US CENTCOM
Councller (250+ posts)
[FONT="] تقر[/FONT]یباً ہر ہفتے معصوم پاکستانی اور افغان خود کش حملوں کے شکار بن جاتے ہیں۔ دہشت گردوں نے قتل و غارت پھیلانے کا طریقہ کار بدل دیا ہے لیکن اپنا نشانہ نہیں۔ وہ افغانستان اور پاکستان کے نوجوانوں کو مسلسل نفرت اور تشدد کے نظریات کی تبلیغ دیتے ہیں۔ نوجوانوں کی معصومیت اور سادگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو خود کش حملہ آور بننے کی تربیت دیتے ہیں۔ اسی لیے 12 سال کے کمسن بچوں کوغلط سبق سِکھا کر انکے ذہنوں میں غبار پیدا کرتے ہیں اور خدا کے نام پر اپنے آپ اور دوسروں کو جان سے مارنے کے لیے تیار کرتے ہیں۔
اس وڈیو میں اس نوجوان کے ذہن میں یہ بات بٹھائی گئی ہے کہ اگر یہ اپنے افغان بھائیوں کو قتل کرے گا تو خدا کی رضا پائے گا۔ اسلام ایک پرامن مذہب ہے تو پھران دہشت گردوں کو قتل و غارت کی تبلیغ دینے اور بے گناہوں کو بے راہ کرنے سے کیوں نہیں روکا جاسکتا۔ اس وڈیو میں خود کش حملہ کرنے والا بار بار ایک ہی بات کہتا ہے کہ میرے گھر والے میرے اس فیصلے سے افسردہ نہ ہوں اور ایسی کوئی بات نا کہیں جس سے اللہ پاک خفا ہوں۔ کیا اس بیان سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اس نوجوان کو پہلے سے ہی علم ہے کہ اس کے اعمال اس کے رشتہ داروں پر ناگوار گُزریں گے؟ بجائے اس کے کہ نوجوان اپنے جذبے اور جنون کو ملک کی ترقی کے لیے استعمال کریں، وہ شدت پسندوں کے مکار منصوبوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بازاروں، مسجدوں میں لوگوں کو اپنے دہشت گردی کا نشانہ بنانے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان ظالموں کے لیے اللہ کی دی ہوئی زندگی کتنی اہمیت رکھتی ہے۔
پچھلے ہفتے ہی طالبان نے جلالاباد کے ایک بینک میں 40 لوگوں کو ہلاک کر کے یہ مزید ثابت کر دیا کہ ان کے لیے بے گناہوں کی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں۔ ان کے اس بے رحم اور وحشی اقدامات کو بینک کے سرویلنس کیمرے نے ریکارڈ کر لیا تھا۔ طالبان کے نمائندے نے بڑی بے شرمی سے اس خونخار حملے کی زمہ داری قبول کی۔
پاکستان میں خود کش حملوں کی فہرست
چاہے وہ پاکستان کی زمین پر ہو یا افغانستان کی، ان دہشت گردوں کا نشانہ ایک سا ہی ہے۔ ان ظالموں کی حرکتوں کو کسی بھی سازشی نظریے کے تحت در گزر نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا مقصد لوگوں کے دل و دماغ میں خوف تاری کرنا ہے۔ ایک قوم کے لیے یہ انتہائی مشکل کام ہے کہ وہ برتری اور ترقی کی طرف توجہ دیں، جبکہ وہ اپنے ہی معاشرے میں خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے ہیں اور مسلسل خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان بذدلوں کے یہی طور طریقے ہیں، اگر بہادر ہوتے تو فوج کا سامنا کرتے نا کہ حکومت پر دباو ڈالنے کے لیے معصوموں کو نشانہ بناتے ۔ جتنی جلدی ہم اس شدت پسندی کی بیماری کو ختم کر سکیں اتنی جلدی ہم امن و ترقی پر گامزن منصوبوں کی شروعات کر سکیں گے۔
ہارون احمد
ڈی-آی-ٹی یو۔اس۔ سنٹرل کمانڈ