کیا آپ نے کبھی خبر سنی کہ فلاں جگہ بائبل کو جلا دیا گیا، یا گیتا، رامائن، تلمود وغیرہ کو جلا دیا گیا؟ مگر آپ کو آئے روز یہ خبر سننے کو ملے گی کہ فلاں جگہ قرآن جلا دیا گیا، یا قرآن کی بے حرمتی کردی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خبر کسی کتاب کو جلانے پر نہیں بنتی، بلکہ تب بنتی ہے جب اس پر ری ایکشن آتا ہے۔ آپ پاکستان میں یا کسی بھی جگہ پر کھڑے ہوکر بائبل جلادیں، دنیا بھر میں کہیں بھی، کسی بھی ملک میں کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگے گی۔ مگر دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی بھی نامعلوم شخص اگر قرآن جلاتا ہے تو دنیا بھر کے مسلمان اس پر ہنگامہ مچادیتے ہیں، اپنے ہی ملکوں میں ہڑتالیں، جلوس اور توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔ کئی بار تو اپنے ہی ملکوں میں کسی بے گناہ کو پکڑ کر مار دیتے ہیں یا زندہ جلادیتے ہیں اس بنا پر کہ اس پر کسی نے قرآن کی بے حرمتی کا الزام لگایا ہوتا ہے۔
آج کی دنیا میں دیکھیں تو مسلمانوں کا یہ رویہ انتہائی بچگانہ ہے۔ دورِ حاضر میں دیگر قومیں اپنے بچگانہ رویے صدیوں پیچھے چھوڑ آئی ہیں۔ کبھی وہ قومیں بھی اسی طرح اپنی "مقدس" کتابوں کی بے حرمتی پر اچھل کود مچایا کرتی تھیں، لوگوں کو قتل کیا جاتا تھا۔ مگر رفتہ رفتہ جوں جوں انسانی علم اور شعور بڑھتا گیا، ان کو یہ سمجھ آگئی کہ انسانی جان سے بڑھ کر کوئی بھی کتاب نہیں اس لئے انہوں نے مذہبی کتابوں اور مذہبی شخصیات کے معاملے میں ہر قسم کی حساسیت کو ترک کردیا۔ نتیجہ کیا نکلا، ان معاشروں میں امن اور سکون ہوگیا۔ مذہبی سر پھٹول ختم ہوگئی۔ آپ کو کسی بھی یورپی ملک میں کہیں کوئی پاگل ہجوم نظر نہیں آئے گا جو بائبل کی توہین پر کسی کا گلا کاٹنے کے درپے ہو۔ کہیں کوئی کسی پر گستاخی کا الزام لگاتا نظر نہیں آئے گا۔ ہر کوئی اپنے مذہب، اپنے عقیدے اور اپنے سوچ کو اپنی ذات تک محدود رکھتا ہے۔
دوسری طرف مسلمانوں کا رویہ دیکھ لیں، دنیا کے کسی نامعلوم کونے پر قرآن جلانے کے واقعے کو اس قدر اچھالا جاتا ہے کہ اسلامی ملکوں کے سربراہان تک اس پر بیان داغ دیتے ہیں اور پھر ملکوں ملکوں احتجاج شروع ہوتا ہے، بائیکاٹ مہموں کا اعلان کیا جاتا ہے، کئی بے گناہوں کو قتل بھی کردیا جاتا ہے۔ مگر اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، کیا قرآن کی توہین ہونی بند ہوجاتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ آپ اعداد و شمار اٹھا کر دیکھ لیں، مسلمانوں کے اس رویے کے نتیجے میں مزید لوگ سامنے آکر قرآن جلاتے ہیں، پیغمبر اسلام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔عراق سے جان بچا کر بھاگاہوا ایک ایکس مسلم سلوان مومیکا تقریباً ہر روز یورپ میں کہیں نہ کہیں قرآن کو جلا رہا ہوتا ہے۔ سرگودھا میں گزشتہ روز ایک مسیحی کو جب قرآن جلانے کے الزام پر لوگوں نے تشدد کا نشانہ بنایا تو اس کے ری ایکشن میں ایک ایکس مسلم نے اپنے یوٹیوب چینل پر لائیو قرآن کی بے حرمتی کی اور اس کو جلایا۔یوٹیوب، ٹویٹر پر دیکھ لیں، جرمنی، فرانس، سویڈن، امریکہ، ناروے، کہاں کہاں قرآن نہیں جلایا جارہا ۔۔
کئی بچوں کو جب کوئی منہ چڑاتا ہے تو ان کو برا لگتا ہے وہ روتے پیٹتے اور ہلا مچاتے ہیں، اس پر منہ چڑانے والا بچہ رک نہیں جاتا، بلکہ مزید منہ چڑاتا ہے، بلکہ اس بچے کی چھیڑ کو جان کر اور بچے بھی اسے منہ چڑانے لگتے ہیں۔ مسلمانوں کا حال بھی ایسے ہی بچے کی طرح ہے۔ جب تک آپ قرآن جلانے پر وحشیوں جیسے رویوں کا اظہار کرتے رہیں گے تب تک لوگ قرآن کو جلاتے رہیں گے اور اس میں آئے دن اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ قرآن جلانا چھوڑ دیں تو آپ اپنے رویے نارمل کرلیں۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی شخص قرآن جلائے آپ اس پر ہرگز کوئی ری ایکشن نہ دیں۔ جب کہیں سے کوئی ری ایکشن ہی نہیں آئے گا تو قرآن جلانا خود بخود بند ہوجا ئے گا۔ فیصلہ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے، آپ نے نارمل انسانوں کی طرح رہنا ہے یا پھر صدیوں پرانے غاروں میں رہنے والے ان وحشیوں کی طرح رہنا ہے جو اپنے دیوی دیوتاؤں کو خوش کرنے کیلئے زندہ انسانوں کی قربانی دیا کرتے تھے۔۔
آج کی دنیا میں دیکھیں تو مسلمانوں کا یہ رویہ انتہائی بچگانہ ہے۔ دورِ حاضر میں دیگر قومیں اپنے بچگانہ رویے صدیوں پیچھے چھوڑ آئی ہیں۔ کبھی وہ قومیں بھی اسی طرح اپنی "مقدس" کتابوں کی بے حرمتی پر اچھل کود مچایا کرتی تھیں، لوگوں کو قتل کیا جاتا تھا۔ مگر رفتہ رفتہ جوں جوں انسانی علم اور شعور بڑھتا گیا، ان کو یہ سمجھ آگئی کہ انسانی جان سے بڑھ کر کوئی بھی کتاب نہیں اس لئے انہوں نے مذہبی کتابوں اور مذہبی شخصیات کے معاملے میں ہر قسم کی حساسیت کو ترک کردیا۔ نتیجہ کیا نکلا، ان معاشروں میں امن اور سکون ہوگیا۔ مذہبی سر پھٹول ختم ہوگئی۔ آپ کو کسی بھی یورپی ملک میں کہیں کوئی پاگل ہجوم نظر نہیں آئے گا جو بائبل کی توہین پر کسی کا گلا کاٹنے کے درپے ہو۔ کہیں کوئی کسی پر گستاخی کا الزام لگاتا نظر نہیں آئے گا۔ ہر کوئی اپنے مذہب، اپنے عقیدے اور اپنے سوچ کو اپنی ذات تک محدود رکھتا ہے۔
دوسری طرف مسلمانوں کا رویہ دیکھ لیں، دنیا کے کسی نامعلوم کونے پر قرآن جلانے کے واقعے کو اس قدر اچھالا جاتا ہے کہ اسلامی ملکوں کے سربراہان تک اس پر بیان داغ دیتے ہیں اور پھر ملکوں ملکوں احتجاج شروع ہوتا ہے، بائیکاٹ مہموں کا اعلان کیا جاتا ہے، کئی بے گناہوں کو قتل بھی کردیا جاتا ہے۔ مگر اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، کیا قرآن کی توہین ہونی بند ہوجاتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ آپ اعداد و شمار اٹھا کر دیکھ لیں، مسلمانوں کے اس رویے کے نتیجے میں مزید لوگ سامنے آکر قرآن جلاتے ہیں، پیغمبر اسلام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔عراق سے جان بچا کر بھاگاہوا ایک ایکس مسلم سلوان مومیکا تقریباً ہر روز یورپ میں کہیں نہ کہیں قرآن کو جلا رہا ہوتا ہے۔ سرگودھا میں گزشتہ روز ایک مسیحی کو جب قرآن جلانے کے الزام پر لوگوں نے تشدد کا نشانہ بنایا تو اس کے ری ایکشن میں ایک ایکس مسلم نے اپنے یوٹیوب چینل پر لائیو قرآن کی بے حرمتی کی اور اس کو جلایا۔یوٹیوب، ٹویٹر پر دیکھ لیں، جرمنی، فرانس، سویڈن، امریکہ، ناروے، کہاں کہاں قرآن نہیں جلایا جارہا ۔۔
کئی بچوں کو جب کوئی منہ چڑاتا ہے تو ان کو برا لگتا ہے وہ روتے پیٹتے اور ہلا مچاتے ہیں، اس پر منہ چڑانے والا بچہ رک نہیں جاتا، بلکہ مزید منہ چڑاتا ہے، بلکہ اس بچے کی چھیڑ کو جان کر اور بچے بھی اسے منہ چڑانے لگتے ہیں۔ مسلمانوں کا حال بھی ایسے ہی بچے کی طرح ہے۔ جب تک آپ قرآن جلانے پر وحشیوں جیسے رویوں کا اظہار کرتے رہیں گے تب تک لوگ قرآن کو جلاتے رہیں گے اور اس میں آئے دن اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ قرآن جلانا چھوڑ دیں تو آپ اپنے رویے نارمل کرلیں۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی شخص قرآن جلائے آپ اس پر ہرگز کوئی ری ایکشن نہ دیں۔ جب کہیں سے کوئی ری ایکشن ہی نہیں آئے گا تو قرآن جلانا خود بخود بند ہوجا ئے گا۔ فیصلہ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے، آپ نے نارمل انسانوں کی طرح رہنا ہے یا پھر صدیوں پرانے غاروں میں رہنے والے ان وحشیوں کی طرح رہنا ہے جو اپنے دیوی دیوتاؤں کو خوش کرنے کیلئے زندہ انسانوں کی قربانی دیا کرتے تھے۔۔
