ذہنی اسطاعت بڑھانے والی ادویات اور بچوں پر ان کے اثرات
محمد یعقوب سومرو اتوار 21 ستمبر 2014
والدین اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے بچوں کو قربانی کا بکرا نہ بنائیں۔ فوٹو: فائل
صدیوں سے انسان اپنی ذات اور کائنات کو سمجھنے کے لئے مطالعہ میں جتا ہوا ہے۔ یوں سائنس کے ساتھ وہ ذہنی طور پر بھی ترقی کرتا گیا اور حیاتیات کے میدان میں اپنی سب سے چھوٹی اکائی جینز تک جا پہنچا اور پھر اسے سمجھنے کے لئے مختلف تجربات کرنے لگ گیا۔
اب اکیسویں صدی میں جب انسانی ذہنی ترقی عروج پر ہے، تو وہ خود پر تجربات کرکے اپنے جینز کو بگاڑنے میں جت چکا ہے۔ اس حوالے سے سائنسدانوں نے تجربات کئے تو ان کے نتائج بعض اوقات توقعات سے بالکل برعکس برآمد ہوئے، کیوں کہ انسانی جینز اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ ہے اور اس میں ایک مخصوص ترتیب وتنظیم ہے، جو تاحال انسان کی سمجھ سے بالا تر ہے۔ انسان نے اس کو سمجھنے کے بڑے جتن کئے ہیں، لیکن اس کی درست فطرت تک پہنچنے میں ناکام رہا۔ اب جینز پر تجربات میں بڑی تیزی آگئی ہے کیونکہ انسان نے سوچنا شروع کردیا ہے کہ جس طرح وہ دوسرے شعبوں میں ترقی کررہا ہے اس کو حیاتیاتی ترقی بھی کرنی چاہیے، جس کیلئے وہ نت نئے تجربات کرنے میں لگا ہوا ہے۔
جیسا کہ انسان کی فطرت کو دو قوتیں چلارہی ہیں جن میں سے ایک دماغ اور دوسرا دل ہے اس لئے ان دونوں کو تجربات کا زیادہ ہدف بنایا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ دونوں اعضا اللہ تعالیٰ کا عظیم الشان شاہکار ہیں لیکن انسان ان کو تجربات کی بھینٹ چڑھا کر ان میں تبدیلیاں کر رہا ہے جس کی وجہ سے انسان کے نہ صرف نفسیاتی بلکہ جسمانی مسائل میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے۔ کچھ فلسفی دماغ تو کچھ دل کو اہمیت دیتے ہیں، جس کی وجہ سے زندگی کو غیر متوازن بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ اگر ہم غور کریں تو میانہ روی ان دونوں کے درمیان میں توازن کا نام ہے لیکن انسان ساری زندگی دونوں میں توازن پیدا نہ کرکے مسائل میں الجھ جاتا ہے۔
ترقی کے موجودہ دور میں والدین اپنے بچوں کی دماغی صلاحیتیں بڑھانے کی تگ ودو میں لگ گئے ہیں۔ وہ بچوں کو مقابلے میں دنیا کے تمام بچوں سے آگے دیکھنا چاہتے ہیں، جس کیلئے وہ بچوں کو خود ہی خطرناک تجربات میں سے گزار رہے ہیں۔ آج کل والدین اپنے بچوں کو ایسی ادویات دے رہے ہیں، جن سے ان کی دماغی صلاحیتوں میں اضافہ اور تھکاوٹ میں کمی ہو، بچے سکول میں پوزیشن لیں اور عالمی ریکارڈ بنائیں اور ان کا نام روشن کریں۔ اس جذبے نے ان کو شہرت کا حریص بنا دیا ہے۔
اس لالچ میں آکر وہ بچوں کو حافظہ بڑھانے والی سمارٹ پلز کے نام سے معروف ادویات دے رہے ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ بڑھوتری کے عمل سے گزرنے والے دماغ کے لئے ان ادویات کے اثرات خطرناک ہیں۔ عموماً ان (ادویات) کے بارے میں تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ بچے کی توجہ کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے، بچہ زیادہ دیر جاگتا ہے اور امتحان میں زیادہ نمبر لیتا ہے جبکہ تحقیق کاروں نے خبردار کیا ہے کہ یہ بات خطرہ مول لینے کے مترادف ہے۔
آخر یہ ادویات کیوں مقبول ہو رہی ہیں؟ اس کی سب سے بڑی وجہ بچوں میں مقابلہ کی فضا ہے، دوسری وجہ سخت تعلیمی ضروریات جبکہ تیسری وجہ ملازمت کیلئے انتہائی مقابلہ ہے۔ ایک محقق کے مطابق اس کے نقصان دہ اثرات کافی عرصے بعد ظاہر ہوتے ہیں۔ اس سے دماغی صلاحیت کم ہوسکتی ہے، دیے گئے ٹاسک کے حصول میں مشکلات آسکتی ہیں، رویہ میں لچک پیدا ہوسکتی ہے اور تخلیقی صلاحیت بھی ماند پڑ سکتی ہے۔ آج میتھائل فینی ڈیٹ قوت حافظہ بڑھانے کی مقبول عام دوائی ہے جبکہ چوہوں پر تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ اس سے عصبی سرگرمی، یادداشت اور ایک کام سے دوسرے کام میں منتقل ہونے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے۔
اس سلسلے کی دوسری مقبول دوائی موڈافنل ہے۔ اس کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ یہ دماغ کے عصبی خلیوں میں پائے جانے والے خلا کے درمیان ڈوپامین کی سطح کو بڑھاتی ہے، جس سے نہ صرف یادداشت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ کام کرنے کی صلاحیت بھی بڑھ جاتی ہے۔ لیکن اب تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ اس کے بھی میتھائل فینی ڈیٹ کی طرح کے منفی اثرات ہوتے ہیں۔ لیکن یہ حقائق سامنے آنے کے باوجود اس پر فوراً مزید تحقیق کی ضرورت ہے کیونکہ یہ انسانی جینز کا مسئلہ ہے، جس میں کسی بھی قسم کا بگاڑ اس کے لئے تباہ کن مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف ذہنی مسائل پیدا ہوں گے بلکہ جسمانی اور نفسیاتی مسائل بھی انسان کو جکڑ لیں گے، ہو سکتا ہے اس کا شکنجہ انسان کی موت ہی ثابت ہو۔
دور جدید کے شعبہ سائنس میں یہ روایت بنا دی گئی ہے کہ کسی بھی قسم کا تجربہ کرڈالو، حالاں کہ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا سائنسدانوں کے پاس کوئی ایسا پیرا میٹر ہے جس سے وہ بتا سکیں کہ انسان میں بنیادی اور ضروری عناصر کی درست مقدار کیا ہے؟ اگر یہ ہے تو کیا مصنوعی طریقے سے کسی ایسے عنصر کی مقدار بڑھانے سے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟
ہمارے ڈاکٹروں کو تو اتنا بھی علم نہیں کہ جو وہ دوائی دیتے ہیں اس کے اجزا کتنی مقدار میں ضرورت ہیں، ان جزا میں توازن نہ ہونے سے کون سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں؟ اس لئے اس طرح کے تجربات کرنے سے پہلے والدین کوضرور سوچنا ہوگا کہ آیا وہ خود اپنے بچوں پر خوفناک تجربات تو نہیں کر رہے؟ اس صورت حال میں ڈاکٹرز کو بھی والدین کو درست سمت بتانا ہوگی تاکہ وہ اپنے بچوں پر ہونے والے تجربات سے بچ سکیں۔
http://www.express.pk/story/289625/محمد یعقوب سومرو اتوار 21 ستمبر 2014
والدین اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے بچوں کو قربانی کا بکرا نہ بنائیں۔ فوٹو: فائل
صدیوں سے انسان اپنی ذات اور کائنات کو سمجھنے کے لئے مطالعہ میں جتا ہوا ہے۔ یوں سائنس کے ساتھ وہ ذہنی طور پر بھی ترقی کرتا گیا اور حیاتیات کے میدان میں اپنی سب سے چھوٹی اکائی جینز تک جا پہنچا اور پھر اسے سمجھنے کے لئے مختلف تجربات کرنے لگ گیا۔
اب اکیسویں صدی میں جب انسانی ذہنی ترقی عروج پر ہے، تو وہ خود پر تجربات کرکے اپنے جینز کو بگاڑنے میں جت چکا ہے۔ اس حوالے سے سائنسدانوں نے تجربات کئے تو ان کے نتائج بعض اوقات توقعات سے بالکل برعکس برآمد ہوئے، کیوں کہ انسانی جینز اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ ہے اور اس میں ایک مخصوص ترتیب وتنظیم ہے، جو تاحال انسان کی سمجھ سے بالا تر ہے۔ انسان نے اس کو سمجھنے کے بڑے جتن کئے ہیں، لیکن اس کی درست فطرت تک پہنچنے میں ناکام رہا۔ اب جینز پر تجربات میں بڑی تیزی آگئی ہے کیونکہ انسان نے سوچنا شروع کردیا ہے کہ جس طرح وہ دوسرے شعبوں میں ترقی کررہا ہے اس کو حیاتیاتی ترقی بھی کرنی چاہیے، جس کیلئے وہ نت نئے تجربات کرنے میں لگا ہوا ہے۔
جیسا کہ انسان کی فطرت کو دو قوتیں چلارہی ہیں جن میں سے ایک دماغ اور دوسرا دل ہے اس لئے ان دونوں کو تجربات کا زیادہ ہدف بنایا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ دونوں اعضا اللہ تعالیٰ کا عظیم الشان شاہکار ہیں لیکن انسان ان کو تجربات کی بھینٹ چڑھا کر ان میں تبدیلیاں کر رہا ہے جس کی وجہ سے انسان کے نہ صرف نفسیاتی بلکہ جسمانی مسائل میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے۔ کچھ فلسفی دماغ تو کچھ دل کو اہمیت دیتے ہیں، جس کی وجہ سے زندگی کو غیر متوازن بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ اگر ہم غور کریں تو میانہ روی ان دونوں کے درمیان میں توازن کا نام ہے لیکن انسان ساری زندگی دونوں میں توازن پیدا نہ کرکے مسائل میں الجھ جاتا ہے۔
ترقی کے موجودہ دور میں والدین اپنے بچوں کی دماغی صلاحیتیں بڑھانے کی تگ ودو میں لگ گئے ہیں۔ وہ بچوں کو مقابلے میں دنیا کے تمام بچوں سے آگے دیکھنا چاہتے ہیں، جس کیلئے وہ بچوں کو خود ہی خطرناک تجربات میں سے گزار رہے ہیں۔ آج کل والدین اپنے بچوں کو ایسی ادویات دے رہے ہیں، جن سے ان کی دماغی صلاحیتوں میں اضافہ اور تھکاوٹ میں کمی ہو، بچے سکول میں پوزیشن لیں اور عالمی ریکارڈ بنائیں اور ان کا نام روشن کریں۔ اس جذبے نے ان کو شہرت کا حریص بنا دیا ہے۔
اس لالچ میں آکر وہ بچوں کو حافظہ بڑھانے والی سمارٹ پلز کے نام سے معروف ادویات دے رہے ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ بڑھوتری کے عمل سے گزرنے والے دماغ کے لئے ان ادویات کے اثرات خطرناک ہیں۔ عموماً ان (ادویات) کے بارے میں تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ بچے کی توجہ کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے، بچہ زیادہ دیر جاگتا ہے اور امتحان میں زیادہ نمبر لیتا ہے جبکہ تحقیق کاروں نے خبردار کیا ہے کہ یہ بات خطرہ مول لینے کے مترادف ہے۔
آخر یہ ادویات کیوں مقبول ہو رہی ہیں؟ اس کی سب سے بڑی وجہ بچوں میں مقابلہ کی فضا ہے، دوسری وجہ سخت تعلیمی ضروریات جبکہ تیسری وجہ ملازمت کیلئے انتہائی مقابلہ ہے۔ ایک محقق کے مطابق اس کے نقصان دہ اثرات کافی عرصے بعد ظاہر ہوتے ہیں۔ اس سے دماغی صلاحیت کم ہوسکتی ہے، دیے گئے ٹاسک کے حصول میں مشکلات آسکتی ہیں، رویہ میں لچک پیدا ہوسکتی ہے اور تخلیقی صلاحیت بھی ماند پڑ سکتی ہے۔ آج میتھائل فینی ڈیٹ قوت حافظہ بڑھانے کی مقبول عام دوائی ہے جبکہ چوہوں پر تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ اس سے عصبی سرگرمی، یادداشت اور ایک کام سے دوسرے کام میں منتقل ہونے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے۔
اس سلسلے کی دوسری مقبول دوائی موڈافنل ہے۔ اس کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ یہ دماغ کے عصبی خلیوں میں پائے جانے والے خلا کے درمیان ڈوپامین کی سطح کو بڑھاتی ہے، جس سے نہ صرف یادداشت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ کام کرنے کی صلاحیت بھی بڑھ جاتی ہے۔ لیکن اب تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ اس کے بھی میتھائل فینی ڈیٹ کی طرح کے منفی اثرات ہوتے ہیں۔ لیکن یہ حقائق سامنے آنے کے باوجود اس پر فوراً مزید تحقیق کی ضرورت ہے کیونکہ یہ انسانی جینز کا مسئلہ ہے، جس میں کسی بھی قسم کا بگاڑ اس کے لئے تباہ کن مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف ذہنی مسائل پیدا ہوں گے بلکہ جسمانی اور نفسیاتی مسائل بھی انسان کو جکڑ لیں گے، ہو سکتا ہے اس کا شکنجہ انسان کی موت ہی ثابت ہو۔
دور جدید کے شعبہ سائنس میں یہ روایت بنا دی گئی ہے کہ کسی بھی قسم کا تجربہ کرڈالو، حالاں کہ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا سائنسدانوں کے پاس کوئی ایسا پیرا میٹر ہے جس سے وہ بتا سکیں کہ انسان میں بنیادی اور ضروری عناصر کی درست مقدار کیا ہے؟ اگر یہ ہے تو کیا مصنوعی طریقے سے کسی ایسے عنصر کی مقدار بڑھانے سے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟
ہمارے ڈاکٹروں کو تو اتنا بھی علم نہیں کہ جو وہ دوائی دیتے ہیں اس کے اجزا کتنی مقدار میں ضرورت ہیں، ان جزا میں توازن نہ ہونے سے کون سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں؟ اس لئے اس طرح کے تجربات کرنے سے پہلے والدین کوضرور سوچنا ہوگا کہ آیا وہ خود اپنے بچوں پر خوفناک تجربات تو نہیں کر رہے؟ اس صورت حال میں ڈاکٹرز کو بھی والدین کو درست سمت بتانا ہوگی تاکہ وہ اپنے بچوں پر ہونے والے تجربات سے بچ سکیں۔