جہانگیر خان ترین ، سیاسی جمعدار اپنے درجن بھر چوڑوں کے ساتھ
لوگوں کو شائد یاد ہو کہ نہ یاد ہو ، میں جہانگیر خان ترین کو تحریک انصاف کا " سیاسی جمعدار " لکھتا تھا . جہانگیر خان ترین پیپلز پارٹی اور اردگرد کا سارا کاٹھ کباڑ اکھٹا کر کے تحریک انصاف میں جمع کرتے رہے . جب کراچی سے ڈاکٹر لیاقت حسین کو تحریک انصاف کی ٹکٹ دی گئی تھی ، اس وقت بھی میں نے سیاست پی کے پر مخالفت کی تھی . آجکل موصوف کو ٹھنڈ ہے ورنہ وہ رسی ہوئی بہو کی طرح ہمیشہ ناراض ہی رہتی تھی . ڈاکٹر لیاقت کو منسٹری نہ ملنے کا غم تھا . آج بھی وہ شکوہ شکایت کرتے نظر اتے ہیں . عمران خان صاحب اپنے سپپورٹر کو نظریاتی کارکن بننے کا درس دیتے رہے اور خود "نظریہ ضرورت " کا شکار ہو گئے . میں اس موقف پر بہت عرصہ قائم رہا کے عمران خان اپنے مخالفین کو مات دے چکے ہیں لھذا وہ الیکشن اپنے بلبوتے پر جیت سکتے ہیں . آخر میں خود کو یہ کہ کر تسلی دینی پڑی کے " جیسا دیس ویسا بھیس " کے تحت عمران خان کی اسٹریٹجی ٹھیک تھی . حقیقت بھی ہے الیکشن کمیشن، جنرلوں کی الیکشن انجینرنگ اور الیکٹ ایبلز پاکستانی کی سیاسی تاریخ کی ایک تلخ حقیقت ہیں . کمپیوٹر پر بیٹھ کر نظریاتی ہونا ایک چیز ہے ، گراؤنڈ ریلیٹی اکثر مختلف ہوتی ہے . آخر میں وہی ہوا جسکے خدشات تھے . ایک کے بعد دوسرا سیاسی اتحادی شراکت دار " یہ ڈولی نہیں اٹھے گی جب تک ہمیں مطلوبہ جہیز نہیں ملتا " کے مصداق عمران خان کو بلیک میل کرتے رہے . نمبرز گیم کی ساخت دیکھ کر میں بہت شروع میں اندازہ کر چکا تھا کے عمران خان کے ہاتھ پیر باندھ کر حکومت دی گئی ہے لھذا عمران خان کو مڈ ٹرم الیکشن کی طرف جانا ناگزیز ہو گا
بات اب جہانگیر خان ترین تک ا پونھچی ہے . سیاسی جمعدار اپنے درجن بھر چوڑوں کے ساتھ پی ڈی ایم کے بعد ایک نیا سیاسی سیاسی تھیٹر میدان میں لگا چکے ہیں . سیاسی جمعدار نے اسلام آباد کے سینیٹ الیکشن میں اپنے پتے شو کروا دئے تھے اور کھل کر عمران خان کے سامنے ا چکے تھے . بگلول صحافی رؤف کلاسرہ کے تجزیہ کے مطابق عمران خان نے جہانگیر خان ترین کو میدان میں دوبارہ اتارا تھا حالانکہ صورت حال یکثر مختلف تھی . خواجہ کا گواہ ڈڈو ، دنیا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کے جہانگیر خان کا دفاع کرنے والا فیصل آباد کا احمق ترین الیکٹ ایبل راجہ ریاض تھا . وہی جاہل راجہ ریاض جو کہتا تھا " ہمارے پوسٹر انہوں نے پاڑدئے ہیں " وہی راجہ ریاض جو اسمبلی میں لکھی ہوئی انگلش تحریر پڑھنا اسکے سوہان روح بن گیا تھا . سیاسی جمعدار کے زیادہ تر چوڑوں نے تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا تھا اور آج انکا لیڈر جہانگیر خان ترین ہے
الله کا شکر ہے ، ایک ایک کر کے تمام غدار اپنی پہچان کروا رہے ہیں . یہ پیٹھ میں چھرا گھوپنے سے بدرجہ بہتر ہے . اسلام آباد کی سینیٹ سیٹ پر تو یہ پہلے ہی وار کر چکے ہیں جسکے ہارنے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا
لوگوں کو شائد یاد ہو کہ نہ یاد ہو ، میں جہانگیر خان ترین کو تحریک انصاف کا " سیاسی جمعدار " لکھتا تھا . جہانگیر خان ترین پیپلز پارٹی اور اردگرد کا سارا کاٹھ کباڑ اکھٹا کر کے تحریک انصاف میں جمع کرتے رہے . جب کراچی سے ڈاکٹر لیاقت حسین کو تحریک انصاف کی ٹکٹ دی گئی تھی ، اس وقت بھی میں نے سیاست پی کے پر مخالفت کی تھی . آجکل موصوف کو ٹھنڈ ہے ورنہ وہ رسی ہوئی بہو کی طرح ہمیشہ ناراض ہی رہتی تھی . ڈاکٹر لیاقت کو منسٹری نہ ملنے کا غم تھا . آج بھی وہ شکوہ شکایت کرتے نظر اتے ہیں . عمران خان صاحب اپنے سپپورٹر کو نظریاتی کارکن بننے کا درس دیتے رہے اور خود "نظریہ ضرورت " کا شکار ہو گئے . میں اس موقف پر بہت عرصہ قائم رہا کے عمران خان اپنے مخالفین کو مات دے چکے ہیں لھذا وہ الیکشن اپنے بلبوتے پر جیت سکتے ہیں . آخر میں خود کو یہ کہ کر تسلی دینی پڑی کے " جیسا دیس ویسا بھیس " کے تحت عمران خان کی اسٹریٹجی ٹھیک تھی . حقیقت بھی ہے الیکشن کمیشن، جنرلوں کی الیکشن انجینرنگ اور الیکٹ ایبلز پاکستانی کی سیاسی تاریخ کی ایک تلخ حقیقت ہیں . کمپیوٹر پر بیٹھ کر نظریاتی ہونا ایک چیز ہے ، گراؤنڈ ریلیٹی اکثر مختلف ہوتی ہے . آخر میں وہی ہوا جسکے خدشات تھے . ایک کے بعد دوسرا سیاسی اتحادی شراکت دار " یہ ڈولی نہیں اٹھے گی جب تک ہمیں مطلوبہ جہیز نہیں ملتا " کے مصداق عمران خان کو بلیک میل کرتے رہے . نمبرز گیم کی ساخت دیکھ کر میں بہت شروع میں اندازہ کر چکا تھا کے عمران خان کے ہاتھ پیر باندھ کر حکومت دی گئی ہے لھذا عمران خان کو مڈ ٹرم الیکشن کی طرف جانا ناگزیز ہو گا
بات اب جہانگیر خان ترین تک ا پونھچی ہے . سیاسی جمعدار اپنے درجن بھر چوڑوں کے ساتھ پی ڈی ایم کے بعد ایک نیا سیاسی سیاسی تھیٹر میدان میں لگا چکے ہیں . سیاسی جمعدار نے اسلام آباد کے سینیٹ الیکشن میں اپنے پتے شو کروا دئے تھے اور کھل کر عمران خان کے سامنے ا چکے تھے . بگلول صحافی رؤف کلاسرہ کے تجزیہ کے مطابق عمران خان نے جہانگیر خان ترین کو میدان میں دوبارہ اتارا تھا حالانکہ صورت حال یکثر مختلف تھی . خواجہ کا گواہ ڈڈو ، دنیا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کے جہانگیر خان کا دفاع کرنے والا فیصل آباد کا احمق ترین الیکٹ ایبل راجہ ریاض تھا . وہی جاہل راجہ ریاض جو کہتا تھا " ہمارے پوسٹر انہوں نے پاڑدئے ہیں " وہی راجہ ریاض جو اسمبلی میں لکھی ہوئی انگلش تحریر پڑھنا اسکے سوہان روح بن گیا تھا . سیاسی جمعدار کے زیادہ تر چوڑوں نے تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا تھا اور آج انکا لیڈر جہانگیر خان ترین ہے
الله کا شکر ہے ، ایک ایک کر کے تمام غدار اپنی پہچان کروا رہے ہیں . یہ پیٹھ میں چھرا گھوپنے سے بدرجہ بہتر ہے . اسلام آباد کی سینیٹ سیٹ پر تو یہ پہلے ہی وار کر چکے ہیں جسکے ہارنے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا
کیا صدیق جان ، جہانگیر خان ترین کے پے رول پر ہے ؟
4:20
کے بعد کی ویڈیو دیکھیں . کیا یہ محض حسن اتفاق ہے کے یہ ویڈیو ٤٢٠ سے شروع ہوتی ہے . اس میں صدیق جان کہنا ہے
" شہزاد اکبر نے گزشتہ تین سالوں میں سینکڑوں کیسز لوگوں کے خلاف بنانے ہیں مگر نہ کسی کیس کا فیصلہ ہوا اور نہ ایک روپیہ برآمد ہوا ہے "
مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں لگتا کے صدیق جان کی پھرتیاں یہ واضح طور پر ثابت کر رہی ہیں کے موصوف جہانگیر خان ترین کی جیب میں ہے . ظاہر ہے صدیق جان ایک جاندار صحافی ہے اور تحریک انصاف کے سپوٹرز کا پسندیدہ مگر مجھے اچھے سنگل نہیں مل رہے ہیں . آپلوگوں کو پتا ہے کہ میں صحافی نہیں ہوں اور نہ حلقہ صحافت میں میرے کسی قسم کے روابط ہیں . میں مشاہدات کی بنیاد پر لکھتا ہوں
جہانگیر خان ترین کی پھرتیوں نے انکی عشروں کی ساکھ کو مٹی میں ملا دیا ہے . ہرپاکستانی صحافی جہانگیر خان کی اس حرکت پر ششدر ہے . وہ لاکھ وضاحتیں دیں ، تیر کمان سے نکل کر اپنے منطقی انجام کی طرف گامزن ہے . تیر نشانے پر لگتا ہے یا نہیں
ہمیں یہ پتا ہے کے ".......یہ وقت صرف عمران خان کا ہے
صدیق جان کی پھرتیاں بھی موصوف کو ننگا کر رہی ہیں . یہ احمق سے احمق آدمی بھی جانتا ہے کے شہزار اکبر کا کام شواہد اکھٹا کر کے متعلقہ اداروں کو دینا ہے . ان شواہد کے بعد بریسٹر شہزاد اکبر کا کام ختم اور متعلقہ اداروں کا کام شروع ہو جاتا ہے . یہ ایسا ہے جیسے جائنٹ انویسٹیگیشن رپورٹ پاکستان کے جانبازوں نے نواز شریف کیس میں عدلیہ کو ١٠ والیوم کی شکل میں ضخیم رپورٹس پیش کی تھیں مگر جج حضرات نے وہ تمام انکوائری شیلف کر دی تھیں اور پانامہ کا فیصلہ اقامہ پر کر دیا تھا . اب جان جوکھوں میں ڈال کر تنقیش کاروں نے جو محنت کی تھی ، وہ وقتی طور پر رائیگا ں تھی . اس میں انکا تنقیش کاروں کا کیا قصور ؟
Jahangir Tareen's possible arrest and a sigh of relief for the PDM | Shahzad Akbar | Siddique Jaan - YouTube
کے بعد کی ویڈیو دیکھیں . کیا یہ محض حسن اتفاق ہے کے یہ ویڈیو ٤٢٠ سے شروع ہوتی ہے . اس میں صدیق جان کہنا ہے
" شہزاد اکبر نے گزشتہ تین سالوں میں سینکڑوں کیسز لوگوں کے خلاف بنانے ہیں مگر نہ کسی کیس کا فیصلہ ہوا اور نہ ایک روپیہ برآمد ہوا ہے "
مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں لگتا کے صدیق جان کی پھرتیاں یہ واضح طور پر ثابت کر رہی ہیں کے موصوف جہانگیر خان ترین کی جیب میں ہے . ظاہر ہے صدیق جان ایک جاندار صحافی ہے اور تحریک انصاف کے سپوٹرز کا پسندیدہ مگر مجھے اچھے سنگل نہیں مل رہے ہیں . آپلوگوں کو پتا ہے کہ میں صحافی نہیں ہوں اور نہ حلقہ صحافت میں میرے کسی قسم کے روابط ہیں . میں مشاہدات کی بنیاد پر لکھتا ہوں
جہانگیر خان ترین کی پھرتیوں نے انکی عشروں کی ساکھ کو مٹی میں ملا دیا ہے . ہرپاکستانی صحافی جہانگیر خان کی اس حرکت پر ششدر ہے . وہ لاکھ وضاحتیں دیں ، تیر کمان سے نکل کر اپنے منطقی انجام کی طرف گامزن ہے . تیر نشانے پر لگتا ہے یا نہیں
ہمیں یہ پتا ہے کے ".......یہ وقت صرف عمران خان کا ہے
صدیق جان کی پھرتیاں بھی موصوف کو ننگا کر رہی ہیں . یہ احمق سے احمق آدمی بھی جانتا ہے کے شہزار اکبر کا کام شواہد اکھٹا کر کے متعلقہ اداروں کو دینا ہے . ان شواہد کے بعد بریسٹر شہزاد اکبر کا کام ختم اور متعلقہ اداروں کا کام شروع ہو جاتا ہے . یہ ایسا ہے جیسے جائنٹ انویسٹیگیشن رپورٹ پاکستان کے جانبازوں نے نواز شریف کیس میں عدلیہ کو ١٠ والیوم کی شکل میں ضخیم رپورٹس پیش کی تھیں مگر جج حضرات نے وہ تمام انکوائری شیلف کر دی تھیں اور پانامہ کا فیصلہ اقامہ پر کر دیا تھا . اب جان جوکھوں میں ڈال کر تنقیش کاروں نے جو محنت کی تھی ، وہ وقتی طور پر رائیگا ں تھی . اس میں انکا تنقیش کاروں کا کیا قصور ؟
Jahangir Tareen's possible arrest and a sigh of relief for the PDM | Shahzad Akbar | Siddique Jaan - YouTube