شہبازگل کو وہیل چئیر پر جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا، ان سے سانس نہیں لیا جارہا تھا، ان کا ماسک بھی چھین لیا گیا تھا، جب کہ پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔
سوشل میڈیا پر شہباز گل کی ویڈیوز گردش کررہی ہیں، جس پرصحافیوں اور صارفین کی جانب سے انتظامیہ اور اسلام آباد پولیس پر شدید تنقید کی جارہی ہے، کہتے ہیں کہ اب تو تسکین ہو گئی ہو گی، اسلام آباد حکومت نے تمام حدود کراس کر دی ہیں۔
سینیٹر اعجاز چوہدری نے لکھا کہ اے زمین و آسمان کے مالک انسان کے سانسوں کا مالک تو ہے،شہباز گل کو اپنی جناب سے سانسیں عطا فرما آمین،
عامر متین نے سوال اٹھایا کہ شہباز گل کی عدالت پیشی پر انسداد دہشت گردی اسکواڈ کیوں؟
سعید بلوچ نے لکھا کہ اید عوام کو باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فاشسٹ رجیم ہے جس کا پبلک میں خوف ہونا چاہیے،
زبیر علی خان نے بتایا کہ شہباز گل نے عدالت میں بتایا ہے کہ مجھ سے آکسیجن ماسک چھین کر مجھے یہاں لایا گیا، میں دمے کا مریض ہوں مجھے آکسیجن کی سخت ضرورت ہے،
اوریا مقبول نے کہا "اس سے زیادہ انتظامی نااہلی کیا ہو سکتی ہے کہ شہباز گل کے جس بیان کو ادارے کی عزت پر حملہ تصور کیا گیا، عوام اسے بھول گئے اور اس پر تشدد آج اہم ترین موضوع بن چکا ہے ۔"
شہباز گل نے عدالت میں بتایا کہ ان کا ماسک چھین لیا گیا، سانس نہیں لیا جارہا، عدالت کے اطراف سیکیورٹی انتہائی سخت تھی، شہباز گل کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا باہر پولیس ایسے کھڑی ہے، جیسے کوئی بڑا دہشتگرد پیش ہورہا ہے۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ میں شہباز گل پر تشدد اور میڈیکل بورڈ کی تشکیل کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، عدالت نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
بابر اعوان نے دلائل میں کہا میڈیکل بورڈ میں ڈاکٹرز کو کچھ بیماریوں کا تجربہ نہیں، چاروں صوبوں کے ڈاکٹرز کے ساتھ پرائیویٹ میڈیکل بورڈبنانے کا مطالبہ کردیا، کہا عدالت بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔