پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کا کہنا ہے کہ سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت ایک حقیقت اور ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
بی بی سی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو کے دوران پاکستان کی فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت کے الزامات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا کہنا تھا کہ لوگ فوج کے سیاسی معاملات میں مداخلت پر خفا ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’اس مداخلت سے لوگ ناراض ہیں۔ عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ (ان کے بارے میں) یہ تاثر ہے کہ یہ خود نہیں آئے، یہ تو خاکی بوجھ لے کر آئے ہیں۔ کچھ لوگ تاریخ سے نہیں سیکھتے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی تاریخ بنائیں گے۔‘
اسد درانی کے مطابق ’فوج کی مداخلت تو ہے۔ ہونی چاہیے یا نہیں یہ وہ بحث ہے جو آج تک کسی سمت نہیں بیٹھی ہے۔ تجربہ بھی یہی ہے کہ جب بھی فوج نے مداخلت کی تو دیکھنے میں آیا کہ جن سیاسی جماعتوں کو باہر رکھنے کی کوشش کی گئی وہ واپس آ گئیں۔‘
انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’جیسے کہ ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو باہر رکھنا تھا، وہ واپس آ گئے اور منتخب ہو گئے۔ ضیا الحق کے بعد بی بی (بینیظر بھٹو) تشریف لائیں، مشرف جیسے ہی نکلے ہیں تو جن دو جماعتوں کو ان کا خیال تھا باہر رکھنا چاہیے، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز، دونوں جماعتیں الیکشن لڑ کر منتخب ہو گئیں۔ تو یہ (مداخلت) اتنی نقصان دہ ہے، جب آپ (سیاسی) انجینیئرنگ کریں۔‘
’پاکستان کو اندرونی مسائل کا سامنا ہے‘
جہاں رہی بات موجودہ حکومت کے خلاف متحدہ اپوزیشن (پی ڈی ایم) کے جاری جلسوں کی تو حزب مخالف کی جماعتوں کے رہنما فوج پر سیاسی معاملات میں مداخلت کی بات کر رہے ہیں۔
سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے پی ڈی ایم کے ایک جلسے کے دوران براہِ راست پاکستانی فوج کے سربراہ پر ان کی حکومت کو گرانے اور سنہ 2018 کے انتخابات میں عمران خان کو کامیاب کروانے کا الزام عائد کیا تھا۔ انھوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ فوج کے کہنے پر عدلیہ ان کے خلاف مقدمات چلا رہی ہے۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے اسد درانی نے کہا کہ ’جب یہ (فوج) نہیں ہوتے تب بھی لگتا ہے کہ ان کا کوئی کردار ہے۔ آئی ایس آئی ایک ایسا ادارہ ہے جو بنیادی طور پر غیر ملکی انٹیلیجنس (کو کاؤنٹر کرنے) کے لیے ہے۔ کیونکہ اس میں زیادہ تر فوج کے لوگ شامل ہیں اور حاضر سروس افسران ہیں، خاص طور سے ان کا سربراہ۔ تو اگر اس قسم کی (سیاسی انجینیئرنگ) کا کام ان کو مل جائے، زیادہ یا کم، تو ضرور کر سکتے ہیں۔‘
پی ڈی ایم کی تحریک سے متعلق انھوں نے کہا کہ ’مولانا فضل الرحمان کا تجربہ اس فیلڈ میں ہم سب سے زیادہ ہے۔ وہ دھرنا کرنے کے لیے ان (یعنی آئی ایس آئی) کی بات کیوں سنیں گے۔ عام تاثر یہی ہے کہ آئی ایس آئی کے بغیر (دھرنا) نہیں ہو سکتا۔ جیسے اس سے پہلے کہا جاتا تھا کہ امریکہ کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔‘
پاکستان کی حالیہ صورتحال پر ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کو اندرونی مسائل کا سامنا ہے اور مسائل ہمیشہ رہتے ہیں۔ ایک بات تو پکی ہے کہ سب سے زیادہ خطرناک مسئلہ ہوتا بھی اندر ہی ہے۔‘
اسد درانی نے مزید کہا کہ ’اس وقت سیاسی طور پر کچھ لوگ ناراض ہیں۔ کچھ علاقے، جیسا کہ بلوچستان، میں بدامنی ہے۔ سیاسی طور پر اجنبیت کا سامنا ہے۔‘’معیشت واقعی خراب ہے۔ یہ نہیں کہ معیشت ٹھیک ہو جائے تو سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ لیکن جب حکومت پر اعتبار نہ ہو اور کہا جائے کہ یہ تو فوج لے کر آئی ہے اور یہ کیسا لیڈر ہے جو ہر چیز پر کہتا ہے کہ جی میں یوٹرن لوں گا تو لیڈر بن جاؤں گا ورنہ نہیں بنوں گا۔ ہر چیز پر واپس ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی حکومت پر اعتبار تو نہیں رہتا۔ اب یہ ہوا ہے کہ یہ تمام تر مسائل ایک ساتھ اکٹھا ہو گئے ہیں۔‘
بی بی سی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو کے دوران پاکستان کی فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت کے الزامات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا کہنا تھا کہ لوگ فوج کے سیاسی معاملات میں مداخلت پر خفا ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’اس مداخلت سے لوگ ناراض ہیں۔ عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ (ان کے بارے میں) یہ تاثر ہے کہ یہ خود نہیں آئے، یہ تو خاکی بوجھ لے کر آئے ہیں۔ کچھ لوگ تاریخ سے نہیں سیکھتے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی تاریخ بنائیں گے۔‘
اسد درانی کے مطابق ’فوج کی مداخلت تو ہے۔ ہونی چاہیے یا نہیں یہ وہ بحث ہے جو آج تک کسی سمت نہیں بیٹھی ہے۔ تجربہ بھی یہی ہے کہ جب بھی فوج نے مداخلت کی تو دیکھنے میں آیا کہ جن سیاسی جماعتوں کو باہر رکھنے کی کوشش کی گئی وہ واپس آ گئیں۔‘
انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’جیسے کہ ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو باہر رکھنا تھا، وہ واپس آ گئے اور منتخب ہو گئے۔ ضیا الحق کے بعد بی بی (بینیظر بھٹو) تشریف لائیں، مشرف جیسے ہی نکلے ہیں تو جن دو جماعتوں کو ان کا خیال تھا باہر رکھنا چاہیے، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز، دونوں جماعتیں الیکشن لڑ کر منتخب ہو گئیں۔ تو یہ (مداخلت) اتنی نقصان دہ ہے، جب آپ (سیاسی) انجینیئرنگ کریں۔‘
’پاکستان کو اندرونی مسائل کا سامنا ہے‘
جہاں رہی بات موجودہ حکومت کے خلاف متحدہ اپوزیشن (پی ڈی ایم) کے جاری جلسوں کی تو حزب مخالف کی جماعتوں کے رہنما فوج پر سیاسی معاملات میں مداخلت کی بات کر رہے ہیں۔
سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے پی ڈی ایم کے ایک جلسے کے دوران براہِ راست پاکستانی فوج کے سربراہ پر ان کی حکومت کو گرانے اور سنہ 2018 کے انتخابات میں عمران خان کو کامیاب کروانے کا الزام عائد کیا تھا۔ انھوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ فوج کے کہنے پر عدلیہ ان کے خلاف مقدمات چلا رہی ہے۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے اسد درانی نے کہا کہ ’جب یہ (فوج) نہیں ہوتے تب بھی لگتا ہے کہ ان کا کوئی کردار ہے۔ آئی ایس آئی ایک ایسا ادارہ ہے جو بنیادی طور پر غیر ملکی انٹیلیجنس (کو کاؤنٹر کرنے) کے لیے ہے۔ کیونکہ اس میں زیادہ تر فوج کے لوگ شامل ہیں اور حاضر سروس افسران ہیں، خاص طور سے ان کا سربراہ۔ تو اگر اس قسم کی (سیاسی انجینیئرنگ) کا کام ان کو مل جائے، زیادہ یا کم، تو ضرور کر سکتے ہیں۔‘
پی ڈی ایم کی تحریک سے متعلق انھوں نے کہا کہ ’مولانا فضل الرحمان کا تجربہ اس فیلڈ میں ہم سب سے زیادہ ہے۔ وہ دھرنا کرنے کے لیے ان (یعنی آئی ایس آئی) کی بات کیوں سنیں گے۔ عام تاثر یہی ہے کہ آئی ایس آئی کے بغیر (دھرنا) نہیں ہو سکتا۔ جیسے اس سے پہلے کہا جاتا تھا کہ امریکہ کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔‘
پاکستان کی حالیہ صورتحال پر ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کو اندرونی مسائل کا سامنا ہے اور مسائل ہمیشہ رہتے ہیں۔ ایک بات تو پکی ہے کہ سب سے زیادہ خطرناک مسئلہ ہوتا بھی اندر ہی ہے۔‘
اسد درانی نے مزید کہا کہ ’اس وقت سیاسی طور پر کچھ لوگ ناراض ہیں۔ کچھ علاقے، جیسا کہ بلوچستان، میں بدامنی ہے۔ سیاسی طور پر اجنبیت کا سامنا ہے۔‘’معیشت واقعی خراب ہے۔ یہ نہیں کہ معیشت ٹھیک ہو جائے تو سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ لیکن جب حکومت پر اعتبار نہ ہو اور کہا جائے کہ یہ تو فوج لے کر آئی ہے اور یہ کیسا لیڈر ہے جو ہر چیز پر کہتا ہے کہ جی میں یوٹرن لوں گا تو لیڈر بن جاؤں گا ورنہ نہیں بنوں گا۔ ہر چیز پر واپس ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی حکومت پر اعتبار تو نہیں رہتا۔ اب یہ ہوا ہے کہ یہ تمام تر مسائل ایک ساتھ اکٹھا ہو گئے ہیں۔‘
اسد درانی:سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت ایک حقیقت مگر ملک کے لیے نقصان دہ - BBC News اردو
سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کا کہنا ہے کہ عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ ان کے بارے میں یہ تاثر قائم ہونا ہے کہ یہ خود نہیں آئے بلکہ خاکی بوجھ لے کر آئے ہیں، کچھ لوگ تاریخ سے نہیں سیکھتے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی تاریخ بنائیں گے۔
www.bbc.com