سیاست کی گرم بازاری عروج پر ہے ۔ نواز شریف کی انتخابی موت تو واقع ہو چکی ہے مگر اب بھی وہ اپنی پرانی آزمودہ ترکیبیں پھر سے عوام ہر آزما رہا ہے۔ اس میں عمران خان کی کردار کشی عدلیہ اور فوج پر تنقید اور ساتھ بًساتھ پچھلے دروازے سے معافی تلافی کوششیں شامل ہیں۔ اس دوران مریم نواز کو کسی نو ن لیگ کی باگ تقریباً تھما دی گئی ہے۔
پی ٹی آئ کا ستارہ بلند ہے اور اقتدار میں آنے کے لئے پر تول رہی ہے۔ ایسے میں میڈیا پر مختلف باتیں اچھلتی رہتی ہیں۔ مختلف زاویوں سے عمران خان کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔
عمران خا ن اس حوالے سے کوئی زیادہ رد عمل نہیں دکھاتا مگر اسکے پارٹی ورکرز / سپورٹر شدید ردعمل دیتے ہیں اور کشتوں کے پشتے لگا دیتے ہیں۔ ان سب کی خدمت میں عرض ہے کہ تنقید ہمیشہ اچھی ہوتی ہے چاہے بے جا ہی کیوں نہ ہو۔
سیاستدان اور حکمران کو کبھی بھی تنقید کی زد سے باہر نہیں ہونا چاہئے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو نواز شریف آج بھی وزیراعظم ہوتا کہ تنقید کو تو اپنے سائے سے بھی دور رکھتا تھا۔ بلکہ ہر ایسے شخص کو اپنے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتا تھا جو اس کے فیصلے سے رتیّ بھر اختلاف کی جرات کر سکے۔
کوئی انسان عقل کل نہیں اور غلطیوں کا مجموعہ ہے۔ عمران خان آج جس مقام پر ہے وہ اپنی محنت اور غلطیوں سے سبق سیکھنے کی وجہ سے ہے، نہ کہ اس وجہ سے کہ صحافی اس پر تنقید نہیں کرتے تھے۔
کرنے دو کلاسرہ، عامر متین ارشد شریف کو تنقید ، اس تنقید سے عمران کو احتیاط کا سبق ملے گا۔
وہ کیا کہتے ہیں کہ “ کوے کے کوسنے سے ڈھول نہیں مرا کرتے”
پی ٹی آئ کا ستارہ بلند ہے اور اقتدار میں آنے کے لئے پر تول رہی ہے۔ ایسے میں میڈیا پر مختلف باتیں اچھلتی رہتی ہیں۔ مختلف زاویوں سے عمران خان کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔
عمران خا ن اس حوالے سے کوئی زیادہ رد عمل نہیں دکھاتا مگر اسکے پارٹی ورکرز / سپورٹر شدید ردعمل دیتے ہیں اور کشتوں کے پشتے لگا دیتے ہیں۔ ان سب کی خدمت میں عرض ہے کہ تنقید ہمیشہ اچھی ہوتی ہے چاہے بے جا ہی کیوں نہ ہو۔
سیاستدان اور حکمران کو کبھی بھی تنقید کی زد سے باہر نہیں ہونا چاہئے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو نواز شریف آج بھی وزیراعظم ہوتا کہ تنقید کو تو اپنے سائے سے بھی دور رکھتا تھا۔ بلکہ ہر ایسے شخص کو اپنے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتا تھا جو اس کے فیصلے سے رتیّ بھر اختلاف کی جرات کر سکے۔
کوئی انسان عقل کل نہیں اور غلطیوں کا مجموعہ ہے۔ عمران خان آج جس مقام پر ہے وہ اپنی محنت اور غلطیوں سے سبق سیکھنے کی وجہ سے ہے، نہ کہ اس وجہ سے کہ صحافی اس پر تنقید نہیں کرتے تھے۔
کرنے دو کلاسرہ، عامر متین ارشد شریف کو تنقید ، اس تنقید سے عمران کو احتیاط کا سبق ملے گا۔
وہ کیا کہتے ہیں کہ “ کوے کے کوسنے سے ڈھول نہیں مرا کرتے”