سوات کا 18 قسم کا سیب پیدا کرنے والا گاؤں

barca

Prime Minister (20k+ posts)
سوات کا 18 قسم کا سیب پیدا کرنے والا گاؤں


امجد علی سحاب

سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے محض 38 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع گاؤں گوالیری، سوات کے ان چند گنے چنے دیہات میں سے ایک ہے جو موسم گرما میں اپنے معتدل موسم کی بدولت اٹھارہ قسم کا مختلف سیب پیدا کرتا ہے۔ یہاں کا سیب ذائقہ میں نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی یکساں مقبول ہے اور ہر جگہ یہ سوات کے سیب کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تقریباً تین مربع کلومیٹر پر مشتمل گاؤں گوالیری دو ندیوں مارکَرکَٹ اور ارنوہئی کے بیچ واقع ہے۔ سوات کے دیگر زرخیز دیہات کی طرح گوالیری میں ہر قسم کی سبزی، ساگ، گندم، جوار، پھلوں میں املوک، خوبانی، آلوچہ، شفتالو اور ناشپاتی سے لے کر انار اور انگور تک کی فصلیں پیدا ہوتی ہیں، مگر جس فصل کے لیے گوالیریٔ پورے ملک میں بالعموم اور صوبہ خیبر پختونخوا میں بالخصوص مشہور ہے، وہ 'سیب' ہے۔


[TABLE="class: media one-whole palm--one-whole, width: 1263"]
[TR]
[TD="class: media__item"]
55b6354d75972.jpg
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="class: media__caption, bgcolor: #EEEEEE, align: right"]لابٹ پہاڑی سے گاؤں گوالیری کا منظر[/TD]
[/TR]
[/TABLE]
گوالیریٔ کے ایک مقامی زرعی ماہر باچا نواب کے مطابق "یہاں سیب کی کل اٹھارہ قسمیں پیدا ہوتی ہیں جنہیں اہل علاقہ مختلف ناموں سے پکارتے ہیں۔ان میں کچھ علاقائی، کچھ قومی اور کچھ بین الاقوامی نام ہیں"۔ باچا نواب کے بہ قولآمری'، 'شنہ' اور 'شیشہ' سیب کی تین ایسی قسمیں ہیں جنہیں بنا کسی خاص دیکھ بھال کے ایک سال تک کسی بھی جگہ اسٹور کیا جاسکتا ہے۔ ذکر شدہ تین اقسام باقی ماندہ پندرہ مختلف اقسام جن میں ہڑی، فرانسی، کنگ اسٹار، کشمیری، باسوٹی، سوٹہ، کالاکولا، رئیل گالا، سمریٹ، گالا ماس، مونڈی گالا، گاجرہ، ریڈ چپس، مالوچی اور وطنی شامل ہیں، کے مقابلے میں لانگ لائف پھل ہیں۔
[TABLE="class: media one-whole palm--one-whole, width: 1263"]
[TR]
[TD="class: media__item"]
55b6355091453.jpg
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="class: media__caption, bgcolor: #EEEEEE, align: right"]گوالیری بازار[/TD]
[/TR]
[/TABLE]
ذکر شدہ تمام کی تمام اقسام ذائقہ کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں مگر عام طور پر 'فرانسی سیب' اہل علاقہ کے ہر خاص و عام میں یکساں مقبول ہیں۔
گاؤں گوالیریٔ کو عام طور پر باغات یا پھلوں کا گاؤں کہا جاتا ہے۔یہاں سیب سے لے کر چیری تک ہر قسم کا پھل پیدا ہوتا ہے۔ یہاں کا دوسرا اہم ترین پھل شفتالو ہے جس کی تقریباً نو قسمیں یہاں پیدا ہوتی ہیں۔
[TABLE="class: media one-whole palm--one-whole media--uneven, width: 1263"]
[TR]
[TD="class: media__item"]
55b6355a56af2.jpg
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="class: media__caption, bgcolor: #EEEEEE, align: right"]ایک پرانا گھر[/TD]
[/TR]
[/TABLE]
یہاں کے ایک اور زرعی ماہر عبدالقدیم پچاس سال سے گاؤں کے باغوں میں پیوند کاری اور مختلف پھلوں کے درختوں کی تراش خراش کا کام کرتے ہیں۔ ان کے بقول یہاں آپ جو بھی پھلدار پودا لگانا چاہیں، لگا سکتے ہیں۔ اس کی زمین ہر قسم کے پھلوں اور فصلوں کے لیے موزوں ہے۔ عام طور پر سبھی قسم کے سیب کے درخت گوالیری میں پائے جاتے ہیں،جن کی پیدوار ہم گرمیوں کے موسم میں حاصل کرتے ہیں۔ مگر اب امریکن ایپل جسے مقامی زبان میں امریکی سیب کہتے ہیں، ایک ایسا پھل ہے جس کی پیداوار سردیوں کے موسم میں حاصل کی جاتی ہے۔ سیب کی ہر قسم کا اپنا ایک الگ ذائقہ ہے لیکن فرانسی سیب کی بات ہی کچھ اور ہے۔
[TABLE="class: media one-whole palm--one-whole, width: 1263"]
[TR]
[TD="class: media__item"]
55b63550d9b57.jpg
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="class: media__caption, bgcolor: #EEEEEE, align: right"]گوالیری کا ایک کوچہ[/TD]
[/TR]
[/TABLE]
گاؤں کی کل آبادی 1165 افراد پر مشتمل ہے جس میں زیادہ تر کا کام کھیتی باڑی اور اپنے باغوں کی دیکھ بھال کرنا ہے۔ عبدالقدیم کے مطابق گاؤں چونکہ محدود ہے۔ اس لیے یہاں چھوٹے بڑے سب باغات کی تعداد بمشکل سو کے قریب ہوگی۔ 'گوالیری کے باغات کا سیب نہ صرف اندرون ملک پسند کیا جاتا ہے بلکہ کئی اقسام جن میں فرانسی، رئیل گالا اور سمریٹ وغیرہ شامل ہیں کو بیرون ملک بھی برآمد کیا جاتا ہے۔ ملک کے اندر اور باہر یہ سوات کے سیب کے نام سے مشہور ہے '۔
[TABLE="class: media one-whole palm--one-whole, width: 1263"]
[TR]
[TD="class: media__item"]
55b6354ace701.jpg
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="class: media__caption, bgcolor: #EEEEEE, align: right"]گوالیری کے بادلوں سے اٹے پہاڑ جنھیں مقامی لوگ آوارئی کہتے ہیں[/TD]
[/TR]
[/TABLE]
ماہ اگست میں سب پہلے 'سمریٹ' نامی سیب کا پھل پک کر تیار ہوجاتا ہے۔ عبدالقدیم کے مطابق 'سمریٹ کی چار قسمیں جنھیں ہم مقامی طور پر گلاسی، پلنہ سمریٹ، کچہ اور منڈہ گالا کے ناموں سے پکارتے ہیں۔ ان اقسام میں واحد منڈہ گالا کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کے ایک پھول سے بسا اوقات بارہ عدد تک پھل پیدا ہوتے ہیں جو کہ رنگ میں سرخ مائل ہوتے ہیں۔ منڈہ گالا کا ایک پودا اکثر پورے باغ کا خرچہ پورا کردیتا ہے مگر اس کی دیکھ بھال آسان نہیں'۔
[TABLE="class: media one-whole palm--one-whole, width: 1263"]
[TR]
[TD="class: media__item"]
55b635584de5d.jpg
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="class: media__caption, bgcolor: #EEEEEE, align: right"]گاؤں کے عین وسط میں قائم باغ کا ایک حسین منظر[/TD]
[/TR]
[/TABLE]
ماہ اگست کے اوائل میں یہاں کے باغات کے مالکان سمریٹ کی پیداوار حاصل کرکے اسے دو تین ہفتوں کے لیے باغوں میں ہی اسٹور کردیتے ہیں۔اس دوران اس کے اوپر پلاسٹک کے بڑے بڑے شیٹ اور گھاس پھوس ڈالا جاتا ہے۔ اس عمل کے بعد اس کی روایتی طور پر پیکنگ شروع ہوجاتی ہے۔ اگست کے آخری ہفتہ میں مینگورہ شہر میں قائم فروٹ منڈی میں گوالیری کا سیب موجود ہوتا ہے، جہاں پندرہ بیس روپے کلو کے عوض اسے مینگورہ شہر کے منڈی مالکان کے حوالے کیا جاتا ہے۔ وہاں سے اسے اندرون ملک قائم بڑی فروٹ منڈیوں میں بھیجا جاتا ہے۔
[TABLE="class: media one-whole palm--one-whole, width: 1263"]
[TR]
[TD="class: media__item"]
55b6354ca543c.jpg
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="class: media__caption, bgcolor: #EEEEEE, align: right"]فرانسی سیب کی ایک شاخ جو پھلوں سے لدی ہے[/TD]
[/TR]
[/TABLE]
بڑے شہروں میں پھلوں کو اسٹور کرنے کی سہولت موجود ہوتی ہے جہاں اسے ہفتوں اسٹور رکھا جاتا ہے۔ پھر جب مقامی طور پر سیب کی مارکیٹ میں مکمل قلت ہوجاتی ہے، یا پھر رمضان یا عید کے موقعوں پر درمیانے درجے کی سیب کی کم سے کم قیمت عام صارف کے لیے سو سے 120 روپے فی کلو مقرر کی جاتی ہے۔
[TABLE="class: media one-whole palm--one-whole, width: 1263"]
[TR]
[TD="class: media__item"]
55b635560e6b8.jpg
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="class: media__caption, bgcolor: #EEEEEE, align: right"]سمریٹ اور فرانسی سیب کے باغ کا منظر[/TD]
[/TR]
[/TABLE]
اتنے بڑے فرق کو دیکھتے ہوئے گاؤں گوالیری کے رہائشی باچا زادہ شاکی نظر آتے ہیں۔ ان کے بقول 'آج بھی مینگورہ کی فروٹ منڈی میں گوالیری کے سیب کی وہی قیمت ہے جو 1985 میں فی کریٹ مقرر کی گئی تھی۔ تیس سال کے عرصہ میں دیگر ضروریات زندگی کی قیمتیں آسمان پر جاپہنچیں لیکن گوالیریٔ کا سیب اپنے دام نہ بڑھا سکا۔ متعلقہ حکام کو چاہیے کہ اس بارے میں سنجیدہ اقدامات اٹھائیں، تاکہ باغات کے مالکان اپنے باغوں کو مارکیٹوں اور کمرشل پلازوں میں تبدیل کرنے پر مجبور نہ ہوں'۔
[TABLE="class: media one-whole palm--one-whole, width: 1263"]
[TR]
[TD="class: media__item"]
55b635578d6c4.jpg
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="class: media__caption, bgcolor: #EEEEEE, align: right"]باغوں کے درمیان ندی کی طرف نکلنے والا راستہ[/TD]
[/TR]
[/TABLE]
گوالیری کی 95 فیصد زمین پر آج سے صرف دس سال پہلے سیب کے باغات اور چھوٹے بڑے کھیت دکھائی دیتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اب یہاں کے لوگ باغات اور کھیتی باڑی پر چھوٹی بڑی دکانوں، مارکیٹوں اور کمرشل پلازوں کی تعمیر کو ترجیح دیتے ہیں۔
[TABLE="class: media one-whole palm--one-whole, width: 1263"]
[TR]
[TD="class: media__item"]
55b635582a1fd.jpg
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="class: media__caption, bgcolor: #EEEEEE, align: right"]وطنی اور فرانسی سیب کے باغ کا ایک منظر[/TD]
[/TR]
[/TABLE]
اس حوالہ سے ایک غیر سرکاری ادارے سوات شرکتی کونسل کے شہریار کہتے ہیں کہ اب لوگوں کی ترجیحات باغات اور کھیتی باڑی نہیں رہیں اور اس کی بڑی وجہ باغات کے مالکان کو سال بھر کی محنت کی کمائی کا کم ملنا ہے۔ اگر یہاں کولڈ اسٹوریج سسٹم متعارف کرایا جائے، تو پھر یہاں کی زرعی زمین اور خاص کر سیب کے باغات کو لاحق خطرات کم ہوسکتے ہیں۔
[TABLE="class: media one-whole palm--one-whole, width: 1263"]
[TR]
[TD="class: media__item"]
55b6354f63d77.jpg
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="class: media__caption, bgcolor: #EEEEEE, align: right"]ہڑی شفتالو کے ایک باغ کا منظر[/TD]
[/TR]
[/TABLE]
شہریار کا مزید کہنا ہے کہ جیسے ہی گوالیری کا سیب ملک کی بڑی منڈیوں میں پہنچتا ہے، تو وہاں اسے اسٹور کر لیا جاتا ہے۔ بعد میں جب یہاں ہماری اور دوسرے علاقوں کی دیگر چھوٹی بڑی منڈیوں یا بازاروں میں مکمل طور پر سیب ختم ہوجاتا ہے، تو بڑی منڈی کے مالکان اسے منہ مانگے داموں فروخت کرنے کے لیے واپس چھوٹی منڈیوں اور بازاروں میں بھیج دیتے ہیں۔
[TABLE="class: media one-whole palm--one-whole, width: 1263"]
[TR]
[TD="class: media__item"]
55b63551a3d51.jpg
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="class: media__caption, bgcolor: #EEEEEE, align: right"]ہڑی شفتالو کے باغ کا دوسرا منظر[/TD]
[/TR]
[/TABLE]
ان کے بقول میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ویسے بھی گاؤں گوالیری دو ندیوں کے سنگم پر واقع ہے، اگر یہاں سب سے پہلے مائیکرو ہائیڈرل پاورز (چھوٹے پن بجلی گھر) بنائے جائیں اور اس کے بعد کولڈ اسٹورج سسٹم متعارف کرایا جائے، تو نہ صرف اس سے یہاں کے باغوں کے مالکان کو فائدہ ہوگا بلکہ گاؤں گوالیری پھلوں کی پیداوار میں اضافہ بھی کرے گا۔ اس طرح یہاں پر ایسے پلانٹس بھی باآسانی لگائے جاسکتے ہیں جو پھلوں کا رس نکال کر جوس کمپنیوں کو بیچ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مربہ، اچار اور ،مختلف جیم بنانے والے کارخانوں کو بھی یہی سیب سپلائی کیا جاسکتا ہے۔ یہ کام اتنے مشکل نہیں ہیں لیکن اس کے لیے یہاں کے باغوں کے مالکان میں تھوڑی سی آگاہی مہم چلانا ہوگی۔
[TABLE="class: media one-whole palm--one-whole, width: 1263"]
[TR]
[TD="class: media__item"]
55b635588f532.jpg
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="class: media__caption, bgcolor: #EEEEEE, align: right"]فرانسی سیب اور مقامی آلوچہ کے درخت آمنے سامنے کھڑے ہیں[/TD]
[/TR]
[/TABLE]

تصاویر بشکریہ لکھاری

 
Last edited:

WatanDost

Chief Minister (5k+ posts)
لوٹ کے کھا گیا محنت کش کو سرمایا دار
الله کا غضب رمضان میں جھولیاں بھر بھر لوٹتے ہیں یہ لوگ
جبکہ
الله رحمتیں بانٹ رہا ہوتا ہے لیکن انہیں " مال " کی محبت غضب
سمیٹنے پر مائل رکھتی ہے

 

GeoG

Chief Minister (5k+ posts)
لوٹ کے کھا گیا محنت کش کو سرمایا دار
الله کا غضب رمضان میں جھولیاں بھر بھر لوٹتے ہیں یہ لوگ
جبکہ
الله رحمتیں بانٹ رہا ہوتا ہے لیکن انہیں " مال " کی محبت غضب
سمیٹنے پر مائل رکھتی ہے



Yes so right ..
and during Ramadan Rehri wala is charging double the price
whereas wholesale prices remains same

so Rehri Wala is a Sarmaya Dar too ...

On a serious note
Let me learn it from an Islamic point of view
Is there a concept of maximum profit one can make

on a commodity
or charge for services

in Islam?

 

WatanDost

Chief Minister (5k+ posts)

Yes so right ..
and during Ramadan Rehri wala is charging double the price
whereas wholesale prices remains same

so Rehri Wala is a Sarmaya Dar too ...

On a serious note
Let me learn it from an Islamic point of view
Is there a concept of maximum profit one can make

on a commodity
or charge for services

in Islam?







جناب آپ نے بلکل الٹ نتیجہ کشید فرمایا ہے
ریڑھی والا کیا بیچتا ہے اس انویسٹر / سرمایادار / آڑتھی بدذات مافیا کے سامنے
آپ ٤ ریڑھیاں پھر جائیں چیز کا درست اور حقیقی ریٹ آپ کے سامنے آ جائے گا-


آپ خود گاؤں دیہات کا ذکر کرتے ہو لیکن آپ کو اندازہ نہیں حیرت ہے


ہم گندم پیداوار کے فورا بعد سرکاری نرخ پر بیچتے ہیں
جو یہ فلور مل مافیا اٹھا کر اسٹور کر لیتی ہے پھر بعد میں دوگنا منافع کماتی ہے


مثلا
اس مرتبہ سرکاری نرخ ١٣٠٠ روپے فی ٤٠ کلو مقرر ہوا
جب کہ فصل اترنے سے پہلے اوپن مارکیٹ ریٹ ١٧٠٠ روپے فی ٤٠ کلو کا تھا
لیکن
نئی گندم کی خریداری ١٣٠٠ روپے من پر ہوئی
یہی حال ہر فصل کا ہے


...............

آقا علیہ السلام نے فرمایا جس شخص نے چالیس دن تک کھنے پینے کی اشیاء دوک رکھیں تو وہ اللہ تعالٰی سے اور اللہ تعالٰی اس سے بری ہے لہذا اس حدیث مبارکہ میں انتہائی سخت وعید ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک حرام عمل کے لئے ہی ہو سکتی ہے۔یہ ایک استحصال کی صورت ہے اور اسلام نے اس کی سختی سے مذمت کی ہے۔

منصوری, ڈ. م. (2005). احکام بیع. اسلام آباد: ادارہ تحقیقات اسلامی ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ۔ اسلام آباد. ص۔103



ہمارا سرمایہ دار اور جاگیردار طبقہ اسلام کے اقتصادی پروگرام سے خائف ہے اس لئے وہ بھی پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کے حق میں نہیں۔ لہذا پاکستان میں معاشی استحصال سے پاک اسلامی معاشرہ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی جاگیردار اورسرمایہ دار کلاس ہے جو یہ پروپیگنڈا کرتی ہے کہ قائداعظم پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے حق میں نہیں تھے۔ قائداعظم سرمایہ دارانہ نظام کو استحصالی اور غیر اسلامی نظام سمجھتے تھے۔ مارچ 1943ءمیں مسلم لیگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فیوڈل لارڈز اور سرمایہ دار طبقہ کو خبردار کیا تھا کہ یاد رکھو تمہاری خوشحالی کی قیمت غریب عوام ادا کر رہے ہیں اور یہ نظام انتہائی ظالمانہ اور شرانگیز ہے جس میں سرمایہ داروں اور جاگیرداروںکو عوام کا خون چوسنے کی عادت بد پڑ گئی ہے۔ قائداعظم نے یہ بھی فرمایا کہ سرمایہ دار طبقہ اسلامی احکام کو بھول چکا ہے۔ قائداعظم نے اس دور میں عوام کی غربت اور مفلوک الحالی کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دیہاتوں میں جا کر خود دیکھا ہے کہ وہاں عوام کے لئے ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں اگر پاکستان اس استحصالی نظام میں تبدیلی نہ لا سکا تو پھر اس کا حاصل نہ کرنا ہی بہتر ہو گا۔ قائداعظم نے مغرب کے نظام معیشت کے حوالے سے یہ بھی فرمایا تھا کہ اس نظام نے انسانیت کے لئے لاینحل مسائل پیدا کر دئیے ہیں
 

GeoG

Chief Minister (5k+ posts)






جناب آپ نے بلکل الٹ نتیجہ کشید فرمایا ہے
ریڑھی والا کیا بیچتا ہے اس انویسٹر / سرمایادار / آڑتھی بدذات مافیا کے سامنے
آپ ٤ ریڑھیاں پھر جائیں چیز کا درست اور حقیقی ریٹ آپ کے سامنے آ جائے گا-


آپ خود گاؤں دیہات کا ذکر کرتے ہو لیکن آپ کو اندازہ نہیں حیرت ہے


ہم گندم پیداوار کے فورا بعد سرکاری نرخ پر بیچتے ہیں
جو یہ فلور مل مافیا اٹھا کر اسٹور کر لیتی ہے پھر بعد میں دوگنا منافع کماتی ہے


مثلا
اس مرتبہ سرکاری نرخ ١٣٠٠ روپے فی ٤٠ کلو مقرر ہوا
جب کہ فصل اترنے سے پہلے اوپن مارکیٹ ریٹ ١٧٠٠ روپے فی ٤٠ کلو کا تھا
لیکن
نئی گندم کی خریداری ١٣٠٠ روپے من پر ہوئی
یہی حال ہر فصل کا ہے


...............

آقا علیہ السلام نے فرمایا ‘‘ جس شخص نے چالیس دن تک کھنے پینے کی اشیاء دوک رکھیں تو وہ اللہ تعالٰی سے اور اللہ تعالٰی اس سے بری ہے’’ لہذا اس حدیث مبارکہ میں انتہائی سخت وعید ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک حرام عمل کے لئے ہی ہو سکتی ہے۔یہ ایک استحصال کی صورت ہے اور اسلام نے اس کی سختی سے مذمت کی ہے۔

منصوری, ڈ. م. (2005). احکام بیع. اسلام آباد: ادارہ تحقیقات اسلامی ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ۔ اسلام آباد. ص۔103



ہمارا سرمایہ دار اور جاگیردار طبقہ اسلام کے اقتصادی پروگرام سے خائف ہے اس لئے وہ بھی پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کے حق میں نہیں۔ لہذا پاکستان میں معاشی استحصال سے پاک اسلامی معاشرہ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی جاگیردار اورسرمایہ دار کلاس ہے جو یہ پروپیگنڈا کرتی ہے کہ قائداعظم پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے حق میں نہیں تھے۔ قائداعظم سرمایہ دارانہ نظام کو استحصالی اور غیر اسلامی نظام سمجھتے تھے۔ مارچ 1943ءمیں مسلم لیگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فیوڈل لارڈز اور سرمایہ دار طبقہ کو خبردار کیا تھا کہ یاد رکھو تمہاری خوشحالی کی قیمت غریب عوام ادا کر رہے ہیں اور یہ نظام انتہائی ظالمانہ اور شرانگیز ہے جس میں سرمایہ داروں اور جاگیرداروںکو عوام کا خون چوسنے کی عادت بد پڑ گئی ہے۔ قائداعظم نے یہ بھی فرمایا کہ سرمایہ دار طبقہ اسلامی احکام کو بھول چکا ہے۔ قائداعظم نے اس دور میں عوام کی غربت اور مفلوک الحالی کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دیہاتوں میں جا کر خود دیکھا ہے کہ وہاں عوام کے لئے ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں اگر پاکستان اس استحصالی نظام میں تبدیلی نہ لا سکا تو پھر اس کا حاصل نہ کرنا ہی بہتر ہو گا۔ قائداعظم نے مغرب کے نظام معیشت کے حوالے سے یہ بھی فرمایا تھا کہ اس نظام نے انسانیت کے لئے لاینحل مسائل پیدا کر دئیے ہیں

Bhai Sahib,
you have given me a lecture but did not respond on my questions

My statement was during Ramadan Wholesale Purchase Price in the Wholesale market remain same
but Retail profit doubles by Rehri Wala / shop keeper, why?
I am not trying to justify Hoarders but highlighting the point that it is might is right whoever gets and opportunity.
When hoarders gets the opportunity they do it but mind you if excessive supplies come in the market, they lose too...

Thanks for the quotes from our Prophet PBUH and Qaid e Azam but my question remains
Is there a concept of Upper Ceiling of Maximum profit in Islam?
 

WatanDost

Chief Minister (5k+ posts)

Bhai Sahib,
you have given me a lecture but did not respond on my questions

My statement was during Ramadan Wholesale Purchase Price in the Wholesale market remain same
but Retail profit doubles by Rehri Wala / shop keeper, why?
I am not trying to justify Hoarders but highlighting the point that it is might is right whoever gets and opportunity.
When hoarders gets the opportunity they do it but mind you if excessive supplies come in the market, they lose too...

Thanks for the quotes from our Prophet PBUH and Qaid e Azam but my question remains
Is there a concept of Upper Ceiling of Maximum profit in Islam?


یار
سیدھی سی بات تھی آپ کی سمجھ میں نہیں آئی

سندھڑی آم رمضان سے پہلے ٧٠٠ فی ١٠ کلو پیٹی تھا
تیسرے روزے ١١٠٠ فی کریٹ
رمضان کے ١٤ویں دن ١٤٠٠ کریٹ

اور یہ سبزی منڈی کا ریٹ ہے
اور وہ بھی " صبح جو بولی" ہوتی ہے ل١٠ کریٹ فی سٹاک
اور عید کے بعد ٦٠٠ کریٹ
ریڑھی والا کہاں سے آیا ؟؟؟

 

GeoG

Chief Minister (5k+ posts)

یار
سیدھی سی بات تھی آپ کی سمجھ میں نہیں آئی

سندھڑی آم رمضان سے پہلے ٧٠٠ فی ١٠ کلو پیٹی تھا
تیسرے روزے ١١٠٠ فی کریٹ
رمضان کے ١٤ویں دن ١٤٠٠ کریٹ

اور یہ سبزی منڈی کا ریٹ ہے
اور وہ بھی " صبح جو بولی" ہوتی ہے ل١٠ کریٹ فی سٹاک
اور عید کے بعد ٦٠٠ کریٹ
ریڑھی والا کہاں سے آیا ؟؟؟



As you are respectable person I have no choice to believe these figures
whereas my information is contrary to that prices of mangoes in wholesale stayed at same level

but please don't duck the real question I am asking
Is there a concept of Maximum Profit Ceiling in Islam

Be specific please not just keh Mayana Ravi Apnao ..
 

WatanDost

Chief Minister (5k+ posts)

As you are respectable person I have no choice to believe these figures
whereas my information is contrary to that prices of mangoes in wholesale stayed at same level

but please don't duck the real question I am asking
Is there a concept of Maximum Profit Ceiling in Islam

Be specific please not just keh Mayana Ravi Apnao ..


بروایت امام مالک رحمت اللہ علیہ- امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی الله نے فرمایا
ہماری منڈیوں میں احتکار کی کوئی گنجائش نہیں، کوئی مالدار اس ارادے سے بازار میں
نہ آئے کہ جو رزق، الله تعالیٰ نے انسانوں کے لیے ہماری سر زمین میں اگایا ہے، مال دار
اپنے سیم و زر کے زور سے اسے خرید لیں اور مدت مدیر تک اس کے بیچنے سے رکے
رہیں کہ نرخ بڑھ جائے، تب اسے فروخت کر دیں-




البتہ اس محتکر(نفع اندوزی کی غرض سے غلہ بند رکھنے والے) کے سوا وہ غریب محنت
کش جو ہمارے بازار میں گرمی اور سردی کے موسم میں اپنی کمر پر غلہ لاد کر فروخت کرنے
کے لیے آے، وہ کسان (حضرت) عمر کا مہمان ہے، اور اسے اختیار ہے کہ جس نرخ پر اس کی
خوشی ہو فروخت کرے اور اگر اپنی ذاتی ضروریات خوراک کے لیے اسے یہ غلہ جمع رکھنا ہے
تب بھی وہ اس کا مختار ہے-


فقہ عمر - از حضرت شاہ ولی الله- کتاب البیوع- (٤٨٤) صفحہ ٢٠٤/٢٠٥
 

GeoG

Chief Minister (5k+ posts)

بروایت امام مالک رحمت اللہ علیہ- امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی الله نے فرمایا
ہماری منڈیوں میں احتکار کی کوئی گنجائش نہیں، کوئی مالدار اس ارادے سے بازار میں
نہ آئے کہ جو رزق، الله تعالیٰ نے انسانوں کے لیے ہماری سر زمین میں اگایا ہے، مال دار
اپنے سیم و زر کے زور سے اسے خرید لیں اور مدت مدیر تک اس کے بیچنے سے رکے
رہیں کہ نرخ بڑھ جائے، تب اسے فروخت کر دیں-




البتہ اس محتکر(نفع اندوزی کی غرض سے غلہ بند رکھنے والے) کے سوا وہ غریب محنت
کش جو ہمارے بازار میں گرمی اور سردی کے موسم میں اپنی کمر پر غلہ لاد کر فروخت کرنے
کے لیے آے، وہ کسان (حضرت) عمر کا مہمان ہے، اور اسے اختیار ہے کہ جس نرخ پر اس کی
خوشی ہو فروخت کرے اور اگر اپنی ذاتی ضروریات خوراک کے لیے اسے یہ غلہ جمع رکھنا ہے
تب بھی وہ اس کا مختار ہے-


فقہ عمر - از حضرت شاہ ولی الله- کتاب البیوع- (٤٨٤) صفحہ ٢٠٤/٢٠٥


Thanks for the effort
but it not answer my question i really would like to know

OK let me put it in a different way

If one certain commodity i have an opportunity to make 50 percent margin
would that be Halal or Haram ...

What is the concept of reasonable profit in Islam?


 

WatanDost

Chief Minister (5k+ posts)


Thanks for the effort
but it not answer my question i really would like to know

OK let me put it in a different way

If one certain commodity i have an opportunity to make 50 percent margin
would that be Halal or Haram ...

What is the concept of reasonable profit in Islam?



مال دار
اپنے سیم و زر کے زور سے اسے خرید لیں اور مدت مدیر تک اس کے بیچنے سے رکے
رہیں کہ نرخ بڑھ جائے، تب اسے فروخت کر دیں-

جناب
یہ ایک بڑا وسیع سبجیکٹ ہے
اور میں نے جس تناظر ،میں اپنی اولین پوسٹ کی تھی
امید ہے وہ پوسٹ آپ کی سمجھ میں آ گئی ہو گی

باقی تفصیلات آپ کسی عالم سے پتا کر لیں
گو کہ جواب مل جائے گا ڈھونڈھنے سے لیکن
محنت کافی کرنی پڑے گی

میں اپنے تھوڑے سے مطالعہ اور پاس موجود
کتب سے جتنا جواب دے سکتا تھا آپ کی خدمت میں رکھ دیا


 

Back
Top