام کی اکثریت ، میڈیا اور حکومت کی منافقت پر
کیا کوئی آیت یا حدیث نہیں کہ تم اپنے بھائی کے لیے وہی چاہو جو اپنے لیے چاہتے ہو؟ اگر طالبان پسند ہیں تو صرف افغانستان میں ہی کیوں ..پاکستان میں کیوں نہیں ..پاکستان میں جمہوریت چاہیے انسانی حقوق چاہئیں مگر اپنے افغان بھائیوں کے لیے طالبانی شریعت ..یہ تضاد کیوں؟ مجھے یاد ہے کہ کوئی دس سال پہلے طالبان.. کے پی کے.. کے کئی علاقوں بونیر اور بنوں تک گھس آئے تھے ..وہاں تو آپ کی فوج نے ان پر ایف سولہ طیاروں کے ذریعے بمباری کرکے ان کا بینڈ باجا بجا دیا تھا ...جیسا آج کابل میں طالبان کی فتح کو فتح مکہ سے تعبیر کیا جارہا ہے ..اسلامآباد پر ان کے مارچ کو وہی پزیرائی کیوں نہ ملتی؟
ایک بات کا کریڈٹ میں افغان لوگوں کو ضرور دیتا ہوں کہ وہ اپنی زمین پر غیر ملکی تسلط کو تسلیم نہیں کرتے اور آخر دم تک لڑتے ہیں ...تاہم یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ سوویت یونین اور امریکا کو افغاننستان میں فوجی شکست نہیں ہوئی ..ورنہ مجاہدین ہوں یا طالبان ..صرف ایک ایٹم بم کی مار تھے ...افغانیوں نے صرف سوویت یونین اور امریکا کو یہ باور کروایا کہ انہیں غلام رکھنا ایک مہنگا سودا ہے اور امریکا اور روس دونوں قبضے کی قیمت ادا کرنا نہیں چاہتے تھے اور افغانستان چھوڑ گئے ...تصور کریں یہ اگر افغانستان میں ہیرے اور سونے کی کوئی کانیں ہوتیں تو امریکا سے یہ قبضہ چھڑوایا جا سکتا تھا؟ ..یہ افغانستان کی خوش قسمتی ہے کہ یہاں چھوٹی موٹی معدنیات کے علاوہ کچھ بھی نہیں اگتا ...ورنہ تاج برطانیہ نے ڈیڑھ سو سال برصغیر کی زرخیز زمین پر چند مقامی غداروں کے ذریعے حکومت کی... اور کروڑوں مقامی لوگ صرف پانچ ہزار برطانوی فوجیوں سے قبضہ نہ چھڑوا سکے ..الله بھلا کرے حضرت ہٹلر کا جس نے برطانیہ کو اتنا کمزور کردیا کہ وہ برصغیر پر قبضہ برقرار نہ رکھ سکا ..طالبان کی فتح کا کریڈٹ طالبان سے زیادہ افغانستان کی بنجر زمین کو جاتا ہے
پاکستان میں ایک جشن برپا ہے - افغانستان میں امریکا کی "شکست" پر مباحثے ہور رہے ہیں - کوئی فتح مکہ کی یاد دلا رہا ہے تو کوئی اس ایمانی طاقت کے ڈھنڈورے پیٹ رہا ہے جس کے سامنے کوئی بھی سپر پاور ٹھہر نہیں سکتی- لیکن الیکٹرانک میڈیا ہو یا سوشل میڈیا، اس ساری بحث میں یہ نکتہ کہیں کھو گیا ہے کہ یہ طالبان کی فتح ہے یا امریکا سے ایک ڈیل ..اور پاکستان جو کبھی افغانستان کے سیاسی امور میں باقی دنیا کے لیے ایک ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا، پاکستان جس کے بغیر امریکا کی فارن پالیسی ادھوری تھی، اب اس سارے قضیے میں "ایم آئی اے" یعنی مسنگ ان ایکشن ہے - ایک پاکستانی کی حیثیت سے میں "فال آف کابل" پر تبصرہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان وجوہات پر بھی روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا جن کی وجہ سے پاکستان افغانستان کی بحث میں ایک انتہائی غیر متعلق فریق بن گیا ہے
جو لوگ طالبان کے کابل پر قبضے کو امریکی شکست گردان رہے ہیں میں ان کی خدمت میں امریکی عدالتی نظام سے ایک مثال پیش کرتا ہوں جس کا بظاہر خارجہ امور سے کوئی تعلق نہیں مگر کوئی اور بہتر مثال میرے سامنے موجود نہیں - امریکا کی عدالتوں میں میں اکثر ہرجانے کے ..ہتک عزت ..کے یا دوسرے سول کیسز کیس فائل کیے جاتے ہیں - ان سول کیسز میں مخالف فریق (فرد یا کمپنی) سے مالی معاوضے کا مطالبہ کیا جاتا ہے - کیس ہارنے کی صورت میں مخالف کو جیل جانا نہیں ہوتا بلکہ معاوضہ ادا کرنا ہوتا ہے - کافی سارے کسیز میں دونوں فریق عدالت میں جاۓ بغیر باہر ہی کوئی سیٹلمنٹ کرلیتے ہیں - میرے لیے یہ ایک حیرانگی کا موجب تھا کہ کچھ سیریس کیسز میں جس میں، فرض کیا، کسی عورت نے جنسی ہراسگی کا مقدمہ دائر کیا ہو ..ان کیسز میں بھی اکثر عدالت سے باہر ہی سیٹلمنٹ ہو جاتی ہے - کیا اس کا یہ مطلب لیا جاۓ کہ عورت حق بجانب تھی اور جنسی ہراسگی واقعی ہوئی تھی اور مالدار شخص نے پیسوں سے عورت کا منہ بند کردیا؟ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ کئی کیسز میں وہ شخص بھی ہرجانہ دینے پر تیار ہوجاتا ہے جو قصوروار نہیں ہوتا - اس کی کیا وجہ ہے؟
وہ بے گناہ مالدار شخص اصل میں ایک کیلکولیشن کرتا ہے - کیس کتنے مہینے یا سال چلے گا، کیس جیتنے کے لیے اسے وکیلوں کو کتنے پیسے دینے پڑیں گے، کیس ہارنے کا کتنے فیصد امکان ہے - اگر پانچ فیصد بھی امکان ہے کہ کیس ہارا جاسکتا ہے تو اس صورت میں کتنے گنا اضافی معاوضہ دینا پڑے گا وغیرہ وغیرہ
لہٰذا اگر دو سال مقدمہ بھگتنے کے بعد ..کیس جینے کی صورت میں بھی ..اگر وکیلوں کو دس ملین ڈالر فیسوں کی مد میں دے دینے ہے تو اس جیت کا کیا فائدہ؟ اس سے بہتر ہے کہ آج دو ملین ڈالر کی سیٹلمنٹ کرکے،بغیر عدالت جائے، آٹھ ملین بچا لیے جائیں؟
صرف نقصان یہ ہے کہ اخلاقی پوزیشن کمزور ہوگی ..کچھ لوگ سمجھیں گے کہ سیٹلمنٹ اس لیے کی کہ خود قصوروار ہیں لیکن کیا یہ اخلاقی نقصان آٹھ ملین بچانے سے بڑا ہے؟ بہت سارے لوگ ہیں جو فیسوں کی پروا کیے بغیر ہر صورت میں مقدمہ جیتنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کا ضمیر سیٹلمنٹ کی اجازت نہیں دینا
جب بات عالمی سیاست کی ہو تو ضمیر وغیرہ ثانوی چیزیں بن جاتی ہیں ..نائن الیون کے بعد امریکی جذبات بلندیوں پر تھے ..طالبان کے اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے سے انکار کے بعد ..حکومت کے لیے افغانستان پر چڑھائی کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا..لیکن بیس سال بعد ..اور خاص طور پر اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد اس قبضے کی کوئی خاص ضرورت نہ رہ گئی تھی ...کئی ٹریلین ڈالرز امریکی جیب سے نکل چکے تھے ..افغانستان ایک بنجر سرزمین ہے ..یہ قبضہ کوئی منفعت بخش بھی نہ تھا ...امریکی فوجی دس سے بیس دفعہ اور بار بار افغانستان میں ڈیوٹی دینے جاچکے تھے ..یہ پوسٹنگ امریکی فوجیوں کے خاندانوں کے لیے بھاری تھی ...مزید یہ کہ امریکی اس نتیجے پر پونھچ چکے تھے کہ طالبان کو ختم نہیں کیا جا سکتا تھا ...امریکیوں کے نکلنے کے بعد افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہوجاتا جہاں امریکی فوج تو افغان زمین پر موجود نہ ہوتی مگر امریکی فضائیہ اور ڈرون وغیرہ افغان حکومت کو مدد فراہم کرتے ..افغان حکومت کی مالی امداد کی جاتی ..پاکستان سے اڈے مانگے جاتے ...پاکستان کو "ڈو مور" کہا جاتا ...پاکستان کو ڈالر دیے جاتے کہ وہ طالبان کو اپنی سر زمین استعمال نہ کرنے دے ..وغیرہ وغیرہ
لیکن امریکیوں نے ایک مختلف راستہ چنا ..انگریزی میں ایک محاورہ ہے
If you can't beat them, join them
طالبان سے مزید جنگ کرنے کی بجائے کیوں نہ ان سے صلح کر لی جاۓ؟
تین سال پہلے پاکستان کی جیل میں قید طالبان لیڈر ملا برادر کو چھڑوایا گیا تاکہ طالبان سے مذاکرات کا آغاز کی جاۓ ..مقصد یہ تھا کہ طالبان کو اقتدار دینے کے بدلے اس سے کچھ شرائط منوائی جائیں کہ غیر ملکیوں کے سر قلم نہ کیے جائیں ...مخالف افغان ملیشیا کو ذبح نہ کیا جاۓ ...امریکا نواز دھڑوں کو اقتدار میں شامل کی جاۓ ..اور سب سے اہم کہ افغان سر زمین کو امریکا مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال نہ ہونے دیا جاۓ
بدلے میں امریکا اور طالبان کے درمیان سفارتی تعلقات بحال رہیں گے ..شرائط پوری ہونے کے بعد طالبان حکومت کو تعمیر نو کے نام پر امریکی امداد کے وعدے بھی کیے گئے
طالبان کے لیے بھی یہ ایک سود مند سودا تھا ...بیس سال بعد بھی طالبان امریکا کو شکست نہ دے سکے تھے ..ان کے تمام بڑے بڑے لیڈر چوہوں کی طرح فضائی اور ڈرون حملوں میں مارے جاچکے تھے ...امریکا سے ڈیل کرنے کے بعد وہ پورے افغانستان پر حکومت بناسکتے تھے اور پوری دنیا ان کی حکومت کو تسلیم کر سکتی تھی ...طالبان کی واحد شرط اشرف غنی کو اقتدار میں شریک نہ کرنا تھا ..جس شرط پر آخر کار امریکیوں نے گھٹنے ٹیک دیے
تو جو لوگ طالبان کی فتح پر ڈھول بجا رہے ہیں ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ جو اشرف غنی کو لائے تھے وہی طالبان کو لائے ہیں ..البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ طالبان نے امریکا کو ان کی سلیکشن پر مجبور کردیا تھا
اگر کسی کو میرے تبصرے پر اعتراض ہے تو کیا آپ طالبان کے اعلانات نہیں سن رہے؟ مثلاً ...کسی غیر ملکی کو کچھ نہیں کہا جاۓ گا ..مخالفین کے لیے عام معافی کا اعلان کردیا گیا ہے ..ورنہ طالبان اور امن کی باتیں؟ یہ تو مخالفین کی عورتوں پر قبضہ کرنے اور انہیں لونڈیاں بنانے والے لوگ تھے ..مگر وقت نے انہیں بھی سکھا دیا ہے کہ امریکا اور مغرب سے دوستی ہی ان کے لیے فائدہ مند ہے
کیا وجہ ہے کہ بیس سال طالبان سے جنگ کرنے والی افغان فوج یا دھڑے اچانک ریت کی دیوار کی طرح اچانک پچھلے کچھ دنوں میں ڈھے گئے ..جیسا کہ ہرات کا کمانڈر اور سابق مجاہد اسمعیل ...کیونکہ وہ بیوقوف لوگ نہیں تھے ..انہیں پتا چل چکا تھا کہ امریکہ اور طالبان کی ڈیل ہوچکی ہے ..لہٰذا ان لوگوں نے طالبان سے اچھی شرائط پر ڈیل کرکے اپنا مستقبل بچایا اور لڑے بغیر اپنے علاقے طالبان کے حوالے کر دیے
ایک بات جس پر امریکا میں صدر بائیڈن پر تنقید ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ امریکی انخلا اور طالبان کو اقتدار دینے میں انتہائی برق رفتاری کی گئی ہے .. ..پلان تو یہ تھا کہ ابھی ایک دو مہینے انخلا میں لگیں گے اور طالبان آھستہ آہستہ اقتدار پر قابض ہونگے ...مگر مقامی طالبان مخالفین نے صورتحال بھانپتے ھوئے ..امریکی مرضی کے خلاف فوراً علاقے طالبان کو دے دیے ..جس پر صدر بائیڈن کو مجبوراً پانچ ہزار فوجیوں کو عارضی طور پر کابل بھیجنا پڑا تاکہ امریکی سفارت خانے کے عملے کا انخلا یقینی بنایا جائے ..طالبان سے ایک ڈیل کے بعد یہ ضروری تو نہ تھا مگر طالبان جس تیزی سے کابل تک آگئے، اس کے بعد کچھ خدشہ پیدا ہوگیا کہ شاید "ایمانی حرارت" کے نشے میں کچھ طالبان اپنی اوقات سے باہر ہو کر امریکی سفارت خانے پر حملہ نہ کردیں ... ایک سابقہ امریکی صدر ریگن کا ایک قول ہے
Trust but verify
یعنی طالبان سے ڈیل تو کرلی ہے ، ان پر اعتماد بھی کر لیا جاۓ مگر یہ ویریفائی بھی کیا جاۓ کہ طالبان ڈیل کی شرائط پوری کر رہے ہیں یا نہیں ..پانچ ہزار امریکی فوجیوں کی تعیناتی صرف حفظ ماتقدم کے طور پر تھی ..شنید یہی ہے کہ ڈیل پر حرف بحرف عمل ہو رہا ہے ..غالباً صرف اشرف غنی اور رشید دوستم نے ملک چھوڑا ہے ..ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، حامد کرزئی اور گلبدین حکمت یار وغیرہ ابھی بھی کابل میں ہی موجود ہیں اور طالبان سے مذاکرات کر رہے ہیں
پاکستان کو اس سارے قضیے میں کیا ملا؟ میری ذاتی رائے میں پاکستان سب سے بڑے لوزر کی صورت میں سامنے آیا ہے...پاکستان نے ہر ممکن کوشش کی کہ امریکا طالبان سے براہ راست مذاکرات نہ کرے اور اگر کرے بھی تو پاکستان کو اس میں شامل رکھا جاۓ ..پاکستان کی راۓ کو مقدم جانا جاۓ ..مگر امریکیوں نے پاکستان کو صاف جھنڈی کروا دی ..پاکستان نے ماضی میں اپنے آپ کو ایک ایسے اتحادی کے طور پر پیش کیا ہے جس نے اپنے ہی ساتھیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے ..امریکیوں سے ڈالر بھی لیے ..طالبان کے خلاف جنگ کرنے کا ناٹک بھی کیا مگر طالبان کی مدد بھی کی ..ان کے لیڈران کو پناہ بھی دی ...حقانی گروپ کی مالی اور اسلحہ سے مدد کی ..اور افغان حکومت کے لیے مشکلات پیدا کیں
اکثر پاکستانی سوال کرتے ہیں کہ امریکا پاکستان سے اس قسم کے معاہدے کیوں نہیں کرتا جیسے بھارت سے کرتا ہے ..یعنی نیوکلئیر انرجی یا تجارتی معاہدے وغیرہ ..اس کا جواب یہ ہے کہ تجارتی معاہدے دوستوں کے درمیان ہوتے ہیں ..افغانستان کے معاملے میں ہر قدم پر پاکستانیوں نے دو نمبری کی ہے ...پاکستانی قوم کے جذبات امریکیوں کے بارے میں عیاں ہیں ..یہ جذبات دوستی کے نہیں دشمنی کے ہیں ..اور دشمنوں کو کوئی فیور نہیں دیتا ..اس کے برعکس بھارتی عوام میں امریکا کی فیوریبلیٹی بہت اوپر ہے اور امریکیوں کو بھی پتا ہے اور جواب میں وہ بھارتی عوام پر مہربان بھی ہیں ..پاکستان نے امریکہ کے لیے کیا کیا ہے؟
پاکستانی حکومت فوج اور جرنیلوں کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ حالات واپس دو ہزار تین پر چلے جائیں ...یعنی امریکا افغانستان سے بیشک فوجیں بلوا لے مگر اشرف غنی کی حکومت کی مالی اور فوجی مدد جاری رکھے ..طالبان پر فضائی حملے جاری رکھے ..پاکستان کے فوجی اڈے استعمال کرکے ڈرون حملے شروع کرے ..یعنی ہر حال میں امریکا یہ ممکن بناۓ کہ طالبان کابل پر قبضہ نہ کرسکیں ...اس ساری صورتحال میں پاکستان کی بے تاج بادشاہ والی حیثیت واپس بحال ہوجاتی ...امریکی پاکستان سے فوجی اڈے مانگتے ..اس سے تعاون مانگتے ..اس پر ڈالرز کی بارش کرتے ..یعنی پھر وہی مشرف والا بابرکت دور امریکی ڈالروں سمیت واپس آجاتا
امریکیوں نے وقت سے یہی سیکھا کہ پاکستان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ..لہٰذا بہتر ہے کہ اسے سارے مذاکرات سے باہر رکھا جاۓ ..اور اسے ایک ٹکا بھی نہ دیا جاۓ ...یہی وجہ ہے کہ صدر بائیڈن نے بار بار دہائیوں کے باوجود عمران خان کو ایک بھی کال کرنا مناسب نہ سمجھا ...اس کی دو وجوہات تھیں ..ایک تو امریکیوں کو پاکستان پر شدید غصہ ہے اور دوسرا وہ عمران خان کو کٹھ پتلی حکمران سمجھتے ہیں ..اگر کچھ کام کروانا ہی ہے تو امریکی اول نائب وزیر دفاع براہ راست جنرل باجوہ کو فون کرکے وہ کام کروا لے گا ..عمران خان جیسے ڈمی حکمران سے بات کرنے اور فیور کی درخواست کرنے کی کیا ضرورت ہے ..میرے خیال میں اگر امریکی صدر نے عمران خان کو کال کی بھی تو وہ دھمکی دینے کے لیے ہو گی کہ بندے کے پتر بن کر رہو اور مزید افغانستان کو غیر مستحکم کرنے سے باز رہو ..یہ کال کوئی فیور لینے کے لیے نہیں ہو گی
مزید برآں پاکستان کی سفارتی ہزیمت کا اس سے بڑا سامان کیا ہو گا کہ پاکستان کے بار بار کے مطالبات کے باوجود سلامتی کونسل کے افغان امور پر ہونے والے اجلاس میں پاکستان کو مبصر کے طور پر بھی مدعو نہیں کیا گیا
عمران خان نے کچھ عرصہ قبل بھاؤ بڑھانے کے لیے خود ہی خبریں لیک کروائیں کہ امریکا پاکستان سے فوجی اڈے مانگ رہا ہے ..اور عمران خان نے "ایبسولوٹلی ناٹ" جیسی بڑکیں بھی لگائی تھیں .. توقع یہ تھی کہ امریکا مجبوری میں مالی امداد میں اضافہ کرے گا ..اور فوج خفیہ طور پر اڈے امریکیوں کو دے دے گی ..لیکن یہاں بھی پاکستانیوں کو منہ کی کھانی پڑی... امریکی اس دفعہ حقیقت میں طالبان سے صلح کرنے جارہے تھے اور انہیں ڈرون پروگرام کی ضرورت نہ تھی .... یہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ پاکستانی حکومت اور فوج امریکا اور طالبان کی ممکنہ صلح اور ڈیل سے مکمل بے خبر رہے ورنہ امریکی اڈوں کی درخواست کا انتظار نہ کرتے ..ایسی سفارتی بے خبری عام طور پر کسی بھی حکومت کے لیے ایک چارج شیٹ کے طور پر لی جاتی ہے مگر پاکستان میں ستے خیراں ہیں ..عوام کو کون کافر جواب دہ ہے
اور آخر میں کچھ الفاظ پاکستانی عوام کی اکثریت ، میڈیا اور حکومت کی منافقت پر
کیا کوئی آیت یا حدیث نہیں کہ تم اپنے بھائی کے لیے وہی چاہو جو اپنے لیے چاہتے ہو؟ اگر طالبان پسند ہیں تو صرف افغانستان میں ہی کیوں ..پاکستان میں کیوں نہیں ..پاکستان میں جمہوریت چاہیے انسانی حقوق چاہئیں مگر اپنے افغان بھائیوں کے لیے طالبانی شریعت ..یہ تضاد کیوں؟ مجھے یاد ہے کہ کوئی دس سال پہلے طالبان.. کے پی کے.. کے کئی علاقوں بونیر اور بنوں تک گھس آئے تھے ..وہاں تو آپ کی فوج نے ان پر ایف سولہ طیاروں کے ذریعے بمباری کرکے ان کا بینڈ باجا بجا دیا تھا ...جیسا آج کابل میں طالبان کی فتح کو فتح مکہ سے تعبیر کیا جارہا ہے ..اسلامآباد پر ان کے مارچ کو وہی پزیرائی کیوں نہ ملتی؟
ایک بات کا کریڈٹ میں افغان لوگوں کو ضرور دیتا ہوں کہ وہ اپنی زمین پر غیر ملکی تسلط کو تسلیم نہیں کرتے اور آخر دم تک لڑتے ہیں ...تاہم یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ سوویت یونین اور امریکا کو افغاننستان میں فوجی شکست نہیں ہوئی ..ورنہ مجاہدین ہوں یا طالبان ..صرف ایک ایٹم بم کی مار تھے ...افغانیوں نے صرف سوویت یونین اور امریکا کو یہ باور کروایا کہ انہیں غلام رکھنا ایک مہنگا سودا ہے اور امریکا اور روس دونوں قبضے کی قیمت ادا کرنا نہیں چاہتے تھے اور افغانستان چھوڑ گئے ...تصور کریں یہ اگر افغانستان میں ہیرے اور سونے کی کوئی کانیں ہوتیں تو امریکا سے یہ قبضہ چھڑوایا جا سکتا تھا؟ ..یہ افغانستان کی خوش قسمتی ہے کہ یہاں چھوٹی موٹی معدنیات کے علاوہ کچھ بھی نہیں اگتا ...ورنہ تاج برطانیہ نے ڈیڑھ سو سال برصغیر کی زرخیز زمین پر چند مقامی غداروں کے ذریعے حکومت کی... اور کروڑوں مقامی لوگ صرف پانچ ہزار برطانوی فوجیوں سے قبضہ نہ چھڑوا سکے ..الله بھلا کرے حضرت ہٹلر کا جس نے برطانیہ کو اتنا کمزور کردیا کہ وہ برصغیر پر قبضہ برقرار نہ رکھ سکا ..طالبان کی فتح کا کریڈٹ طالبان سے زیادہ افغانستان کی بنجر زمین کو جاتا ہے