Khair Andesh
Chief Minister (5k+ posts)
قصور کے واقعہ کا سن کربہت دکھ ہوا۔ بچوں کے ساتھ ذیادتی تو قابل افسوس ہے ہی، مگر اس سے ذیادہ افسوس قوم کے رویئے اور ردعمل پر ہوا ہے۔جس طرح ساری قوم نے ایک چھوٹے سے واقعہ کو ایشو بنایا ہوا ہے، اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ گویا کوئی آسمان سرپر ٹوٹ گیا ہو(کیا مہنگائی، بے روزگاری، دہشت گردی، کرپشن وغیرہ جیسے بڑے معاملات حل ہو گئے ہیں، جو قوم نے اس وقعہ کو سب سے بڑا ایشو بنا لیا ہے)۔ افسوس دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، مگر ہم اب بھی چودہ سو سال پہلے کی ذہنیت کے ساتھ جی رہے ہیں۔ کیا ہم اپنے طرز عمل سے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم یورپ اور امریکا کے معاشروں سے ذیادہ مہذب ہیں۔ ایسے واقعات کہاں نہیں ہوتے؟۔ یورپ اور امریکا میں اس طرح کے واقعات کئی سو گنا ذیادہ ہوتے ہیں، مگر وہاں اس طرح آسمان سر پر نہیں اٹھایا جاتا، بلکہ اکثر مہذب معاشروں نے اسے معاشرے کا لازمی حصہ سمجھ کر اسے بہت حد تک قبول کر لیا ہے۔چنانچہ وہاں پر اب "گے رائٹس"کے حصول کی کامیابی کے بعد اب "پیڈوفائل رائٹس "کی بات چل رہی ہے، اور ہم ہیں کہ اپنے نام نہاد مذہبی اصولوں کے خول سے نکلنے کے لئے ہی تیار نہیں۔
امر واقعہ ہے کہ اس یہ جدید دنیا جس میں ہم رہ رہے ہیں، اس میں پورن گرافی دیکھنا،یا نا دیکھنا،قطعا ایک ذاتی معاملہ ہے۔چانچہ جسے پسند ہے وہ دیکھتا ہے، اور جسے(پورنو گرافی، یا چائلڈ پورن) پسند نہیں وہ مت دیکھے۔ کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ اور ریاست کو کسی قسم کا حق نہیں کہ وہ لوگوں کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی کرے۔مہذب معاشروں میں اسے ایک بنیادی انسانی حقوق میں شمار کیا جاتا ہے۔اور تو اور، ہمارے ہمسائے میں بھی اس حق کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ایک تاریخ ساز فیصلہ میں بھارتیہ حکومت نےفحش ویب سائٹس پر سے پابندیاں ہٹا لی ہیں۔ اگرچہ فی الحال اس میں چائلڈپورن کی اجازت نہیں دی گئی، مگر جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ آہستہ آہستہ دنیا میں شعور آتا جا رہا ہے، اورعالمی انسانی ضمیر، "گے رائیٹس "کی طرح جلد ہی "پیڈو فائل رائٹس "کا بھی قائل ہو جائے گا۔دنیا تو قائل ہو جائے گی، مگر کیا ہم اس حقیقت کو اپنانے کے لئے تیار ہیں، اصل سوچنے کی بات یہ ہے!۔
اور نہ جانے کیوں ہم واقعہ کا ایک ہی رخ پیش کرتے ہیں۔ جس خبر میں اس واقعہ کا ذکر ہے، اسی میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ ان ویڈیوز کو بین الاقوامی مارکیٹ میں بیچ کر لاکھوں ڈالر زکاقیمتی زر مبادلہ کمایا گیا ہے۔اور آج کل کی اکانومی میں زر مبادلہ کی اہمیت کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اور سوچا جا سکتا ہے کہ اگر تین سو ویڈیوز سے لاکھوں ڈالر کمائے جا سکتے ہیں، تو اگر حکومت اس کام کی سرپرستی کرے، یا کم از کم روڑے نہ اٹکائے، تو اس کا ملکی ترقی میں ایک اہم کردار ہو سکتا ہے۔لیکن اگر حکومت نے مذہنی جنونیوں کے پریشر میں آ کر کوئی نازیبا اقدامات اٹھائے،تو اس سے نہ صرف دنیا میں ملک کے" سوفٹ امیج "کو دھچکا لگے گا، بلکہ ہزاروں، لاکھوں لوگ جو اس وقت اس کاروبار سے منسلک ہیں، وہ بھی بے روزگار ہو جائیں گے، جس کی پوری ذمہ داری حکومت وقت کے سر پر ہو گی۔
نوٹ:۔اگرچہ یہ فرضی ہے، مگر مجھے یقین ہے کہ اگر کسی روشن خیال کو ما فی الضمیر بیان کرنے پر کوئی قدغن نہ ہو،تو وہ کم و بیش یہی بات کرے گا۔
امر واقعہ ہے کہ اس یہ جدید دنیا جس میں ہم رہ رہے ہیں، اس میں پورن گرافی دیکھنا،یا نا دیکھنا،قطعا ایک ذاتی معاملہ ہے۔چانچہ جسے پسند ہے وہ دیکھتا ہے، اور جسے(پورنو گرافی، یا چائلڈ پورن) پسند نہیں وہ مت دیکھے۔ کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ اور ریاست کو کسی قسم کا حق نہیں کہ وہ لوگوں کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی کرے۔مہذب معاشروں میں اسے ایک بنیادی انسانی حقوق میں شمار کیا جاتا ہے۔اور تو اور، ہمارے ہمسائے میں بھی اس حق کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ایک تاریخ ساز فیصلہ میں بھارتیہ حکومت نےفحش ویب سائٹس پر سے پابندیاں ہٹا لی ہیں۔ اگرچہ فی الحال اس میں چائلڈپورن کی اجازت نہیں دی گئی، مگر جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ آہستہ آہستہ دنیا میں شعور آتا جا رہا ہے، اورعالمی انسانی ضمیر، "گے رائیٹس "کی طرح جلد ہی "پیڈو فائل رائٹس "کا بھی قائل ہو جائے گا۔دنیا تو قائل ہو جائے گی، مگر کیا ہم اس حقیقت کو اپنانے کے لئے تیار ہیں، اصل سوچنے کی بات یہ ہے!۔
اور نہ جانے کیوں ہم واقعہ کا ایک ہی رخ پیش کرتے ہیں۔ جس خبر میں اس واقعہ کا ذکر ہے، اسی میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ ان ویڈیوز کو بین الاقوامی مارکیٹ میں بیچ کر لاکھوں ڈالر زکاقیمتی زر مبادلہ کمایا گیا ہے۔اور آج کل کی اکانومی میں زر مبادلہ کی اہمیت کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اور سوچا جا سکتا ہے کہ اگر تین سو ویڈیوز سے لاکھوں ڈالر کمائے جا سکتے ہیں، تو اگر حکومت اس کام کی سرپرستی کرے، یا کم از کم روڑے نہ اٹکائے، تو اس کا ملکی ترقی میں ایک اہم کردار ہو سکتا ہے۔لیکن اگر حکومت نے مذہنی جنونیوں کے پریشر میں آ کر کوئی نازیبا اقدامات اٹھائے،تو اس سے نہ صرف دنیا میں ملک کے" سوفٹ امیج "کو دھچکا لگے گا، بلکہ ہزاروں، لاکھوں لوگ جو اس وقت اس کاروبار سے منسلک ہیں، وہ بھی بے روزگار ہو جائیں گے، جس کی پوری ذمہ داری حکومت وقت کے سر پر ہو گی۔
نوٹ:۔اگرچہ یہ فرضی ہے، مگر مجھے یقین ہے کہ اگر کسی روشن خیال کو ما فی الضمیر بیان کرنے پر کوئی قدغن نہ ہو،تو وہ کم و بیش یہی بات کرے گا۔