ALi Choudhry
Minister (2k+ posts)
سید طلعت حسیناگر آپ تحریک انصاف ، عوامی تحریک اور نواز حکومت کے لائحہ عمل کا جائزہ لیں تو یہ سمجھنا آسان ہو جائے گا کہ دھرنوں کا قصہ ختم کیوں نہیں ہو رہا ۔ حکومت نے مشکل ترین وقت گزار لیا ہے ۔ وہ شب و روز جو اس خوف اور خدشے میں گزار رہے تھے کہ یہ حکومت نکال باہر کی جائے گی ۔ اب اس اعتماد میں بدل گئے ہیں کہ وہ خطرہ مکمل طور پر ٹل گیا ہے ۔ حکومت ان تمام غلطیوں کے باوجود جو ان کے گلے میں پڑ سکتی تھیں اس بھنور میں سے نکل گئی ۔ عمران اور طاہر القادری کی دھمکیوں ، نعروں اور جتھہ بندی سے پیدا ہونیوالے مسائل اب اس پرانے اوزار کی طرح لگتے ہیں جو کاٹ ختم ہونے کے بعد آواز تو بہت نکالتا ہے لیکن با اثر چوٹ نکالنے سے قاصر ہو ۔ذرائع ابلاغ نے بھی ان تقاریر سے منہ موڑ لیا ہے ۔
چند ایک کے سوا بیشتر مالکان اور غیر قدرتی جوش سے بھرے ہوئے صحافی و اینکر ، خواتین و حضرات جو انقلاب انقلاب چلا رہے تھے ، اب بغلیں جھانکنے کے علاوہ سیلاب اور دوسرے مسائل کی گود میں منہ چھپائے ہوئے ہیں ۔ وہ چوبیس گھنٹے کی کوریج جس میں قوم پر تبدیلی کا نعرہ مسلط کر دیا تھا اب کم ہو کر گھنٹوں تک محدور ہو گئی ہے ۔ کہنے والوں کے پاس مارچ کے آغاز کے چند دن بعد بولنے کے لیے کچھ نیا باقی نہیں رہا تھا ۔ مگر ذرائع ابلاغ نے پھر بھی ان کو انقلاب کا ٹورنامنٹ اضافی ہفتوں میں جاری رکھنے کا موقع فراہم کیا ، اب یہ سہولت مہیا نہیں ہے ۔ حکومت ٹی وی چینلز اور اخبارات کے توسط پیدا ہونے والے دباﺅ سے بھی بہت حد تک آزاد ہو چکی ہے ۔انتظامی مسائل بھی بڑھے نہیں بلکہ کم ہو گئے ہیں ۔
اس تعفن اور بد بو کے علاوہ جو اس انقلاب نے شاہراہ دستور پر پھیلائی ہے ، یہاں پر کسی اور مد میں اضافہ نہیں ہوا۔ شرکاءکی تعداد اوسط اور بتدریج گھٹتی چلی جا رہی ہے ۔ لاکھوں کا میلہ پہلے ہی ہزاروں کا تھا ، اب ہفتے میں پانچ دن عوامی تحریک کے کارکنان کے علاوہ سینکڑوں اور دن کے گیا رہ،بارہ بجے درجنوں افراد آتے ہیں ۔ طاہر القادری کے جیالے گھٹ کر مختصر گروہ میں تبدیل ہو گئے ۔ وسیع ٹینٹوں کے نیچے یہ تعداد عام آنکھوں سے مخفی رہی ہے ۔ تنی ہوئی چادریں ایک آباد شہر کا تاثر دیتی ہیں ۔ مگر تمام انٹیلی جنس ایجنسیز کی رپورٹس طاہر القادری کے ساتھ موجود لوگوں کی تعداد ، تین سے ساڑھے تین ہزار تک بتلاتی ہیں۔ موجود حضرات اور خواتین کے اعصاب بھی شکن ہو چکے ہیں ۔ بیماری ، سخت موسم اور سب سے بڑھ کر بے مقصدیت ان کیمپوں میں پر مژ دگی پیدا کر رہی ہے
، ٹی وی کیمروں کے سامنے ہشاش بشاش لگنے والے مولانا خود پر ابدی صحت کی پھونکیں مارنے کے علاوہ دوائیوں کے استعمال پر مجبور ہو گئے ہیں ۔چوں کہ کیمروں سے ان کو خاص محبت ہے ۔ لہذا اس مشین کے سامنے آتے ہی ان کا انگ انگ جاگ پڑتا ہے اور وہ گرجنے اور برسنے لگتے ہیں ، مگر حقائق تلخ ہیں ۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا کنٹینر شادمانی کی تصویر نہیں پریشانی کا احاطہ بنا ہوا ہے ۔ حکومت ان حالات سے واقف ہے اور وہ عوامی تحریک کو اس کمزوری کا مسلسل شکار رکھنا چاہتی ہے،ڈاکٹر طاہر القادری یہاں پر خوشی سے چار ماہ گزار لیں۔ حکومت ان کو چھیڑنے کا ارادہ فی الحال نہیں رکھتی ۔ ان تمام وجوحات کی بنیاد پر حکومت نے کچھ نہ کرنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے ۔ وہ اس معاملے کا حتمی حل نہیں چاہتی ۔ کیوں کہ اس کی نظر سے یہ روزانہ خود سے آہستہ آہستہ حل ہوتا چلا جا رہا ہے ۔پاکستان تحریک انصاف کو عمران خان نے اس نقطہ نظر پر پہنچا دیا ہے جہاں پر نہ یہ پارٹی جانا چاہتی تھی اور نہ عمران خان لے جانا چاہتے تھے ۔ مگر غیر متوقع حالات نے پھر بھی ان کو ایک مشکل دوراہے پر پہنچا دیا ہے ۔ تحریک انصاف کا کوئی نمائندہ عوام کے سامنے یہ ماننے کو تیار نہیں ہو گا کہ ان کا اصل منصوبہ ٹوٹے برتن کی طرح بکھر گیا ہے ۔ مگر نجی محافل میں جہاں پر سینہ پھیلا کر نعرے مارنے کی ضرورت یا مجبوری نہیں ہوتی ۔ ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اصل کہانی اس وقت ختم ہو گئی تھی جب پاکستان ٹیلی ویژن پر قبضے کے تناظر میں ہونے والی نواز شریف ، راحیل شریف ملاقات نے ایمپائر کی
انگلی تو دور کی بات کوئی ایمپائر ہی نظر نہیں آیا ۔ در حقیقت تحریک انصاف کا اصل پلان اس ملاقات سے پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ گیا تھا ۔ اسلام آباد میں لاکھوں کا مجمع اکھٹا کرنے کی تیاری جس بری طرح سے ناکام ہوئی اس کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ اس حملے کو کامیاب بنانے کے لیے کسی خاص کرشمے کی ضرورت پڑے گی ۔ اس کرشمے کے امکانات ہمیشہ سے مدھم تھے مگر اسکرپٹ رائٹر کی بحث نے ان کو مکمل طور پر مٹادیا۔ باقی کسر جاوید ہاشمی نے پوری کر دی ۔
اسکرپٹ رائٹر(Script writer) ، گھوسٹ رائٹر ( Ghost writers)میں تبدیل ہوئے اور پھر اس کے بعد گھوسٹ بن کر غائب ہو گئے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے ہاتھ میں وہ ایک ایسا بچہ چھوڑ گئے جس کو اپنانے والا کوئی نہیں تھا ۔ عمران خان نے بڑیٰ دل جمعی اور جی داری کے ساتھ اس بچے کو سینے سے لگایا ہوا ہے ۔ ان کو یہ معلوم ہے کہ یہ دم گھٹنے سے شاید مر چکا ہے لیکن وہ یہ خبر سنانے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ اس وقت وہ دھرنے میں موجود ہونے کے باوجود دھرنے چھوڑ چکے ہیں ۔ کراچی میں جلسہ اور اب لاہور کی تیاری یہ خاموش اعلان ہے کہ اسلام آباد دھرنے کے ذریعے نواز شریف کا استعفی لینے کی پالیسی ناکام ہو چکی ہے ۔ کراچی ، لاہور یا فیصل آباد میں لوگ اکٹھے کرنے سے اگر نواز شریف کا استعفی لینا ہوتا تو اسلام آباد پر چڑھائی کی ضرورت ہی نہ پڑتی ۔ عمران خان اور اس کے قریبی ساتھی حالیہ انتظامی تبدیلیوں کے نتائج سے بھی بخوبی واقف ہیں ۔ ان کو معلوم ہے کہ وہ بڑی مدد جو ان کو پہلے حاصل تھی اب نہیں ۔ نواز شریف حکومت پر چڑھ دوڑنے کے لیے جو شارٹ کٹ یا چھوٹا رستہ انہوں نے تیار کیا تھا اس کو ایک سیاسی جہدوجہد میں تبدیل کرنا ہو گا ۔
تحریک انصاف کے جلسے اسلام آباد کے دھرنے کا دوسرا مرحلہ نہیں ہے ، عملا یہ اس کے اختتام کا اعلان ہے ۔ چند ہفتے گزر جانے کے بعد تحریک انصاف اسلام آباد سے باہر احتجاج کو مزید تقویت دینے پر مجبور ہو جائے گی ۔ عمران خان کنٹینر سے باہر نکل کر انتخابی قسم کی مہم چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ آیا یہ نیا لائحہ عمل ان کو وہ مقاصد حاصل کرنے میں مدد دے گا یا نہیں جن کے حصول کے بارے میں وہ آج سے اکتالیس دن پہلے پر امید تھے کہ خوشی سے کنٹینر کی چھت پر ان کے پاﺅں نہیں ٹکتے تھے ۔ اس سوال کا جواب انہیں مل جائے گا
۔ مگر نواز شریف کو ہٹانے کی اس کوشش کو نیا رخ دیتے ہوئے وہ اسلام آباد میں سے اپنے کنٹینر کو نہیں ہٹائیں گے اور اس کنٹینر کو مزاحمت کے استعارہ کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔ اگر سیاسی جلسوں کے ذریعے وہ کسی طور حکومت کو چلتا کر دینے میں کامیاب ہو گئے تو کامیابی کا موجب دھرنے کو ہی ٹہرانا پسند کریں گے اور اگر یہ سب کچھ کرنے کے باوجود کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی تو وہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ مل کر کامیابی کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور ڈھونڈ نکالیں گے ۔
یہ کیفیت دیکھ کر مجھے ادھیڑ عمر جوڑے کا قصہ یاد آ رہا ہے ۔ شوہر نے ایک طویل مدت کے بعد باورچی خانے کا رخ کیا اور پانی کا بڑا دیگچہ چولہے پر چڑھا دیا ۔ بیگم اپنے جیون ساتھ کی رگ رگ سے واقف تھی ۔ اس نے اپنی ناتوانی اور شرم و حیا کی پاسداری کرتے ہوئے بھنوئیں اچکاکر موصوف سے ان کے عزائم کے بارے میں معنی خیز استفسار کیا ۔ بزرگ کائیا ں تھے انتہائی اعتماد کے ساتھ بو لیں:پریشانی کہے کی ہے ؟ اللہ کی بندی ہم اب بھی رشتہ ازواج میں منسلک ہیں ۔ بڑھاپا اپنی جگہ کوشش کرنے میں حرج نہیں ۔ اگر کچھ تحریک پیدا ہو گئی تو اس پانی سے غسل فرما لیں گے اگر نہ ہوئی تو اسی سے گرما گرم چائے بنا لے گے
چائے بننے تک دھرنے جاری رہیں گے
(bigsmile)(bigsmile)(bigsmile)(bigsmile)
چند ایک کے سوا بیشتر مالکان اور غیر قدرتی جوش سے بھرے ہوئے صحافی و اینکر ، خواتین و حضرات جو انقلاب انقلاب چلا رہے تھے ، اب بغلیں جھانکنے کے علاوہ سیلاب اور دوسرے مسائل کی گود میں منہ چھپائے ہوئے ہیں ۔ وہ چوبیس گھنٹے کی کوریج جس میں قوم پر تبدیلی کا نعرہ مسلط کر دیا تھا اب کم ہو کر گھنٹوں تک محدور ہو گئی ہے ۔ کہنے والوں کے پاس مارچ کے آغاز کے چند دن بعد بولنے کے لیے کچھ نیا باقی نہیں رہا تھا ۔ مگر ذرائع ابلاغ نے پھر بھی ان کو انقلاب کا ٹورنامنٹ اضافی ہفتوں میں جاری رکھنے کا موقع فراہم کیا ، اب یہ سہولت مہیا نہیں ہے ۔ حکومت ٹی وی چینلز اور اخبارات کے توسط پیدا ہونے والے دباﺅ سے بھی بہت حد تک آزاد ہو چکی ہے ۔انتظامی مسائل بھی بڑھے نہیں بلکہ کم ہو گئے ہیں ۔
اس تعفن اور بد بو کے علاوہ جو اس انقلاب نے شاہراہ دستور پر پھیلائی ہے ، یہاں پر کسی اور مد میں اضافہ نہیں ہوا۔ شرکاءکی تعداد اوسط اور بتدریج گھٹتی چلی جا رہی ہے ۔ لاکھوں کا میلہ پہلے ہی ہزاروں کا تھا ، اب ہفتے میں پانچ دن عوامی تحریک کے کارکنان کے علاوہ سینکڑوں اور دن کے گیا رہ،بارہ بجے درجنوں افراد آتے ہیں ۔ طاہر القادری کے جیالے گھٹ کر مختصر گروہ میں تبدیل ہو گئے ۔ وسیع ٹینٹوں کے نیچے یہ تعداد عام آنکھوں سے مخفی رہی ہے ۔ تنی ہوئی چادریں ایک آباد شہر کا تاثر دیتی ہیں ۔ مگر تمام انٹیلی جنس ایجنسیز کی رپورٹس طاہر القادری کے ساتھ موجود لوگوں کی تعداد ، تین سے ساڑھے تین ہزار تک بتلاتی ہیں۔ موجود حضرات اور خواتین کے اعصاب بھی شکن ہو چکے ہیں ۔ بیماری ، سخت موسم اور سب سے بڑھ کر بے مقصدیت ان کیمپوں میں پر مژ دگی پیدا کر رہی ہے
، ٹی وی کیمروں کے سامنے ہشاش بشاش لگنے والے مولانا خود پر ابدی صحت کی پھونکیں مارنے کے علاوہ دوائیوں کے استعمال پر مجبور ہو گئے ہیں ۔چوں کہ کیمروں سے ان کو خاص محبت ہے ۔ لہذا اس مشین کے سامنے آتے ہی ان کا انگ انگ جاگ پڑتا ہے اور وہ گرجنے اور برسنے لگتے ہیں ، مگر حقائق تلخ ہیں ۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا کنٹینر شادمانی کی تصویر نہیں پریشانی کا احاطہ بنا ہوا ہے ۔ حکومت ان حالات سے واقف ہے اور وہ عوامی تحریک کو اس کمزوری کا مسلسل شکار رکھنا چاہتی ہے،ڈاکٹر طاہر القادری یہاں پر خوشی سے چار ماہ گزار لیں۔ حکومت ان کو چھیڑنے کا ارادہ فی الحال نہیں رکھتی ۔ ان تمام وجوحات کی بنیاد پر حکومت نے کچھ نہ کرنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے ۔ وہ اس معاملے کا حتمی حل نہیں چاہتی ۔ کیوں کہ اس کی نظر سے یہ روزانہ خود سے آہستہ آہستہ حل ہوتا چلا جا رہا ہے ۔پاکستان تحریک انصاف کو عمران خان نے اس نقطہ نظر پر پہنچا دیا ہے جہاں پر نہ یہ پارٹی جانا چاہتی تھی اور نہ عمران خان لے جانا چاہتے تھے ۔ مگر غیر متوقع حالات نے پھر بھی ان کو ایک مشکل دوراہے پر پہنچا دیا ہے ۔ تحریک انصاف کا کوئی نمائندہ عوام کے سامنے یہ ماننے کو تیار نہیں ہو گا کہ ان کا اصل منصوبہ ٹوٹے برتن کی طرح بکھر گیا ہے ۔ مگر نجی محافل میں جہاں پر سینہ پھیلا کر نعرے مارنے کی ضرورت یا مجبوری نہیں ہوتی ۔ ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اصل کہانی اس وقت ختم ہو گئی تھی جب پاکستان ٹیلی ویژن پر قبضے کے تناظر میں ہونے والی نواز شریف ، راحیل شریف ملاقات نے ایمپائر کی
انگلی تو دور کی بات کوئی ایمپائر ہی نظر نہیں آیا ۔ در حقیقت تحریک انصاف کا اصل پلان اس ملاقات سے پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ گیا تھا ۔ اسلام آباد میں لاکھوں کا مجمع اکھٹا کرنے کی تیاری جس بری طرح سے ناکام ہوئی اس کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ اس حملے کو کامیاب بنانے کے لیے کسی خاص کرشمے کی ضرورت پڑے گی ۔ اس کرشمے کے امکانات ہمیشہ سے مدھم تھے مگر اسکرپٹ رائٹر کی بحث نے ان کو مکمل طور پر مٹادیا۔ باقی کسر جاوید ہاشمی نے پوری کر دی ۔
اسکرپٹ رائٹر(Script writer) ، گھوسٹ رائٹر ( Ghost writers)میں تبدیل ہوئے اور پھر اس کے بعد گھوسٹ بن کر غائب ہو گئے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے ہاتھ میں وہ ایک ایسا بچہ چھوڑ گئے جس کو اپنانے والا کوئی نہیں تھا ۔ عمران خان نے بڑیٰ دل جمعی اور جی داری کے ساتھ اس بچے کو سینے سے لگایا ہوا ہے ۔ ان کو یہ معلوم ہے کہ یہ دم گھٹنے سے شاید مر چکا ہے لیکن وہ یہ خبر سنانے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ اس وقت وہ دھرنے میں موجود ہونے کے باوجود دھرنے چھوڑ چکے ہیں ۔ کراچی میں جلسہ اور اب لاہور کی تیاری یہ خاموش اعلان ہے کہ اسلام آباد دھرنے کے ذریعے نواز شریف کا استعفی لینے کی پالیسی ناکام ہو چکی ہے ۔ کراچی ، لاہور یا فیصل آباد میں لوگ اکٹھے کرنے سے اگر نواز شریف کا استعفی لینا ہوتا تو اسلام آباد پر چڑھائی کی ضرورت ہی نہ پڑتی ۔ عمران خان اور اس کے قریبی ساتھی حالیہ انتظامی تبدیلیوں کے نتائج سے بھی بخوبی واقف ہیں ۔ ان کو معلوم ہے کہ وہ بڑی مدد جو ان کو پہلے حاصل تھی اب نہیں ۔ نواز شریف حکومت پر چڑھ دوڑنے کے لیے جو شارٹ کٹ یا چھوٹا رستہ انہوں نے تیار کیا تھا اس کو ایک سیاسی جہدوجہد میں تبدیل کرنا ہو گا ۔
تحریک انصاف کے جلسے اسلام آباد کے دھرنے کا دوسرا مرحلہ نہیں ہے ، عملا یہ اس کے اختتام کا اعلان ہے ۔ چند ہفتے گزر جانے کے بعد تحریک انصاف اسلام آباد سے باہر احتجاج کو مزید تقویت دینے پر مجبور ہو جائے گی ۔ عمران خان کنٹینر سے باہر نکل کر انتخابی قسم کی مہم چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ آیا یہ نیا لائحہ عمل ان کو وہ مقاصد حاصل کرنے میں مدد دے گا یا نہیں جن کے حصول کے بارے میں وہ آج سے اکتالیس دن پہلے پر امید تھے کہ خوشی سے کنٹینر کی چھت پر ان کے پاﺅں نہیں ٹکتے تھے ۔ اس سوال کا جواب انہیں مل جائے گا
۔ مگر نواز شریف کو ہٹانے کی اس کوشش کو نیا رخ دیتے ہوئے وہ اسلام آباد میں سے اپنے کنٹینر کو نہیں ہٹائیں گے اور اس کنٹینر کو مزاحمت کے استعارہ کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔ اگر سیاسی جلسوں کے ذریعے وہ کسی طور حکومت کو چلتا کر دینے میں کامیاب ہو گئے تو کامیابی کا موجب دھرنے کو ہی ٹہرانا پسند کریں گے اور اگر یہ سب کچھ کرنے کے باوجود کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی تو وہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ مل کر کامیابی کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور ڈھونڈ نکالیں گے ۔
یہ کیفیت دیکھ کر مجھے ادھیڑ عمر جوڑے کا قصہ یاد آ رہا ہے ۔ شوہر نے ایک طویل مدت کے بعد باورچی خانے کا رخ کیا اور پانی کا بڑا دیگچہ چولہے پر چڑھا دیا ۔ بیگم اپنے جیون ساتھ کی رگ رگ سے واقف تھی ۔ اس نے اپنی ناتوانی اور شرم و حیا کی پاسداری کرتے ہوئے بھنوئیں اچکاکر موصوف سے ان کے عزائم کے بارے میں معنی خیز استفسار کیا ۔ بزرگ کائیا ں تھے انتہائی اعتماد کے ساتھ بو لیں:پریشانی کہے کی ہے ؟ اللہ کی بندی ہم اب بھی رشتہ ازواج میں منسلک ہیں ۔ بڑھاپا اپنی جگہ کوشش کرنے میں حرج نہیں ۔ اگر کچھ تحریک پیدا ہو گئی تو اس پانی سے غسل فرما لیں گے اگر نہ ہوئی تو اسی سے گرما گرم چائے بنا لے گے
چائے بننے تک دھرنے جاری رہیں گے
(bigsmile)(bigsmile)(bigsmile)(bigsmile)
Last edited by a moderator: