آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے شہدائے پاک فوج سے متعلق ہونے والی تقریب میں سانحہ مشرقی پاکستان اور ملک کے دولخت ہونے کا سارا ملبہ سیاسی قیادت پر ڈالا تو کئی لوگوں نے ان کی اس بات سے اختلاف کیا جن میں صحافی اور سیاستدان بھی شامل ہیں۔
معروف اینکر پرسن اور صحافی شفایوسفزئی نے کہا کہ شیخ مجیب الرحمان نے 160 نشستیں جیتیں اور بھٹو نے صرف 80۔ ملک میں حکومت کس کی ہونی چاہیے تھی؟ کیا جمہور کی رائے کی حفاظت ملک کے باہر سے آکر کسی نے کرنی تھی؟
انہوں نے کہا کیوں ایک سیاستدان کو عوام کی رائے کو پامال کرنے کی اجازت دی گئی جب محافظ دیکھ رہے تھے کہ میں ملک دو ٹکڑے ہونے جا رہا ہے؟
اس پر سعید غنی سامنے آئے اور شفایوسفزئی کو یاد کرایا اور ٹوئٹ میں کہا کہ بی بی اس وقت جنرل یحییٰ حکمران تھا۔
شفایوسفزئی نے مزید کہا کہ سعید بھائی ایسا لگ رہا ہے جیسے میری ٹویٹ کے جواب کے بہانے آپ کی یہ ٹویٹ کسی اور کے لیے تھی۔
ان کے ٹویٹ کے جواب میں سعید غنی نے پھر سے کہا کہ آپ یہ اچھی طرح جانتی ہیں کہ مجھے کچھ کہنے کے لیئے بہانے کی ضرورت نہیں۔ صرف آپ کو یاد دلایا ہے۔ باقی جن کی جانب آپ کا اشارہ ہے ان کی بہت ساری باتوں سے مجھے اختلاف ہے لیکن آپ کی ان سے ناراضگی نیازی کی سرپرستی نہ کرنے پر ہوئی ہے۔
خاتون اینکر نے پھر سے جواب دیا کہ مجھے یاد دلانے سے زیادہ انکو یاد دلانا ضروری ہے جنہوں نے آج پاکستان ٹوٹنے کا سارا ملبہ ذوالفقار علی بھٹو پر ڈال دیا۔
اس ساری بحث پر معید پیرزادہ بھی پیچھے نہ رہے اور کہا کہ سعید غنی صاحب آپ اور بلاول بھٹو یہ سب باتیں کرنے کی بجائے ہمت پیدا کریں آگے آئیں اور سب کو بتائیں کہ اکتوبر1958 سے دسمبر1971 تک بھٹو صاحب نہ تو مشرقی علاقے کو کنٹرول کر رہے تھے اور نہ ہی مغرب کی پالیسیاں بنانے میں ان کا کوئی کردار تھا۔