ذکر پاکستان اور پاکستانی سیاست کا ہورہا ہے تو ذرا پاکستان سے کوئی مثال دے دیجئے، غداروطن ڈکلیئر کئے جانے والے کتنے لوگ انفرادی طور پر لوگوں نے موت کے گھاٹ اتارے؟۔ دوسری طرف جن پر مذہبی الزامات لگے، توہین رسالت وغیرہ کے ان کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیں۔
جب پاکستان میں سیکولرزم ہی نہیں تو اسکی مثال پاکستان کے تقابل میں کسی دوسرے ملک کی ہی دی جاسکتی ہے۔ مسئلہ انتہا پسندی کے گرد گھومتا ہے جو کہیں بھی کسی بھی طرح پھیلائی جاتی ہے۔
ویسے تو خیر بینظیر اور خان لیاقت علی خان بھی مثالیں ہیں، لیکن پھر بھی، اگر آپ یہ کہیں کہ اگر ریاست سیکولر ہو تو اسطرح کے مسائل جنم نہیں لیتے، تو اس کے ضمن میں پڑوسیوں کے گاندھیوں کی تاریخ دیکھ لی جائے تو سبق آموز ہے۔
بیت المال، لنگر خانے وغیرہ یہ ریاست کے فلاحی پہلو کے زمرے میں آتے ہیں فی الحال ہم بات کررہے ہیں معاشی ڈھانچے کی۔۔ آپ کو علم ہونا چاہئے کہ معاشی ڈھانچے / معاشی نظام سے کیا مراد ہے۔۔
جی مجھے تو اندازہ ہے کہ معاشی نظام کیا ہوتا ہے، لیکن مجھے یقین کی حد تک گمان ہے کہ آپکو نہیں اندازہ کہ اسلامی معاشی نظام میں بیت المال کا کیا کردار ہوتا ہے۔ مارکس اور ایڈم اسمتھ آپکو ازبر ہونگے، لیکن لگتا ہے کہ آپ نے کبھی خود اسلامی معاشی نظام کو پڑھا ہی نہیں اور بیٹھ گئے ہیں تنقید کرنے۔ کچھ اشارے میں یہاں دے رہا ہوں، کچھ کوشش خود بھی فرما لیں تو شائد کوئی کام کا تنقیدی نقطہ بھی سامنے آئے۔
Bayt al-Mal
House of money. Historically, a
financial institution responsible for the administration of taxes. Acted as
royal treasury for caliphs and sultans,
managing personal finances and government expenditures. Administered distribution of zakah (obligatory alms)
revenues for public works. Modern Islamic economists deem the institutional framework appropriate for Islamic society.
Diwan
Central administration of Islamic state or specific branch of government, typically headed by a vizier. States typically had chancellery, financial, and military diwans, with separate diwans for pious foundations,
fiefs, taxes, alms,
customs, and administration. In literary circles, the term refers to a collection of poetry or prose. In the bureaucratic world, it refers to an archival register.
ایک عرصہ تک سرمایہ دارانہ نظام دنیا پر حاوی رہا (اور اب بھی ہے) جس میں دولت کی مساوی تقسیم نہ تھی، بلکہ کوئی بھی کثیر سرمائے کا مالک بن سکتا تھا / ہے ۔ جس میں شے / کماڈٹی کی قیمت کا تعین طلب اور رسد (سپلائی اینڈ ڈیمانڈ) کے فارمولے سے ہوتا ہے۔ اس کے مقابل چونکہ کوئی دوسرا نظام نہ تھا، اس لئے یہ نظام ہر جگہ اپنے پنجے گاڑتا گیا۔
کیا کہیں قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ یہ معاشرتی تفریق لوگوں میں اسلیئے ہے کہ یہ ایک دوسرے سے کام لے سکیں؟
کیا عشر میں یہ درجہ بندی ہے کہ جو شخص صرف سرمایہ لگائے اور کوئی دوسرا کام نہ کرے تو اس کے لیئے عشر کا حصّہ مختلف ہے؟
کیا کہیں اسلام میں ذخیرہ اندوزی کو منع کر کے سپلائی اور ڈیمانڈ کے اصولوں کو وضع کیا گیا ہے؟
۔ پھر کارل مارکس آیا اس نے داس کیپٹل لکھی اور سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں اشتراکی نظام دیا۔ اس نے کہا غربت اور غریبوں کے استحصال کی اصل وجہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سرمائے کا چند ہاتھوں میں ارتکاز ہے، جس کا حل اس نے دیا کہ ذرائع پیداوار انفرادی ملکیت نہیں ہوں گے، یہ ریاست کی ملکیت ہوں گے، زمین نجی ملکیت نہیں ہوگی یہ بھی ریاست کی ملکیت ہوگی،
کیا حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے دور میں اجارۃ نام کی کوئی چیز ہوتی تھی؟ کیا آپکو کچھ علم ہے اس بارے میں؟
Literally, the words “Bayt al-Mal” is a combination of two nouns, namely, “Bayt” which means House and “al-Mal” which means the wealth. The meaning of the compo
poseidon01.ssrn.com
کسی بھی شے کی قیمت کا تعین طلب اور رسد کے پیمانے سے نہیں بلکہ اس پر کی گئی انسانی محنت سے ہوگا اور انسانی محنت کو ماپنے کا بھی اس نے فارمولا دیا (ضروری سماجی محنت والا) ۔ کارل مارکس کے مطابق اشتراکیت کے پہلے فیز (یعنی سوشلزم میں) ریاست کے شہریوں کو معاوضہ ان کی محنت کے مطابق ملے گا اور دوسرے اور آخری فیز (یعنی کمیونزم میں) ریاست رفتہ رفتہ بتدریج تحلیل ہوجائے گی اور چونکہ سرمائے کی فراوانی ہوگی اس لئے ریاست کے شہریوں کو معاوضہ ان کی محنت کی بجائے ضرورت کے مطابق ملے گا۔۔ یہ تو چند موٹی موٹی باتیں ہیں، مگر کارل مارکس نے کمیونزم کا جو معاشی فلسفہ دیا ہے اس کو اس نے موٹی موٹی کتابیں لکھ کر بے شمار مضامین لکھ کر نہایت ہی باریکی اور جزیات کے ساتھ تمام پہلوؤں کی تفصیل بیان کی ہے ۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کو ہم ایک معاشی نظام کہہ سکتے ہیں جس کے خدو خال نہایت تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں، یہ نظام کامیاب ہے یا نہیں یہ الگ بحث ہے اس کا ہمارے موضوع سے تعلق نہیں۔۔
اچھا تو آپکو گلہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے کارل مارکس کی طرح موٹی موٹی کتابیں لکھ کر اکنامکس کی جزویات پر بحث نہیں کی۔ بھئی اسلام صرف اصول وضع کرتا ہے۔ جزویات کے لیئے انسان کواپنی عقل سے نوازا گیا ہے۔
اب جیسے اصول وضع کردیا گیا کہ سود حرام ہے، تو اسکا مطلب یہی ہے کہ سرمایہ کاری منافع اور نقصان کی اشتراکیت کی صورت میں جائز ہے اور اسکا آپ کوئی بھی نظام بنا سکتے ہیں جو وقت، حالات اور جگہہ کے حساب سے قابلِ قبول ہو۔
پھر اسی طرح، چیزوں کی قیمت کا اندازے کا طریقہ کار بھی وضع ہے۔ کیا حضورؐ کے دور میں کرنسی نہیں ہوتی تھی؟ تو پھر زکوٰۃ اور فطرانہ کے لیئے سونا، چاندی، گیہوں اور دیگر اجناس سے موازنے کا اصول کیوں؟
اب معاملہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے حامیوں کے پاس آدم سمتھ کی ویلتھ آف نیشن ہے اور اس جیسے دیگر ماہرینِ معیشت کی لکھی ہوئی کتابیں ہیں جن میں جزیات کے ساتھ معاشی ڈھانچے کی تفاصیل بیان کی گئی ہیں جن پر جدید سرمایہ دارانہ معاشرے استوار ہیں۔ دوسری طرف کمیونسٹ حضرات کے پاس کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کی کتابیں ہیں جن میں اشتراکی معاشی فلسفے کی جزئیات بیان کی گئی ہیں۔
سب سے پہلی دنیا کی فلاحی ریاست کا عملی نمونہ اسلام کے پاس ہے۔
۔ تیسری طرف آپ مسلمان لوگ ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے پاس بھی ایک معاشی نظام ہے، مگر وہ کہیں نظر نہیں آتا، ذرا آپ مجھے قرآن و حدیث سے کھود کر وہ معاشی نظام نکال کر دکھادیں جس کا تقابل میں مذکورہ بالا دونوں نظاموں سے کرسکوں۔۔
میرا خیال مجھے درست لگ رہا ہے کہ آپ نے کبھی اسلامی معاشی نظام کے بارے میں کچھ نہ پڑھا ہے اور نہ ہی کچھ پڑھنے کی زحمت گوارا کی ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک قوم نے دنیا کے ایک بڑے حصّے پر سینکڑوں سال حکومت کی ہو اور ان کے پاس کوئی معاشی نظام ہی ناپید ہو؟
en.wikipedia.org
جدید ریاست میں بغیر سود کے بینکاری نظام چلانے کیلئے اسلام کیا حل دیتا ہے۔ بینکوں جیسے مالیاتی ادارے خالص کاروباری اور منافع کی غرض سے قائم ہوتے ہیں اور چلتے ہیں، یہ بغیر سود کے قرض کیوں دیں گے اور اگر دیں گے تو ان کا وجود کیسے قائم رہے گا؟ مزید برآں عالمی مالیاتی اداروں (جو کے سود پر چلتے ہیں) کے ساتھ لین دین کا اسلام کیا حل دیتا ہے، دنیا آج سمٹ کر کمپیوٹر میں سما چکی ہے، آپ کریڈٹ کارڈ / ڈیبٹ کارڈ وغیرہ سے گھر بیٹھے دنیا کی کسی بھی کمپنی کو پے منٹ کرسکتے ہیں جب اسلام نے اپنا وکھرا ہی سود بائیکاٹ طریقہ اپنانا ہے تو بین الاقوامی ٹرانزیکشنز کیسے ممکن کی جائیں گی اور سود کا تعلق صرف قرض کے لین دین سے نہیں، بلکہ آج کی جدید ریاستوں میں انٹرسٹ ریٹ اوپر نیچے کرکے منی فلو کو کنٹرول کیا جاتا ہے، کرنسی کے ریٹ کو کنٹرول کیا جاتا ہے، انفلیشن اور ڈی فلیشن کو مینو پلیٹ کیا جاتا ہے۔۔ وغیرہ وغیرہ، اس سب کا اسلام کے پاس کیا متبادل طریقہ کار ہے۔۔
آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے اسلامک بینکنگ نامی کسی شے کا نام ہی آپکی کان پر نہ رینگا ہو۔ یہ کم از کم ایک نظام تو ہے، اسمیں مزید بہتری لانے کی اشہد ضرورت ہے، لیکن ہر بڑا کام پہلے تو ایسے ہی شروع ہوتا ہے، بعد از اسمیں تبدیلیاں آتی ہیں اور یہ بہتر ہوتا جاتا ہے۔
یہ تو صرف سود کی بات ہوگئی، اسلام کسی کماڈٹی کی قیمت کے تعین کا کیا طریقہ کار بتاتا ہے، اسلام کی ذرائع پیداوار کی ملکیت بارے کیا رائے ہے؟
ڈیمانڈ اور سپلائی
ذرائع پیداوار کے لیئے جو قومی ذرائع ہیں وہ ریاست کے زیر ملکیت ہیں اور اجارۃ پر دیئے جاسکتے ہیں اور جو ذاتی ذرائع ہیں وہ ذاتی ملکیت میں ہیں۔
کرنسی ریٹ مینوپلیشن کا اسلام کیا طریقہ بتاتا ہے،
اسلام بارٹر سے لے کر کرنسی کو کسی ایک جنس سے سٹینڈرڈ لینے تک کی مثالیں دیتا ہے۔ جیسے میں پہلے بتا چکا ہوں کے زکوٰۃ وغیرہ کے لیئے سونے، چاندی یا دیگر اجناس کو اسٹینڈرڈ لیا گیا ہے۔اسکا ایک اور مطلب یہ بھی ہے کہ اسلام ٹائم ویلیو آف منی کا بھی احاطہ کرتا ہے۔
آج کل بڑی بڑی کاروباری سرگرمیاں بینکوں سے قرض لے کر کی جاتی ہیں، جس میں سود لازمی عنصر ہوتا ہے، اس کا اسلام کے پاس کیا متبادل ہے؟ اشیاء کی قیمت کے تعین کا اختیار اسلام کے مطابق کس کے پاس ہے، مارکیٹ فورسز کے پاس یا ریاست کے پاس، اسلام کنٹرولڈ اکانومی کا تصور دیتا ہے، مکسڈ اکانومی کا یا فری مارکیٹ کا؟ یا پھر کوئی نیا تصور دیتا ہے؟ اسلام گلوبلائزیشن کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟ اسلام کی پروٹیکشنزم کی پالیسی کیا ہے؟
یہ سب وہ جزویات ہیں جو وقت، چیز اور جگہہ کے حساب سے متعیّن کی جاتی ہیں۔
جدید ریاستوں میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو پچیس تیس فیصد کے قریب جاتی ہے تب جاکر ریاست میں خوشحالی اور فلاح کا عنصر آتا ہے، اسلام محض اڑھائی فیصد زکوۃ اور جزیے وغیرہ سے ریاست کیسے چلاسکتا ہے، جس وقت اسلام نے اڑھائی فیصد زکوۃ والا تصور دیا
عُشر کا نام سُنا ہے کبھی؟
اس وقت لوگوں نے صرف روٹی کھانی ہوتی تھی، نہ کوئی ادارے ہوتے تھے، نہ سڑکیں ہوتی تھیں، نہ ایئرپورٹ ہوتے تھے، نہ پل اور پبلک ٹرانسپورٹ ہوتی تھی، نہ بجلی ہوتی تھی نہ آج کی طرح فوج اور پولیس کا منظم ادارہ ہوتا تھا، نہ سرکاری سکول، کالجز اور یونیورسٹیز ہوتی تھیں وغیرہ وغیرہ۔۔ تو مجھے بتائیں کہ اسلام آج کی جدید ریاست کو چلانے کیلئے کونسا معاشی نظام دیتا ہے۔ برائے مہربانی اسلام کا تمام تر معاشی نظام ، اس کے خدوخال، جزیات قرآن اور احادیث سے نکال کر دیجئے گا کسی مولوی کی تشریحات یا تفسیروں سے نہیں۔۔۔
His theory of ʿasabiyyah has often been compared to modern
Keynesian economics, with Ibn Khaldun's theory clearly containing the concept of the
multiplier. A crucial difference, however, is that whereas for
John Maynard Keynes it is the
middle class's greater propensity to save that is to blame for
economic depression, for Ibn Khaldun it is the governmental propensity to save at times when
investment opportunities do not take up the slack which leads to
aggregate demand.
[15]
Another modern economic theory anticipated by Ibn Khaldun is
supply-side economics.
[16] He "argued that high
taxes were often a factor in causing empires to collapse, with the result that lower revenue was collected from high rates." He wrote:
[17]
It should be known that at the beginning of the dynasty, taxation yields a large revenue from small assessments. At the end of the dynasty, taxation yields a small revenue from large assessments.
Laffer curve[edit]
Ibn Khaldun introduced the concept now popularly known as the
Laffer curve, that increases in tax rates initially increase tax revenues, but eventually the increases in tax rates cause a decrease in tax revenues. This occurs as too high a tax rate discourages producers in the economy.
Ibn Khaldun used a
dialectic approach to describe the sociological implications of tax choice (which now forms a part of
economics theory):
In the early stages of the state, taxes are light in their incidence, but fetch in a large revenue ... As time passes and kings succeed each other, they lose their tribal habits in favor of more civilized ones. Their needs and exigencies grow ... owing to the luxury in which they have been brought up. Hence they impose fresh taxes on their subjects ...and sharply raise the rate of old taxes to increase their yield ... But the effects on business of this rise in taxation make themselves felt. For business men are soon discouraged by the comparison of their profits with the burden of their taxes ... Consequently production falls off, and with it the yield of taxation.
This analysis is very similar to the modern economic concept known as the Laffer curve. Laffer does not claim to have invented the concept himself, noting that the idea was present in the work of Ibn Khaldun and, more recently,
John Maynard Keynes.
[18]
en.wikipedia.org
The Libyan government controls more of its oil than any other nation on earth, and it is the type of oil that Europe finds easiest to refine.
Libya also controls its own finances, leading American author Ellen Brown to point out an interesting fact about those seven countries named by Clark:
"What do these seven countries have in common? In the context of banking, one that sticks out is that none of them is listed among the 56 member banks of the Bank for International Settlements (BIS). That evidently puts them outside the long regulatory arm of the central bankers' central bank in Switzerland. The most renegade of the lot could be Libya and Iraq, the two that have actually been attacked. Kenneth Schortgen Jr, writing on Examiner.com, noted that 'ix months before the US moved into Iraq to take down Saddam Hussein, the oil nation had made the move to accept euros instead of dollars for oil, and this became a threat to the global dominance of the dollar as the reserve currency, and its dominion as the petrodollar.' According to a Russian article titled 'Bombing of Libya – Punishment for Gaddafi for His Attempt to Refuse US Dollar', Gaddafi made a similarly bold move: he initiated a movement to refuse the dollar and the euro, and called on Arab and African nations to use a new currency instead, the gold dinar. Gaddafi suggested establishing a united African continent, with its 200 million people using this single currency. During the past year, the idea was approved by many Arab countries and most African countries. The only opponents were the Republic of South Africa and the head of the League of Arab States. The initiative was viewed negatively by the US and the European Union, with French President Nicolas Sarkozy calling Libya a threat to the financial security of mankind; but Gaddafi was not swayed and continued his push for the creation of a united Africa. […] If the Gaddafi government goes down, it will be interesting to watch whether the new central bank [created by the rebels in March] joins the BIS, whether the nationalised oil industry gets sold off to investors, and whether education and healthcare continue to be free."
David Swanson: Liberal supporters of this 'humanitarian intervention' have merely become useful idiots of the same old nefarious purposes
www.theguardian.com
If the Gaddafi government goes down, it will be interesting to watch whether the new central bank joins the BIS, whether the nationalized oil industry gets sold off to investors, and whether educat…
ellenbrown.com
اور اسکے علاوہ یہ دو کتابیں بھی اگر پڑھ لیں تو شائد اگلی مرتبہ آپ کی تنقید کسی کام کے نقطے پر ہو
This illuminating and thought-provoking book questions whether classical Islamic capitalism, which has served Muslims so well for centuries, can provide a viable alternative world economic system. In the current recession – the worst since 1929 – this is surely a provocative question. But if...
books.google.com.pk
The first comprehensive guide to Islamic financial markets Based on the course taught at the International Islamic University Malaysia, this is the first book on Islamic finance to focus exclusively on money and capital markets. Covering basic concepts as well as current practices in Islamic...
books.google.com.pk